• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام کا تصور علم و تعلیم.

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
((( السلام علیکم::
یہ تحریر پروفیسر خورشید صاحب کے ایک لیکچر سے ماخوذ ہے،چونکہ یہ ایک تقریر تھی،اور نوٹس وہیں پر لیے گئے، اس لیے ممکن ہے کہ اس میں تحریر والی روانی اپ کو نہ مل سکے، بہرحال نفس مضمون پر غور فرمائیں، ان شاءاللہ فائدہ ہو گا. ((((




پہلی اہم بات یہ سمجھنے کی ہے کہ ہمارا اس دنیا میں مقام کیا ہے؟؟ اس کے بعد ہی ہم اگے بڑھ سکتے ہیں .

حقیقت واقعہ یہ ہے کہ آدم اور اولاد آدم کو استخلاف کی ذمہ داری سونپی گئی، خلیفہ وہ ہوتا ہے جو اصل مالک کے اختیار کو اس کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرے اور مالک کو جواب دہ ہو.
اس نیابت اور خلافت کے سلسلے میں ہمیں دو چیزیں دی گئی ہیں ::
علم الاشیاء اور علم الھدایۃ.

علم الاشیاء :: اشیاء کی حقیقت کو سمجھنے کا علم، جاننے کا شعور اور صلاحیت دی گئی
علم الھدایۃ:: صحیح و غلط کی تمیز
فاِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّيْ هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ.
جب تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت پہنچے تو (اس کی پیروی کرنا کہ) جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے

یہی وہ دو چیزیں ہیں جو حضرت انسان کو خلیفۃ اللہ ہونے کا صحیح معنوں میں اہل بناتی ہیں .

علم کا منبع اور مرکز اللہ کی ذات ہے، اور یہ ہر دو علم اللہ کی عنایت رحمت اور حکمت اس لیے ہیں کہ استخلاف کی ذمہ داری ان کے بغیر ادا نہیں ہو سکتی.
...........................................

علم محض ایک ذہنی کیفیت کا نام نہیں ہے . بلاشبہ ذہن علم و حکمت کا مرکز ہوتا ہے لیکن فرمایا گیا کہ صرف جاننا ہی نہیں اس کا اقرار بھی کرنا ہے اور اس کو پہنچانا بھی ہے، ((بلغ ما انزل الیک من ربک((. . . سانپ بن کر نہیں بیٹھ جانا بلکہ اظہار اور ابلاغ بھی علم کا لازمی حصہ ہیں .

اب یہ بتایا کہ اس اعتبار سے تین میزان ایسے ہیں جن میں تمہیں کارفرما ہونا ہے::


اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ
(اے محمدﷺ) اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے (عالم کو) پیدا کیا
خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ
جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا
اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ
پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے
الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ
جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا
عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ
اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جس کا اس کو علم نہ تھا

1:: دنیائے کائنات:: ((باسم ربک الذی خلق(( کائنات اور جو کچھ اس میں ہے.

2::انسان خود :: "انفس" ((خلق الانسان من علق((. انسان ، حیاتیاتی دنیا.

3::ٹیکنالوجی:: ((الذی علم بالقلم((قلم استعارہ ہے ٹیکنالوجی کا، انسان کی جولان گاہ کا.

یہ تینوں علم کی مختلف جہتوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور انہی سے اسلام ان تینوں کو اللہ سے منسلک کرنے کی خصوصیت کی بنا پردنیا کی تمام تہذیبوں اور مذاہب سے ممتاز ہوتا ہے کہ کسی نے ایک ،کسی نے دو ، اور اگر کسی نے تینوں کو بھی لیا تو پھر بھی انہیں رب العالمین سے منسلک نہیں کیا. . . یہ طرہ امتیاز صرف اور صرف اسلام ہی کا ہے!!!
یہ ہے جامع اسلامی تصور علم.


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ سے منسلک ہوئے بغیر یہ علم کیاحیثیت رکھتے ہیںِ؟؟ تو علم تو یہ پھر بھی رہتے ہیں لیکن اس صورت میں یہ اسلام کے تصور علم سے نہیں ہوں گے اور اسلام کے مطلوبہ نتائج دینے سے آخری حد تک قاصر بھی رہتے ہیں .

اسلامی علم کے امتیازات::


1::حقانیت::
اسلام میں علم مبنی بر حق یقین کا نام ہے، جبکہ مغربی دنیا اور یونان علم کے آغاز کو شک سے مشروط کرتے ہیں.

بلاشبہ جستجو علم کا ایک حصہ ہے، اور اسلام کا متیاز یہ ہے کہ اس نے بندوں کو یہ علم دیا، لیکن ٹامک ٹوئیاں مارنے کو نہیں بلکہ یقین، نور اور تیقن کا !!! چنانچہ حق اور صداقت اس کی پہلی بنیاد ہے
سبق پڑھ پھر صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا کام تجھ سے دنیا کی امامت کا

ایمان اور یقین ایک ہی بات کے دو رخ ہیں ، تو ہم کسی شک کی بنیاد پر نہیں کھڑے بلکہ ایک((firm foundation (( پختہ بنیاد پر قائم ہیں اور یہی امتیاز ہے.

2:: کلیت::

انسانوں نے ہمیشہ زندگی کو خانوں میں بانٹا ہے اور پھر ایک ہی خانے کو کل قرار دے کر سارے مسائل کو اسی حساب سے حل کرنے کی کوشش کی ہے نتیجتاٹھوکر کھائی ہے اور یہی وجہ ہے بگاڑ اور خرابی کی.

زندگی کے تمام روحانی اور مادی پہلو اللہ ہی کی طرف لوٹتے ہیں اور اسی سے منسلک ہیں، چنانچہ کلیت اور جامعیت اسلام کے علم کا امتیاز ہے اور جب ہم نے اس علم کو بانٹ دیا تو ہمارا حال آپ کے سامنے ہے !!!

3::نافعیت::

نبی علیہ السلام کی مشہور دعا ہے کہ ((اللھم انی اسئلک علما نافعاً(( یا اللہ میں تجھ سے فائدہ دینے والے علم کا سوال کرتا ہوں. اس حوالے سے علم نافع اور غیر نافع کو جانچنا پڑے گا.
((یہ پہلو شاید مزید توجہ چاہتا ہے، عبداللہ((

4::حرکیت::

زندگی کے رنگ ڈھنگ اور زمانہ بدلتا ہے. شب و روز کی تبدیلی سے جو اثرات پڑتے ہیں . . . ٹیکنالوجی کی ترقی اور تمدن کے تنوع سے نئے نئے مسائل اور معاملات ابھر کر سامنے اتے ہیں ، چنانچہ اصول و اقدار کے معاملے میں اصل سے پیوستہ بھی رہنا اور اس کے ساتھ سات خیر میں اگے بھی بڑھتے چلے جانا""سابقوا فی الخیرات""، اجتہاد کی طرف یہی رہنمائی حدیث معاذ میں کی گئی ہے.

اگر بظاہر راہنمائی نہیں ہے تو شریعت کا منشا دیکھو، اور اسی کے لیے ہمارے بزرگوں نے اجتہاد قیاس او استحسان پر کام کیا لیکن یہ بگٹٹ دوڑنا نہیں ہے بلکہ اسی فریم وک کے اندر آگے بڑھنا ہے.

معلوم کے ساتھ نامعلوم کو معلوم کے دائرے میں لانا اور حالات کے حساب سے اس سے استفادہ کرنا.....تلاوت کتاب کے ساتھ تعلیم الکتاب اور پھر ہے تعلیمِ حکمت، اور تعلیم حکمت نام ہے تعلیم کتاب کو اپنے حالات پر اپلائی کرتے ہوئے اگے چلنے کا


5::عملیت::

علم اور عمل میں ناقابل انقطاع رشتہ ہے.اگر یہ رشتہ ٹوٹ جائے تو علم،عمل کے بغیر ثمر اور نہیں ہے اور عمل، علم کے بغیر گمراہی کی طرف کے جانے والا.

6::مقصدیت::

معرفت الٰہی ، معرفت نفس، دنیا اور آخرت کی فلاح. . . . خیر و شر کا امتیاز، یہ علم اسلامی کی مقصدیت ہے اور یہ دنیا اور آخرت دونوں پر محیط ہے.
""علم کا مقصد یہ ہے کہ دنیا اور آخرت کی فلاح و سعادت حاصل ہو""، جیس اکہ امام غزالہ نے احیائ العلوم کے شروع میں فرمایا ہے کہ "اصل السعادۃ فی الدنیا و الآخرۃ ھو العلم".

.................................................. .

چنانچہ علم سے سفر حیات کا آغاز ہوا،
علم کے لیے جو استعداد چاہیے تھی وہ دی گئی اور جو راہنمائی چاہیے تھی اس سے بھی نوازا گیا.....
یہ بتایا گیا کہ کس طرح سے علم کو زندگی کو سنوارنے اور روشن کرنے کا ذریعہ بننا ہے ....
پھر اس بنیاد پر بیٹھ نہیں رہنا بلکہ اس مقصد کی طرف بڑھنا ہے جو استخلاف کی شکل میں ہمیں سونپا گیا ہے !!!
..اسلام ہی نے علم کو حیات انسانی کا اغاز مقرر کیا.
..انسان کی مادی اور روحانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مطلوبہ اگاہی دی.
..اور علم کو فریضہ قرار دیا. . . چنانچہ علم دین فرض عین اور باقی علوم فرض کفایہ ، اور یہ مل کر اسلامی معاشرے کی ضروریات پورا کرتے ہیں.

یہ ہے شہادت حق اور استخلاف کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے ضروری علم،مسلم معاشرے ایک لمبا عرصہ فرد اور ریاست دونوں سطح پر حصول علم، تحقیق اور جستجو میں لگے ہوئے تھے. . .جیسے ہی اس معاملے میں ہم پیچھے ہوئے تو پسپا ہوتے چلے گئے !!!

نظام تعلیم::

تعلیم اس نظام کا نام ہے جس کے ذریعے یہ تمام مہارتیں ایک نسل دوسری نسل کو منتقل کرتی ہے اور یہ ایک انسانی اور اسلامی ضرورت ہے.
انسانی اسطرح کہ حیوانات تک کو اللہ نے ان کی بقا کے لیے خود سکھا دیا ہے لیکن انسان مہد سے شروع ہو کر لہد میں اتارے جانے تک سیکھنے میں دوسروں کا محتاج ہے اور یہ معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے ذات،خاندان اور معاشرے کی حیثیت میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل بنائے.

اسلام میں تعلیم کا تصور ایک خاص وقت کے ساتھ محدود نہیں ہے بلکہ یہ نام ہے انسان سازی کا، ضرورت کے مطابق صحیح وقت پر صحیح راہنمائی کا..... انسان کو انسان اور مومن بنانا،تزکیہ، تربیت، علم و فضل، علم و عمل، علم و حکمت....اور یہ زندگی کے ہر پہلو کو "کور"کرتا ہے !!!
البتہ ہر مرحلے میں اس کے مطابق علم کی ضرورت ہے:


معلومات:
جبلت اور تعلیم کے ذریعے، ماضی میں جو کچھ انسان حاصل کر چکا ہے اسے پھر سے حاصل نہیں کرنا بلکہ اس سے آگے بڑھنا ہے.. . . .. اسلام اس سے ایک قدم آگے برھ کر کہتا ہے کہ "خود سے آگے بڑھنے کی صلاحیت" بھی پیدا کرنی ہے.. . . عقل جستجو ایجاد، اختراع......... اس کے مغیر ترقی نہیں ہو سکتی،چینی ضرب المثل ہے کہ اگر آپ ایک شخص کی بھوک مٹانا چاہتے ہو تو اسے مچھلی کھانے کو دو لیکن اگر اسے زندہ رکھنا چاہتے ہو تو اسے مچھلی پکڑنا سکھا دو !!!

کردار، استعداد اور معلومات مل کر اسلام کے نظام تعلیم کی تشکیل کرتی ہیں اور ہمیشہ ان سب کا لحاظ رکھا گیا ہے. ہاں اسلام ساتھ یہ ضرور بتاتا ہے کہ یہ سب کن اصولوں اور اقدار کی روشنی میں استوار ہوں.

آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم منتشر ہو گئے ہیں، چنانچہ سیکولر نظام تعلیم صرف پیٹ پالنے کو ہے، مذہبی تعلیم اپنے دائرے میں قید اور کردار کسی شمار قطار میں ہی نہیں !!! تین متوازی نظام تعلیم چلانے والا ہمارا یہ معاشرہ سرکاری، مذہبی اور بدیسی طرز تعلیم، طریق تعلیم اور مزاج تعلیم کے ذریعے تین یکسر مختلف مخلوقات دھڑا دھڑ پیدا کر رہا ہے.

ہماری تاریخ میں مختلف شعبہ ہائے علم کس طرح دینی ضرارتوں سے پھوٹے: چند مثالیں::

1::تحریر::
قرآن کی کتابت، اور اس کو پائیدار ترین بنانے کے لیے روشنائی کو انمٹ بنانے کی تگ و دو ...... کاغذ سازی اور اس سے پہلے ہڈی پتھر کا استعمال....... کیمسٹری کہ جس سے دوات اور سیاہی کا محلول. . . صرف ایک ضرورت کے لیے اتنی چیزیں.... !!!

2::نماز کے اوقات:: علم الافلاک

3::قبلے کی سمت::جغرافیہ

4::احادیث کی حفاظت::
علم الروایۃ ، اسماء الرجال، جرح و تعدیل وغیرہ اور یہ سب خالص آج کل کی سائنسی بنیادوں پر ہوا!!!

5:: طب نبوی صلی اللہ علیہ و سلم::"کوئی بیماری ایسی نہیں جس کی دوا نہ ہو" (الحدیث(....علم النباتات.

خلاصہ یہ کہ انساپئریشن ساری اسی ایک منبع و مرکز سے ہی آتی ہے، اسی نور سے راستوں کو روشن کرتے ہوئے ان سب سمتوں میں دنیاو آخرت کی فوز و فلاح کو مقصد بنا کر پیش قدمی کی جائے.
یہی اسلامی نظام تعلیم کی غرض و غالیت ہے اور یہی اس کا منتہائے کمال ہے.


واقول قول ھذا واستغفراللہ لنا ولکم ولسائر المسلمین العامین، واستغفروہ انہ ھو الغفور الرحیم.
 
Top