- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
الإتباع
(پیروی کرنا/موافقت کرنا)
لغوی بحث:
”إتِّبَاعٌ“،”اِتَّبَعَ“ کا مصدر ہے(ت ب ع)کے مادہ سے ماخوذ ہے، جو پیچھے چلنے اور پیروی کرنے کا معنی دیتا ہے۔لہٰذا جب آپ کسی کے پیچھے پیچھے چلیں یا کوئی گزر رہا ہو اور آپ ان کے ساتھ ساتھ ہو لیں تو کہیں گے : ”تَبِعْتُ الْقَوْمَ تَبَعًا وَتَبَاعَةً“ (ت)پر فتح کیساتھ۔اور”تَبِعْتُ الشَّئ“ یعنی : میں اس کے پیچھے چلا اور”التَّابِعُ“ کا معنی ہے پیچھے چلنے والا ۔اس کی جمع ”تُبَّعٌ“، ”تُبَّاعٌ“اور ”تَبَعَةٌ“ہے اور”التَّبَعُ“ اس کا اسم الجمع ہے۔ابو عبید کہتے ہیں کہ : جب لوگ آگے نکل جائیں اور آپ پیچھے سے ان سے جا ملیں تو کہیں گے :”أتْبَعْتُ الْقَوْمَ“یعنی میں ان سے جاملا۔
امام فراءنے کہا کہ ”أتْبَعَ“، ”إِتَّبَعَ“ کی نسبت عمدہ تعبیر ہے کیوں کہ”الإِتِّبَاعُ“ کا معنی ہے کہ کوئی چل رہا ہے اور آپ ان کے پیچھے فاصلے سے چل رہے ہیں جبکہ”أتْبَعْتُهُ“ کامفہوم یہ ہے کہ آپ بلافاصلہ اس کے ساتھ پیچھےپیچھے ہیں۔
اور”إِتَّبَعَ الْقُرْآنَ“ یعنی قرآن کی اقتداء میں چلا اور اس کے مندرجات پر عمل پیرا رہا۔چنانچہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہسے یہ حدیث(مرفوعاً) مروی ہے کہ:یہ قرآن تمہارے لئے اجر کا باعث بھی ہے اور تمہارے اوپر بوجھ کا سبب بھی ۔چنانچہ قرآن کی اقتداء کرو، ایسا نہ ہو کہ قرآن تمہارا پیچھا کرے۔ پس :جو شخص قرآن کی پیروی کرتا رہا تو یہ اسے جنت کے باغات میں جا پہنچائے گا۔اور جس نے قرآن کو پیچھے چھوڑ دیا تو قرآن اسے گُدی سے جکڑ کر جہنم میں دھکیل دے گا۔ ۔وہ فرماتے ہیں کہ : اسے اپنا پیشوا بنالو پھر اس کی تلاوت کرو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ …. (البقرة: ١٢١) یعنی وہ اس کی کما حقہ پیروی کرتے ہیں ان کا مقصد ہے کہ : قرآن کی تلاوت اور اس پر عمل سے ہر گز گریزاں مت رہو۔ اگر ایسا کرو گے تو گویا تم نے قرآن کو پیچھے چھوڑ دیا۔
”تَابَعَ بَيْنَ الْأُمُوْرِ مُتَابَعَةً وَتِبَاعًا“اور اس نے معاملات کے درمیان متابعت کی یعنی اس نے کاموں کو مسلسل کیا اور کاموں کو ایک دوسرے کے پیچھے انجام دیا۔
”وَتَابَعَ عَمَلَهُ وَكَلَامَهُ: أَتْقَنَهُ وَأَحْكَمَهُ“اس نے اپنے کاموں میں متابعت کی ۔یعنی اس نے ان کو اچھے اور عمدہ انداز سے انجام دیا۔اور اس نے اپنے کام اور اپنے کلام کو مسلسل جاری رکھا اور اسی معنی پر ابی واقد لیثی کی حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنے اعمال کو درست کرنے کی کوشش کی تو آخرت کو حاصل کرنے کے سلسلے میں ہمیں دنیا میں زہد سے بڑھ کر کوئی عمل بہتر نہیں ملا۔
اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے اپنی گفتگو میں متابعت کی اور وہ گفتگو کا”تَبِیْعٌ“ ہے۔ تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے اپنی گفتگو کو عمدہ اور شاندار انداز میں بیان کیا ۔اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی گفتگو میں متابعت کر رہا ہےتو یہ معنی بھی ہوتا ہے کہ اسے بیان کر رہا ہے (اور وہ اپنی گفتگو کو مسلسل جاری بھی رکھےہوئے ہوتا ہے)۔
اور یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ جب یہ کہا جائے کہ فلاں شخص ”مُتَتَابِعُ الْعِلْمِ“ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس کے علم کا کچھ حصہ اس کے ہی علم کے دوسرے حصوں سے ملتا جلتا ہے اور اس کےعلم میں کوئی فرق نہیں (اور ٹکراؤ نہیں)ہے۔1
لغۃً”إتبَاعَ“یہ ہے کہ چلنے والے کے پاؤں کے نشانات کے پیچھے چلنا، پھر دوسروں کے کاموں کی طرح جو کام کئے جائیں ان کے لئے بھی اتباع کا لفظ استعمال کیا جانے لگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں یہ معنی موجود ہیں: وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ (التوبة: ١٠٠) (ترجمہ)”اورجنہوں نے اچھائی کے ساتھ ان (صحابہ کرام)کی پیروی کی“۔یعنی اچھائی کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلے اور اچھائی کے ساتھ ان کے منہج کو اپنا یا۔پھر جو احکامات کی پابندی کرتا ہے اور جو قائد وسردار کے کہنے کے مطابق عمل کرتا ہے اس کے لئے بھی اتباع کا لفظ استعمال کیا جانے لگا۔
[1] - تفسير التحرير والتنوير(۷/۴۲۳)
Last edited: