• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اس حدیث کی تحقیق درکار ہے

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
12801464_956855654382704_6610484125936732910_n (1).jpg


اپنا دودھ ضرور پلائیں یا پلوائیں اپنے بچوں کو چاہے دوسری عورت سے اجرت پر


اپنا دودھ نہیں پلاتی تھیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب دو آدمی (فرشتے) ایک پہاڑ پر لے گئے ، وہاں دوزخیوں کے عذاب کی مختلف صورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائی گئیں تو وہاں عورتوں کے عذاب کا ایک منظر یہ بھی تھا کہ ان کی چھاتیاں سانپ نوچ رہے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہ وہ عورتیں ہیں جو اپنے بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتی تھیں

-----------------------------------------------------------
(صحیح ابن خزیمة ، کتاب الصیام ، باب ذکر تعلیق المفطرین…الخ ، الحدیث : 1986 ، ، الترغيب والترهيب : 3/260 (لاعلة له) ، ، صحيح الترغيب للألباني : 2393 ، ،
صحيح ابن حبان : 7491 ، ، الصحيح المسند للوادعی : 483 (صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه) ، ، لإلمام بأحاديث الأحكام لابن دقيق العيد : 2/705 ، ،
تحفة المحتاج لابن الملقن : 2/432 (صحيح أو حسن [كما اشترط على نفسه فی المقدمة])
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

شیخ محترم @اسحاق سلفی بھائی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی یہ ایک طویل حدیث کا ایک درمیانی ٹکڑا ہے جس کا ترجمہ آپ کی پوسٹ میں نقل کیا گیا ہے ،
صحیح ابن خزیمہ میں مکمل حدیث درج ذیل ہے ::
بَاب ذِكْر تَعْلِيقِ الْمُفْطِرِينَ قَبْلَ وَقْتِ الْإِفْطَارِ بِعَرَاقِيبِهِمْ وَتَعْذِيبِهِمْ فِي الْآخِرَةِ بِفِطْرِهِمْ قَبْلَ تَحِلَّةِ صَوْمِهِمْ
1986 - نَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُرَادِيُّ وَبَحْرُ بْنُ نَصْرٍ الْخَوْلَانِيُّ، قَالَا: ثَنَا بِشْرُ بْنُ بَكْرٍ، نَا ابْنُ جَابِرٍ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ أَبِي يَحْيَى الْكَلَاعِي (1)، حَدَّثَنِي أَبُو أُمَامَةَ الْبَاهِلِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّه - صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَقُولُ:
"بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ إِذْ أَتَانِي رَجُلانِ، فَأَخَذَا بِضَبْعَيَّ، فَأَتَيَا بِي جَبَلًا وَعْرًا،
فَقَالَا: اصْعَدْ. فَقُلْتُ: إِنِّي لَا أُطِيقُهُ. فَقَالَا: إِنَّا سَنُسَهِّلُهُ لَكَ. فَصَعِدْتُ حَتَّى إِذَا كُنْتُ فِي سَوَاءِ الْجَبَلِ إِذَا بِأَصْوَاتٍ شَدِيدَةٍ، قُلْتُ: مَا هَذِهِ الْأَصْوَاتُ؟ قَالُوا: هَذَا عُوَاءُ أَهْلِ النَّارِ. ثُمَّ انْطُلِقَ بِي فَإِذَا أَنَا بِقَوْمٍ مُعَلَّقِينَ بِعَرَاقِيبِهِمْ، مُشَقَّقَةٍ أَشْدَاقُهُمْ تَسِيلُ أَشْدَاقُهُمْ دَمًا، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هَؤُلَاءِ؟ قَالَ: هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يُفْطِرُونَ قَبْلَ تَحِلَّةِ صَوْمِهِمْ. فَقَالَ: خَابَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى! " -فَقَالَ سُلَيْمَانُ: مَا أَدْرِي أَسَمِعَهُ أَبُو أُمَامَةَ مِنْ رَسُولِ اللَّه - صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، أَمْ شَيْءٌ مِنْ رَأْيِهِ،- "ثُمَّ انْطَلَقَ فَإِذَا بِقَوْمٍ أَشَدَّ شَيْءٍ انْتِفَاخًا، وَأَنْتَنِهِ رِيحًا، وَأَسْوأِهِ مَنْظَرًا، فَقُلْتُ: مَنْ هَؤُلَاءِ؟ فَقَالَ: هَؤُلَاءِ قَتْلَى الْكُفَّارِ، ثُمَّ انْطَلَقَ بِي فَإِذَا بِقَوْمٍ أَشَدَّ انْتِفَاخًا وَأَنْتَنِهِ رِيحًا كَأَنَّ رِيحَهُمُ الْمَرَاحِيضُ. قُلْتُ: مَنْ هَؤُلَاءِ؟ قَالَ: هَؤُلَاءِ الزَّانُونَ وَالزَّوَانِي. ثُمَّ انْطَلَقَ بِي، فَإِذَا أَنَا بِنِسَاءٍ تَنْهَشُ ثُدِيَّهُنَّ الْحَيَّاتُ. قُلْتُ: مَا بَالُ هَؤُلَاءِ؟ قَالَ: هَؤُلَاءِ يَمْنَعْنَ أَوْلَادَهُنَّ أَلْبَانَهُنَّ. ثُمَّ انْطَلَقَ بِي فَإِذَا أَنَا بِغِلْمَانٍ يَلْعَبُونَ بَيْنَ نَهْرَيْنِ، قُلْتُ: مَنْ هَؤُلَاءِ؟ قَالَ: هَؤُلَاءِ ذَرَارِي الْمُؤْمِنِينَ، ثُمَّ شَرَفَ شَرَفًا فَإِذَا أَنَا بِنَفَرٍ ثَلَاثَةٍ يَشْرَبُونَ مِنْ خَمْرٍ لَهُمْ، قُلْتُ: مَنْ هَؤُلَاءِ؟ قَالَ: هَؤُلَاءِ جَعْفَرٌ، وَزِيدٌ، وَابْنُ رَوَاحَةَ. ثُمَّ شَرَفَنِي شَرَفًا آخَرَ، فَإِذَا أَنَا بِنَفَرٍ ثَلَاثَةٍ، قُلْتُ: مَنْ هَؤُلَاءِ: قَالَ: هَذَا إِبْرَاهِيمُ، وَمُوسَى، وَعِيسَى، وَهُمْ يَنْظُرُونِي". هَذَا حَدِيثُ الرَّبِيعِ.

سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جناب نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
’’ میں سویا ہوا تھا کہ میرے پاس دو بندے آئے ،انہوں نے مجھے بازؤں سے پکڑا ،اور ایک دشوار گذار مشکل چڑھائی والے پہاڑ پر لے آئے ،اورکہنے لگے : اس پر چڑھیے ، میں نے انہیں کہا کہ مجھ میں اس پر چڑھنے کی طاقت نہیں ، وہ دونوں کہنے لگے ہم آپ کے لیے اسے آسان کردیں گے ، تومیں اس پہاڑ پر چڑھ گیا جب اوپر پہنچا تووہاں شدید قسم کی آوازیں آرہی تھیں ، میں نے کہا یہ آوازيں کیسی ہیں ؟
وہ کہنے لگے : یہ جہنمیوں کی آہ بکا ہے ، پھر وہ مجھے آگے لے گئے جہاں پر کچھ لوگ کونچوں کے بل لٹک رہے تھے اوران کی باچھیں کٹی ہوئي تھیں ، اوران کی باچھوں سے سے خون بہہ رہا تھا ، میں نے کہا یہ لوگ کون ہیں ؟
وہ کہنے لگے : یہ وہ لوگ ہیں جو افطاری سے قبل ہی اپنے روزے افطار کرلیا کرتے تھے )
۔۔۔۔(پھر مختلف مناظر بیان فرمائے ، اور ساتھ آپ کی منقولہ عبارت والی بات بیان فرمائی کہ ) :
عورتوں کے عذاب کا ایک منظر یہ بھی تھا کہ ان کی چھاتیاں سانپ نوچ رہے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہ وہ عورتیں ہیں جو اپنے بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتی تھیں ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ حدیث بالکل صحیح ہے

علامہ البانی رحمہ اللہ نے موارد الظمآن ( 1509 ) میں اس حديث کو صحیح قرار دیا ہے ۔
اورصحیح ابن حبان کی تخریج میں علامہ شعیب ارناؤط نے لکھا ہے :

(( إسناده صحيح. رجاله ثقات رجال الشيخين غير بشر بن أبي بكر، فمن رجال البخاري، وسليم بن عامر- وهو أبو يحيى الكلاعي- فمن رجال مسلم.
ابن جابر: هو عبد الرحن بن يزيد بن جابر. وهو في "صحيح ابن خزيمة" "1986" بأطول منه.
وأخرجه ابن خزيمة "1986"، والحاكم مختصراً 1/430 ومن طريقه البيهقي 4/216 من طريق بحر بن نصر بن سابق الخولاني، عن بشر بن بكر، به، وصححه الحاكم على مسلم، ووافقه الذهبي ))


یعنی اسکی سند صحیح ہے ،اور اس کے راوی نہ صرف ثقہ ہیں بلکہ شیخین کے راوی ہیں ، اور امام حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے ،جبکہ علامہ الذہبی نے ان کی موافقت کی ہے ‘‘
اور مشہور سعودی عالم جناب
الشيخ عبد الرحمن بن عبد الله السحيم اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :
الحديث رواه ابن خزيمة وابن حبان والحاكم ، وصححه ، وصححه الذهبي على شرط مسلم .
وصححه الألباني والأرنؤوط والأعظَمي .

والذي يظهر أن المقصود بـ (يمنعن أولادهن ألبانهن) اللواتي يمنعن أولادَهن مِن الرضاعة في حال ووقت حاجتهم إليهن مع عدم وُجود بديل ؛ لأنه لا يجب على المرأة أن تُرضِع ولدها إلاّ في حال عدم وُجود غيرها ، أو عدم قبوله لِثَدي غيرها .

کہ اس حدیث کو علامہ ذہبی اور علامہ البانی ،اور علامہ شعیب ارناؤط اور دیوبندی عالم حبیب الرحمن اعظمی نے صحیح کہا ہے ،
اور اس کا معنی یہ ہے کہ جو مائیں اپنے بچوں کو دودھ کی حاجت و ضرورت کے باوجود ،جبکہ دودھ پلانے والی دوسری عورت بھی دستیاب نہ ہو دودھ نہ پلائیں ان کو یہ سزا دے جائے گی،

 
Last edited:
Top