میاں بیوی کے حقوق
شادی کے اثرات بڑے دو رس اور اس کے تقاضے بہت اہم ہیں۔میاں بیوی کا باہم تعلق کچھ اس طرح کا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے دوسرے پر مالی،بدنی اور اجتماعی حقوق عائد ہوتے ہیں،لہذا زوجین میں سے ہر ایک کے لیے ضروری ہے کہ دینی دستور کے مطابق رہن سہن رکھے اور ہر ایک دوسرے کے واجبی حقوق و فرائض نہایت فراخدلی کے ساتھ کسی کراہت اور ٹال مٹول کے بغیر،خوش دلی سے انجام دے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَعَاشِرُوهُنَّ بِٱلْمَعْرُوفِ ۚ
ترجمہ: "اور بیویوں کے ساتھ اچھی طرح رہو سہو۔"(سورۃ النساء،آیت19)
نیز فرمایا:
وَلَهُنَّ مِثْلُ ٱلَّذِى عَلَيْهِنَّ بِٱلْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌۭ ۗ
ترجمہ: عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسا کہ دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے،البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے۔ (سورۃ البقرۃ،آیت228)
جس طرح عورت پر واجب ہے کہ اپنے خاوند کے حقوق ادا کرے اسی طرح کاوند کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بیوی کے حقوق ادا کرے۔جب تک زوجین میں سے ہر ایک ان حقوق کا خیال رکھتا ہے جو ان پر عائد ہوتے ہیں تو ان کی زندگی خوشگوار اور پر سکون بسر ہوتی ہے۔اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو اس کا نتیجہ ضد اور باہمی جھگڑوں کی شکل میں نکلے گا اور زندگی تلخ ہو جائے گی۔
بیوی کے خاوند پر حقوق
بیوی سے اچھا سلوک کرنا خاوند کی ذمہ داری اور بیوی کا حق ہے،اس کے متعلق بہت سی احادیث ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
استوصوا بالنساء، فإن المرأة خلقت من ضلع، وإن أعوج شيء في الضلع أعلاه، فإن ذهبت تقيمه كسرته، وإن تركته لم يزل أعوج، فاستوصوا بالنساء (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
"عورتوں سے بہتر سلوک کرو عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی کا سب سے زیادہ ٹیڑھا حصہ وہ ہے جو اس کا بلند حصہ ہے۔اگر تو اسے سیدھا کرنے لگے گا تو اسے توڑ دے گا اور اگر چھوڑ دے گا تو ٹیڑھی ہی رہے گی،لہذا عورتوں سے اچھا سلوک کرو۔"
ایک اور روایت میں ہے:
ان المرأة خلقت من ضلع لن تستقيم لك على طريقة فإن استمتعت بها استمتعت بها وبها عوج وإن ذهبت تقيمها كسرتها وكسرها طلاقها (صحیح مسلم)
"عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔وہ تیرے لیے کسی طرح سیدھی نہ ہو گی ۔لہذا اگر تو اس سے،اس کی ٹیڑھی حالت میں ،فائدہ اٹھا سکتا ہے تو اٹھا لے۔اگر تو اسے سیدھا کرنے لگے گا تو اسے توڑ دے گا اور اس کا توڑنا اس کی طلاق ہے۔"
نیز آپ ﷺ نے فرمایا:
لا يفرك مؤمن مؤمنه إن كره منها خلقا رضى منها آخر (صحیح مسلم)
"کوئی مومن مرد،مومنہ عورت،یعنی اپنی بیوی سے بغض نہ رکھے کیونکہ اگر اسےاس کی کوئی عادت ناپسند ہے تو کوئی دوسری پسند ہو گی۔"
اور
لا يفرك کے معنی "
بغض نہ رکھنا" ہیں۔ان احادیث میں نبی کریم ﷺ نے اپنی اُمت کو ہدایت فرمائی ہے کہ آدمی اپنی بیوی سے اچھا برتاؤ کرے۔اسے چاہیے کہ جو کچھ بیوی کی ذات سے میسر آئے،لے لے کیونکہ جس طبیعت پر وہ پیدا کی گی ہے وہ کامل درجے پر نہیں ہے بلکہ اس میں ٹیڑھ ہونا لازمی ہے اور آدمی اس طبیعت سمیت اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جس پر وہ پیدا کی گئی ہے ۔ن احادیث میں یہ ہدایت بھی ہے کہ انسان کو چاہیے کہ اپنی بیوی کی خوبیوں اور خامیوں کا موازنہ کرے۔کیونکہ اگر اسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہو گی تو اس کے ساتھ دوسری عادت ایسی بھی ہو گی جواسے پسند ہو گی ،لہذا اس کی طرف صرف ناراضی اور کراہت ہی کی نظر سے نہ دیکھے۔
بہت سے شوہر ایسے ہیں جو اپنی بیویوں کو درجہ کمال پر دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ یہ ناممکن ہے،اسی لیے ان کی گزر بسر تنگ ہو جاتی ہے اور وہ اپنی بیویوں سے فائدہ ٹھانے کے قابل نہیں رہتے۔اس کا نتیجہ بسا اوقات طلاق ہوتا ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
وإن ذهبت تقيمها كسرتها وكسرها طلاقها (صحیح مسلم)
"اگر تو اسے سیدھا کرنے لگے گا تو اسے توڑ دے گا اور اس کا ٹوٹنا اس کی طلاق ہے۔"
لہذا خاوند کو چاہیے کہ بیوی سے اگر کوئی غلطی ہو جائے تو اس سے درگزر کرے بشرطیکہ وہ دین اور شرافت سے خالی نہ ہو۔خاوند ،بیوی کے کھانے پینے،پوشاک اور اس کے جملہ لوازم کا ذمہ دار ہے۔فرمان الہی ہے:
وَعَلَى ٱلْمَوْلُودِ لَهُۥ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِٱلْمَعْرُوفِ ۚ
ترجمہ: اور دستور کے مطابق ان کی خوراک اور پوشاک بچے کے باپ کے ذمے ہے۔(سورۃ البقرۃ،آیت 233)
ولهن عليكم رزقهن وكسوتهن بالمعروف (سنن ابی داؤد)
"اور دستور کے مطابق تمہاری بیویوں کی خوراک اور پوشاک تمہارے ذمہ ہے۔"
نبی ﷺ سے پوچھا گیا کہ بیوی کا مرد پر کیا حق ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا:
أن تطعمها إذا طعمت وتكسوها إذا اكتسيت " أو " اكسبت " " ولا تضرب الوجه ولا تقبح ولا تهجر إلا في البيت (سنن ابی داؤد)
"جب تو کھانا کھائے تو اسے کھانا کھلا اور جب تو پہنے تو اسے بھی پہنا اور اس کے منہ پر نہ مار،(نہ)اسے برا بھلا نہ اس سے قطع تعلق کر مگر یہ کہ گھر کے اندر اندر۔"
بیوی کا ایک حق یہ ہے کہ اس سے عدل کیا جائے۔اگر کاوند کی دوسری بیوی ہو تو ان دونوں کے اخراجات ،رہائش ،شب بسری،غرضیکہ تمام امور میں ممکن حد تک عدل کرے کیونکہ ان میں سے ایک کی جانب میلان رکھنا بہت بڑا گناہ ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
من كانت له امرأتان فمال إلى إحداهما جاء يوم القيامة وشقه مائل (سنن ابی داؤد)
"جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک کی طرف مائل ہو تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہو گا۔"
البتہ وہ امور جن میں عدل ممکن نہ ہو ،جیسے محبت اور دل کی خوشی تو ان میں خاوند پر کچھ گناہ نہیں کیونکہ یہ اس کے بس کی بات نہیں ہے۔فرمان الہی ہے:
وَلَن تَسْتَطِيعُوٓا۟ أَن تَعْدِلُوا۟ بَيْنَ ٱلنِّسَآءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ ۖ
ترجمہ: اگر تم چاہو بھی تو اپنی بیویوں کے درمیان عدل نہ کر سکو گے۔(سورۃ النساء،آیت 129)
یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کے درمیان شب بسری کی باری مقرر کر رکھی تھی۔آپ عدل کرتے تھے اور فرماتے تھے:
اللهم هذا قسمي فيما أملك فلا تلمني فيما تملك ولا أملك*
"اے اللہ !یہ میری تقسیم ایسے معاملے میں ہے جس میں میرا اختیار ہے اور جس بات میں تیرا اختیار ہے ،میرا نہیں،اس پر مجھے ملامت نہ فرمانا۔"
*یہ نوٹ کر لیں([ قال أبو داود ] يعني القلب . K ضعيف يعني القلب)اس حدیث کی سند کے بارے میں نہیں جانتا تھا لیکن جہاں سے یہ حدیث لی ہے وہاں یہ لکھا ہوا تھا۔اللہ ہماری خطاؤں کو معاف فرمائے آمین۔
لیکن اگر کوئی بیوی شب بسری کے معاملے میں اپنی باری خوشی سے دوسری بیوی کو ہبہ کر دے تو کوئی حرج نہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری ایک دن مقرر کی،پھر حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے اپنی باری بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دی۔
رسول اللہ ﷺ اس بیماری کے دوران جس میں آپ ﷺ نے وفات پائی،پوچھا کرتے تھے،کل میں کہاں ہوں گا،کل میں کہاں ہوں گا۔۔۔۔؟توآپ کی بیویوں نے آپ کو اجازت دے دی کہ آپ جہاں چاہیں رہیں پھر آپ ﷺ نے حضرت عائچہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف فرما رہے تا آنکہ آپ کی وفات ہو گئی۔
خاوند کے بیوی پر حقوق
جس طرح بیوی کے خاوند پر حقوق ہیں اُسی طرح کاوند کے بیوی پر ھقوق ہیں،البتہ مردوں کو فضیلت حاصل ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَهُنَّ مِثْلُ ٱلَّذِى عَلَيْهِنَّ بِٱلْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌۭ ۗ
ترجمہ: عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسا کہ دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے،البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے۔(سورۃ البقرۃ،آیت 228)
مرد اپنی بیوی پر حاکم ہے جو اس کی مصلحتوں ،تادیب اور عزت کو قائم رکھنے والا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ٱلرِّجَالُ قَوَّٰمُونَ عَلَى ٱلنِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ ٱللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍۢ وَبِمَآ أَنفَقُوا۟ مِنْ أَمْوَٰلِهِمْ ۚ
ترجمہ: مرد عورتوں پر حاکم ہیں،اس لیے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس لیے کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔(سورۃ النساء،آیت 34)
مرد کا اپنی بیوی پر ایک حق یہ ہے کہ وہ ہرایسے کام میں اس (خاوند) کی اطاعت کرے جس میں اللہ کی نافرمانی نہ ہو اور اس کے راز اور مال کی حفاظت کرے،چنانچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
لو كنت آمرا أحدا أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها (جامع الترمذی)
"اگر میں کسی کو یہ حکم دینے والا ہوتا کہ وہ کسی کو سجدہ کرے تو میں عورت کو حکم دیتا کہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔"
نیز آپ ﷺ نے فرمایا:
إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فلم تأته فبات غضبان عليها لعنتها الملائكة حتى تصبح *(صحیح بخاری وصحیح مسلم)
"جب آدمی اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ آنے سے انکار کر دے اور خاوند ناراضی کی حالت میں رات گزار دے تو صبح تک اس (بیوی) پر فرشتے لعنے بھیجتے رہتے ہیں۔"
*حدیث کا عربی متن صحیح مسلم سے لیا گیا ہے۔محمد ارسلان
خاوند کا بیوی پر اس قدر حق ہے کہ اگر وہ نفلی عبادت کرنا چاہے تو اس کے لیے بھی اُسے خاوند سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
لا يحل للمرأة أن تصوم وزوجها شاهد إلا بأذنه، ولا تأذن في بيته إلا بأذنه (صحیح بخاری)
"اگر کسی عورت کا خاوند گھر پر موجود ہو تو وہ اس کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ نہ رکھے،نہ اس کی اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں داخل ہونے کی اجازت دے۔"
نیز رسول اللہ ﷺ نے خاوند کے اپنی بیوی سے خوش ہونے کو جنت میں داخلے کے اسباب میں سے ایک سبب قرار دیا ہے۔امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أيما امرأة ماتت وزوجها عنها راض دخلت الجنة*
"کوئی بھی عورت جو اس حال میں مرے کہ اس کا خاوند اس سے راضی ہو،وہ جنت میں داخل ہو گی۔
*یہ نوٹ کر لیں(قال أبو عيسى هذا حديث حسن غريب K ضعيف)اس حدیث کی سند کے بارے میں نہیں جانتا تھا لیکن جہاں سے یہ حدیث لی ہے وہاں یہ لکھا ہوا تھا۔اللہ ہماری خطاؤں کو معاف فرمائے آمین۔