• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصلاح معاشرہ کا اسلامی تصور،قسط اول

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اصلاح معاشرہ کا اسلامی تصور،قسط اول

پروفیسر خالد علوی (ایم اے۔ ایم او ایل)​
معاشرہ
معاشرہ عاشر یعاشر کا مصدر ہے۔ اس کے معنی مل جل کر رہنے کے ہیں۔ اصلاح کا مادہ ص۔ ل۔ ح۔ ہے عربی میں صلح صلاحاً کے معنی فساد زائل کرنا ہے۔ اصل شیئاً کے معنی اس نے کسی چیز کو درست کیا چونکہ معاشرہ کے معنی مل جل کر رہنے کے ہیں اس لئے معاشرہ سے مراد افراد کا وہ مجموعہ ہے جو باہم مل جل کر رہے۔ اجتماعیت کے بغیر انسانی زندگی ناممکن ہے اور انسان پیدائش سے لیکر موت تک معاشرے کا محتا ہے۔ انسان ہر متعلقہ شے کے لئے معاشرے کا محتاج دوست نگر ہے۔ اگر اس سے تمام علائق حذف کر دیئے جائیں تو پھر اس کے پاس کچھ باقی نہ رہے اور انسانی زندگی کی حیثیت ختم ہو جائے۔ اجتماعی زندگی کے بغیر انسان کے اعمال، اغراض اور عادات کی کوئی قیمت نہ رہے۔
معاشرے مختلف بنیادوں پر قائم ہوتے رہے ہیں۔ مثلاً برادری، قوم، زبان، مذہب اور جغرافیائی حود وغیرہ۔ انسانی تاریخ میں جتنے معاشرے تشکیل پاتے ہیں۔ ان میں تقریباً یہی عوامل کار فرما رہے ہیں۔ علما معاشرت نے لکھا ہے کہ انسانی زندگی کی اجتماعی ترقی میں ان عوامل نے بہت اہم کردار انجام دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان اپنی بنیادی ضرورتوں میں بقائے نسل اور تحفظ ذات کی طرف زیادہ توجہ دیتا رہا ہے، انسان کی اجتماعی زندگی پر نظر رکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں دو امور کو پیش نظر رکھا ہے۔
• ایک یہ کہ وہ اس طرح زندگی بسر کرے کہ اس کی اپنی ذات کی تکمیل ہو۔
• دوسرے یہ کہ ایسے اصول و ضوابط تیار کرے جن کے ذریعے وہ باقی انسانوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے۔
مختلف معاشروں کی تباہی
انسان نے یقیناً ہر دور میں کوشش کی ہے کہ اس کی معاشرتی زندگی مستحکم رہے۔ ہم جب حیاتِ انسانی کے ارتقا پر نظر ڈالیں تو ہمیں اِس کا رُخ اجتماعیت کی طرف نظر آتا ہے۔ تاریخ انسانی نے مختلف معاشرے تشکیل دیئے اور گردشِ زمانہ نے مختلف معاشروں کو پیوند خاک بھی کیا۔ ’’قرآن کریم‘‘ نے بھی مختلف قوموں کی تباہی کا ذِکر کیا ہے۔
قومِ نوح کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: واغرقنا الذین کذبوا باٰیٰتنا ہم نے اپنی آیتیں جھٹلانے والوں کو ڈبو دیا۔
ایک جگہ ارشاد فرمایا:
الم یاتکم نبؤا الذین من قبلکم قوم نوح وعاد وثمود والذین من بعدھم کیا تمہیں ان کی خبر پہنچی جو تم سے پہلے تھے؟ قومِ نوح، عاد اور ثمود کی اور جو لوگ ان کے بعد ہوئے۔
ہدایت کو بھلا کر متکبرانہ رویہ اختیار کرنے والے معاشروں کو پیوند خاک کیا گیا۔ چنانچہ قارون اور فرعون کے ذکر میں قرآنِ پاک میں یوں وضاحت کی گئی ہے:
وقارون وفرعون وھامن ولقد جآئھم موسٰی بالبینٰت فاستکبروا فی الارض وما کانوا سابقین۔ فکلا اخذنا بذنبہ من ارسلنا علیہ حاصبا ومنھم من اخذتہ الصیحۃ ط ومنھم من اغرقنا ج وما کان اللہ لیظلمہم ولٰکن کانوآ انفسھم یظلمون۔

اور ہم نے قارون اور فرعون اور ہامان کو بھی ہلاک کیا اور ان کے پاس موسیٰؑ کھلی دلیلیں لے کر آئے تھے۔ پھر ان لوگوں نے زمین میں سرکشی کی اور بھاگ نہ سکے تو ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ کی سزا میں پکڑ لیا سو ا میں سے بعضوں پر ہم نے تند ہوا بھیجی اور ان میں سے بعض کو ہولناک آواز نے آ دبایا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں بعض کو ڈبو دیا اور اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا لیکن یہی لوگ اپنے اوپر ظلم کیا کرتے تھے۔
پچھلی قوموں کی تباہی پر غور کرنے کے ضمن میں فرمایا:
اولم یسیروا فی الارض فینظروا کیف کان عاقبۃ الذین کانوا من قبلھم ط کانوا ھم اشد منھم قوۃ واٰثارا فی الارض فاخذھم اللہ بذنوبم وما کان لہم من اللہ من واق۔
کیا وہ زمین میں چلتے پھرتے نہیں، پس دیکھئے ان کا انجام کیا ہوا جو ان سے پہلے تھے وہ قوت میں اور زمین میں نشانیاں چھوڑنے میں ان سے بڑھ کر تھے، سو اللہ نے انہیں گناہوں کی وجہ سے پکڑا اور کوئی انہیں اللہ تعالیٰ (کی سزا) سے بچانے والا نہ تھا۔
معاشروں کی قسمیں
غیر اسلامی معاشروں میں تکمیل ذات کے لئے محدود مذہبی رسوم اور معاشرتی زندگی کے لئے وہ رسوم و رواجات اور اصول و ضوابط ہوتے ہیں جنہیں انسانی ذہنوں نے وقتاً فوقتاً حالات کی مجبوریوں کے تحت اور دبائو کی وجہ سے ترتیب دیا ہے۔ ان معاشروں میں زندگی غیر متوازن اور عادات و اطوار غیر معتدل ہوتی ہیں اور تمام انسانی معاملات میں انفرادی، طبقاتی، قومی اور نسلی خود غرضیاں رونما ہو جاتی ہیں۔ دو انسانوں کے تعلق سے لے کر قوموں کے تعلق تک کوئی رابطہ ایسا نہیں جس میں کجی نہ آگئی ہو۔
اسلامی معاشرہ
اس کے برعکس اسلامی معاشرہ ایک ایسی متوازن اور معتدل زندگی کا نام ہے جس میں انسانی عقل، رسوم و رواج اور معاشرتی آداب وحی الٰہی کی روشنی میں طے پاتے ہیں۔ یہ نظام ایسا جامع اور ہمہ گیر ہے کہ زندگی کے تمام مظاہر اور حیات کی جملہ سرگرمیاں اس کے دائرہ میں آجاتی ہیں۔ الہام ربانی کے اصولوں کے مطابق معاشرے کی صحیح زندگی اس کا توازن ہے جہاں کہیں پر توازن بگڑا وہیں فساد رونما ہو گیا۔ انسانوں کی معاشرتی تاریخ اصلاح و فساد، توازن و عدم توازن کی تصویر پیش کرتی ہے۔ ہر زمانے میں فساد کو مٹانے اصلاح پر گامزن کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔
بگاڑ غالب رہا ہے
تاریخ سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ انسانی اصلاح کے تھوڑے بہت نتائج بھی مرتب ہتے رہے لیکن بحیثیت مجموعی انسان کی معاشرتی زندگی میں بگاڑ غال رہا۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے:
اعلموا اٰل داود شکرا ط وقلیلٌ من عبادی الشکور۔ اے آلِ داؤد شکر کرتے ہوئے عمل کرو اور میرے بندوں میں سے تھوڑے شکر گزار ہیں۔
اسی طرح قرآن پاک نے مختلف اقوام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
وفرعون ذی الاوتاد۔ الذین طغوا فی البلاد۔ فاکثروا فیھا الفساد۔ اور میخوں والے فرعون کے ساتھ جنہوں نے شہروں میں سرکشی کی سو ان میں بہت فساد کیا۔
چنانچہ اسی فساد کو مٹانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیائ علیہم السلام و مصلحین کرام کو بھیجا، جو وقتاً فوقتاً اس فساد کو دور کرنے کے لئے اصلاحی کوشش کرتے رہے۔ اس وقت ہمارے پیش نظر یہ ہے کہ ہم اسلامی نقطہ نظر سے اصلاح معاشرہ کا تصور پیش کریں اور یہ جائزہ لیں کہ:
o اسلامی لحاظ سے معاشرے کے اندر بگاڑ کیسے شروع ہوتا ہے؟
o اس کے اسباب کیا ہوتے ہیں؟
o نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟
o اصلاح کیسے ہو سکتی ہے؟
o اصلاح کا طریقِ کار کیا ہو سکتا ہے؟
معاشرہ کے بگاڑ اور بناؤ کے ذکر سے قبل دو باتیں بیان کرنی بہت ضروری معلوم ہوتی ہیں:
o فردِ معاشرہ کا خالق کائنات سے کیا تعلق ہے؟
o فرد کا دوسرے افرادِ معاشرہ کے ساتھ اور معاشرے کی اجتماعی حیثیت سے کیا ربط ہے؟
کسی معاشرے کا تجزیہ کرنے کے لئے ان دو اصولوں کو پیش نظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ ان دو اصولوں کی بنائ پر انسان کی انفرادی سیرت کا تعین اور اجتماعی کردار کا مفہوم واضح ہو گا۔ ہم سب سے پہلے دیکھیں گے کہ افراد کے ذہنوں میں خدا کا تصور ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو ناقص ہے یا صحیح؟ اس کے بعد ہی فیصلہ ہو گا کہ افراد کا باہمی تعلق، ہمدردی، ایثار اور محبت و عفو کا ہے یا کینہ و عناد، انتقام اور سخت گیری کا؟ یہ وہ تجزیہ ہے جس سے معاشرے کے امراض کا پتہ چلتا ہے۔ پھر اس میں ایک اور بات کا اضافہ کیا جاسکتا ہے کہ انسانی سیرت و کردار کی تکمیل کے لئے خدا کے کامل تصور کی ضرورت ہے۔ اگر خدا کا تصور ناقص ہو تو اس سے سیرت و کردار کی تکمیل بھی ناقص ہوتی ہے۔ پھر اصلاحِ احوال کی تدبیر بھی یہیں سے کی جا سکتی ہے۔ اس سے اصلاح کا تصور واضح ہوتا ہے کہ مرض اور بگاڑ کہاں ہے؟ اور اس کی اصلاح کس طرح ہو سکتی ہے۔ بنیادی طور پر اس کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
  1. فکر و نظر کا بگاڑ
  2. قول و فعل کا بگاڑ
نوٹ
قسط دوم پڑھنے کےلیے یہاں کلک کریں
 
Top