• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام میں داڑھی کا مقام

شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
85
اسلام میں داڑھی کا مقام
امام الہند شاہ والی اللہ دہلوی حجة اللہ البالغلہ صفحہ 152 جلد 1 میں فرماتے ہیں۔
داڑھی کو کاٹنا مجوسیوں کا طریقہ ہے اور اس میں اللہ تعالی کی پیدائش اور بناوٹ کو بدلنا ہے۔
اور اس طرح داڑھی کو مونڈنا اپنے آپ کوعورتوں کے مشابہ کرنا ہے۔جس پر سخت وعید آئی ہے۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے مشابہت کرنے والے مردوں اور مردوں کے ساتھ مشابہت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔
صحیح بخاری جلد 2 حدیث 874
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت مسند احمد ،ابوداود،ترمذی اور ابن ماجہ میں اسی طرح مروی ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
اللہ تعالی نے مردوں کی مشابہت کرنے والی عورتوں اور عورتوں کی مشابہت کرنے والے مردوں پر لعنت فرمائی ہے۔
الجامع الصغیر 2/123

امام غزالی احیا ء علوم الدین صفحہ 257 جلد 2 میں فرماتے ہیں ۔ اس داڑھی سے مرد عورتوں سے جدا ہوتے ہیں اور پہچانے جاتے ہیں ۔
داڑھی سب انبیاء علیہم اسلام کی سنت ہے۔

قرآن کریم میں ہارون علیہ اسلام کی داڑھی کا ذکر ہے چنانچہ ارشاد ہے۔
اے میرے بھائی تم میری داڑھی مت پکڑو اور نہ سر ﴿کے بال﴾ پکڑو۔
سورة طہ آیت 94

نیز درمنثور صفحہ 62 جلد 1 میں آدم اور موسی علیہ اسلام دونوں کی داڑھی مبارک کا ذکر ہے۔
حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ مبارک کو بھرے ہوئے تھی۔ چنانچہ شمائل ترمذی باب ماجاء فی رویة النبی فی المنام میں یزید الفارسی سے روایت ہے۔
اس نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ شیطان میر ی مشابہت رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ پس جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے مجھے ہی دیکھا ہے۔ پس تو اس شخص کی صفت بیان کر سکتا ہے جس کو تونے خواب میں دیکھا ہے؟
کہا ۔۔ ہاں ، درمیانہ قد والا ، گندمی رنگ سفیدی کی طرف مائل، آنکھیں بڑی گویا کہ سرمہ ڈالا ہو ا ہو ، خوبصورت مسکراہٹ شکل ، گول چہرہ اور داڑھی مبارک جو سینہ کو بھرے ہوئے تھی۔ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تو جاگتے ہوئے دیکھتا تو یہی صفت بیان کرتا ،نہ اس سے زیادہ۔

مشہور چار خلفاء ابو بکر صدیق ، عمر فاروق ، عثمان غنی ، علی المرتضی رضی اللہ عنہم کی بھی بڑی داڑھیاں تھیں ۔
جیسا کہ طبقات ابن سعد صفحہ 25،26،58 جلد 3 ۔
الاصابہ لابن حجر صفحہ 55،511 جلد 2۔
تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ 102،116،129 ۔ وغیرہ کتابوں میں مذکور ہے۔ ایضا داڑھی کو مونڈنا یا کاٹنا مشرکین اور مجوسیوں سے مشابہت کرنا ہے۔
اس لیے اس بچنا مسلمانوں کے لیے قطعا فرض ہے۔ کیونکہ جو کسی قوم کی مشابہت کرتا ہے تو وہ ان میں سے شمار ہوتا ہے۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
جس نے کسی قوم سے مشابہت کہ تو وہ ان ہی میں سے ہے۔
الجامع الصغیر جلد 2 صفحہ 167 بحوالہ ابو داود من حدیث ابن عمر و بحوالہ طبرانی اوسط من حدیث حذیفہ

چنانچہ امام فخرالاندلس امام ابن حزم فرماتے ہیں۔
اور مثلہ کے باے میں حدیث مفع وارد ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔
الجامع الصغیر جلد 2 صفحہ189
مثلہ کا معنی عیب دار کرنا۔ جسم کا مثلہ یہ ہے کہ قتل کر کے اس کے ناک اور ہونٹ کاٹے جائیں اور بالوں کا مثلہ یہ ہے کہ گالوں کے بال مونڈھے یا نوچے جائیں یا اس کو سیاہ خضاب لگایا جائے جیسا کہ لغت اور حدیث کی مشہور کتاب النہایہ فی غریب الحدیث والآثار مصنفہ امام ابن الاثیر الجزری جلد 2 صفحہ 294 اور مجمع بحار الانوار مصففہ علامہ محمد طاہر پٹنی جلد 3 صفحہ 289 میں مذکور ہے پس اس وجہ سے بھی داڑھی کا مونڈنا حرام ہو گیا۔

گالوں کے ساتھ مثلہ کرنے پر سخت تنبیہہ وارد ہے۔
المعجم الکبیر للطبرانی جلد 11 صفحہ 41 میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنے بالوں کے ساتھ مثلہ کیا تو اس کے لیے اللہ کے ہاں کو ئی چیز نصیب نہیں۔
چاروں مذاہب جن اماموں کی طرف منسوب ہیں۔ امام ابو حنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور کئی ائمہ سے داڑھی مونڈنے کو حرام کہا ہے۔
المنھل العذب الموردلابن الخطاب صفحہ 186 جلد 1 ، الابداع بی مضارالابتداع صفحہ 247

ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشر کین کی مخالفت کرو ، یعنی داڑھیوں کو بڑھاو اور مونچھوں کو کاٹو اور ایک روایت میں ہے کہ مونچھوں کو اچھی طرح کاٹو اور داڑھی چھوڑ دو۔
متفق علیہ مشکوة 380
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ مشرکین کی مخالفت کرو ، مونچھوں کو کاٹو اور داڑھیوں کو بڑھا کر پورا کرو۔
رواہ مسلم صفحہ 129 جلد 1 مع النووی۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا مونچھوں کو کاٹو اور داڑھیوں کو ڈھیل دے دو۔
حوالہ۔ مسلم
عمر و بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا عبداللہ بن عمروبن العا ص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں چھوڑ دو۔
حوالہ۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان۔ الجامع الصغیر 1/12 ۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشرک لوگ مونچھوں کو چھوڑتے اور داڑھیوں کو کاٹتے رہتے ہیں پس تم ان کی مخالفت کرو اور داڑھیوں کو چھوڑ دو اور مونچھوں کو کاٹتے رہو۔
حوالہ۔ رواہ لبزار۔

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دس خصلتیں فطرت اسلامیہ میں سے ہیں۔ ﴿1﴾ مونچھیں کاٹنا ﴿2﴾داڑھی کو چھوڑنا ﴿3﴾ مسواک کرنا ﴿4﴾ وضو کرتے وقت نام میں پانی ڈالنا ﴿5﴾ ناخن کاٹنا ﴿6﴾ انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا ﴿7﴾ بغل کے بال نوچنا ﴿8﴾ زیر ناف بال مونڈھنا ﴿9﴾ استنجا کرنا روای مصعب بن شیبہ کہتا ہے کہ دسویں چیر مجھے بھول گئی ہے ،شاید کلی کرنا ہے۔
رواہ مسلم جلد 1 حدیث 129

ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مجوس کا ذکر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ لوگ مونچھوں کو بڑھاتے اور داڑھیوں کو مونڈتے ہیں۔
پس تم ان کی مخالفت کیا کرو۔ پس ابن عمر رضی اللہ عنہ اپنی مونچھوں کو کاٹتے تھے جیسا کی بکری یا اونٹ ﴿کے بال﴾ مونڈے جاتے ہیں۔
رواہ ابن حبان فی صیححہ صفحہ 408 جلد 8 بترتیب علاء الدین الفارسی۔

علامہ شیخ عبدالحق دہلوی اللمعات شرح المشکوة صفحہ 67 جلد 2 میں علامہ التوربشتی سے نقل کرتے ہیں داڑھی کا کاٹنا شروع سے بے دین لوگوں کی عادت رہی ہے اور آج کل کئی مشرکوں کی یہ عادت اور پہچان ہے۔
اسلام میں داڑھی کا مقام۔
عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی داڑھی مبارک کے عرض وطول سے کچھ لیتے یعنی کاٹتے تھے۔
حوالہ۔ رواہ الترمذی فی سننہ باب ماجاء جی الاخذمن اللحیتہ من ابواب الاستیذان۔
لیکن یہ روایت قطعا صحیح نہیں بلکہ مردود اور باطل ہے ۔ خود امام ترمذی اس روایت کے تحت امام بخاری سے نقل کرتے ہیں کہ یہ روایت بے اصل ہے جس کی کو ئی اصل نہیں ۔
 

ًمحمد عفان

مبتدی
شمولیت
اگست 13، 2015
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
21
میرا سوال ھے؛ جس طرح داڑھی مطلق کاٹ دینا، عورتوں کی ٹھوڑیوں سے مشابھت ھے کیا مونچھیں کلین شیو کرنا بھی عورتوں کے مونچھوں والے مقام کی مشابھت ھے۔ پلیز جواب دیں بے حد ممنون ھونگا۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
میرا سوال ھے؛ جس طرح داڑھی مطلق کاٹ دینا، عورتوں کی ٹھوڑیوں سے مشابھت ھے کیا مونچھیں کلین شیو کرنا بھی عورتوں کے مونچھوں والے مقام کی مشابھت ھے۔ پلیز جواب دیں بے حد ممنون ھونگا۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ :

شیخ محترم @اسحاق سلفی بھائی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
میرا سوال ھے؛ جس طرح داڑھی مطلق کاٹ دینا، عورتوں کی ٹھوڑیوں سے مشابھت ھے کیا مونچھیں کلین شیو کرنا بھی عورتوں کے مونچھوں والے مقام کی مشابھت ھے۔ پلیز جواب دیں بے حد ممنون ھونگا۔
نہیں مونچھوں کو مونڈنا عورتوں کی مشابہت میں داخل نہیں کیونکہ احادیث میں مونچھوں کیلئے جو الفاظ وارد ہیں ،ان سے مبالغہ کی حد تک مونچھوں کو کترا نا اور تر شوا نا ثابت ہوتا ہے، تو معنی یہ کہ مونچھیں کم کرنا چاہیئے ۔۔۔
ان احادیث کا ظاہری معنی تو یہی ہے کہ مونچھوں کو کاٹ کر کم کیا جائے ،جسے عربی میں ( قص ) کہتے ہیں اور ہمارا عمل بھی اسی پر ہے
لیکن کچھ علماء مونچھوں کے ۔۔حلق ۔۔یعنی بالکل مونڈ کر صاف کرنے کے بھی قائل ہیں ؛

اختلف أهل العلم في السنة المستحبة في الشارب ، على قولين :
القول الأول :
أن السنة هي الحلق بالكلية ، وهو مذهب الحنفية والحنابلة . واستدلوا بظاهر الألفاظ النبوية الواردة في هذا الباب ، ومنها : ( أَحْفُوا الشَّوَارِبَ ) البخاري (5892) ومسلم (259) ، ( أَنْهِكُوا الشَّوَاربَ ) البخاري (5893) ، وفي لفظ لمسلم (260) (جُزُّوا الشَّوَارب) .
قال الطحاوي في "شرح معاني الآثار" (4/230) :
" الإحفاء أفضل من القص ، وهذا مذهب أبي حنيفة وأبي يوسف ومحمد رحمهم الله" انتهى .
ونقل ابن عابدين في "رد المحتار" (2/550) عن المتأخرين اختيار القص ، فقال :
" المذهب (يعني المذهب الحنفي) عند بعض المتأخرين من مشايخنا أنه القص , قال في البدائع : وهو الصحيح " انتهى .

القول الثاني :
أن السنة قص الشارب ، وأما حلقه فمكروه : وهو مذهب المالكية والشافعية ، وشدَّد الإمام مالك رحمه الله في ذلك .
واستدلوا على ذلك بما يلي :
1- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : ( الْفِطْرَةُ خَمْسٌ : الْخِتَانُ ، وَالِاسْتِحْدَادُ ، وَقَصُّ الشَّارِبِ ، وَتَقْلِيمُ الأَظْفَارِ ، وَنَتْفُ الْآبَاطِ ) رواه البخاري (5891) ومسلم (257) .
2- وعَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ رضي الله عنه قَالَ : ( كَانَ شَارِبِي وَفَى – أي زاد - فَقَصَّهُ لِي – يعني النبي صلى الله عليه وسلم - عَلَى سِوَاكٍ ) رواه أبو داود (188) وصححه الألباني في صحيح أبي داود . ))


اور اسی فورم کے تھریڈ میں عصر حاضر کے نامور محقق
حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ شمائل ترمذی حدیث نمبر ١٦٧ کی شرح میں لکھتے ہیں:
لمبی لمبی مونچھیں نہیں رکھنی چاہئیں،بلکہ چالیس دنوں میں ان کا کچھ حصہ کاٹنا ضروری ہے۔
اسحاق بن عیسیٰ(ثقہ راوی)سے روایت ہے کہ میں نے امام مالک بن انس (رحمہ اللہ)کو دیکھا،ان کی مونچھیں بھرپور اور زیادہ تھیں،ان کی دونوں مونچھوں کے باریک سرے تھے،پھر میں نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا:مجھے زید بن اسلم نے عامر بن عبداللہ بن زبیرسے حدیث بیان کی،انھوں نے عبداللہ بن زبیر(رضی اللہ عنہ)سے کہ کوئی اہم معاملہ ہوتا تو عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ)اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے اور منہ سے پھونکیں مارتے تھے،پس انھوں نے مجھے حدیث کے ساتھ فتویٰ دیا۔(کتاب العلل و معرفۃ الرجال للامام احمد ١٥٨٩/٢،وسندہ صحیح،دوسرا نسخہ ٢٦١/١ح١٥٠٧،نیز دیکھئے طبقات ابن سعد ٣٢٦/٣ وسندہ صحیح)
ابو سلمہ (تابعی رحمہ اللہ) سے روایت ہے کہ میں نے ابن عمر (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا،وہ اپنی مونچھیں کترواتے تھے حتیٰ کہ ان میں سے کوئی چیز بھی باقی نہیں چھوڑتے تھے۔(الاثرم بحوالہ تغلیق التعلیق ٧٢/٥ وسندہ حسن،وعلقہ البخاری فی صحیح قبل ح ٥٨٨٨)
امام سفیان بن عیینہ المکی رحمہ اللہ مونچھوں کو استرے سے مونڈتے تھے۔(التاریخ الکبیر لابن ابی خیثمہ ص ٣٧٨-٣٧٩ح٣٨٧وسندہ صحیح)
جبکہ اس کے سراسر برعکس امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا:"یؤخذ من الشارب حتی یبدو طرف الشفۃ وھو الاطار ولا یجزہ فیمثل بنفسہ" مونچھوں میں سے کچھ کاٹنا چاہیے تاکہ ہونٹ کا کنارہ ظاہر ہو جائے اور یہ وہ کنارہ ہے جو منہ کی طرف سے ہونٹوں کو گھیرے ہوتا ہے اور انھیں پورا کاٹ نہ دے(یعنی استرے سے نہ مونڈوائے) ورنہ پھر وہ مثلہ کرنے والا بن جائے گا۔(موطا امام مالک ٩٢٢/٢ح١٧٧٥)
یہ مسئلہ اجتہادی ہے اور راجح یہی ہے کہ مونچھیں استرے سے نہ مونڈوائے بلکہ قینچی وغیرہ سے کاٹے ،حتیٰ کہ چمڑا نظر آنے لگے اور اگر ہونٹوں کے اوپر سے کاٹ کر باقی مونچھیں بڑھالے تو بھی جائز ہے۔واللہ اعلم
شمائل ترمذی ترجمہ،تحقیق و فوائد حافظ زبیر علی زئی،ص ١٩٥-١٩٦
نیز حدیث نمبر ١٥ کے فوائد میں رقمطراز ہیں :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مونچھیں پست رکھتے تھے۔(طبقات ابن سعد ٤٤٩/١ وسندہ صحیح)
شمائل ترمذی ترجمہ،تحقیق و فوائد حافظ زبیر علی زئی،ص ٧٠
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فتاویٰ جات
فتویٰ نمبر : 8596

مو نچھوں کو منڈوانا
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 16 December 2013 02:23 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
امید ہے کہ آپ کچھ ایسی احا دیث کی طر ف راہنما ئی فر ما ئیں گے جن سے معلوم ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے فر ما یا ہے کہ "جو شخص داڑھی منڈائے وہ فا سق ہے " نیز یہ فر ما یئے کہ کیا یہ جا ئز ہے کہ مونچھوں کو با لکل منڈوا دیا جا ئے ؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
داڑھی منڈانا حرا م ہے اور منڈانے وا لا فا سق ہے کیو نکہ وہ ان احا دیث کی مخا لفت کر تا ہے جن میں داڑھی بڑھا نے کا حکم دیا گیا ہے اس سے پہلے بھی بحوث العلمیہ والا فتا ء کی مستقل کمیٹی نے اس سے ملتے جلتے ایک سوال کے جواب میں فتوی دیا تھا جو کہ حسب ذیل ہے :

" داڑھی منڈ ا نا حرا م ہے کیو نکہ حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فر ما یا :

خالفوا المشركين ووفروا اللحي واحفوا الشوارب (صحيح بخاری)
"مشرکو ں کی مخا لفت کرو داڑھیوں کو بڑھا ئو اور مونچھوں کو کترا ئو ۔" اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی یہ حدیث ہے کہ نبی کر یم ﷺ نے فر ما یا :

جزوا الشوارب وارخوا اللحي وخالفوا المجوس (صحيح مسلم)
"مو نچھوں کو کترا ئو داڑھیوں کو بڑھائو اور مجو سیوں کی مخا لفت کرو ۔ داڑھی منڈانے پر اصرار کر نا کبیرہ گناہ ہے جو منڈائے اسے نصیحت کر نا اور داڑھی منڈانے سے منع کرنا واجب ہے ۔ اگر ایسا کو ئی شخص قیادت یا کسی دینی مرکز میں ہو تو اسے اور بھی زیا دہ تا کید کے سا تھ سمجھا نا ضروری ہے ۔مو نچھوں کو منڈوانا رسول اللہ ﷺ یا کسی بھی صحا بی سے ثابت نہیں ہے اس سلسلہ میں جو ثا بت ہے وہ کترا نا اور تر شوا نا ہے ۔

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ
 
Top