اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
آج کل بہت سے لوگ اصول فقہ پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ اصول فقہ کی تدوین کے بعد مسائل میں غور کر کے وجود میں لائے گئے ہیں۔ اور اصل فقہاء سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ویسے تو یہ اعتراض خصوصیت سے فقہ حنفی پر کیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اعتراض جس طرح فقہ حنفی پر وارد ہوتا ہے اسی طرح فقہ مالکی اور حنبلی پر بھی وارد ہوتا ہے کیوں کہ اصول فقہ مدون حالت میں صرف امام شافعیؒ سے ثابت ہیں۔
فقہ حنفی میں اصول پر پہلی کتاب:
یوں تو فقہ حنفی کے اصول پر امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کے حوالے سے کتب مذکور ہیں اور امام محمدؒ کے شاگرد عیسی بن ابان نے بھی اصول فقہ پر کتاب لکھی ہے لیکن یہ کتب ہم تک پہنچی نہیں۔ ہم تک جو فقہ حنفی کے اصول میں سب سے پہلی کتاب پہنچی ہے وہ امام کرخیؒ (متوفی 340ھ) کی رسالۃ فی الاصول۔ لیكن اس كا بهی اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ اصول فقہ نہیں بلکہ قواعد فقہ کی کتاب ہے۔ اور اصول فقہ اور قواعد فقہ میں دقیق سا فرق ہے۔ اس کے بعد دوسری کتاب جو مدون موجودہے وہ ہے نظام الدین ابو علی احمد بن محمد بن اسحاق الشاشیؒ (متوفی 344ھ) کی اصول الشاشی۔ یہ باقاعدہ اصول فقہ میں مدون کتاب ہے لیکن یہ کتاب متن ہونے کی وجہ سے انتہائی مختصر ہے اور بعض مقامات پر اس کا سمجھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر مختلف ائمہ نے مختصرا ً ااور تفصیلاً اصول فقہ پر کتابیں لکھیں۔
فقہ مالکی میں اصول پر پہلی کتاب:
فقہ مالکی میں اصول فقہ کی سب سے پہلی کتاب جو ہمیں ملتی ہے وہ قاضی ابو بکر باقلانیؒ (متوفی 403ھ) کی التقریب و الارشاد ہے۔ قاضی باقلانیؒ مالکی فقیہ ہیں اور قاضی عیاضؒ کے مطابق ان کی اصول فقہ کی کتاب مذہب مالکی پر ہے۔
وله كتاب في أصول الفقه، على مذهب مالك
(قاضی عیاض، ترتیب المدارک 6۔196، ط: مطبعۃ فضالۃ)
اس کے علاوہ ان کی ایک کتاب "امالی اجماع اہل المدینۃ" ذکر کی ہے اور یہ اجماع اہل مدینہ سے متعلق امام مالکؒ کا موقف معروف ہے۔
قاضی باقلانی کے بعد پھر علامہ باجی مالکی وغیرہ نے اصول مالکیہ پر کتب تحریر فرمائیں۔ یہاں یہ یاد رہے کہ امام مالکؒ کی موطا اور قاضی لیث كی جانب خط سے كچھ اصول ملتے ہیں لیکن یہ بطور اصول فقہ کے کامل نہیں ہیں نہ ان میں دیگر اصول مذکور ہیں۔
فقہ حنبلی میں اصول پر پہلی کتاب:
فقہ امام احمد بن حنبلؒ میں اصول فقہ کی سب سے پہلی کتاب جو ہمیں ملتی ہے وه میرے علم كی حد تك ابو عبد الله حسن بن حامدؒ (متوفی 403ھ) کی تہذیب الاجوبہ ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص بخوبی جان سکتا ہے کہ یہ صرف فقہ حنبلی سے متعلق ہے۔ اس تمام کتاب میں امام احمد کے اقوال اور ان سے اخذ کردہ اصول مذکور ہیں۔ لیكن چونکہ یہ ابتدائی کتاب ہےاس لیے یہ اس طرح مرتب نہیں ہے جس طرح ابو الخطاب کی تمہید وغیرہ مرتب ہیں۔
یہاں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ تینوں فقہ کے اصول ان مذاہب کی تدوین کے کافی عرصے کے بعد لکھے گئے ہیں۔ اور اگر ان کتب کا مطالعہ کیا جائے تو واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ اصول منقول مسائل و اقوال سے اخذ کردہ ہیں اور براہ راست سند سے ان جلیل القدر ائمہ تک نہیں پہنچتے۔ تو اس صورت میں بھلا کیا وجہ رہ جاتی ہے کہ اس اعتراض کو فقہ حنفی پر وارد تو مانا جائے اور باقی دو پر نہ مانا جائے؟
ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ امام شافعیؒ کی کتاب الرسالہ یا الام ہی تینوں ائمہ کے اصول ہیں تو اہل علم کے لیے تو اس بات کا ضعف واضح ہے۔ عوام کے لیے واضح کرنا چاہتا ہوں کہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کے اصولوں میں فرق ہے اور اسی کی وجہ سے ان کے مذاہب میں بھی فرق واقع ہوا ہے۔ اس کی مثال امام مالک کا اجماع اہل المدینہ کا اصول اور امام احمد كا حدیث كے زیاده سے زیاده ظاہر کو لینے کا اصول ہیں۔اس کے علاوہ ہم امام احمد کے مذہب کے لیے تو پھر بھی یہ فرض کر سکتے ہیں کہ امام شافعی کے اصول ہی ان کے اصول بھی ہوں لیکن امام مالک امام شافعی سے پہلے گزرے ہیں۔ اس لیے امام شافعیؒ کی کتاب الرسالۃ یا الام ان کے بعد لکھی گئی ہیں اور ان کے اصول ان کتب سے حاصل نہیں کیے جا سکتے۔
اس کے بعد ہم اصل سوال کی طرف آتے ہیں کہ ان تینوں مذاہب کے اصول آخر بعد میں مدون کیوں ہوئے اور اصول کے بغیر ان مذاہب کی تدوین کیسے ہوئی؟
ہر علم چاہے وہ دینی ہو یا دنیوی اس کے اصول اس علم کے وجود میں آنے کے بعد مدون ہوتے ہیں۔ جیسے علم النحو اور علم البلاغۃ وغیرہ بعد میں مدون ہوئے جب کہ فصیح عربی زبان اس سے پہلے سے چلی آرہی تھی۔ علم القوافی بعد میں مدون ہوا حالانکہ عرب کے بڑے بڑے شعراء اس سے پہلے گزرے ہیں۔ علوم الحدیث سب بعد میں مدون ہوئے حالانکہ حدیث مبارکہ نبی کریم ﷺ سے چلی آ رہی تھیں اور صحابہ نے احادیث کو باقاعدہ رد اور قبول کیا ہے جیسا کہ مقدمہ مسلم میں ذکر ہے۔ درحقیقت ان علوم کے اصول میزان ہوتے ہیں جو ما قبل علم کو پرکھنے اور سمجھنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور ہر چیز کا میزان اس کے بعد وجود میں آتا ہے۔
شیخ ابو زہرہ لکھتے ہیں:
ولا غرابۃ في أن یكون البحث في فروع اكفقه و تدوینها متقدما علی تدوین اصول الفقه، لأنه إذا كان علم أصول الفقه موازین لضبط الاستنباط و معرفۃ الخطأ من الصواب فهو علم ضابط، و المادۃ هي الفقه، و كذلك في كل العلوم الضابطۃ، فالنحو متأخر عن النطق بالفصحی۔۔۔۔الخ
(اصول الفقه 1۔13، ط: دار الفکر العربی)
ترجمہ: اور اس میں کوئی عجیب بات نہیں ہے کہ فروع فقہ کی بحث اور تدوین اصول فقہ کی تدوین سے مقدم ہے، کیوں کہ جب اصول فقہ استنباط کو سمجھنے اور درست بات سےغلطی کو جاننےکا پیمانہ ہے تو وہ ضبط کرنے والا علم ہے، اور اسی طرح تمام ضبط کرنے والے علوم میں ہوتا ہے، سو نحو فصیح گفتگو کے بعد آئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
ابن خلدون کی یہ رائے ہے کہ اسلاف کو اس علم کی ضرورت ہی نہیں تھی اس وجہ سے اس علم کو مدون نہیں کیا گیا۔
(واعلم) أنّ هذا الفنّ من الفنون المستحدثة في الملّة وكان السّلف في غنية عنه بما أنّ استفادة المعاني من الألفاظ لا يحتاج فيها إلى أزيد ممّا عندهم من الملكة اللّسانيّة. وأمّا القوانين الّتي يحتاج إليها في استفادة الأحكام خصوصا فمنهم أخذ معظمها. وأمّا الأسانيد فلم يكونوا يحتاجون إلى النّظر فيها لقرب العصر وممارسة النّقلة وخبرتهم بهم. فلمّا انقرض السّلف وذهب الصّدر الأوّل وانقلبت العلوم كلّها صناعة كما قرّرناه من قبل احتاج الفقهاء والمجتهدون إلى تحصيل هذه القوانين والقواعد لاستفادة الأحكام من الأدلّة فكتبوها فنا قائما برأسه سمّوه أصول الفقه.
(مقدمۃ ابن خلدون ، 1۔576، ط: دار الفکر)
ترجمہ: اور جان لو یہ فن امت میں نئے فنون میں سے ہے اور سلف اس سے مستغنی تھےکیوں کہ الفاظ سے معانی حاصل کرنے میں جو زبان کا ملکہ ان کے پاس تھا اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں تھی۔ اور وہ قوانین جن کی احکام کو حاصل کرنے میں خاص طور پر ضرورت ہوتی ہے تو ان میں سے بعض نے ان قوانین کا اکثر حصہ اخذ کر لیا تھا۔ اور اسانید میں غور و فکر کرنے کی انہیں زمانے کے قریب ہونے اور رواۃ سے ملتے رہنے اور ان کی حالت معلوم ہونے کی وجہ سے ضرورت نہیں تھی۔ پھر جب سلف گزر گئے اور پہلا زمانہ چلا گیا اور تمام علوم فن بن گئے، جیساکہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، تو فقہاء اور مجتہدین کو دلائل سے احکام حاصل کرنے کے لیے ان قوانین کے بنانے کی ضرورت ہوئی تو انہوں نے اسے ایک مستقل فن کے طور پر لکھا اور اس کا نام اصول فقہ رکھا۔
ان آراء کو ڈاکٹر مصطفی زحیلی نے بھی الوجیز میں نقل کیا ہے۔
یہ ساری بحث اصول فقہ کی تدوین کے بارے میں ہے۔ اصول فقہ کا وجود اس سے پہلے جب فن فقہ وجود میں آیا تب سے ہی تھا۔ یہ عقلاً محال ہے کہ کوئی فن یا علم اپنے اصولوں کی موجودگی کے بغیر کیف ما اتفق بن جائے۔ تدوین اگرچہ بعد میں ہو لیکن اس علم سے متعلق ہر ماہر کے ذہن میں اصول موجود ہوتے ہیں۔ ہم ان اصول کو دیکھتے ہیں جو تدوین سے پہلے ہمیں ملتے ہیں:
دور نبوی میں اصول فقہ:
حدثنا حفص بن عمر، عن شعبة، عن أبي عون، عن الحارث بن عمرو ابن أخي المغيرة بن شعبة، عن أناس من أهل حمص، من أصحاب معاذ بن جبل، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما أراد أن يبعث معاذا إلى اليمن قال: «كيف تقضي إذا عرض لك قضاء؟»، قال: أقضي بكتاب الله، قال: «فإن لم تجد في كتاب الله؟»، قال: فبسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «فإن لم تجد في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا في كتاب الله؟» قال: أجتهد رأيي، ولا آلو فضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم صدره، وقال: «الحمد لله الذي وفق رسول، رسول الله لما يرضي رسول الله»
(سنن ابی داؤد، 3۔303،ط: العصریہ)
ترجمہ: حضرت معاذ بن جبل رض کے اصحاب میں اہل حمص کے بعض لوگوں سے روایت ہے کہ جب نبی کریم ﷺ نے معاذ رض کو یمن بھیجنے کا ارادہ کیا تو فرمایا: جب تمہارے پاس فیصلہ آئے گا تو کیسے فیصلہ کروگے؟ حضرت معاذ نے عرض کیا: میں اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا۔ فرمایا: اگر کتاب اللہ میں نہ پاؤ؟عرض کیا: رسول اللہ ﷺ کی سنت سے کروں گا۔ فرمایا: اگر سنت میں بھی نہ پاؤ اور نہ کتاب اللہ میں؟ حضرت معاذ رض نے عرض کیا: میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوتاہی نہیں کروں گا۔ تو نبی کریم ﷺ نے ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا:تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اللہ کے رسول کے رسول کو اس بات کی توفیق دی جس پر اللہ کا رسول راضی ہے۔
(اس روایت کو البانیؒ نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن اس کی صحت کے لیے تلقی بالقبول حاصل ہونا کافی ہے۔ اس حدیث پر ہر دور میں عمل ہوتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی صحت پر ابن قیمؒ نے اعلام الموقعین میں بحث کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔)
اس روایت میں جو بنیادی اصول ذکر ہیں یہ ہمیشہ سے فقہاء کے اصول رہے ہیں اور سوائے اہل ظاہر کے کسی نے ان کا انکار نہیں کیا۔
دور صحابہ میں اصول فقہ:
قال أبو عُبيد في كتاب "القضاء": ثنا كَثير بن هِشَام، عن جعفر بن بُرْقَان، عن مَيْمون بن مَهْران قال: كان أبو بكر الصِّدِّيق إذا ورَدَ عليه حكمٌ؛ نَظَرَ في كتاب اللَّه تعالى، فإن وَجَد فيه ما يقضي به قضى به، وإن لم يجد في كتاب اللَّه نَظَر في سنة رسول اللَّه -رضي اللَّه عنه- فإن وَجَد فيها ما يقضي به قضى به، فإن أعياه ذلك سأل الناسَ: هل علمتم أن رسول اللَّه -صلى اللَّه عليه وسلم- قَضَى فيه بقضاء؟ فربما قام إليه القومُ فيقولون: قضى فيه بكذا وكذا، فإن لم يجد سُنَّةً سَنَّها النبي -صلى اللَّه عليه وسلم- جَمَع رؤساء الناس فاستشارهم، فإذا اجتمع رأيُهم على شيء قضى به
وكان عمر يفعل ذلك، فإذا أعياه أن يجدَ ذلك في الكتاب والسنة سأل: هل كان أبو بكر قضى فيه بقضاء؟ فإن كان لأبي بكر [فيه] قَضاءٌ قضى به، وإلا جَمَعَ علماء الناس واستشارهم، فإذا اجتمع رأيُهم على شيء قضى به
(اعلام الموقعین، 2۔115، ط: دار ابن الجوزی)
ترجمہ: میمون بن مہران سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی مسئلہ آتا تھا کتاب اللہ میں دیکھتے تھے، اگر اس میں اس کا فیصلہ ملتا تو اس سے فیصلہ کر دیتے، اور اگر کتاب اللہ میں نہیں ملتا تو سنت رسول ﷺ میں دیکھتے، اس میں فیصلہ ملتا تو اس کے مطابق کر دیتے۔ اور اگر اس سے تھک جاتے (یعنی نہ ملتا) تو لوگوں سے پوچھتے: کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اس بارے میں کوئی فیصلہ دیا ہے؟ تو بسا اوقات لوگ کھڑے ہوتے اور کہتے کہ اس میں فلاں فلاں فیصلہ کیا ہے۔ پھر اگر کوئی ایسی سنت نہیں پاتے جسے نبی ﷺ نے اختیار کیا ہوتو لوگوں کے سرداروں کو جمع کر کے ان سے مشورہ کرتے، جب ان کی رائے کسی بات پر جمع ہو جاتی تو اس کا فیصلہ کر دیتے۔
اور عمر رض بھی یہی کیا کرتے تھے، جب وہ کتاب اور سنت میں پانے سے تھک جاتے تو پوچھتے: کیا ابو بکر رض نے اس بارے میں کوئی فیصلہ کیا ہے؟ تو اگر اس میں ابو بکر رض کا کوئی فیصلہ ہوتا تو وہ کر دیتے۔ ورنہ لوگوں کے علماء کو جمع کر کے ان سے مشورہ کرتے۔ جب ان کی رائے کسی بات پر ایک ہو جاتی تو اس کا فیصلہ کر دیتے۔
(اس روایت کے تمام رواۃ ثقات ہیں لیکن یہ روایت مرسل ہے۔ لیکن اول اس سے احکام کا ثبوت نہیں کیا جا رہا۔ ثانی مرسل بہت سے علماء اسلاف کے نزدیک قابل احتجاج ہے۔)
قرآن و سنت اور اجماع کا اصول بھی اصول فقہ میں مذکور ہے اور اسی ترتیب سے ہے۔
عن محمد بن سيرين في حديث۔۔۔۔۔ فلقيت مالك بن عامر، أو مالك بن عوف قلت: كيف كان قول ابن مسعود في المتوفى عنها زوجها وهي حامل؟ فقال: قال ابن مسعود: " أتجعلون عليها التغليظ، ولا تجعلون لها الرخصة، لنزلت سورة النساء القصرى بعد الطولى
(بخاری، 6۔30، ط: دار طوق النجاۃ)
ترجمہ: محمد بن سیرینؒ سے ایک حدیث میں روایت ہے۔۔۔۔ میں مالک بن عامر (یا کہا) مالک بن عوف سے ملا۔ میں نے کہا: جو عورت حاملہ ہو اور اس کا شوہر فوت ہو جائے اس کے بارے میں ابن مسعود رض کا کیا قول ہے؟ انہوں نے کہا: ابن مسعود رض کا فرمان ہے:کیا تم لوگ اس پر سختی کرتے ہو اور اسے رخصت نہیں دیتے؟ چھوٹی سورۃ النساء (یعنی سورۃ الطلاق) لمبی والی کے بعد نازل ہوئی ہے۔
ناسخ و منسوخ کا اصول بھی اصول فقہ کا اہم اصول ہے۔
مالك، عن ثور بن زيد الديلي ؛ أن عمر بن الخطاب استشار في الخمر يشربها الرجل. فقال له علي بن أبي طالب: نرى أن نجلده ثمانين. فإنه إذا شرب سكر. وإذا سكر هذي. وإذا هذي افترى. أو كما قال. فجلد عمر في الحد ثمانين.
(موطا امام مالک، 5۔1235، ط: مؤسسۃ زاید بن سلطان)
ترجمہ: امام مالک ثور بن زید الدیلی سے روایت کرتے ہیں کہ عمر بن الخطاب رض نے کوئی بندہ شراب پی لے، اس کے بارے میں مشورہ کیا تو علی بن ابی طالب رض نے فرمایا: ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسے اسی کوڑے لگائیں کیوں کہ جب شراب پیے گا تو نشہ ہوگا، نشہ ہوگا تو بہکی باتیں کرے گا، اور بہکی باتیں کرے گا تو بہتان لگائے گا۔ یا جیسے کہا۔ تو عمر رض نے حد میں اسی کوڑے لگائے۔
ایک نظیر کو دیکھ کر دوسری نظیر کا حکم نکالنا اور استنباط کرنا بھی اصول فقہ کا ایک اصول ہے۔
اصول فقہ بعد کے ادوار میں:
صحابہ کرام رض کے بعد تابعین اور ائمہ مجتہدین کا دور آتا ہے۔ اس میں بھی ہمیں اصول فقہ موجود ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر امام مالکؒ نے لیث بن سعدؒ کو خط لکھا تھا جس میں اپنے اصول "اجماع اہل مدینہ" کی وضاحت کی۔ اسی طرح امام ابوحنیفہؒ کے اصول کے بارے میں مشہور روایت ہے جس میں وہ خود اپنا طرز عمل بتاتے ہیں۔ ان کے علاوہ مجتہدین کے بھی اپنے اصول تھے جن پر انہوں نے مسائل کی تخریج کی۔
خلاصہ کلام:
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ اعتراض کرنا کہ کوئی بھی فقہ پہلے مدون ہوئی ہے اور اس کے اصول بعد میں مسائل سے دیکھ کر نکالے گئے ہیں، درست نہیں۔ اس لیے کہ فقہ کی تدوین کے لیے اصول کی تدوین کے بجائے اصول کا وجود ضروری ہوتا ہے اور وہ موجود تھے۔ رہ گئی تدوین تو وہ اس لیے بعد میں ہوئی کہ ہر علم کے اصول بعد میں ہی مدون ہوتے ہیں اور بطور میزان کے ہوتے ہیں۔
واللہ اعلم
فقہ حنفی میں اصول پر پہلی کتاب:
یوں تو فقہ حنفی کے اصول پر امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کے حوالے سے کتب مذکور ہیں اور امام محمدؒ کے شاگرد عیسی بن ابان نے بھی اصول فقہ پر کتاب لکھی ہے لیکن یہ کتب ہم تک پہنچی نہیں۔ ہم تک جو فقہ حنفی کے اصول میں سب سے پہلی کتاب پہنچی ہے وہ امام کرخیؒ (متوفی 340ھ) کی رسالۃ فی الاصول۔ لیكن اس كا بهی اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ اصول فقہ نہیں بلکہ قواعد فقہ کی کتاب ہے۔ اور اصول فقہ اور قواعد فقہ میں دقیق سا فرق ہے۔ اس کے بعد دوسری کتاب جو مدون موجودہے وہ ہے نظام الدین ابو علی احمد بن محمد بن اسحاق الشاشیؒ (متوفی 344ھ) کی اصول الشاشی۔ یہ باقاعدہ اصول فقہ میں مدون کتاب ہے لیکن یہ کتاب متن ہونے کی وجہ سے انتہائی مختصر ہے اور بعض مقامات پر اس کا سمجھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر مختلف ائمہ نے مختصرا ً ااور تفصیلاً اصول فقہ پر کتابیں لکھیں۔
فقہ مالکی میں اصول پر پہلی کتاب:
فقہ مالکی میں اصول فقہ کی سب سے پہلی کتاب جو ہمیں ملتی ہے وہ قاضی ابو بکر باقلانیؒ (متوفی 403ھ) کی التقریب و الارشاد ہے۔ قاضی باقلانیؒ مالکی فقیہ ہیں اور قاضی عیاضؒ کے مطابق ان کی اصول فقہ کی کتاب مذہب مالکی پر ہے۔
وله كتاب في أصول الفقه، على مذهب مالك
(قاضی عیاض، ترتیب المدارک 6۔196، ط: مطبعۃ فضالۃ)
اس کے علاوہ ان کی ایک کتاب "امالی اجماع اہل المدینۃ" ذکر کی ہے اور یہ اجماع اہل مدینہ سے متعلق امام مالکؒ کا موقف معروف ہے۔
قاضی باقلانی کے بعد پھر علامہ باجی مالکی وغیرہ نے اصول مالکیہ پر کتب تحریر فرمائیں۔ یہاں یہ یاد رہے کہ امام مالکؒ کی موطا اور قاضی لیث كی جانب خط سے كچھ اصول ملتے ہیں لیکن یہ بطور اصول فقہ کے کامل نہیں ہیں نہ ان میں دیگر اصول مذکور ہیں۔
فقہ حنبلی میں اصول پر پہلی کتاب:
فقہ امام احمد بن حنبلؒ میں اصول فقہ کی سب سے پہلی کتاب جو ہمیں ملتی ہے وه میرے علم كی حد تك ابو عبد الله حسن بن حامدؒ (متوفی 403ھ) کی تہذیب الاجوبہ ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص بخوبی جان سکتا ہے کہ یہ صرف فقہ حنبلی سے متعلق ہے۔ اس تمام کتاب میں امام احمد کے اقوال اور ان سے اخذ کردہ اصول مذکور ہیں۔ لیكن چونکہ یہ ابتدائی کتاب ہےاس لیے یہ اس طرح مرتب نہیں ہے جس طرح ابو الخطاب کی تمہید وغیرہ مرتب ہیں۔
یہاں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ تینوں فقہ کے اصول ان مذاہب کی تدوین کے کافی عرصے کے بعد لکھے گئے ہیں۔ اور اگر ان کتب کا مطالعہ کیا جائے تو واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ اصول منقول مسائل و اقوال سے اخذ کردہ ہیں اور براہ راست سند سے ان جلیل القدر ائمہ تک نہیں پہنچتے۔ تو اس صورت میں بھلا کیا وجہ رہ جاتی ہے کہ اس اعتراض کو فقہ حنفی پر وارد تو مانا جائے اور باقی دو پر نہ مانا جائے؟
ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ امام شافعیؒ کی کتاب الرسالہ یا الام ہی تینوں ائمہ کے اصول ہیں تو اہل علم کے لیے تو اس بات کا ضعف واضح ہے۔ عوام کے لیے واضح کرنا چاہتا ہوں کہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کے اصولوں میں فرق ہے اور اسی کی وجہ سے ان کے مذاہب میں بھی فرق واقع ہوا ہے۔ اس کی مثال امام مالک کا اجماع اہل المدینہ کا اصول اور امام احمد كا حدیث كے زیاده سے زیاده ظاہر کو لینے کا اصول ہیں۔اس کے علاوہ ہم امام احمد کے مذہب کے لیے تو پھر بھی یہ فرض کر سکتے ہیں کہ امام شافعی کے اصول ہی ان کے اصول بھی ہوں لیکن امام مالک امام شافعی سے پہلے گزرے ہیں۔ اس لیے امام شافعیؒ کی کتاب الرسالۃ یا الام ان کے بعد لکھی گئی ہیں اور ان کے اصول ان کتب سے حاصل نہیں کیے جا سکتے۔
اس کے بعد ہم اصل سوال کی طرف آتے ہیں کہ ان تینوں مذاہب کے اصول آخر بعد میں مدون کیوں ہوئے اور اصول کے بغیر ان مذاہب کی تدوین کیسے ہوئی؟
ہر علم چاہے وہ دینی ہو یا دنیوی اس کے اصول اس علم کے وجود میں آنے کے بعد مدون ہوتے ہیں۔ جیسے علم النحو اور علم البلاغۃ وغیرہ بعد میں مدون ہوئے جب کہ فصیح عربی زبان اس سے پہلے سے چلی آرہی تھی۔ علم القوافی بعد میں مدون ہوا حالانکہ عرب کے بڑے بڑے شعراء اس سے پہلے گزرے ہیں۔ علوم الحدیث سب بعد میں مدون ہوئے حالانکہ حدیث مبارکہ نبی کریم ﷺ سے چلی آ رہی تھیں اور صحابہ نے احادیث کو باقاعدہ رد اور قبول کیا ہے جیسا کہ مقدمہ مسلم میں ذکر ہے۔ درحقیقت ان علوم کے اصول میزان ہوتے ہیں جو ما قبل علم کو پرکھنے اور سمجھنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور ہر چیز کا میزان اس کے بعد وجود میں آتا ہے۔
شیخ ابو زہرہ لکھتے ہیں:
ولا غرابۃ في أن یكون البحث في فروع اكفقه و تدوینها متقدما علی تدوین اصول الفقه، لأنه إذا كان علم أصول الفقه موازین لضبط الاستنباط و معرفۃ الخطأ من الصواب فهو علم ضابط، و المادۃ هي الفقه، و كذلك في كل العلوم الضابطۃ، فالنحو متأخر عن النطق بالفصحی۔۔۔۔الخ
(اصول الفقه 1۔13، ط: دار الفکر العربی)
ترجمہ: اور اس میں کوئی عجیب بات نہیں ہے کہ فروع فقہ کی بحث اور تدوین اصول فقہ کی تدوین سے مقدم ہے، کیوں کہ جب اصول فقہ استنباط کو سمجھنے اور درست بات سےغلطی کو جاننےکا پیمانہ ہے تو وہ ضبط کرنے والا علم ہے، اور اسی طرح تمام ضبط کرنے والے علوم میں ہوتا ہے، سو نحو فصیح گفتگو کے بعد آئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
ابن خلدون کی یہ رائے ہے کہ اسلاف کو اس علم کی ضرورت ہی نہیں تھی اس وجہ سے اس علم کو مدون نہیں کیا گیا۔
(واعلم) أنّ هذا الفنّ من الفنون المستحدثة في الملّة وكان السّلف في غنية عنه بما أنّ استفادة المعاني من الألفاظ لا يحتاج فيها إلى أزيد ممّا عندهم من الملكة اللّسانيّة. وأمّا القوانين الّتي يحتاج إليها في استفادة الأحكام خصوصا فمنهم أخذ معظمها. وأمّا الأسانيد فلم يكونوا يحتاجون إلى النّظر فيها لقرب العصر وممارسة النّقلة وخبرتهم بهم. فلمّا انقرض السّلف وذهب الصّدر الأوّل وانقلبت العلوم كلّها صناعة كما قرّرناه من قبل احتاج الفقهاء والمجتهدون إلى تحصيل هذه القوانين والقواعد لاستفادة الأحكام من الأدلّة فكتبوها فنا قائما برأسه سمّوه أصول الفقه.
(مقدمۃ ابن خلدون ، 1۔576، ط: دار الفکر)
ترجمہ: اور جان لو یہ فن امت میں نئے فنون میں سے ہے اور سلف اس سے مستغنی تھےکیوں کہ الفاظ سے معانی حاصل کرنے میں جو زبان کا ملکہ ان کے پاس تھا اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں تھی۔ اور وہ قوانین جن کی احکام کو حاصل کرنے میں خاص طور پر ضرورت ہوتی ہے تو ان میں سے بعض نے ان قوانین کا اکثر حصہ اخذ کر لیا تھا۔ اور اسانید میں غور و فکر کرنے کی انہیں زمانے کے قریب ہونے اور رواۃ سے ملتے رہنے اور ان کی حالت معلوم ہونے کی وجہ سے ضرورت نہیں تھی۔ پھر جب سلف گزر گئے اور پہلا زمانہ چلا گیا اور تمام علوم فن بن گئے، جیساکہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، تو فقہاء اور مجتہدین کو دلائل سے احکام حاصل کرنے کے لیے ان قوانین کے بنانے کی ضرورت ہوئی تو انہوں نے اسے ایک مستقل فن کے طور پر لکھا اور اس کا نام اصول فقہ رکھا۔
ان آراء کو ڈاکٹر مصطفی زحیلی نے بھی الوجیز میں نقل کیا ہے۔
یہ ساری بحث اصول فقہ کی تدوین کے بارے میں ہے۔ اصول فقہ کا وجود اس سے پہلے جب فن فقہ وجود میں آیا تب سے ہی تھا۔ یہ عقلاً محال ہے کہ کوئی فن یا علم اپنے اصولوں کی موجودگی کے بغیر کیف ما اتفق بن جائے۔ تدوین اگرچہ بعد میں ہو لیکن اس علم سے متعلق ہر ماہر کے ذہن میں اصول موجود ہوتے ہیں۔ ہم ان اصول کو دیکھتے ہیں جو تدوین سے پہلے ہمیں ملتے ہیں:
دور نبوی میں اصول فقہ:
حدثنا حفص بن عمر، عن شعبة، عن أبي عون، عن الحارث بن عمرو ابن أخي المغيرة بن شعبة، عن أناس من أهل حمص، من أصحاب معاذ بن جبل، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما أراد أن يبعث معاذا إلى اليمن قال: «كيف تقضي إذا عرض لك قضاء؟»، قال: أقضي بكتاب الله، قال: «فإن لم تجد في كتاب الله؟»، قال: فبسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «فإن لم تجد في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا في كتاب الله؟» قال: أجتهد رأيي، ولا آلو فضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم صدره، وقال: «الحمد لله الذي وفق رسول، رسول الله لما يرضي رسول الله»
(سنن ابی داؤد، 3۔303،ط: العصریہ)
ترجمہ: حضرت معاذ بن جبل رض کے اصحاب میں اہل حمص کے بعض لوگوں سے روایت ہے کہ جب نبی کریم ﷺ نے معاذ رض کو یمن بھیجنے کا ارادہ کیا تو فرمایا: جب تمہارے پاس فیصلہ آئے گا تو کیسے فیصلہ کروگے؟ حضرت معاذ نے عرض کیا: میں اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا۔ فرمایا: اگر کتاب اللہ میں نہ پاؤ؟عرض کیا: رسول اللہ ﷺ کی سنت سے کروں گا۔ فرمایا: اگر سنت میں بھی نہ پاؤ اور نہ کتاب اللہ میں؟ حضرت معاذ رض نے عرض کیا: میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوتاہی نہیں کروں گا۔ تو نبی کریم ﷺ نے ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا:تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اللہ کے رسول کے رسول کو اس بات کی توفیق دی جس پر اللہ کا رسول راضی ہے۔
(اس روایت کو البانیؒ نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن اس کی صحت کے لیے تلقی بالقبول حاصل ہونا کافی ہے۔ اس حدیث پر ہر دور میں عمل ہوتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی صحت پر ابن قیمؒ نے اعلام الموقعین میں بحث کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔)
اس روایت میں جو بنیادی اصول ذکر ہیں یہ ہمیشہ سے فقہاء کے اصول رہے ہیں اور سوائے اہل ظاہر کے کسی نے ان کا انکار نہیں کیا۔
دور صحابہ میں اصول فقہ:
قال أبو عُبيد في كتاب "القضاء": ثنا كَثير بن هِشَام، عن جعفر بن بُرْقَان، عن مَيْمون بن مَهْران قال: كان أبو بكر الصِّدِّيق إذا ورَدَ عليه حكمٌ؛ نَظَرَ في كتاب اللَّه تعالى، فإن وَجَد فيه ما يقضي به قضى به، وإن لم يجد في كتاب اللَّه نَظَر في سنة رسول اللَّه -رضي اللَّه عنه- فإن وَجَد فيها ما يقضي به قضى به، فإن أعياه ذلك سأل الناسَ: هل علمتم أن رسول اللَّه -صلى اللَّه عليه وسلم- قَضَى فيه بقضاء؟ فربما قام إليه القومُ فيقولون: قضى فيه بكذا وكذا، فإن لم يجد سُنَّةً سَنَّها النبي -صلى اللَّه عليه وسلم- جَمَع رؤساء الناس فاستشارهم، فإذا اجتمع رأيُهم على شيء قضى به
وكان عمر يفعل ذلك، فإذا أعياه أن يجدَ ذلك في الكتاب والسنة سأل: هل كان أبو بكر قضى فيه بقضاء؟ فإن كان لأبي بكر [فيه] قَضاءٌ قضى به، وإلا جَمَعَ علماء الناس واستشارهم، فإذا اجتمع رأيُهم على شيء قضى به
(اعلام الموقعین، 2۔115، ط: دار ابن الجوزی)
ترجمہ: میمون بن مہران سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی مسئلہ آتا تھا کتاب اللہ میں دیکھتے تھے، اگر اس میں اس کا فیصلہ ملتا تو اس سے فیصلہ کر دیتے، اور اگر کتاب اللہ میں نہیں ملتا تو سنت رسول ﷺ میں دیکھتے، اس میں فیصلہ ملتا تو اس کے مطابق کر دیتے۔ اور اگر اس سے تھک جاتے (یعنی نہ ملتا) تو لوگوں سے پوچھتے: کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اس بارے میں کوئی فیصلہ دیا ہے؟ تو بسا اوقات لوگ کھڑے ہوتے اور کہتے کہ اس میں فلاں فلاں فیصلہ کیا ہے۔ پھر اگر کوئی ایسی سنت نہیں پاتے جسے نبی ﷺ نے اختیار کیا ہوتو لوگوں کے سرداروں کو جمع کر کے ان سے مشورہ کرتے، جب ان کی رائے کسی بات پر جمع ہو جاتی تو اس کا فیصلہ کر دیتے۔
اور عمر رض بھی یہی کیا کرتے تھے، جب وہ کتاب اور سنت میں پانے سے تھک جاتے تو پوچھتے: کیا ابو بکر رض نے اس بارے میں کوئی فیصلہ کیا ہے؟ تو اگر اس میں ابو بکر رض کا کوئی فیصلہ ہوتا تو وہ کر دیتے۔ ورنہ لوگوں کے علماء کو جمع کر کے ان سے مشورہ کرتے۔ جب ان کی رائے کسی بات پر ایک ہو جاتی تو اس کا فیصلہ کر دیتے۔
(اس روایت کے تمام رواۃ ثقات ہیں لیکن یہ روایت مرسل ہے۔ لیکن اول اس سے احکام کا ثبوت نہیں کیا جا رہا۔ ثانی مرسل بہت سے علماء اسلاف کے نزدیک قابل احتجاج ہے۔)
قرآن و سنت اور اجماع کا اصول بھی اصول فقہ میں مذکور ہے اور اسی ترتیب سے ہے۔
عن محمد بن سيرين في حديث۔۔۔۔۔ فلقيت مالك بن عامر، أو مالك بن عوف قلت: كيف كان قول ابن مسعود في المتوفى عنها زوجها وهي حامل؟ فقال: قال ابن مسعود: " أتجعلون عليها التغليظ، ولا تجعلون لها الرخصة، لنزلت سورة النساء القصرى بعد الطولى
(بخاری، 6۔30، ط: دار طوق النجاۃ)
ترجمہ: محمد بن سیرینؒ سے ایک حدیث میں روایت ہے۔۔۔۔ میں مالک بن عامر (یا کہا) مالک بن عوف سے ملا۔ میں نے کہا: جو عورت حاملہ ہو اور اس کا شوہر فوت ہو جائے اس کے بارے میں ابن مسعود رض کا کیا قول ہے؟ انہوں نے کہا: ابن مسعود رض کا فرمان ہے:کیا تم لوگ اس پر سختی کرتے ہو اور اسے رخصت نہیں دیتے؟ چھوٹی سورۃ النساء (یعنی سورۃ الطلاق) لمبی والی کے بعد نازل ہوئی ہے۔
ناسخ و منسوخ کا اصول بھی اصول فقہ کا اہم اصول ہے۔
مالك، عن ثور بن زيد الديلي ؛ أن عمر بن الخطاب استشار في الخمر يشربها الرجل. فقال له علي بن أبي طالب: نرى أن نجلده ثمانين. فإنه إذا شرب سكر. وإذا سكر هذي. وإذا هذي افترى. أو كما قال. فجلد عمر في الحد ثمانين.
(موطا امام مالک، 5۔1235، ط: مؤسسۃ زاید بن سلطان)
ترجمہ: امام مالک ثور بن زید الدیلی سے روایت کرتے ہیں کہ عمر بن الخطاب رض نے کوئی بندہ شراب پی لے، اس کے بارے میں مشورہ کیا تو علی بن ابی طالب رض نے فرمایا: ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسے اسی کوڑے لگائیں کیوں کہ جب شراب پیے گا تو نشہ ہوگا، نشہ ہوگا تو بہکی باتیں کرے گا، اور بہکی باتیں کرے گا تو بہتان لگائے گا۔ یا جیسے کہا۔ تو عمر رض نے حد میں اسی کوڑے لگائے۔
ایک نظیر کو دیکھ کر دوسری نظیر کا حکم نکالنا اور استنباط کرنا بھی اصول فقہ کا ایک اصول ہے۔
اصول فقہ بعد کے ادوار میں:
صحابہ کرام رض کے بعد تابعین اور ائمہ مجتہدین کا دور آتا ہے۔ اس میں بھی ہمیں اصول فقہ موجود ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر امام مالکؒ نے لیث بن سعدؒ کو خط لکھا تھا جس میں اپنے اصول "اجماع اہل مدینہ" کی وضاحت کی۔ اسی طرح امام ابوحنیفہؒ کے اصول کے بارے میں مشہور روایت ہے جس میں وہ خود اپنا طرز عمل بتاتے ہیں۔ ان کے علاوہ مجتہدین کے بھی اپنے اصول تھے جن پر انہوں نے مسائل کی تخریج کی۔
خلاصہ کلام:
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ اعتراض کرنا کہ کوئی بھی فقہ پہلے مدون ہوئی ہے اور اس کے اصول بعد میں مسائل سے دیکھ کر نکالے گئے ہیں، درست نہیں۔ اس لیے کہ فقہ کی تدوین کے لیے اصول کی تدوین کے بجائے اصول کا وجود ضروری ہوتا ہے اور وہ موجود تھے۔ رہ گئی تدوین تو وہ اس لیے بعد میں ہوئی کہ ہر علم کے اصول بعد میں ہی مدون ہوتے ہیں اور بطور میزان کے ہوتے ہیں۔
واللہ اعلم