• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الاتباع

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
الإتباع

(پیروی کرنا/موافقت کرنا)

لغوی بحث:
”إتِّبَاعٌ“،”اِتَّبَعَ“ کا مصدر ہے(ت ب ع)کے مادہ سے ماخوذ ہے، جو پیچھے چلنے اور پیروی کرنے کا معنی دیتا ہے۔لہٰذا جب آپ کسی کے پیچھے پیچھے چلیں یا کوئی گزر رہا ہو اور آپ ان کے ساتھ ساتھ ہو لیں تو کہیں گے : ”تَبِعْتُ الْقَوْمَ تَبَعًا وَتَبَاعَةً“ (ت)پر فتح کیساتھ۔اور”تَبِعْتُ الشَّئ“ یعنی : میں اس کے پیچھے چلا اور”التَّابِعُ“ کا معنی ہے پیچھے چلنے والا ۔اس کی جمع ”تُبَّعٌ“، ”تُبَّاعٌ“اور ”تَبَعَةٌ“ہے اور”التَّبَعُ“ اس کا اسم الجمع ہے۔
ابو عبید کہتے ہیں کہ : جب لوگ آگے نکل جائیں اور آپ پیچھے سے ان سے جا ملیں تو کہیں گے :”أتْبَعْتُ الْقَوْمَ“یعنی میں ان سے جاملا۔
امام فراءنے کہا کہ ”أتْبَعَ“، ”إِتَّبَعَ“ کی نسبت عمدہ تعبیر ہے کیوں کہ”الإِتِّبَاعُ“ کا معنی ہے کہ کوئی چل رہا ہے اور آپ ان کے پیچھے فاصلے سے چل رہے ہیں جبکہ”أتْبَعْتُهُ“ کامفہوم یہ ہے کہ آپ بلافاصلہ اس کے ساتھ پیچھےپیچھے ہیں۔
اورإِتَّبَعَ الْقُرْآنَ یعنی قرآن کی اقتداء میں چلا اور اس کے مندرجات پر عمل پیرا رہا۔چنانچہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہسے یہ حدیث(مرفوعاً) مروی ہے کہ:یہ قرآن تمہارے لئے اجر کا باعث بھی ہے اور تمہارے اوپر بوجھ کا سبب بھی ۔چنانچہ قرآن کی اقتداء کرو، ایسا نہ ہو کہ قرآن تمہارا پیچھا کرے۔ پس :جو شخص قرآن کی پیروی کرتا رہا تو یہ اسے جنت کے باغات میں جا پہنچائے گا۔اور جس نے قرآن کو پیچھے چھوڑ دیا تو قرآن اسے گُدی سے جکڑ کر جہنم میں دھکیل دے گا۔ ۔وہ فرماتے ہیں کہ : اسے اپنا پیشوا بنالو پھر اس کی تلاوت کرو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ …. (البقرة: ١٢١) یعنی وہ اس کی کما حقہ پیروی کرتے ہیں ان کا مقصد ہے کہ : قرآن کی تلاوت اور اس پر عمل سے ہر گز گریزاں مت رہو۔ اگر ایسا کرو گے تو گویا تم نے قرآن کو پیچھے چھوڑ دیا۔
”تَابَعَ بَيْنَ الْأُمُوْرِ مُتَابَعَةً وَتِبَاعًا“اور اس نے معاملات کے درمیان متابعت کی یعنی اس نے کاموں کو مسلسل کیا اور کاموں کو ایک دوسرے کے پیچھے انجام دیا۔
”وَتَابَعَ عَمَلَهُ وَكَلَامَهُ: أَتْقَنَهُ وَأَحْكَمَهُ“اس نے اپنے کاموں میں متابعت کی ۔یعنی اس نے ان کو اچھے اور عمدہ انداز سے انجام دیا۔اور اس نے اپنے کام اور اپنے کلام کو مسلسل جاری رکھا اور اسی معنی پر ابی واقد لیثی کی حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنے اعمال کو درست کرنے کی کوشش کی تو آخرت کو حاصل کرنے کے سلسلے میں ہمیں دنیا میں زہد سے بڑھ کر کوئی عمل بہتر نہیں ملا۔
اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے اپنی گفتگو میں متابعت کی اور وہ گفتگو کا”تَبِیْعٌ“ ہے۔ تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے اپنی گفتگو کو عمدہ اور شاندار انداز میں بیان کیا ۔اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی گفتگو میں متابعت کر رہا ہےتو یہ معنی بھی ہوتا ہے کہ اسے بیان کر رہا ہے (اور وہ اپنی گفتگو کو مسلسل جاری بھی رکھےہوئے ہوتا ہے)۔
اور یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ جب یہ کہا جائے کہ فلاں شخص ”مُتَتَابِعُ الْعِلْمِ“ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس کے علم کا کچھ حصہ اس کے ہی علم کے دوسرے حصوں سے ملتا جلتا ہے اور اس کےعلم میں کوئی فرق نہیں (اور ٹکراؤ نہیں)ہے۔1
لغۃً”إتبَاعَ“یہ ہے کہ چلنے والے کے پاؤں کے نشانات کے پیچھے چلنا، پھر دوسروں کے کاموں کی طرح جو کام کئے جائیں ان کے لئے بھی اتباع کا لفظ استعمال کیا جانے لگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں یہ معنی موجود ہیں: وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ (التوبة: ١٠٠) (ترجمہ)”اورجنہوں نے اچھائی کے ساتھ ان (صحابہ کرام)کی پیروی کی“۔یعنی اچھائی کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلے اور اچھائی کے ساتھ ان کے منہج کو اپنا یا۔پھر جو احکامات کی پابندی کرتا ہے اور جو قائد وسردار کے کہنے کے مطابق عمل کرتا ہے اس کے لئے بھی اتباع کا لفظ استعمال کیا جانے لگا۔


[1] - تفسير التحرير والتنوير(۷/۴۲۳)
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اصطلاحی وضاحت:
اتباع کی تعریف کرتے ہوئے امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ :اتباع یہ ہے کہ جو کچھ رسول اکرم ﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت ہے تو آدمی اس کی پیروی کرے۔پھر اسے تابعین کے سلسلے میں اختیار حاصل ہے(کہ تابعین میں سے جس کی چاہے پیروی کرلے۔ اور جس کی چاہے پیروی نہ کرے۔)
اور امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے فرمایا پیروی محض اس کی کرنی چاہیے جس کے بارے میں دلیل ثابت ہو چکی ہو کہ اس کی پیروی کی جائے اور رسول محمد ﷺ اس سلسلے میں سب سے ہی اعلیٰ اور عمدہ اور بہترین محض ہیں۔
امام شافعی رحمہ اللہ ایک عنوان قائم کرتے ہیں:”بَابُ مَا أَبَانَ اللہُ لِخَلْقِهِ مِنْ فَرْضِهِ عَلَی رَسُولِه اتِّبَاعَ مَا أُوْحِیَ إِلَیْهِ وَمَا شَھِدَ لَهُ بِهِ مِنَ اتِّبَاعِ مَا أُمِرَبِهِ وَأَنَّهُ هَادٍ لِمَنِ اتَّبَعَهُ“.اس بات کو بیان کرنے والا باب کہ اللہ نے اپنی مخلوق کے لئے اس بات کو واضح کر دیا کہ انہوں نے اپنے رسول(محمدﷺ)پر اس چیز (قرآن مجید) کی پیروی کو فرض کیا ہے جو کہ ان کی طرف وحی کی گئی ہے۔ اور اللہ نے خود اس بات کی گواہی دی کہ ان کے رسول نے آپ کی پیروی کی جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا اور یہ کہ رسول محمد ﷺ اس شخص کی صحیح اور بہترین رہنمائی کرنے والے ہیں جس نے ان کی پیروی کی (یعنی جس نے سچے دل سے رسولﷺ کی پیروی کی تو اسے ہدایت اور نجات حاصل ہو جائیگی)۔
اس کے بعد انہوں نے ان آیات کا تذکرہ کیا جو ان مذکورہ معانی پر دلالت کرتی ہیں۔ جن میں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان گرامی بھی شامل ہے يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّـهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِ‌ينَ وَالْمُنَافِقِينَ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿١﴾ وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ مِن رَّ‌بِّكَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرً‌ا ﴿٢ (الأحزاب)
(اے نبی !آپ اللہ کا تقویٰ اختیار کیجئے اور کافروں اور منافقوں کی باتوں میں نہ آنا، بے شک اللہ بڑے علم اور بڑی حکمت والا ہے ،اور پیروی کریں اس چیز کی جو کہ آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے وحی کی جاتی ہے (یعنی اس قرآن مجید کی پیروی کیجئے جو کہ وحی کے ذریعے آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے )بلا شبہ اللہ تعالیٰ ان کاموں سے پوری طرح باخبر ہے جن کو تم انجام دیتے ہو۔
اسی طرح فرمان باری تعالیٰ ہے:
ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَىٰ شَرِ‌يعَةٍ مِّنَ الْأَمْرِ‌ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ﴿١٨ (الجاثية)
پھر ہم نے آپ کو دین کی ظاہر راہ پر قائم کر دیا ہے ۔لہٰذا آپ اسی کی پیروی کیجئے اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کیجئے ،جو کہ جانتے نہیں ہیں۔
پھر امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: اور جس معاملے میں اللہ تعالیٰ کا حکم واضح طور پر موجود نہیں تھا اور ایسے معاملے کے بارے میں رسول ﷺ نے خود اپنی طرف سے کوئی فیصلہ کیا ۔تو وہ فیصلہ بھی رسول اکرم ﷺ نے محض اللہ کے حکم سے ہی کیا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے قرآن مجید میں بتایاہے جیسا کہ ارشادگرامی ہے
وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَ‌اطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٥٢﴾ صِرَ‌اطِ اللَّـهِ ….الشورى
اور [اے محمد ﷺ]بلا شبہ آپ سیدھے راستے کی طرف ہی راہنمائی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے (سیدھے)راستے کی طرف (۳)
اور اللہ کے رسول ﷺ نے اللہ کی کتاب (قرآن مجید )کی موجودگی کے باوجود بھی فیصلے فرمائے جن معاملات کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی کتاب کا کوئی واضح فیصلہ موجود نہیں تھا۔اور اللہ نے ہم تمام مسلمانوں کو اس بات کا پابند کیا ہے کہ ہم رسول ﷺ کے ان دونوں ہی طرح کے فیصلوں کی پوری طرح پیروی اور پابندی کریں۔اور اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم ﷺ کی فرمانبرداری کرنے کو خود اللہ کی فرمانبرداری کرنے کے برابر قرار دیا ہے۔ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ کبھی بھی اللہ کے احکامات اور تعلیمات کے خلاف حکم نہیں دیتے۔اور رسول کریم ﷺ کی پیروی نہ کرنا اللہ تعالیٰ کی ایسی نافرمانی ہے جس کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کسی کا بھی کوئی عذر قبول اور برداشت نہیں کریگا ۔اور مذکورہ بالا آیات کی بنیاد پر یہ بات کہی جا سکتی ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کئے بغیر نجات کا حصول نا ممکن ہے۔
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا بھی ارشاد گرامی ہے کہ :
”لاَ أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَأْتِيهِ الأَمْرُ مِنْ أَمْرِى مِمَّا أَمَرْتُ بِهِ أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ فَيَقُولُ لاَ نَدْرِى مَا وَجَدْنَا فِى كِتَابِ الله اتَّبَعْنَاهُ“.1
”میں تم میں سے کسی شخص کو ایسی حالت میں نہ پاؤں کہ وہ اپنے آرام دہ تکئے سے ٹیک لگایا ہوا ہو اور پھر اس کے پاس میرے فیصلوں (حدیثوں) میں سے کوئی فیصلہ آئے(میری حدیثوں میں سے اس کو کوئی حدیث سنائی جائے)جس میں میں نے کسی بات کا حکم دیا ہو یا میں نے کسی بات سے منع کیا ہو تو وہ کہے کہ میں تو اسے نہیں جانتا میں تو صرف اس کی ہی پیروی کروں گا جو کہ محض اللہ تعالیٰ کی کتاب(قرآن) میں ہی لکھا ہوا ہوگا۔
[1]- (صحيح) سنن أبي داؤد كتاب السنة باب فِى لُزُومِ السُّنَّةِ رقم (4607)
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اور اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید کے سامنے رسول اللہﷺ کی جتنی بھی احادیث اور سنتیں ہیں وہ دو طرح کی ہی ہیں۔
ایک تو وہ احادیث اور سنتیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے عین مطابق ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے کتاب اللہ کی نص کی اسی طرح پیروی کی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی کتاب میں اتارا تھا۔
دوسری وہ احادیث اور سنتیں ہیں جن میں رسول اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے ان احکامات کی تشریح اور وضاحت کر دی ہے۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نہایت مجمل اور مختصر انداز میں بیان کیا ہے۔ اور رسول اکرم ﷺنے دوسری طرح کی ان احادیث میں اس بات کی وضاحت کر دی کہ اللہ تعالیٰ کے یہ احکامات عمومی نوعیت کے ہیں ۔یا ان میں کوئی خصوصیت اور دیگر تفاصیل بھی پائی جاتی ہیں اور رسول اکرم ﷺ نے دوسری قسم کی ان احادیث میں اس بات کی بھی وضاحت فرمادی کہ بندے اللہ تعالیٰ کے ان احکامات پر کس طریقے سے عمل کر سکتے ہیں (جیسے نماز ۔اللہ تعالیٰ نے نماز پڑھنے کا محض حکم تو دیا مگر اس بات کی وضاحت نہیں فرمائی کہ نماز کس طریقے سے ادا کرنی ہے یہ وضاحت احادیث میں ہی موجود ہے ۔اسی طرح زکاة کا معاملہ ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے زکاة کو ادا کرنے کا محض حکم تو دے دیا مگر یہ بالکل نہیں بتایا کہ زکاة کب دینی ہے کتنی دینی ہے ،کتنے اونٹوں اور بکریوں کے مالک پر کتنے اونٹ اور بکریاں نکالنی ہیں ۔ان سب باتوں کی وضاحت محض احادیث میں ہی موجود ہے ۔)اور احادیث کی ان دونوں قسموں اور صورتوں میں رسول اللہ ﷺ نے کتاب اللہ کوہی مد نظر رکھا ہے(اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی کسی ایک حدیث میں بھی کتاب اللہ کی مخالفت ہر گز نہیں کی) مجھے اس سلسلے میں اہل علم کے کسی بھی اختلاف کا علم نہیں ہے(یعنی تمام ہی اہل علم کا اس بات پر اجماع اور مکمل اتفاق رائے ہے ) کہ رسول اکرم ﷺ سے ثابت شدہ تمام ہی احادیث تین طرح کی ہیں۔
تو اہل علم کا دوطرح کی احادیث پر تو پوری طرح اتفاق ہے ،احادیث کی پہلی قسم :وہ احکامات جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کوئی نص نازل فرمائی ہے ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے بھی اس سلسلے میں بالکل ویسی ہی حدیث ارشاد فرمائی جو کہ اللہ تعالیٰ کی فرمائی ہوئی بات کے مطابق تھی۔
احادیث کی دوسری قسم: جن معاملات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں مختصر طور پر بیان کیا ،تو آپ ﷺ نے اپنی احادیث میں ان آیات کا مطلب اور ضروری تفصیلات کو کھول کھول کر بیان کر دیا۔
یہ دونوں احادیث کی وہ اقسام ہیں جن پر عمل کرنے کے سلسلے میں اہل علم کا بالکل بھی اختلاف نہیں ہے۔
اور تیسری قسم کی احادیث وہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے کچھ ایسے معاملات پر اپنی حدیثیں بیان فرمائیں جن معاملات کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی کتاب میں کوئی بھی واضح دلیل موجود نہیں ہے تو ایسی احادیث کے بارے میں کچھ اہل علم نے کہا کہ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اکرم ﷺکی اطاعت کو فرض قرار دیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات پہلے ہی سے موجود تھی کہ میں محمد ﷺ کو اپنی رضا حاصل کرنے (اور عمدہ اور بہترین فیصلے کرنے کی صلاحیت سے نوازوں گا تو اس بناء پر خود اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے رسول محمد ﷺ کو یہ حق ،اختیار اور صلاحیت عطا فرمائی کہ وہ (محمد ﷺ)ایسے معاملات کے بارے میں بھی اپنی احادیث بیان فرمادیں جن معاملات کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی کتاب کے واضح فیصلے موجود نہ بھی ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اور کچھ اہل علم نے یہ کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی جو بھی کوئی سنت (حدیث) بیان کی تو اس کی اصل اور بنیاد اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ضرور موجود ہے۔ جیسا کہ ان کی سنت (اور احادیث) نے نمازوں کی تعداد اور طریقہ بیان کیا تو محض قرآن میں نماز کے فرض کیئے جانے کی بنیاد پر ہی بیان کیا ۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے خریدو فروخت اور اسلام کی دیگر تعلیمات کے بارے میں جو بھی کچھ بیان کیا تو وہ محض اس بنیاد پر ہی بیان کیا کہ ان معاملات کی اصل اور بنیاد کتاب اللہ میں ضرور موجود تھی۔ کیوں کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ.. النساء: ٢٩
(اور ”اے مسلمانوں “تم لوگ آپس میں اپنے اموال کوناجائز ذرائع(اور طریقوں) سے نہ کھاؤ۔ اور فرمایا :
وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ وَحَرَّ‌مَ الرِّ‌بَا …البقرة: ٢٧٥
اللہ نے خرید و فروخت حلال قرار دی ہےاور رباء کو حرام قرار دیا ہے۔
تو مختصر بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جہاں بھی کسی بھی چیز یا معاملے کو حلال قرار دیا یا کسی دوسرے معاملے کو ناجائز اور حرام قرار دیا تو آپ نے ایسا محض اس لئے ہی کیا۔ کہ اس معاملے کی اصل اور بنیاد اللہ تعالیٰ کی کتاب میں موجود تھی، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے نمازوں کی تعداد اور طریقے کو محض اس لئے بیان کیا کہ نماز کاحکم بنیادی طور پر اللہ کی کتاب میں آچکا تھا۔
اور کچھ اہل علم نے یہ کہا کہ: بلکہ اس معاملے کے بارے میں بھی (جس کے بارے میں قرآن کا واضح فیصلہ موجود نہیں ہے)اللہ کی طرف سے محمد ﷺ پر پیغام رسانی کی گئی تھی۔تو رسول اللہ ﷺکی سنت (اور احادیث)نے اس معاملے کو اللہ تعالیٰ کے حکم اور اجازت سے ہی ثابت کیا۔
اور کچھ اہل علم نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے جس چیز کو بھی سنت قرار دیا تو درحقیقت اس کا سنت ہونا پہلے ہی ان کے دل و دماغ میں اللہ کی طرف سے ڈال دیا گیا تھا کہ یہ کام سنت ہے تو جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف قرآن کے علاوہ ان کے دل و دماغ میں ڈال دیا گیا تو یہی ان کی سنت تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اگر اہل علم کے ان اقوال میں کسی بھی قول کو تسلیم کر لیا جائے مگر یہ بات تو سو فیصد ثابت شدہ ہے کہ جن معاملات کے بارے میں قرآن مجید کا واضح فیصلہ موجود نہیں ہے اور اس بارے میں رسول اکرم ﷺ کی حدیث موجود ہے تو ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ تمام لوگوں پر رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرنے کو فرض قرار دے دیا ہے۔
اور اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کسی بھی ایسے شخص کا کوئی عذر (معذرت ،حجت)قبول نہیں کرےگا۔جس کو کسی معاملے میں رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ معلوم ہو گیا اور پھر بھی اس نے اس کی خلاف ورزی کی اور یہ کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تمام ہی لوگوں کو دین کے سلسلے میں رسول اکرم ﷺ کی سنت اور احادیث کا پوری طرح محتاج بنادیا ہے (یعنی دین کے احکامات اور مسائل جاننے کے لئے صرف قرآن مجید کی طرف رجوع کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ قرآن کے ساتھ ساتھ صحیح احادیث کی طرف لوٹنا اور ان سے راہنمائی حاصل کرنا بھی بے حد ضرور ی ہے۔)
یعنی صحیح احادیث میں کوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ کی کتاب کے خلاف بیان نہیں کی گئی ۔ بلکہ قرآن مجید اور صحیح احادیث میں مکمل یگانگت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہےلہٰذا ہمارے لئے صحیح اور ثابت شدہ احادیث کی پیروی کرنا ضروری ہے جو کہ ان احکامات اور مسائل کی تشریح اور وضاحت پیش کررہی ہیں۔
جن احکامات کو قرآن مجید میں ذکر کیا گیا ہے تو بعینہ اسی طرح ان معاملات میں بھی رسول اکرم ﷺ کی صحیح اور ثابت شدہ احادیث کی پیروی بے حد ضروری ہےاسی طرح ان معاملات میں بھی جن کا اللہ تعالیٰ کی کتاب میں واضح فیصلہ موجود نہیں ہے۔ کیوں کہ رسول ﷺکبھی بھی اللہ کی مرضی کے خلاف ہر گز فیصلہ صادر نہیں کر سکتے ۔
امام شاطبی رحمہ اللہ نے فرمایا: قرآن مجید ہی دراصل وہ کتاب ہے جس کی پیروی کی جاتی ہے اور لوگوں کے مقام و مراتب کا تعین محض قرآن مجید کی پیروی سے ہی ہوگا (جو قرآن مجید پر جس قدر عمل کرے گا اسی قدر وہ دنیا اور آخرت میں خوش رہے گا ۔اور جو تم میں سےقرآ ن مجید کی تعلیمات سے جس قدر روگردانی کرے گا تو اسی قدر وہ دنیا اور آخرت میں ناکام اور پریشان ہوگا۔
اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس شریعت اسلامی کو تمام ہی انسانوں پر حجت قرار دے دیا ہے۔ خواہ عمر میں بڑے ہوں یا چھوٹے ،فرمانبردارہوں یا نا فرمان، نیک ہوں یا بد ، کسی کو بھی اسلامی شریعت کی پابندی کرنے سے مستثنیٰ اور بالاتر قرارنہیں دیا۔
اسی طرح اسلام سے پہلے جتنی بھی شریعتیں تھیں ان شریعتوں کو اللہ تعالیٰ نے محض اسی لئے ہی بنایا تھا تاکہ وہ شریعتیں ان تمام امتوں پر حجت ثابت ہوں ۔یہاں تک کہ جن پیغمبروں کو وہ شریعتیں دے کر بھیجا گیا تھا۔ تو خود ان پیغمبروں کے لئے بھی اپنی لائی ہوئی شریعتوں کے احکامات کی پابندی کرنا ضروری تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تو اس سلسلے میں آپ ہمارے نبی محمد ﷺ کی مثال دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے نبی محمد ﷺ بھی اپنی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملات میں اپنی لائی ہوئی شریعت پر عمل کرنے کے پابند ہیں ۔خواہ وہ کچھ خصوصی احکامات ہوں جو کہ ہمارے نبی ﷺ کے لئے ہی خاص تھے۔ یا ایسے عام احکامات ہوں جس میں آپ اور آپ کی امت کے افراد سب ہی شامل ہیں۔
ہر حال میں اسلامی شریعت ہی کونبی ﷺ اور آپ کی امت کے تمام افراد پربر تری اور حکمرانی حاصل ہے۔
اور اسلامی شریعت (قرآن اور صحیح احادیث)ہی اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشخبری تک پہنچنے کا سب سے بہترین راستہ ہے اور اسلامی شریعت ہی خیر و کا میابی اور اچھائی کی طرف بلانے والا سب سے عظیم راہنما اور قائد ہے۔
کیا آپ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر غورنہیں کرتے:
وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُ‌وحًا مِّنْ أَمْرِ‌نَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِ‌ي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَـٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورً‌ا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا الشورى: ٥٢
اور (اے محمدﷺ)اسی طرح ہم نےاپنے حکم سے آپ کی طرف روح القدس کے ذریعے سے(قرآن) بھیجا ۔آپ نہ تو کتاب کو جانتے تھے اور نہ ایمان کو لیکن ہم نے اس کو نور بنایا ہے کہ اس سے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں ہدایت کرتے ہیں۔
تو محمد ﷺ ہی وہ پہلےانسان ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اور ایمان کے ذریعے ہدایت عطا کی پھر جس نے بھی ہدایت کے اس راستے میں محمدﷺ کی پیروی کی تو اسے بھی ہدایت حاصل ہوئی ۔اور در حقیقت قرآن مجید ہی راہنمائی کرنے والی (اور ہدایت اور خیر کی طرف بلانے والی) کتاب ہے۔اور نبی کریم ﷺ پر اترنے والی وحی ،قرآن مجید کی تشریح اور وضاحت کرنے والی ہے ۔ (یہاں لفظ وحی میں نبی ﷺکی صحیح احادیث بھی شامل ہیں) اور مخلوق قرآن مجید اور نبی کریم ﷺ کی صحیح احادیث دونوں سے ہی ہدایت اور راہنمائی حاصل کر تے ہیں۔
اور جب نبی کریم ﷺ کا دل و جسم اور ان کا ظاہر و باطن حق اور ہدایت کے نور سے علم و عمل کے ذریعے جگمگا اٹھا تو پھر رسول اللہ ﷺ ہی اس پوری امت کے لئے سب سے عظیم رہنمائی کرنے والے بن گئے اور اللہ تعالیٰ نے یہ پوری انسانیت میں سے ہمارے نبی مکرم محمد ﷺ کو ہی اس عظیم مقام و مرتبے کے لئے چنا اور منتخب کیا کہ ان کے پاکیزہ دل پر وحی کے نور کو نازل کیا جائے۔
جس وحی کے عظیم نور سے ہمارے نبی ﷺکا دل و جسم جگمگا اٹھا اور ہمارے نبی مکرم محمد ﷺ کے اخلاق پوری ہی طرح قرآن کے عظیم سانچے میں ڈھل گئے یہاں تک کہ خود اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی ﷺکے بارے میں گواہی دے دی کہ
وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ ﴿٤ القلم: ٤
”اے محمد !بلا شبہ آپ اخلاق کے عظیم درجہ پر فائز ہیں“
اور یہ عظیم درجہ اس لئے حاصل ہوا کہ آپ ﷺنے پوری طرح قرآن مجید یعنی وحی کی پابندی کی اور آپ نے اپنے علم وعمل کو مکمل طور پر قرآن مجیدکی تعلیمات کے مطابق کر دیا۔ پھر آپﷺ کا عالم یہ تھا کہ جب وہ کسی بھی بات کا حکم دیتے تو خود ہی سب سےپہلے اس کی پابندی کرنے والے ہوتے ۔اور جب بھی کسی بات سے منع فرماتے تو سب سے پہلے اس سے گریز کرنے والےآپ ہی ہوتے ۔اور جب بھی کوئی نصیحت فرماتے تو سب سے پہلے اس پر عمل کرنے والے ہوتے ۔اور جب بھی کسی چیز سے ڈرانے والے ہوتے تو خود ہی سب سے پہلے اس سے ڈرنے والے ہوتے ۔ اور جب بھی کبھی اللہ کی رحمت کی امید دلاتے تو خود ہی اللہ کی رحمت سے سب سے زیادہ امیدیں وابستہ کرنے والے ہوتے ،اور محمد ﷺ پر اترنے والی شریعت خود ان پر ہی حکمرانی کرنے والی سب سے بڑی دلیل اور حجت بن گئی ۔اور ان کے لئے اس سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرنے والی بن گئی جس پر کہ وہ چلے ۔اور جب محمدﷺ کے لئے رسول ہونے کے باوجود شریعت کی پیروی کرنا اور اس کی پابندی کرنا ضروری تھا ۔تو پھر باقی تمام ہی مخلوق (سارے ہی انسانوں اور جنوں ) کے لئے تو زیادہ ہی ضروری ہے کہ وہ بھی محمد ﷺپر اترنے والی شریعت (قرآن مجید اور صحیح احادیث ) کی اور زیادہ ہی پابندی اورپیروی کریں ۔اور قرآن اور صحیح احادیث کو ہی اپنا قائد امام اور راہنما بنائیں ۔اور وہ قرآن اور صحیح احادیث ہی حق اور کامیابی کی منزل ہے۔ اور اب سارے ہی انسان جس قدر محمد ﷺ پر اترنے والی شریعت کی پابندی کرینگے اور جس قد ر اپنے اقوال و افعال اور عقیدوں کو قرآن مجید اور صحیح احادیث کے مطابق بنائیں گے۔ تو اسی قدر انہیں عزت اور کامیابی حاصل ہوگی۔
تو جو بھی شخص جس قدر محمد ﷺکی لائی ہوئی شریعت( قرآن اور صحیح احادیث ) کی پیروی کرے گا تو اسی قدر اسے دنیا اور آخرت میں عزت ،کامیابی اور اعلیٰ ترین مقام ومرتبہ حاصل ہوگا۔اور جو بھی شخص جس قدر قرآن اور صحیح احادیث کی پیروی کرنے میں کمی اور کوتاہی کرے گا تو اسی قدر اس شخص کی عزتوں کامیابیوں اور اس کے مقام ومرتبہ میں کمزوری واقع ہو جائے گی۔کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت کی عزتوں اور کامیابیوں کو قرآن مجید اور صحیح احادیث پر عمل کرنے سے وابستہ اور مشروط کر دیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وہ آیات جو اتباع پر دلالت کرتی ہیں

الف: اللہ رب العالمین کی اتباع کرنا

(١)قُلْ هَلْ مِن شُرَ‌كَائِكُم مَّن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ ۚ قُلِ اللَّـهُ يَهْدِي لِلْحَقِّ ۗ أَفَمَن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لَّا يَهِدِّي إِلَّا أَن يُهْدَىٰ ۖ فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ ﴿٣٥ (يونس)
(١) آپ كہئے كہ تمہارے شركاء میں كوئی ایسا ہے كہ حق كا راستہ بتاتا ہو؟ آپ كہہ دیجئے كہ اللہ ہی حق كا راستہ بتاتا ہے ۔تو پھر آیا جو ذات حق كا راستہ بتاتی ہو وہ زیادہ اتباع كے لائق ہے یا وہ شخص جس كو بغیر بتائے خود ہی راستہ نہ سوجھے؟ پس تم كو كیا ہو گیا ہے تم كیسے فیصلے كرتے ہو(35)
(٢)الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْ‌شَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَ‌بِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُ‌ونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَ‌بَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّ‌حْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ‌ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ ﴿٧ (غافر)
(٢)عرش كے اٹھانے والے اور اس كے اس پاس كے (فرشتے) اپنے رب كی تسبیح حمد كے ساتھ ساتھ كرتے ہیں اور اس پر ایمان ركھتے ہیں اور ایمان والوں كے لئے استغفار كرتے ہیں، كہتے ہیں كہ اے ہمارے پروردگار تو نے ہر چیز كو اپنی بخشش اور علم سے گھیر ركھا ہے پس تو انہیں بخش دے جو تو بہ كریں اور تیری راہ كی پیروی كریں اور تو انہیں دوزخ كے عذاب سے بھی بچالے(7)
(٣)ذَٰلِكَ بِأَنَّ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا اتَّبَعُوا الْبَاطِلَ وَأَنَّ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّبَعُوا الْحَقَّ مِن رَّ‌بِّهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ يَضْرِ‌بُ اللَّـهُ لِلنَّاسِ أَمْثَالَهُمْ ﴿٣ (محمد)
(٣) یہ اس لئے كہ كافروں نے باطل كی پیروی كی اور مومنوں نے اس دین حق كی اتباع كی جو ان كے اللہ كی طرف سے ہے اللہ تعالیٰ لوگوں كو ان كے احوال اسی طرح بتاتا ہے(3)
(٤)لَا تُحَرِّ‌كْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ﴿١٦﴾ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْ‌آنَهُ ﴿١٧﴾ فَإِذَا قَرَ‌أْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْ‌آنَهُ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ﴿١٩ (القيامة)
(٤) (اے نبی )آپ قرآن كو جلدی ( یاد كرنے ) كے لئے اپنی زبان كو حركت نہ دیں(16)اس كا جمع كرنا اور ( آپ كی زبان سے) پڑھنا ہمارے ذمہ ہے(17)ہم جب اسے پڑھ لیں تو آپ اس كے پڑھنے كی پیروی كریں(18)پھر اس كا واضح كر دینا ہمارے ذمہ ہے(19)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
(ب) رسول اللہ ﷺ، انیباء ورسل علیہم السلام اور نیک بندوں کی اتباع

(٥)وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّ‌سُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّ‌سُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَ‌ةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّـهُ ۗ وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بِالنَّاسِ لَرَ‌ءُوفٌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١٤٣ (البقرة)
(٥) ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تاكہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول تم پر گواہ ہو جائیں جس قبلہ پر تم پہلے سے تھے اسے ہم نے صرف اس لئے مقرر كیا تھا كہ ہم جان لیں كہ رسول كا سچا تابعدار كون ہے اور كون ہے جو اپنی ایڑیوں كے بل پلٹ جاتا ہے ،گو یہ كام مشكل ہے، مگر جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے ( ان پر كوئی مشكل نہیں)اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان ضائع نہیں كرے گا اللہ تعالیٰ لوگوں كے ساتھ شفقت اور مہربانی كرنے والا ہے(143)
(٦)إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّـهِ الْإِسْلَامُ ۗ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۗ وَمَن يَكْفُرْ‌ بِآيَاتِ اللَّـهِ فَإِنَّ اللَّـهَ سَرِ‌يعُ الْحِسَابِ ﴿١٩﴾ فَإِنْ حَاجُّوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّـهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ ۗ وَقُل لِّلَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْأُمِّيِّينَ أَأَسْلَمْتُمْ ۚ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ ۗ وَاللَّـهُ بَصِيرٌ‌ بِالْعِبَادِ ﴿٢٠ (آل عمران)
(٦) بے شك اللہ تعالیٰ كے نزدیك دین اسلام ہی ہے،اور اہل كتاب نے اپنے پاس علم آجانے كے بعد آپس كی سر كشی اور حسد كی بنا پر ہی اختلاف كیا ہے اور اللہ تعالیٰ كی آیتوں كے ساتھ جو بھی كفر كرے اللہ تعالیٰ اس كا جلد حساب لینے والا ہے(19)پھر بھی اگر یہ آپ سے جھگڑیں تو آپ كہہ دیں كہ میں اور میرے تابعداروں نے اللہ تعالیٰ كے سامنے اپنا سر تسلیم خم كر دیا ہے اور اہل كتاب سے اور ان پڑھ لوگوں سے كہہ دیجئے كہ كیا تم بھی اطاعت كرتے ہو؟ پس اگر یہ بھی تابعدار بن جائیں تو یقینا ہدایت والے ہیں اور اگر یہ رو گردانی كریں، تو آپ پر صرف پہنچا دینا ہے اور اللہ بندوں كو خوب دیكھ بھال رہا ہے(20)
(٧) قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ‌ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٣١ (آل عمران)
(٧) كہہ دیجئے اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت ركھتے ہو تو میری تابعداری كرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت كرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے(31)
(٨)فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَىٰ مِنْهُمُ الْكُفْرَ‌ قَالَ مَنْ أَنصَارِ‌ي إِلَى اللَّـهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِ‌يُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ‌ اللَّـهِ آمَنَّا بِاللَّـهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ ﴿٥٢﴾ رَ‌بَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّ‌سُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ ﴿٥٣ (آل عمران)
(٨) مگر جب عیسیٰ علیہ السلام نے ان كا كفر محسوس كر لیا تو كہنے لگے اللہ تعالیٰ كی راہ میں میری مدد كرنے والا كون كون ہے؟ حواریوں نے جواب دیا كہ ہم اللہ تعالیٰ كی راہ كے مدد گار ہیں، ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہئے كہ ہم تابعدار ہیں(52)اے ہمارے پالنے والے معبود ہم تیری اتاری ہوئی وحی پر ایمان لائے اور ہم نے تیرے رسول كی اتباع كی ،پس تو ہمیں گواہوں میں لكھ لے(53)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
(٩)إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَ‌اهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـٰذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا ۗ وَاللَّـهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ﴿٦٨ (آل عمران)
(٩) ابراہیم سے قرب رکھنے والے تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان كا كہا مانا اور یہ نبی اور جو لوگ ایمان لائے، اور مومنوں كا ولی اور سہارا اللہ ہی ہے(68)
(١٠)قُلْ صَدَقَ اللَّـهُ ۗ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَ‌اهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ﴿٩٥ (آل عمران)
(١٠) كہہ دیجئے كہ اللہ تعالیٰ سچا ہے تم سب ابراہیم حنیف كے ملت كی پیروی كرو،جو مشرك نہ تھے(95)
(١١)الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّ‌سُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَ‌اةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُ‌هُم بِالْمَعْرُ‌وفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ‌ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّ‌مُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَ‌هُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُ‌وهُ وَنَصَرُ‌وهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ‌ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿١٥٧﴾ قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَ‌سُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۖ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿١٥٨ (الأعراف)
(١١) جو لوگ ایسے رسول نبی امی كی اتباع كرتے ہیں جن كو وہ لوگ اپنے پاس تورات و انجیل میں لكھا ہوا پاتے ہیں،وہ ان كو نیك باتوں كا حكم فرماتے ہیں اور بری باتوں سے منع كرتے ہیں اور پاكیزہ چیزوں كو حلال بتاتے ہیں اور گندی چیزوں كو ان پر حرام فرماتے ہیں اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے ان كو دور كرتے ہیں، سو جو لوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں اور ان كی حمایت كرتے ہیں اور ان كی مدد كرتے ہیں اور اس نور كا اتباع كرتے ہیں جو ان كے ساتھ بھیجا گیا ہے، ایسے لوگ پوری طرح فلاح پانے والے ہیں(157)آپ كہہ دیجئے كہ اے لوگو میں تم سب كی طرف اس اللہ تعالیٰ كا بھیجا ہوا ہوں، جس كی بادشاہی تمام آسمانوں اور زمین میں ہے اس كے سوا كوئی عبادت كے لائق نہیں وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے سو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اس كے نبی امی پر ایمان لاؤ جو كہ اللہ تعالیٰ پر اور اس كے احكام پر ایمان ركھتے ہیں اور ان كا اتباع كرو تاكہ تم راہ پر آجاؤ(158)
(١٢)يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّـهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿٦٤ (الأنفال)
(١٢)اے نبی تجھے اللہ كافی ہے اور ان مومنوں كو جو تیری پیروی كر رہے ہیں(64)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
(١٣)لَّقَد تَّابَ اللَّـهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِ‌ينَ وَالْأَنصَارِ‌ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَ‌ةِ مِن بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِ‌يقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّهُ بِهِمْ رَ‌ءُوفٌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١١٧(التوبة)
(١٣) اللہ تعالیٰ نے پیغمبر كے حال پر توجہ فرمائی اور مہاجرین اور انصار كے حال پر بھی جنہوں نے ایسی تنگی كے وقت پیغمبر كا ساتھ دیا ، اس كے بعد كہ ان میں سے ایك گروہ كے دلوں میں كچھ تزلزل ہو چلا تھا، پھر اللہ نے ان كے حال پر توجہ فرمائی ،بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان سب پر بہت ہی شفیق مہربان ہے(117)
(١٤)قَالَ لَا يَأْتِيكُمَا طَعَامٌ تُرْ‌زَقَانِهِ إِلَّا نَبَّأْتُكُمَا بِتَأْوِيلِهِ قَبْلَ أَن يَأْتِيَكُمَا ۚ ذَٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِي رَ‌بِّي ۚ إِنِّي تَرَ‌كْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَهُم بِالْآخِرَ‌ةِ هُمْ كَافِرُ‌ونَ ﴿٣٧﴾ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَ‌اهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۚ مَا كَانَ لَنَا أَن نُّشْرِ‌كَ بِاللَّـهِ مِن شَيْءٍ ۚ ذَٰلِكَ مِن فَضْلِ اللَّـهِ عَلَيْنَا وَعَلَى النَّاسِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌ النَّاسِ لَا يَشْكُرُ‌ونَ ﴿٣٨ (يوسف)
(١٤)یوسف علیہ السلام نے كہا تمہیں جو كھانا دیا جاتا ہے اس كے تمہارے پاس پہنچنے سے پہلے ہی میں تمہیں اس كی تعبیر بتلادوں گا ،یہ سب اس علم كی بدولت ہے جو مجھے میرے رب نے سكھایا ہے، میں نے ان لوگوں كا مذہب چھوڑدیا ہے اللہ پر ایمان نہیں ركھتے اور آخرت كے منكر ہیں(37)میں اپنے باپ دادوں كے دین كا پابند ہوں یعنی ابراہیم و اسحاق اور یعقوب كے دین كا،ہمیں ہر گز یہ سزاوار نہیں كہ ہم اللہ تعالیٰ كے ساتھ كسی كو بھی شریك كریں، ہم پر اور تمام اور لوگوں پر اللہ تعالیٰ كا یہ خاص فضل ہے، لیكن اكثر لوگ نا شكری كرتے ہیں(38)
(١٥)قُلْ هَـٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّـهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَ‌ةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللَّـهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ﴿١٠٨ (يوسف)
(١٥)آپ كہہ دیجئے میری راہ یہی ہے میں اور میرے متبعین اللہ كی طرف بلا رہے ہیں ، پورے یقین اور اعتماد كے ساتھ، اور اللہ پاك ہے اور میں مشركوں میں نہیں(108)
(١٦)رَ‌بِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرً‌ا مِّنَ النَّاسِ ۖ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٣٦ (إبراهيم)
(١٦)اے میرے پالنے والے بے شک یہ معبود انہوں نے بہت سے لوگوں كو راہ سے بھٹكا دیا ہے پس میری تابعداری كرنے والا میرا ہے اور جو میری نا فرمانی كرے تو تو بہت ہی معاف كرنے والا ہے(36)
(١٧)ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَ‌اهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ﴿١٢٣ (النحل)

(١٧)پھر ہم نے آپ كی جانب وحی بھیجی كہ آپ ملت ابراہیم حنیف كی پیروی كریں، جو مشركوں میں سے نہ تھے(123)​
(١٨)قَالَ لَهُ مُوسَىٰ هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَىٰ أَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُ‌شْدًا ﴿٦٦ (الكهف)
(١٨)اس سے موسیٰ نے كہا كہ میں آپ كی تابعداری كروں؟ كہ آپ مجھے یہ نیك علم كو سكھادیں جو آپ كو سكھایا گیا ہے(66)
(١٩)إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ‌ وَلَا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا ﴿٤٢﴾ يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَ‌اطًا سَوِيًّا ﴿٤٣ (مريم)
(١٩)جبكہ انہوں نے اپنے باپ سے كہہ دیا كہ ابا جان آپ ان كی پوجا پاٹ كیوں كر رہے ہیں جو نہ سنیں نہ دیكھیں؟ نہ آپ كو كچھ بھی فائدہ پہنچا سكیں(42)میرے مہربان باپ آپ دیكھیے میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ كے پاس آیا ہی نہیں، تو آپ میری ہی مانیں میں بالكل سیدھی راہ كی طرف آپ كی رہبری كروں گا(43)
 
Top