• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام میں عورت کا مقام

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
668
ری ایکشن اسکور
742
پوائنٹ
301
اسلام میں عورت کا مقام
۰
الحمدللّٰہ رب العالمین،والصلاۃ والسلام علی نبینا محمد ﷺ،وعلی آلہ وصحبہ ومن دعا بدعوتہ الی یوم الدین ۔أما بعد
اسلام میں مسلمان عورت کا بلند مقام،اور ہر مسلمان کی زندگی میں مؤثر کردار ہے۔صالح اور نیک معاشرے کی بنیاد رکھنے میں عورت ہی پہلا مدرسہ ہے،جب وہ کتاب اللہ اور سنت رسول پر عمل پیرا ہو۔کیونکہ کتاب اللہ اور سنت رسول کو تھام لینا ہی ہر جہالت وگمراہی سے دوری کا سبب ہے۔قوموں کی گمراہی کا سب سے بڑا سبب اللہ تعالیٰ کی شریعت سے دوری ہے جس کو أنبیاء کرام قوموں کی فلاح وبہبود کے لئے لے کر آئے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللّٰہ وسنتی))
’’میں تمہارے اندر دو چیزیں چھوڑ کرجا رہا ہوں ۔جب تک ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہ ہوگے ۔ایک ہے اللہ کی کتاب ،اور میری سنت۔‘‘
قرآن مجید میں عورت کی اہمیت اور مقام کے بارے میں کئی ایک آیات موجود ہیں۔عورت خواہ ماں ہو یا بہن ہو،بیوی ہو یا بیٹی ہو،اسلام نے ان میں سے ہر ایک کے حقوق وفرائض کو تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔
ماں کا شکر ادا کرنا ،اس کے ساتھ نیکی سے پیش آنا اور خدمت کرنا عورت کے اہم ترین حقوق میں سے ہے۔حسن سلوک اور اچھے اخلاق سے پیش آنے کے سلسلے میں ماں کا حق باپ سے زیادہ ہے،کیونکہ بچے کی پیدائش اور تربیت کے سلسلے میں ماں کو زیادہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اور اسلام نے ان تمام تکالیف کو سامنے رکھتے ہوئے ماں کو زیادہ حسن سلوک کا مستحق قرار دیا،جو اسلام کا عورت پر بہت بڑا احسا ن ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((وَوَصَّیْنَا اْلِانْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ أُمُّہٗ وَھْنًا عَلٰی وَھْنٍ وَفِصٰلُہٗ فِی عَامَیْنِ أَنِ اشْکُرْ لِی وَلِوَالِدَیْکَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ))[لقمان:۱۴]
’’ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھٹائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر،(تم سب کو)میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
((وَوَصَّیْنَا اْلِانْسَانَ بِوَالِدَیْہ اِحْسَانًاحَمَلَتْہُ أُمّہٗ کُرْھاً وَوَضَعَتْہُ کُرْھًا وَحَمْلُہٗ وَفِصَالُہٗ ثَلَاثُوْنَ شَھْرًا))[الأحقاف:۱۵]
’’اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے،اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اسے جنا ۔اس کے حمل اٹھانے کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے۔‘‘
ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا!
((من أحق الناس بحسن صحابتی ؟قال أمک قال ثم من؟قال أمک قال ثم من؟قال أمک قال ثم من؟قال ابوک))
’’یا رسول اللہ ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟نبی اکرم ﷺ نے فرمایاتیری ماں۔اس نے پوچھا پھر کون؟نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تیری ماں۔اس نے پوچھا پھر کون؟نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تیری ماں۔اس نے پوچھا پھر کون؟نبی اکرم ﷺ نے تیرا باپ۔‘‘اس حدیث کا تقاضا ہے کہ ماں کے ساتھ باپ کی نسبت تین گنا زیادہ حسن سلوک کیا جائے،کیونکہ نبی کریم ﷺ نے تین مرتبہ ماں کا نام لیا اور آخر میں ایک مرتبہ باپ کا ۔
بیوی کا مقام اور دلوںکو سکون دینے میں اس کے کردار کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
((وَمِنْ آیٰاتِہٖ أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَرَحْمَۃً))[الروم:۲۱]
’’ اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تا کہ تم ان سے آرام پاؤ ۔اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی پیدا کر دی۔‘‘حافظ ابن کثیررحمہ اللہ ا پنی تفسیرابن کثیر میں فرماتے ہیں کہ ’’ مَوَدَّۃً ‘‘ سے مراد محبت ا و ر ’’ ر َحْمَۃً ‘‘ سے مراد نرمی اور ہمدردی ہے۔کیونکہ آدمی عورت کو محبت سے چھوتا ہے یا نرمی سے چھوتا ہے تاکہ اس کے لئے اس عورت میں سے اولاد ہو۔
ہم رسول اللہ ﷺ کو دلی سکون پہنچانے ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ عنھاکے کردار کو کیسے بھول سکتے ہیں کہ جب پہلی وحی لیکر حضرت جبرئیل ںغار حراء میں اترے اور نبی کریم ﷺ کو زور سے دبایا۔تو نبی کریم ﷺ حالت خوف میں گھر تشریف لائے اور ڈر کی وجہ سے ان کے کندھے کانپ رہے تھے،اور فرمایا:
((دثرونی دثرونی لقد خشیت علی نفسی))
’’مجھے چادر اوڑھا دو!مجھے چادر اوڑھا دو!مجھے میری جان کا خدشہ لاحق ہو گیا ہے۔‘‘تو حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ عنھانے تسلی دیتے ہوئے فرمایا:
((أبشر فواللّٰہ لا یخزیک اللّٰہ أبدا،انک لتصل الرحم ،وتصدق الحدیث،وتحمل الکل ،وتکسب المعدوم،وتقری الضیف،وتعین علی نوائب الحق))
’’خوش ہو جائیے!اللہ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا،بے شک آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں،سچ بولتے ہیں ،بے سہارا کو سہارا دیتے ہیں،کمزور کا بوجھ اٹھاتے ہیں،مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیںاور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔‘‘
اسی طرح ہم حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنھاکے مؤثر کردار کو نہیں بھول سکتے کہ بڑے بڑے صحابہ کرام ان أحادیث نقل کرتے ہیں۔خصوصا عورتوں سے متعلقہ مسائل انہی سے زیادہ مروی ہیں۔
زمانہ قریب میں ہم امام محمد بن سعود رحمہ اللہ کی بیوی کے مؤثر کردار کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ بیوی کی نصیحت پر ہی انہوں نے امام محمد بن عبد الوھا ب رحمہ اللہ کی دعوت کو قبول کیا اور ان کی مدد کی۔اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ میری (شیخ ابن باز رحمہ اللہ)تعلیم وتربیت میں بھی میری والدہ محترمہ کا بہت بڑا کردار ہے ۔جنہوں نے ہر مشکل میں میری راہنمائی کی اور تعلیم کے سلسلہ میں میری حوصلہ افزائی کرتی رہیں۔اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو جنت کا باغیچہ بنائے اور ان کی مغفرت فرمائے۔
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ جو گھر محبت ،الفت،انس وپیار اور اسلامی تربیت میں زندگی گزار رہا ہو،تو اللہ کے فضل وکرم سے اس گھر میں برکات ہی برکات ہوں گی۔تجارت میں یا طلب علم میں یا زراعت میں ،اللہ تعالیٰ ہر کام میں برکت ڈال دے گا ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو نیک بنائے اور ہمارے نیک اعمال کو قبول فرمائے اور ہمیں وہ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس کو وہ پسند کرتا ہے۔آمین
 
Top