آنحضرت ﷺ نے تفسیر بھی سکھائی:
سب سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے اصحاب کو جس طرح قرآن کے لفظ بتائے، اسی طرح قرآن کے معنی بھی بتائے ہیں۔ کیونکہ آیت: ’
’لِتُبَینَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیہِمْ[1]‘‘(النحل:۴۴) کے حکم میں یہ دونوں باتیں داخل ہیں۔
ابوعبدالرحمن سلمی
[2] کا قول ہے کہ جن لوگوں نے ہمیں قرآن پڑھایا، مثلاً: عثمان بن عفان اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما وغیرہ نے وہ ہم سے کہتے تھے کہ
’’جب ہم نبی ﷺ سے دس آیتوں کی تعلیم حاصل کر چکتے تھے، تو اس وقت تک آگے نہیں بڑھتے تھے، جب تک ان آیتوں کا علم و عمل مکمل نہ کر لیں۔ اسی طرح ہم نے علم و عمل، دونوں کی تعلیم حاصل کی[3]‘‘۔
یہی وہ ہے کہ ایک ایک سورت کے حفظ میں ان بزرگوں کو ایک مدت لگ جایا کرتی تھی۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
’’ہمارا کوئی آدمی جب سورۃ بقرۃ اور سورۃ آل عمران پڑھ لیتا تھا تو ہماری نگاہوں میں بڑا بن جاتا تھا‘‘۔ (مسند احمد) اور یہی وجہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو سورۃ بقرۃ کے حفظ میں کئی سال لگ گئے تھے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے موطا میں ہے کہ آٹھ سال لگے تھے۔
نبی ﷺ کا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معانی قرآن کی تعلیم دینا ان آیات سے بھی ثابت ہے:
كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیكَ مُبٰرَكٌ لِّیدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ (سورۃص۲۹:۲۳)
’’یہ کتاب ہے مبارک جسے ہم نے تمہاری طرف اُتارا ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات کو سوچیں‘‘۔
اور
اَفَلَا یتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ( محمد۲۴:۳)
’’ یہ لوگ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے؟‘‘
اور
اَفَلَمْ یدَّبَّرُوا الْقَوْلَ (مومنون ۶۸:۴)
’’ کیاانہوں نے بات پر غور نہیں کیا؟‘‘
اور ظاہر ہے کہ فہم و تدبر ہی نہیں جب تک بات کے معنی نہ سمجھے جائیں۔ اسی طرح فرمایا:
اِنَّا جَعَلْنٰہُ قُرْءٰنًا عَرَبِیا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ(الزخرف۲:۱)
’’ہم نے یہ قرآن عربی زبان میں نازل کیا ہے تاکہ تم لوگ سمجھو!‘‘
اور یہ بات عقل میں کیسے آ سکتی ہے، جب تک سمجھی نہ جائے۔
پھر معلوم ہے کہ ہر گفتگو اسی لئے ہوتی ہے کہ اس کے معنی سمجھےجائیں نہ کہ محض لفظ سن لئے جائیں۔ اور قرآن کا معاملہ تو بدرجہ اولیٰ فہم و تدبر کا متقاضی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ لوگ کسی فن کی کتاب پڑھیں، مثلاً طب کی یا حساب کی اور اسے سمجھنے کی کوشش نہ کریں۔ جب عام کتابوں کا یہ حال ہے تو کتاب اللہ کا فہم کس قدر ضروری ٹھہرتا ہے، وہ کتاب اللہ جو مسلمانوں کے لئے اصلی بچاؤ ہے۔ جس میں ان کی نجات و سعادت ہے۔ جس سے ان کے دین و دنیا کا قیام ہے۔
[1] تاکہ بيان کرو تم اس کتاب کو جو لوگوں کے لئے نازل کي گئي ان کي طرف (ع۔ح)
[2] ابوعبدالرحمن عبداللہ بن حبيب السلمي الکوفي۔ مشہور تابعي، ۴۰ سال تک مسجد ميں بيٹھ کر قرآن پڑھايا کئے۔ ثقہ ہيں (تہذيب التہذيب صفحہ ۱۸۴ جلد۵)۔ ايک صوفي ابوعبدالرحمن سلمي ہے جس کا ذکر آئندہ صفحہ پر آئے گا۔
[3] تفسير ابن جرير، ص:۳۶۔ ج:۱۔ طبع مصطفيٰ البابي۔ مصر ۱۳۷۳ھ۔ ۱۹۵۴ء