محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,799
- پوائنٹ
- 1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اعادہ روح اور عذاب قبر :
شیخ محترم محمد رفیق طاہر حفظہ اللہ
الحمد لله رب العالمين , والصلاة والسلام على سيد الأنبياء والمرسلين , وعلى اصحابه أجمعين , ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين ؛ وبعد !
اللہ رب العالمین نے خزانہء غیب سے آخرت کے کچھ احوال ہم پر منکشف فرمائے ہیں اور اہل ایمان سے مطالبہ کیا ہے کہ ان پر بِن دیکھے ایمان لائیں , انکی فکر رسا احوال آخرت کو سمجھنے سے کوتاہ ہے لیکن پھر بھی ان باتوں پر ایمان لانا جزو ایمان قرار دیا گیا ہے ۔اور وحی الہی یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم میں کہیں اجمالا تو کہیں قدرے تفصیلا یہ احوال بیان ہوئے ہیں ۔ اخروی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے , ایک موت سے روز محشر تک اور دوسرا یوم قیامہ سے ابد الآباد تک ۔اہل اسلام اپنے مضبوط عقائد ونظریات کی بناء پر دنیا کی ایک ممتاز قوم بن کر ابھرے تو اہل فتنہ نے ایمان والوں کے عقائد میں تشکیک و اوہام پیدا کرکے انہیں کمزور کرنے کی سر توڑ کوششیں شروع کر دیں ۔ انہی مذموم کاوشوں میں سے ایمان بالآخرت کو چیستاں بنانے کی کوشش بھی ہے ۔ اور اس میں سے بھی اخروی زندگی کے پہلے حصہ یعنی قبر وبرزخ سے متعلق شبہات , اخروی زندگی کے دوسرے حصہ یعنی بعد از قیام ساعہ کے بارہ میں شبہات کی نسبت کہیں زیادہ ہیں
در اصل آخرت کا عقیدہ ہی وہ عقیدہ ہے جو اہل اسلام کو اللہ کی بغاوت سے روکتا ہے , کہ دنیا کے قوانین اور دنیا کی سزاؤں سے تو انسان کسی نہ کسی حیلہ سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے لیکن آخرت میں اللہ تعالى کی پکڑ سے بچنا محال ہے ۔ لہذا اہل ایمان آخرت پر یقین رکھنے اور اپنے رب کے سامنے کھڑے ہو کر حساب دینے سے خائف ہونے کی بناء پر شریعت کی پابندی کرتے ہیں اور اگر کبھی ان سے کوئی خلاف ورزی ہو بھی جاتی ہے تو دنیا کے عذاب کو آخرت کے عذاب سے کم تر خیال کرتے ہوئے خود کو سزا (قصاص یا حد یا تعزیر) کے لیے پیش کر دیتے ہیں ۔ الغرض ایمان بالآخرت ہی وہ مضبوط عقیدہ ہے کہ جس کی بناء پر اہل ایمان اپنے رب کی طرف رجوع کرتے , اوامر کو بجالاتے , اور نواہی سے اجتناب کرتے ہیں ۔ سو اسی حصار کو توڑنے کے لیے آخرت کے بارہ میں شکوک پیدا کرنے کی مذموم سعی شروع ہوئی اور اخروی زندگی کے پہلے مرحلہ یعنی قبر وبرزخ کو اسکا ہدف اولیں قرار دیا گیا ۔ کہ اگر آخرت کامعاملہ ہی مشکوک ہو گیا تو مسلمان پھر مسلمان نہیں رہیں گے ۔
ستم بالائے ستم یہ کہ مسلمانوں میں یہ تشکیک پیدا کرنے بھی نام نہاد مسلمان ہی ہیں اور وہ اپنے سوا سب کو کافر سمجھتے ہیں , جو انکا ہمنوا و ہم خیال ہوا وہ جماعت المسلمین میں شامل , اور جس نے ان سے اختلاف کیا وہ جماعت المسلمین سے نکل کر جماعت الکافرین میں داخل ! (والعیاذ باللہ)
اور پھر اپنے باطل عقائد کو ثابت کرنے کے لیے وہ قرآن مجید فرقان حمید کی آیات بینات کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں اور انکی معنوی تحریف کرکے عوام الناس کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں , اور انہی آیات کی تشریح وتوضیح میں وارد احادیث کو خلاف قرآن کہہ کر رد کر دیتے ہیں ۔ جبکہ اللہ تعالى نے قرآن مجید میں یہ خاصیت رکھی ہے کہ
" لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ" (فصلت:42)
باطل نہ تو اسکے سامنے سے آسکتا ہے اور نہ پیچھے سے , یہ بہت ہی باحکمت اور تعریف کیے گئے کی طرف سے نازل شدہ ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ جو آیات وہ اپنے نظریہ کے اثبات میں پیش کرتے ہیں ہم انہی آیات سے انکے نظریہ کا رد ثابت کر دیتے ہیں ۔ راقم الحروف کے اسی موضوع (اعادہ روح, عذاب قبر) پر نام نہاد جماعت المسلمین سے کئی مناظرے ہوئے ہیں , اور اسکے علاوہ دیگر عنوانات پر بھی , لیکن یہ موضوع انکا مرکزی موضوع ہے ۔ اسی وجہ سے اس عنوان پر وہ مناظرہ کرنے سے باز نہیں آتے , گوکہ ہر بار انہیں ہزیمت کا ہی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
زیر نظر مضمون میں اسی موضوع پر ہم مختصر ا کتاب وسنت کے دلائل سے اہل السنہ والجماعہ کا موقف بھی واضح کریں گے اور ا س پر وارد اشکالات اور شبہات کا علمی محاکمہ بھی پیش کریں گے ۔ ان شاء اللہ ۔
اور ہم اللہ تعالى سے دعاء گو ہیں کہ اللہ اس کاوش کو اہل اسلام کے لیے نفع بخش بنا دے اور ہمارے لیے اسے توشہء آخرت کر دے ۔ اور اگر اس میں کوئی لغزش یا کمی رہ جائے تو اپنی رحمت سے اس پر ہمیں معاف فرما دے ۔
اعادہ روح و عذاب قبر وبرزخ سے متعلق جامع حدیث
عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي جِنَازَةِ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَانْتَهَيْنَا إِلَى الْقَبْرِ، وَلَمَّا يُلْحَدْ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ، كَأَنَّ عَلَى رُءُوسِنَا الطَّيْرَ، وَفِي يَدِهِ عُودٌ يَنْكُتُ فِي الْأَرْضِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: " اسْتَعِيذُوا بِاللهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ مَرَّتَيْنِ، أَوْ ثَلَاثًا، "، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ الْعَبْدَ الْمُؤْمِنَ إِذَا كَانَ فِي انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْيَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الْآخِرَةِ، نَزَلَ إِلَيْهِ مَلَائِكَةٌ مِنَ السَّمَاءِ بِيضُ الْوُجُوهِ، كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الشَّمْسُ، مَعَهُمْ كَفَنٌ مِنْ أَكْفَانِ الْجَنَّةِ، وَحَنُوطٌ مِنْ حَنُوطِ الْجَنَّةِ، حَتَّى يَجْلِسُوا مِنْهُ مَدَّ الْبَصَرِ، ثُمَّ يَجِيءُ مَلَكُ الْمَوْتِ، عَلَيْهِ السَّلَامُ، حَتَّى يَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَيَقُولُ: أَيَّتُهَا النَّفْسُ الطَّيِّبَةُ، اخْرُجِي إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنَ اللهِ وَرِضْوَانٍ ". قَالَ: " فَتَخْرُجُ تَسِيلُ كَمَا تَسِيلُ الْقَطْرَةُ مِنْ فِي السِّقَاءِ، فَيَأْخُذُهَا، فَإِذَا أَخَذَهَا لَمْ يَدَعُوهَا فِي يَدِهِ طَرْفَةَ عَيْنٍ حَتَّى يَأْخُذُوهَا، فَيَجْعَلُوهَا فِي ذَلِكَ الْكَفَنِ، وَفِي ذَلِكَ الْحَنُوطِ، وَيَخْرُجُ مِنْهَا كَأَطْيَبِ نَفْحَةِ مِسْكٍ وُجِدَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ " قَالَ: " فَيَصْعَدُونَ بِهَا، فَلَا يَمُرُّونَ، يَعْنِي بِهَا، عَلَى مَلَإٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ، إِلَّا قَالُوا: مَا هَذَا الرُّوحُ الطَّيِّبُ؟ فَيَقُولُونَ: فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، بِأَحْسَنِ أَسْمَائِهِ الَّتِي كَانُوا يُسَمُّونَهُ بِهَا فِي الدُّنْيَا، حَتَّى يَنْتَهُوا بِهَا إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَسْتَفْتِحُونَ لَهُ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ فَيُشَيِّعُهُ مِنْ كُلِّ سَمَاءٍ مُقَرَّبُوهَا إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي تَلِيهَا، حَتَّى يُنْتَهَى بِهِ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ، فَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: اكْتُبُوا كِتَابَ عَبْدِي فِي عِلِّيِّينَ، وَأَعِيدُوهُ إِلَى الْأَرْضِ، فَإِنِّي مِنْهَا خَلَقْتُهُمْ، وَفِيهَا أُعِيدُهُمْ، وَمِنْهَا أُخْرِجُهُمْ تَارَةً أُخْرَى ". قَالَ: " فَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ، فَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ، فَيُجْلِسَانِهِ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: رَبِّيَ اللهُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ: دِينِيَ الْإِسْلَامُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ فَيَقُولُ: هُوَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولَانِ لَهُ: وَمَا عِلْمُكَ؟ فَيَقُولُ: قَرَأْتُ كِتَابَ اللهِ، فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ، فَيُنَادِي مُنَادٍ فِي السَّمَاءِ: أَنْ صَدَقَ عَبْدِي، فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَأَلْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ ". قَالَ: " فَيَأْتِيهِ مِنْ رَوْحِهَا، وَطِيبِهَا، وَيُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ مَدَّ بَصَرِهِ ". قَالَ: " وَيَأْتِيهِ رَجُلٌ حَسَنُ الْوَجْهِ، حَسَنُ الثِّيَابِ، طَيِّبُ الرِّيحِ، فَيَقُولُ: أَبْشِرْ بِالَّذِي يَسُرُّكَ، هَذَا يَوْمُكَ الَّذِي كُنْتَ تُوعَدُ، فَيَقُولُ لَهُ: مَنْ أَنْتَ؟ فَوَجْهُكَ الْوَجْهُ يَجِيءُ بِالْخَيْرِ، فَيَقُولُ: أَنَا عَمَلُكَ الصَّالِحُ، فَيَقُولُ: رَبِّ أَقِمِ السَّاعَةَ حَتَّى أَرْجِعَ إِلَى أَهْلِي، وَمَالِي ". قَالَ: " وَإِنَّ الْعَبْدَ الْكَافِرَ إِذَا كَانَ فِي انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْيَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الْآخِرَةِ، نَزَلَ إِلَيْهِ مِنَ السَّمَاءِ مَلَائِكَةٌ سُودُ الْوُجُوهِ، مَعَهُمُ الْمُسُوحُ، فَيَجْلِسُونَ مِنْهُ مَدَّ الْبَصَرِ، ثُمَّ يَجِيءُ مَلَكُ الْمَوْتِ، حَتَّى يَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَيَقُولُ: أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ، اخْرُجِي إِلَى سَخَطٍ مِنَ اللهِ وَغَضَبٍ ". قَالَ: " فَتُفَرَّقُ فِي جَسَدِهِ، فَيَنْتَزِعُهَا كَمَا يُنْتَزَعُ السَّفُّودُ مِنَ الصُّوفِ الْمَبْلُولِ، فَيَأْخُذُهَا، فَإِذَا أَخَذَهَا لَمْ يَدَعُوهَا فِي يَدِهِ طَرْفَةَ عَيْنٍ حَتَّى يَجْعَلُوهَا فِي تِلْكَ الْمُسُوحِ، وَيَخْرُجُ مِنْهَا كَأَنْتَنِ رِيحِ جِيفَةٍ وُجِدَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ، فَيَصْعَدُونَ بِهَا، فَلَا يَمُرُّونَ بِهَا عَلَى مَلَأٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ، إِلَّا قَالُوا: مَا هَذَا الرُّوحُ الْخَبِيثُ؟ فَيَقُولُونَ: فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ بِأَقْبَحِ أَسْمَائِهِ الَّتِي كَانَ يُسَمَّى بِهَا فِي الدُّنْيَا، حَتَّى يُنْتَهَى بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيُسْتَفْتَحُ لَهُ، فَلَا يُفْتَحُ لَهُ "، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ} [الأعراف: 40] فَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: " اكْتُبُوا كِتَابَهُ فِي سِجِّينٍ فِي الْأَرْضِ السُّفْلَى، فَتُطْرَحُ رُوحُهُ طَرْحًا ". ثُمَّ قَرَأَ: {وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللهِ، فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ} [الحج: 31] " فَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ، وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ، فَيُجْلِسَانِهِ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي، فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ أَنْ كَذَبَ، فَافْرِشُوا لَهُ مِنَ النَّارِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى النَّارِ، فَيَأْتِيهِ مِنْ حَرِّهَا، وَسَمُومِهَا، وَيُضَيَّقُ عَلَيْهِ قَبْرُهُ حَتَّى تَخْتَلِفَ فِيهِ أَضْلَاعُهُ، وَيَأْتِيهِ رَجُلٌ قَبِيحُ الْوَجْهِ، قَبِيحُ الثِّيَابِ، مُنْتِنُ الرِّيحِ، فَيَقُولُ: أَبْشِرْ بِالَّذِي يَسُوءُكَ، هَذَا يَوْمُكَ الَّذِي كُنْتَ تُوعَدُ، فَيَقُولُ: مَنْ أَنْتَ؟ فَوَجْهُكَ الْوَجْهُ يَجِيءُ بِالشَّرِّ، فَيَقُولُ: أَنَا عَمَلُكَ الْخَبِيثُ، فَيَقُولُ: رَبِّ لَا تُقِمِ السَّاعَةَ "
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری شخص کے جنازہ میں گئے اور قبر تک پہنچے ,لیکن قبر ابھی تک کھودی نہیں گئی تھی ۔ تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد ایسے بیٹھ گئے کہ گویا ہمارے سروں پر پرندے ہیں , اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جسکے ساتھ آپ صلى اللہ علیہ وسلم زمین کرید رہے تھے , آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور دو یا تین مرتبہ فرمایا "قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو" پھر فرمایا "جب مؤمن دنیا سے رخصت اور آخرت کے سفر پر گامزن ہوتا ہے تو اسکے پاس ایسے سفید چہروں والے فرشتے آسمان سے اترتے ہیں گویا کہ انکے چہرے سورج ہیں , انکے پاس جنت کے کفنوں میں سے ایک کفن ہوتا ہے اور جنت کی خوشبو میں سے ایک خوشبو ہوتی ہے , حتى کہ وہ اسکی تاحد نگاہ بیٹھ جاتے ہیں , پھر ملک الموت آتا ہے اور اسکے سر کے پاس بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے " اے پاک جان اللہ کی مغفرت اور رضا مندی کی طرف نکل چل " آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "تو وہ ایسے بہہ کر نکلتی ہے جیسے مشکیزے کے منہ سے قطرہ بہتا ہے , تو وہ اسے پکڑ لیتا ہے , اور جونہی وہ اسے پکڑتا وہ (دیگر فرشتے) پل بھر بھی اسکے ہاتھ میں نہیں رہنے دیتے بلکہ اسے لے لیتے ہیں اور اس کفن اور خوشبو میں ڈال دیتے ہیں۔ اور روئے ارض کی بہترین کستوری کی خوشبو کی طرح اس میں سے (مہک) نکلتی ہے ۔ تو وہ اسے لے کر اوپر کی جانت چڑھتے ہیں تو فرشتوں کے جس کسی گروہ کے پاس سے بھی گزرتے ہیں تو وہ لوگ یہ ضرور پوچھتے ہیں یہ پاکیزہ روح کیا ہے ؟ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ یہ فلاں بن فلاں ہے , دنیا میں جن اچھے اچھے ناموں سے اسے پکارا جاتا تھا (وہ نام یہ ذکر کرتے ہیں) حتى کہ آسمان دنیا تک اسے لے کر پہنچ جاتے ہیں تو دستک دیتے ہیں تو انکے لیے دروازہ کھول دیا جاتا ہے پھر ہر آسمان کے مقرب فرشتے اگلے آسمان تک انکے ہمنوا ہوجاتے ہیں حتى کہ اسے ساتویں آسمان تک لے جایا جاتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتے ہیں "میرے بندے کا اندراج علیین میں کر دو, اور اسے زمین کی طرف لوٹا دو ,یقینا میں نے اسی سے انکو پیدا کیا ہے , اور اسی میں انکو لوٹاؤں گا , اور اسی سے انہیں دوسری مرتبہ نکالوں گا" آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " پھر اسکی روح اسکے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے ,تواسکے پاس دو فرشتے آتے ہیں , اسے بیٹھاتے ہیں ,اور پوچھتے ہیں تیرا رب کون ہے ؟ تو یہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے ۔ تو وہ کہتے ہیں تیرا دین کیا ہے ؟ تو وہ جواب دیتا ہے کہ میرا دین اسلام ہے ۔ تو وہ اسے کہتے ہیں یہ شخص جو تم میں مبعوث کیا گیا تھا کون ہے ؟ تو وہ کہتا ہے وہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ وہ اسے کہتے ہیں تیرا علم کیا ہے ؟ (یعنی تجھے یہ سب کیسے معلوم ہوا ) تو وہ کہتا ہے میں نے اللہ کی کتاب کو پڑھا , اس پر ایمان لایا , اور تصدیق کی ۔ تو آسمان میں ایک منادی آواز لگاتا ہے : میرے بندے نے سچ کہا , لہذا اسکے لیے جنت کا بچھونا بچھا دو , اور اسے خلعت جنت پہنا دو , اور اسکے لیے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو ۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اسکے پاس جنت کی ہوا اور خوشبو آتی ہے , اور اسکے لیے اسکی قبر میں تا حد نگاہ وسعت کر دی جاتی ہے ۔ اور اسکے پاس خوبصورت چہرے والا , عمدہ لباس والا , اور اچھی خوشبو والا ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے
تمہیں خوشخبری مبارک ہو یہ وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا وہ اس سے پوچھتاے کہ تم کون ہو؟ کہ تمہارا چہرہ ہی خیر کا پتہ دیتا ہے وہ جواب دیتا ہے کہ میں تمہارا نیک عمل ہوں اس پر وہ کہتا ہے کہ پروردگار! قیامت ابھی قائم کردے تاکہ میں اپنے اہل خانہ اور مال میں واپس لوٹ جاؤں ۔ اور جب کوئی کافر شخص دنیا سے رخصتی اور سفر آخرت پر جانے کے قریب ہوتا ہے تو اس کے پاس آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے اتر کر آتے ہیں جن کے پاس ٹاٹ ہوتے ہیں وہ تاحد نگاہ بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت يآکر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ اے نفس خبیثہ ! اللہ کی ناراضگی اور غصے کی طرف چل یہ سن کر اس کی روح جسم میں دوڑنے لگتی ہے اور ملک الموت اسے جسم سے اس طرح کھینچتے ہیں جیسے گیلی اون سے سیخ کھینچی جاتی ہے اور اسے پکڑ لیتے ہیں فرشتے ایک پلک جھپکنے کی مقدار بھی اسے ان کے ہاتھ میں نہیں چھوڑتے اور اس ٹاٹ میں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے مردار کی بدبوجیسا ایک ناخوشگوار اور بدبودار جھونکا آتا ہے۔ پھر وہ اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے ان کا گذر ہوتا ہے وہی گروہ کہتا ہے کہ یہ کیسی خبیث روح ہے؟ وہ اس کا دنیا میں لیا جانے والا بدترین نام بتاتے ہیں یہاں تک کہ اسے لے کر آسمان دنیا میں پہنچ جاتے ہیں ۔ در کھلواتے ہیں لیکن دروازہ نہیں کھولاجاتا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی " ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہوں گے تاوقتیکہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہوجائے " اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس کانامہ اعمال " سجین " میں سے نچلی زمین میں لکھ دو چنانچہ اس کی روح کو پھینک دیا جاتا ہے پھر یہ آیت تلاوت فرمائی جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ ایسے ہے جیسے آسمان سے گرپڑا پھر اسے پرندے اچک لیں یا ہوا اسے دوردراز کی جگہ میں لے جاڈالے ۔ " پھر اس کی روح جسم میں لوٹادی جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آکر اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے ہائے افسوس ! مجھے کچھ پتہ نہیں ، وہ اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟ وہ پھر وہی جواب دیتا ہے وہ پوچھتے ہیں کہ وہ کون شخص تھا جو تمہاری طرف بھیجا گیا تھا؟ وہ پھر وہی جواب دیتا ہے اور آسمان سے ایک منادی پکارتا ہے کہ یہ جھوٹ بولتا ہے ، اس کے لئے آگ کا بستر بچھادو اور جہنم کا ایک دروازہ اس کے لئے کھول دو چنانچہ وہاں کی گرمی اور لو اسے پہنچنے لگتی ہے اور اس پر قبر تنگ ہوجاتی ہے حتیٰ کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں پھر اس کے پاس ایک بدصورت آدمی گندے کپڑے پہن کر آتا ہے جس سے بدبو آرہی ہوتی ہے اور اس سے کہتا ہے کہ تجھے خوشخبری مبارک ہویہ وہی دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ پوچھتا ہے کہ تو کون ہے ؟ کہ تیرے چہرے ہی سے شر کی خبر معلوم ہوتی ہے وہ جواب دیتا ہے کہ میں تیراگندہ عمل ہوں تو اللہ کی اطاعت کے کاموں میں سست اور اس کی نافرمانی کے کاموں میں چست تھا لہٰذا اللہ نے تجھے برا بدلہ دیاہے پھر اس پرا ایک ایسے فرشتے کو مسلط کردیا جاتا ہے جواندھا، گونگا اور بہرا ہو اس کے ہاتھ میں اتنا بڑا گرز ہوتا ہے کہ اگر کسی پہاڑ پر مارا جائے تو وہ مٹی ہوجائے اور وہ اس گرز سے اسے ایک ضرب لگاتا ہے اور وہ ریزہ ریزہ جاتا ہے پھر اللہ اسے پہلے والی حالت پر لوٹادیتا ہے پھر وہ اسے ایک اور ضرب لگاتا ہے جس سے وہ اتنی زور سے چیخ مارتا ہے کہ جن و انس کے علاوہ ساری مخلوق اسے سنتی ہے پھر اس کے لئے جہنم کا ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور آگ کا فرش بچھادیا جاتاہے۔
(مسند احمد :1854)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ :
- موت کے وقت روح کو قبض کر لیا جاتا ہے ۔
- نیک شخص کی روح کے لیے آسمانوں کے دروازے کھلتے ہیں , جبکہ فاسق کی روح کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھلتے ۔
- علیین اور سجین کسی جگہ کا نام نہیں بلکہ "کتاب مرقوم" ہے جن میں نیک وبد کا اندراج کیا جاتا ہے ۔
- مرنے کے بعد قیامت سے قبل ہی ہر نیک وبد کی روح اسکے بدن میں لوٹا دی جاتی ہے ۔
- قبر میں سوال وجواب ہوتے ہیں ۔
- قبر میں جزاء یا سزا بھی ہوتی ہے ۔
- قبر میں بطور جزاء جنت کی ہوائیں , لباس اور خوشبو وغیرہ میسر آتی ہے ۔یعنی قبر وبرزخ میں بھی کسی قدر جنت کی نعمتیں میسر آتی ہیں ۔
- قبر کے عذاب میں جہنم کی لو, لباس , بستر , اور بدبو وغیرہ شامل ہیں۔یعنی قبر میں بھی کسی قدر جہنم کا عذاب ہوتا ہے۔
- قبر کے سوالوں میں وہ شخص کامیاب ہوتا ہے جو کتاب اللہ کو پڑھے سمجھے اور اسکی تصدیق کرے ۔
- لوگوں کسی سنی سنائی باتوں پر عمل کرنیوالا , اور خود کتاب اللہ کو پڑھ کر نہ سمجھنے والا امتحان قبر میں ناکام ہوتا ہے ۔
- قبر کا عذاب یا ثواب اسی زمین پر موجود قبر میں ہی ہوتا ہے ۔
- اس ایک ہی صحیح حدیث میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اخروی زندگی کے پہلے مرحلہ یعنی قبروبرزخ کی زندگی کے بارہ میں تقریبا تمام اہم باتیں بیان فرما دی ہیں ۔ اور اس پر اہل السنہ والجماعہ کا ایمان ہے , اور یہ سب انکے عقائد میں شامل ہے ۔ لیکن کچھ لوگ اس عقیدہ پر اشکالات وارد کرتے ہیں اور انہیں غلط باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ آئند سطور میں ہم ان شکوک وشبہات کا تذکرہ کرکے انکا علمی محاکمہ پیش کرتے ہیں ۔
اشکال:
اعادہ روح کا عقیدہ قرآن کے خلاف ہے , کیونکہ اللہ تعالى نے فرمایا ہے :
"حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (100)" {المؤمنون} ۔
حتى کہ جب ان میں سے کسی ایک کو موت آتی ہے تو وہ کہتا ہے اے میرے رب مجھے لوٹا دو ۔ تاکہ میں نیک اعمال کروں اس میں کہ جسے میں چھوڑ آیا ہوں , ہر گز نہیں , یہ بات وہ کہنے والا ہے , اور انکے پیچھے انکے اس دن تک جس دن وہ اٹھیں گے برزخ ہے ۔
اس آیت میں بھی اللہ نے روح کے جسم میں واپس لوٹنے کے مطالبہ کو رد کر دیا ہے ۔ کہ روح جسم میں لوٹنے کا مطالبہ کرے گی لیکن اللہ تعالى اسکا مطالبہ نہیں مانیں گے بلکہ فرمایا ہے کہ روح اور جسم کے درمیان قیامت تک آڑ ہے ۔
جواب :
اولا: یہ بات ذہن میں رہے کہ "نام نہاد مسلمین" بھی اعادہء روح کے قائل ہیں , گوکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ مرنے والے کے جسم میں روح قیامت سے پہلے نہیں لوٹتی بلکہ قیامت کے دن ہی لوٹتی ہے ۔ اور لطف یہ کہ قیامت سے پہلے وہ بھی روح کو جسم پہنائے بغیر نہیں رہ سکے بالآخر انہوں نے ایک خیالی جسم کا عقیدہ وضع کیا کہ روح کوآسمانوں میں ایک برزخی جسم دیا جاتا ہے , اور اسی میں اسے عذاب یا راحت دی جاتی ہے ۔
ثانیا: اعادہ روح کا عقیدہ قرآن کے خلاف نہیں بلکہ اسکے عین مطابق ہے ۔ اور وہ آیت جسے اعادہ روح کے عقیدہ کے خلاف پیش کیا گیا ہے در اصل اعادہ روح کے اثبات پر دلالت کرتی ہے ۔ نام نہاد مسلمین نے اپنے باطل افکار کو ثابت کرنے کے لیے اس میں بے جا تأویل سے کام لیا ہے ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس آیت سے اعادہ روح کا عقیدہ کیسے ثابت ہوتا ہے ۔
اللہ تعالى کا فرمان ہے
" حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ"
"حتى کہ جب ان میں سے کسی ایک کو موت آتی ہے "۔
اس آیت مبارکہ میں " أَحَدَهُمُ" سے مراد وہ زندہ سلامت انسان ہے جو فاسق و فاجر ہے ۔ اور اس بارہ میں "نام نہاد مسلمین" سمیت کسی بھی ذی شعور کو اختلاف نہیں ہے ۔اور بات بھی طے شدہ ہے کہ مرنے سے قبل وہ روح وجسد کا مجموعہ تھا , نہ صرف روح یا صرف جسم !۔یعنی " أَحَدَهُمُ "سے مراد روح وجسم کا مجموعہ ہے ۔ اور اس " أَحَدَهُمُ "کے روح وجسم کا مجموعہ ہونے پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں ۔اسی متفق علیہ بات کو ذہن نشیں کرنے کے بعد ہم چلتے ہی اسی آیت کے اگلے حصہ کی طرف اور وہ ہے " قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ " یعنی "وہ کہتا ہے اے میرے رب مجھے لوٹا دو" ۔
یعنی مرنے کے بعد وہ کہتا ہے کہ مجھے لوٹا دیا جائے ۔ اب یہاں " نام نہاد مسلمین" نے تلبیس سے کام لیا اور یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ مرنے کے بعد مرنے والے کی روح کہتی ہے کہ مجھے واپس میرے جسم میں لوٹا دو ۔ جبکہ اللہ تعالى نے فرمایا ہے " قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ " (وہ کہتا ہے کہ مجھے لوٹا دو ) یہ نہیں کہا کہ " قَالَ رُوْحُہُ رَبِّ ارْجِعُونِ " (اسکی روح کہتی ہے کہ مجھے لوٹاؤ) ۔ بات انتہائی سادہ سی ہے کہ اللہ کے فرمان " قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ " میں لفظ "قال" کا مرجع "احدہم" ہے ۔ یعنی جسے موت آئی تھی وہی کہہ رہا کہ مجھے لوٹاؤ ۔ اور یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ موت روح وجسد کے مجموعہ کو آئی تھی ۔ سو مرنے کے بعد روح وجسد کا مجموعہ ہی کہتا ہے کہ مجھے لوٹاؤ ۔ یعنی وہ دنیا میں لوٹ کر نیک اعمال کرنے کا خواہاں ہوتا ہے ۔ لہذا اس آیت سے ہی یہ بات ثابت ہوئی کہ مرنے کے بعد مرنے والے کی روح اسکے جسم میں لوٹتی ہے اور روح وجسد کا مجموعہ اللہ تعالى سے دوبارہ دنیا میں جانے کا مطالبہ کرتا ہے , لیکن اسکا یہ مطالبہ پورا نہیں کیا جائے گا ۔بلکہ اس مرنے والے (روح وجسد کے مجموعہ) اور دنیا میں لوٹ جانے کے درمیان قیامت تک کے لیے ایک برزخ (آڑ اور رکاوٹ) ہے ۔
انہیں آیات سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ مرنے کے بعد جہاں انسان کا جسد وروح رہتے ہیں اسی کا نام برزخ ہے ۔ اور روح چونکہ نظر نہیں آتی جبکہ جسم نظر آتا ہے , تو ہم مرنے والے کے جسم کو دیکھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ جس جگہ وہ موجود ہے وہی اسکے لیے برزخ ہے ۔ یعنی برزخ کوئی آسمان میں مقام نہیں بلکہ مرنے کے بعد انسان کا جسم جس جگہ بھی ہوتا ہے وہ اپنی روح سمیت ہوتا ہے اور وہی مقام اسکے لیے برزخ ہے ۔
پھر وہ مفہوم یعنی اعادہ روح جو ہم نے اس آیت سے کشید کیا ہے اسکی تایید مسند احمد کی اس جامع حدیث میں نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے بھی فرما دی ہے جسے ہم نقل کر آئے ہیں ۔
اشکال :
روحیں قیامت کے دن ہی اپنے جسموں سے ملیں گی , کیونکہ اللہ تعالى نے قیامت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے
" وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ (التکویر: 7) "
اور جب روحیں (اپنے جسموں سے) ملا دی جائیں گی ۔
جواب :
مذکورہ بالا آیت میں بھی خاص تلبیس سے کام لیا گیا ہے ۔ کیونکہ آیت میں مذکور نفوس سے مراد روحیں نہیں بلکہ روح وجسد کے مجموعہ انسان ہیں , یعنی آیت کا معنى ہے جس دن انسانوں کو جمع کیا جائے گا ۔اور لفظ "نفس" کا حقیقی معنى "روح وجسد کا مجموعہ " ہی ہے , اور صرف روح اسکا مجازی معنى ہے ۔ اور علم اصول میں یہ بات مسلم ہے کہ جب تک حقیقی معنى مراد لیا جا سکتا ہو اس وقت تک مجازی معنى مراد نہیں لیا جاسکتا ہے , یا دوسرے لفظوں میں ہر کلمہ کو اسکے حقیقی معنى پر ہی محمول کیا جائے گا الا کہ کوئی قرینہ ایسا موجود ہو جو اسے حقیقت سے مجاز کی طرف لے جائے ۔ اور یہاں کوئی ایسا قرینہ نہیں ہے جو اسکے مجازی معنى پر دلالت کرے ۔
ثانیا : اگر یہاں لفظ "نفوس" کا معنى "روح" کر لیا جائے تو پھر ترجمہ یہ بنے گا " اور جب روحیں اکٹھی کی جائیں گی " ۔ جبکہ یہ معنى اہل اسلام کے متفقہ عقائد کے خلاف ہے ۔ کیونکہ یہ بات متفق علیہ ہے کہ قیامت کے دن صرف روحیں نہیں بلکہ روح وجسد کے مجموعہ انسان جمع ہونگے ۔ اور اسے "نام نہاد مسلمین"بھی تسلیم کرتے ہیں ۔
اور ہمارے اس دعوى پر قرآن مجید فرقان حمید کی یہ آیات بھی دلالت کرتی ہے :
"وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَا هُمْ مِنَ الْأَجْدَاثِ إِلَى رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ (یس :51)"
اور صور پھونکا جائے گا تو وہ فورا قبروں سے (نکل کر) اپنے رب کی طرف لپکیں گے۔
"خُشَّعًا أَبْصَارُهُمْ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ كَأَنَّهُمْ جَرَادٌ مُنْتَشِرٌ (القمر:7)"
انکی نگاہیں جھکی ہونگی ,وہ قبروں سے بکھرے ہوئے ٹڈی دل کی مانند نکلیں گے۔
"يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ سِرَاعًا كَأَنَّهُمْ إِلَى نُصُبٍ يُوفِضُونَ (المعارج: 43)"
جس دن وہ قبروں سے تیزی کے ساتھ نکلیں گے , گویا کہ وہ کسی گاڑے ہوئے نشان کی طرف دوڑے جا رہے ہیں۔
ان تمام تر آیات میں قبر سے نکلنے والے روح وجسد کے مجموعہ ہی ہیں , کیونکہ پہلی آیت میں "ھم" ضمیر کا مرجع اور دوسری اور تیسری آیت میں "یخرجون" اور " کأنہم " کا مرجع روح وجسد کے مجموعہ انسان ہی ہیں ۔
لہذا ثابت ہوا کہ قبر میں ہی روح لوٹا دی جاتی ہے اور روز محشر روح وجسد کے یہ مجموعے میدان حشر میں اکٹھے ہونگے۔
دو زندگیاں دو موتیں :
اشکال : اعادہء روح والی حدیث قرآن کے خلاف ہے ! ۔ کیونکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ قبر میں روح لوٹتی ہے تو پھر ایک تیسری زندگی ثابت ہو جاتی ہے ۔ جبکہ قرآن میں اللہ تعالى نے صرف دو زندگیوں اور دو موتوں کا تذکرہ کیا ہے ۔ مثلا :
۱۔
"قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ" (غافر:۱۱)
وہ کہیں گے اے اللہ تو نے ہمیں دو بار موت دی اور دو بار زندگی دی ہے ۔
۲۔
نیز فرمایا : " كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (البقرۃ :28)"
تم کیسے اللہ کے ساتھ کفر کرتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے تو اس نے تمہیں زندہ کیا , پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا , پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔
اس آیت میں بھی اللہ نے دو زندگیوں اور دو موتوں کا تذکرہ کیا ہے ۔
جواب :
اولا: اعادہ روح کا عقیدہ دو زندگیوں اور دو موتوں والے عقیدہ کے خلاف نہیں ہے , بلکہ اسکے موافق و مطابق ہے ۔
جس طرح دنیاوی زندگی کے دو مراحل ہیں ایک ماں کے پیٹ میں اور دوسرا مرحلہ ماں کے پیٹ سے باہر , ایسے ہی اخروی زندگی کے بھی دو مراحل ہیں ایک قبر وبرزخ میں اور ایک روزمحشر قبر وبرزخ سے باہر ۔ یعنی زندگیاں دو ہیں ایک دنیوی اور ایک اخروی ۔ دنیاوی زندگی کے بارہ میں بھی اللہ تعالى نے فرمایا ہے :
"يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِنُبَيِّنَ لَكُمْ وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّى وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا"
اے لوگو !اگر تم دوبارہ جی اٹھنے کے بارہ میں شک میں مبتلا ہو تو ہم نے ہی تمہیں مٹی سے پھر نطفہ سے , پھر جمے ہوئے خون سے , پھر تخلیق شدہ اور غیر تخلیق شدہ لوتھڑے سے پیدا کیا ہے تاکہ ہم تمہیں وضاحت کر دیں , اور ہم جس مقررہ وقت تک چاہیں رحموں میں ٹھہراتے ہیں , پھر تمکو بچہ بنا کر نکالتے ہیں , پھر (تمہیں مزید زندگی عطاء کرتے ہیں )تاکہ تم اپنی قوت(جوانی) کو پہنچو , اور تم میں سے کچھ فوت ہو جاتے ہیں اور کچھ گھٹیا عمر تک پہنچا دیے جاتے ہیں تاکہ وہ جاننے کے بعد پھر سے انجان ہو جائیں ۔
(الحج :۵)
یعنی رحموں میں ہی دنیاوی زندگی کا آغاز ہو چکا ہوتا ہے اور جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس وقت وہ زندہ ہی ہوتا ہے , زندگی اسے رحم سے نکلتے وقت نہیں بلکہ پہلے سے ہی مل چکی ہوتی ہے ۔اور یہی حال اخروی زندگی کا ہے , کہ جب قیامت قائم ہوگی تو اس وقت اخروی زندگی کا آغاز نہیں ہوگا بلکہ زندگی کا آغاز میدان محشر میں اکٹھے ہونے سے پہلے ہی ہو چکا ہوگا ۔ اور اسکی تائید اللہ تعالى کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے جسے "نام نہاد مسلمین" نے اپنی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے ! ملاحظہ فرمائیں :
اللہ تعالى کافرمان ذی شان ہے
" كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ" (البقرۃ :28)"
تم کیسے اللہ کے ساتھ کفر کرتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے تو اس نے تمہیں زندہ کیا , پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا , پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔
لغت عرب میں "ف" اور "ثم" دونوں تعقیب (بعد) کے لیے استعمال ہوتے ہیں لیکن ان دونوں میں ایک لطیف فرق ہے اور وہ یہ کہ "ف" تعقیب مع الوصل (فورا بعد) کے لیے آتا ہے اور "ثم" تعقیب مع التراخی (کچھ دیر بعد) کے لیے آتا ہے ۔اس لطیف فرق کو سامنے رکھتے ہوئے آیت مبارکہ کا ترجمہ یوں بنے گا :
" تم کیسے اللہ کے ساتھ کفر کرتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے تو اس نے تمہیں زندہ کیا , پھر کچھ دیر بعد تمہیں مارے گا پھر کچھ دیر بعد تمہیں زندہ کرے گا , پھرکچھ دیر بعد تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔"
یعنی پہلی موت اور زندہ ہونے کے مابین کوئی وقفہ نہیں بلکہ موت کا اختتام ہوتے ہی فورا زندگی مل جاتی ہے اور اسے دنیوی زندگی کہا جاتا ہے ۔ پھر دنیا وی زندگی ملنے کے فورا بعد موت نہیں آتی بلکہ کچھ دیر بعد موت آتی ہے خواہ ماں کے پیٹ میں ہی موت آ جائے یا باہر نکلنے کے بعد۔ اور پھر مرنے کے فورا بعد زندگی نہیں ملتی بلکہ کچھ دیر بعد ملتی اور وہ دیر کتنی ہے ؟ اسکا علم صرف اللہ عزوجل کے پاس ہی ہے ۔ ہاں ہمیں نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا فرمان کی روشنی سے اتنا علم ہوتا ہے کہ روح قبض ہونے سے لے کر دوبارہ روح کے لوٹائے جانے کا درمیانی وقفہ ہے جسکے بعد روح کے لوٹتے ہی دوسر ی زندگی یعنی اخروی زندگی مل جاتی ہے ۔اور پھر دوسری زندگی کے عطاء ہوتے ہیں اللہ کی طرف نہیں لوٹنا بلکہ دوسری زندگی ملنے کے کچھ دیر بعد رجعت الى اللہ کا مرحلہ آئے گا کہ لوگ میدان محشر میں جمع ہونگے ۔ اور یہ وقفہ برزخی زندگی یا قبر کی زندگی کہلاتا ہے ۔
اور یہ آیت بھی اس بات پر واضح دلالت کر رہی ہے کہ رجعت الى اللہ یعنی میدان محشر میں روز قیامت جمع ہونے سے قبل ہی روح جسم میں لوٹ چکی ہوتی ہے ۔ یعنی اعادہ روح اس آیت سے بھی ثابت ہو رہا ہے جسے دو زندگیاں اور دو موتیں ثابت کرنے کے لیے پیش کیا جاتا ہے ۔
برزخی جزاء وسزا کا مقام :
اشکال :
برزخ آسمانوں میں ہے اور نیک لوگوں کی روحیں علیین میں رہتی ہیں اور جزاء پاتی ہیں اسی طرح بد لوگوں کی روحیں سجین میں رہتی ہیں اور وہیں انہیں سزا ملتی ہے ۔
جواب :
۱۔ برزخ آسمانوں میں نہیں بلکہ زمین میں ہے , جیسا کہ سورۃ المؤمنون کی آیت نمبر۱۰۰ کے حوالہ سے گزشتہ سطور میں ثابت کیا جاچکا ہے کہ روح وجسد کے مجموعہ اور رجوع الى الدنیا کے مابین آڑ ہے ۔ اور مرنے والا کا جسد زمیں پر ہی ہوتا ہے ۔
ثانیا: اللہ تعالى کے فرمان کے مطابق تو کافروں کے لیے آسمان کے دروازے ہی نہیں کھلتے :
"إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ (الأعراف: 40)"
یقینا وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا , انکے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہونگے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے سوراخ میں سے گزر جائے , اور ہم مجرموں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ۔
لہذا آسمانوں میں عذاب قبر وبرزخ کا عقیدہ رکھنا قرآن کے خلاف ہے !!!
۲۔ علیین اور سجین کو مقام قرار دینا بھی جہالت و نادانی ہے , کیونکہ اللہ تعالى نے فرمایا ہے
"وَمَا أَدْرَاكَ مَا سِجِّينٌ (8) كِتَابٌ مَرْقُومٌ (9) {سورۃ المطففین}"
اور تجھے کس چیز نے معلوم کروایا ہے کہ سجین کیا ہے ؟ وہ تو ایک لکھی ہوئی کتاب ہے ۔
نیز فرمایا
" وَمَا أَدْرَاكَ مَا عِلِّيُّونَ (19) كِتَابٌ مَرْقُومٌ (20) {سورۃ المطففین} "
اور تجھے کس چیز نے معلوم کروایا کہ علیین کیا ہے ؟ وہ تو ایک لکھی ہوئی کتاب ہے۔
یعنی یہ ان دفاتر کے نام ہیں جن میں نیک وبد کا اندراج کیا جاتا ہے ۔ اور یہی بات اس حدیث میں مذکور ہے جسے ہم نے آغاز میں نقل کیا ہے ۔
اشکال:
اگر اس زمینی گڑھے میں ہی قبر وبرزخ کا عذاب ہوتا ہے , تو وہ لوگ جنہیں قبر نہیں ملتی , انکے لیے عذاب وثواب کہاں ہوگا ؟
جواب:
صرف اس زمینی گڑھے کانام قبر نہیں ہے , بلکہ ہر انسان مرنے کے بعد جہاں بھی ہوتا ہے وہی اسکے لیے قبر وبرزخ ہے ۔ اللہ تعالى کا فرمان ہے :
" ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ (عبس : 21)"
پھر اسکو موت دی اور اسکے فورا بعد اسے قبر دی۔
اس آیت میں مرنے کے فورا بعد اللہ تعالى مرنے والے کے لیے قبر کا اعلان فرما رہے ہیں ۔ یعنی مرنےوالا جو کہ روح وجسد کا مجموعہ تھا اسے مرنے کے فورا بعد یعنی اسی روح وجسد کے مجموعہ کو قبر مل جاتی ہے ۔ الغرض مرنے کے بعد انسان کا جسم وروح جہاں بھی ہوں وہی اسکے لیے قبر ہے اور وہی اسکے لیے برزخ ہے ۔لہذا یہ اشکال ہی ختم ہوا کہ عذاب وثواب کہاں ہوگا ۔
آخر میں اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ھم سب کو دین کا صحیح فہم عطا فرمائے - آمین یا رب العالمین
Last edited: