کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,805
- پوائنٹ
- 773
ایک روایت میں آیا ہے کہ صحابی رسول اور مفسرقران عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے یزید بن معاویہ کو صالح ونیک قرار دیا ہے اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یزید بن معاویہ کو نیک اورصالح سمجھتے تھے ۔ ہم نے بہت عرصہ قبل اس روایت کی تحقیق پیش کی تھی اور اس کے ہر ہر راوی کی توثیق ثابت کی تھی ، پھر کچھ دنوں بعد یزید بن معاویہ کے بعض مخالفین کے میرے اس مضمون کو حافظ زبیرعلی زئی کے سامنے پیش کیا اور ان کا فیصلہ طلب کیا ، موصوف چونکہ یزید کی شدید مذمت کرتے تھے اس لئے ظاہر ہے کہ یہ روایت ان کے لئے پریشان کن ثابت ہوئی اس لئے موصوف نے حددرجہ تکلفات سے کام لیتے ہوئے اس روایت کو ضعیف ثابت کرنے کے ناکام کوشش کی اس ضمن میں موصوف نے اس کی سند کے ایک راوی ’’عبدالرحمن بن معاویہ ‘‘ کے بارے میں دعوی کیاکہ جمہور نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اس لئے یہ راوی ضعیف ہے اس سلسلے میں موصوف نے امام ہیثمی رحمہ اللہ کا قول بطور تائید پیش کیا کہ امام ہیثمی رحمہ اللہ نے بھی کہا ہے کہ اکثر نے اس راوی کو ضعیف کہاہے۔
حالانکہ اس سے پہلے خود موصوف نے ہی امام ہیثمی کے اس قول کو مردود قرار دیا تھا اوراس کے خلاف اپنی یہ تحقیق پیش کی تھی کہ جمہور نے اس راوی کو ثقہ کہا ہے دیکھئے : تحقیقی مقالات ج 3 ص 385 ۔ نیز دیکھیں : مجلہ الحدیث : 107 ص 48۔
لیکن شاید یہ تحقیق پیش کرتے وقت انہیں یہ علم نہیں تھا کہ اسی راوی نے ایک عظیم صحابی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے یزید بن معاویہ کی تعریف نقل کی ہے ۔ اور جوں ہی آں جناب کے سامنے میرا مضمون پیش ہوا اور یہ حقیقت سامنے آئی کہ اس راوی نے ایک عظیم صحابی سے یزید بن معاویہ کی تعریف نقل کی ہے ۔ پھر کیا تھا ! تحقیق کی پوری کایا پلٹ گئی، توثیق کرنے والے جمہور کی پوری عمارت منہدم ہوگئی۔ اب دوبارہ الیکشن ہوا ، نئے سرے سے ووٹنگ ہوئی اور اس بار ٹوٹے پھوٹے ووٹ حاصل کرکے نام نہاد جمہوریت کی تلوار اٹھائی گئی اور مدح یزید میں روایت بیان کرنے کی پاداش میں بے چارے ’’عبدالرحمن بن معاویہ‘‘ کی ثقاہت کا بڑی ہی بے دردی و بے رحمی سے خون کردیا گیا ۔
عرض ہے کہ اول تو محض جمہوریت اور ووٹنگ سے کسی راوی کی توثیق و تضعیف والا اصول ہی مضحکہ خیز ہے ۔ دوم یہ کہ خود جمہور ہی نے اس راوی کو ثقہ وصدوق اور حسن الحدیث مانا ہے ۔ثبوت میں درج ذیل سطور پیش خدمت ہیں :
صحابی رسول عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی زبانی یزید بن معاویہ کو صالح و نیک قراردینے والی بلاذری رحمہ اللہ کی روایت کو ضعیف ثابت کرنے کے لئے محمد مهدي الخرسان رافضی لکھتا ہے :
والراوي عنه عبد الرحمن بن معاوية هو ابن الحويرث الانصاري الزرقي أبو الحويرث المدني الّذي قال فيه مالك: ليس بثقة، قال ابن عدي: ليس له كثير حديث ومالك أعلم به لأنّه مدني ولم يرو عنه شيئاً. وقال أبو حاتم: ليس بقوي يكتب حديثه ولا يحتج به، وعن ابن معين: ليس يحتج بحديثه. وقال مالك: قدم علينا سفيان فكتب عن قوم یرمون بالتخنيث يعني أبا الحويرث منهم، قال أبو داود: وكان يخضب رجليه وكان من مرجيء أهل المدينة، وقال النسائي: ليس بذاك
عامربن مسعود رحمہ اللہ سے اس روایت کو نقل کرنے والا عبدلرحمن بن معاویہ ہے اور یہ ابن الحویرث انصاری ، زرقی ، مدنی ابوالحویرث ہے جس کے بارے میں امام مالک نے کہا : یہ ثقہ نہیں ہے ، اور ابن عدی نے کہا : اس کی زیادہ حدیثیں نہیں ہیں اور امام مالک اس کے بارے میں بہتر جانتے ہیں کیونکہ یہ مدنی ہے اورامام مالک نے اس سے کچھ روایت نہیں کیا۔ ابوحاتم نے کہا: یہ قوی نہیں ہے اس کی حدیث لکھی جائے گی اور اس سے حجت نہیں پکڑی جائے گی ۔ ابن معین نے کہا: اس سے حجت نہیں پکڑی جائے گی۔امام مالک کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سفیان آئے وہ ایسے لوگوں سے روایت لکھتے تھے جن پر ہجڑے پن کی تہمت لگائی جاتی تھی یہ ان میں ابوالحویرث کو بھی مراد لیتے تھے۔ اورامام ابوداؤد نے کہا کہ: یہ اپنے پاؤں میں مہدی لگاتا تھا اور یہ اہل مدینہ کے مرجئوں میں سے تھا ۔ اور امام نسائی نے کہا کہ یہ بہت زیادہ قوی نہیں ہے۔[موسوعة عبد الله بن عباس ـ ج 05 ص 211...]۔
عرض ہے کہ جارحین کے کے اقوال پر تبصرہ ہم آگے کریں لیکن اس قبل یہ واضح ہو کہ رافضی کی ذکردہ باتوں میں سے کچھ باتیں جرح کے باب میں سرے سے غیر مقبول ہیں مثلا امام مالک نے بھی ابوالحویرث پرلگائی گئی ہجڑے پن کی تہمت کا ذکر کیا ہے لیکن انہوں نے ’’یرمون‘‘ ان پرتہمت لگائی جاتی تھی کہا ہے اور یہ صراحت نہیں کی ہے کہ یہ تہمت لگانے والے کون لوگ ہیں وہ ثقہ ہیں یا نہیں اسی طرح انہوں نے خود یہ بات دیکھی ہے یا نہیں اس لئے امام مالک رحمہ اللہ کی یہ جرح بھی بغیر شہادت و ثبوت کے ہے اس لئے غیر مسموع ہے۔
اور اس طرح کے چیزوں کا ماخذ راوی کی روایات نہیں ہوتی ہیں بلکہ اس کے لئے شہادت وثبوت کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا اگر کوئی محدث بغیر شہادت وثبوت کے اس طرح کا الزام لگائے تو اسے رد کردیا جاتا ہے۔بعض محدثین پر گانا باجا وغیرہ سننے کا بھی الزام ہے لیکن چونکہ اس سے متعلق کوئی گواہی اور ثبوت موجود نہیں ہے اس لئے اہل فن نے اس طرح کے الزامات کو رد کردیا ہے۔
یہی حال امام ابوداؤد کے تبصرہ کا بھی ہے اس کی بنیاد ابولحویرث کی طرف منسوب عقیدہ و عمل ہے اور ابوالحویرث سے اس طرح کے عقیدہ یا اس طرح کے عمل کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ۔ لہذا اصل بنیاد منہدم ہونے کے سبب یہ جرح بھی منہدم ہے۔
زبیرعلی زئی صاحب لکھتے ہیں:
حافظ ذہبی نے بھی عمروبن یحیی کو ابن معین کی طرف منسوب غیرثابت جرح کی وجہ سے دیوان الضعفاء والمتروکین (٢/ ٢١٢ت ٩٢٢٣) وغیرہ میں ذکرکیا ہے اوراصل بنیاد منہدم ہونے کی وجہ سے یہ جرح بھی منہدم ہے [الحدیث :95 ص 82]۔
نیز ان باتوں کو نقل کرنے والے ابوعبید الاجری ہیں اور بعض کے نزدیک ابوعبید الآجری مجہول ہیں اس لئے ان کے اصول کے تحت یہ باتیں ثابت ہی نہیں۔اس کے علامہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے امام مالک کی یہ بات کس کے ذریعہ سنی ہے اس کا بھی نام نہیں بتایا ہے لہٰذا امام مالک سے بھی یہ بات بسند صحیح ثابت نہیں ہے۔اور امام ابوداؤد نے اپنے الزام کا بھی کوئی حوالہ نہیں دیا ہے کہ یہ بات انہیں کیسے معلوم ہوئی۔لہٰذا ان سب باتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
اب اس رافضی کے ذکر کردہ دیگر اقوال اور اس کے ساتھ ساتھ زبیرعلی زئی صاحب کی پیش کردہ جروح اسی طرح بعض دیگر اقوال جرح پرتبصرہ ملاحظہ ہو:
امام مالک رحمہ اللہ۔
امام ابن أبي حاتم رحمه الله (المتوفى327)نےکہا:
أنا عبد الله بن أحمد بن محمد ابن حنبل فيما كتب إلى قال قال أبي: أبو الحويرث روى عنه سفيان الثوري وشعبة، فقلت إن بشر بن عمر زعم أنه سأل مالك بن أنس عنه فقال: ليس بثقة، فأنكره فقال: لا وقد حدث عنه شعبة.[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 5/ 284 وسندہ صحیح]۔
امام مالک رحمہ اللہ جرح کرنے میں متشدد ہیں اور آپ کی جرح غیر مفسر ہے اوراس کے ساتھ ساتھ جمہورمحدثین کے خلاف بھی ہے بھی لہٰذا غیرمسموع ہے اسی لئے امام احمدرحمہ اللہ نے اسے ردکردیاہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ’’امام احمد رحمہ اللہ کی توثیق کا مدار امام شعبہ کی توثیق پر ھے اور اگر امام شعبہ کا قول امام مالک کے تعارض میں آجائے تو امام مالک کے قول کا اعتبار کیا جائے گا نہ کہ امام شعبہ کے قول کا‘‘
عرض ہے کہ:
یہاں امام مالک کے بالمقابل امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کی توثیق کئی لحاظ سے راجح ہے۔
امام ابوحاتم رحمہ اللہ:
امام ابن أبي حاتم رحمه الله (المتوفى327)نے کہا:
سألت أبي عن أبي الحويرث فقال: ليس بقوي يكتب حديثه ولا يحتج به[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 5/ 284]۔
اول تو یہ جرح جمہورکے خلاف ہے، دوم ثابت شدہ توثیق کے بالمقابل ابوحاتم کا یہ جملہ غیرمسموع ہے کیونکہ وہ متشدد ہیں اورثٖقات کے بارے میں بھی یہ جملہ عام طورپربولتے ہیں:
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
إِذَا وَثَّقَ أَبُو حَاتِمٍ رَجُلاً فَتَمَسَّكْ بِقَولِهِ، فَإِنَّهُ لاَ يُوَثِّقُ إِلاَّ رَجُلاً صَحِيْحَ الحَدِيْثِ، وَإِذَا لَيَّنَ رَجُلاً، أَوْ قَالَ فِيْهِ: لاَ يُحْتَجُّ بِهِ، فَتَوَقَّفْ حَتَّى تَرَى مَا قَالَ غَيْرُهُ فِيْهِ، فَإِنْ وَثَّقَهُ أَحَدٌ، فَلاَ تَبْنِ عَلَى تَجْرِيْحِ أَبِي حَاتِمٍ، فَإِنَّهُ مُتَعَنِّتٌ فِي الرِّجَالِ ، قَدْ قَالَ فِي طَائِفَةٍ مِنْ رِجَالِ (الصِّحَاحِ): لَيْسَ بِحُجَّةٍ، لَيْسَ بِقَوِيٍّ، أَوْ نَحْو ذَلِكَ.
جب امام ابوحاتم کسی راوی کو ثقہ کہہ دیں تو اسے لازم پکڑلو کیونکہ وہ صرف صحیح الحدیث شخص ہی کی توثیق کرتے ہیں اور جب وہ کسی شخص کو ’’لین‘‘ قرار دیں یا اس کے بارے میں یہ کہیں کہ ’’اس سے حجت نہیں پکڑی جائے گی ‘‘ تو اس جرح میں توقف اختیار کرو یہاں تک کہ دیکھ لو کہ دوسرے ائمہ نے اس کے بارے میں کیا کہا ہے ، پھر اگر کسی نے اس راوی کی توثیق کی ہے تو ابو حاتم کی جرح کا اعتبار مت کرو کیونکہ وہ رواۃ پر جرح کرنے میں متشدد ہیں ، انہوں نے صحیحین کے کئی راویوں کے بارے میں یہ کہہ دیا کہ : ’’یہ حجت نہیں ہیں ، یہ قوی نہیں ہیں ،وغیرہ وغیرہ [سير أعلام النبلاء للذهبي: 13/ 260]۔
امام زيلعي رحمه الله (المتوفى762)نے کہا:
قَوْلُ أَبِي حَاتِمٍ: لَا يُحْتَجُّ بِهِ، غَيْرُ قَادِحٍ أَيْضًا، فَإِنَّهُ لَمْ يَذْكُرْ السَّبَبَ، وَقَدْ تَكَرَّرَتْ هَذِهِ اللَّفْظَةُ مِنْهُ فِي رِجَالٍ كَثِيرِينَ مِنْ أصحاب الثِّقَاتِ الْأَثْبَاتِ مِنْ غَيْرِ بَيَانِ السَّبَبِ، كَخَالِدٍ الْحَذَّاءِ، وَغَيْرِهِ، وَاَللَّهُ أَعْلَمُ.
امام ابوحاتم کا یہ فرمانا: ’’اس سے حجت نہیں لی جائے گی ‘‘ غیر قادح ہے، کیونکہ انہوں نے سبب ذکر نہیں کیا اوراس طرح کی جرح ان سے بغیر کسی تفسیر کے بڑے بڑے ثقات کے بارے میں صادر ہوئی ہے جیسے خالد الحذاء وغیرہ واللہ اعلم[نصب الراية للزيلعي: 2/ 439]۔
امام نسائی رحمہ اللہ :
آپ نے کہا:
عبد الرَّحْمَن بن مُعَاوِيَة أَبُو الْحُوَيْرِث لَيْسَ بِثِقَة
عبدالرحمن بن معاویہ ابوالحویرث ثقہ نہیں ہیں[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 68]۔
امام نسائی بھی متشددین میں سے ہیں نیز ان کی جرح غیرمفسر ہونے کے ساتھ ساتھ جمہورکے خلاف ہے لہٰذا غیرمسموع ہے۔
امام زکریا بن یحیی الساجی رحمہ اللہ
آپ نے ابو الحویرث کو اپنی کتاب الضعفاء میں ذکر کیا ہے۔ [بحوالہ: اکمال تہذیب الکمال للمغلطائی 8/229]
عرض ہے کہ ضعفاء کے مؤلفین کبھی کبھی ثقہ رواۃ کو بھی ضعفاء میں ذکر کردیتے ہیں یہ بتانے کے لئے ان پرفلان نے یہ جرح کی ہے اور ان کا مقصد اس راوی کو ضعیف بتلانا نہیں ہوتا ہے اورامام ساجی نے اس راوی کو ضعفاء میں کس طرح ذکر کیا ہے یہ معلوم نہیں ہے کہ ان کی کتاب مفقود ہے اور ان کے الفاظ کو بھی کسی نے نقل نہیں کیا ہے۔
امام بوصيري رحمه الله :
آپ فرماتے ہیں:
رَوَاهُ أَبُو يَعْلَى الْمَوْصِلِيُّ بِسَنَدٍ ضَعِيفٌ لِضَعْفِ أَبِي الْحُوَيْرِثِ
اسے ابویعلی موصلی نے ضعیف سند سے روایت کیا ہے کوینکہ ابوالحویرث یہ ضعیف ہے[إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة : 7 / 195 ]
یہ جرح بھی غیرمفسرہے نیز جمہور اور کبار ائمہ فن کے خلاف ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صرف پانچ محدثین سے عبدالرحمن بن معاویہ کی تضعیف ثابت ہے اور ان پانچ میں چار محدثین جرح میں متشدد ہیں اور انہوں نے یہاں مفسر جرح نہیں کی ہے اور پانچویں امام بوصیری ہیں جو بہت بعد کے اور متاخر عالم ہیں ۔
اس کے برخلاف بیس (20) محدثین سے اس راوی کی توثیق ثابت ہے جیساکہ تفصیل آگے آرہی ہے
حالانکہ اس سے پہلے خود موصوف نے ہی امام ہیثمی کے اس قول کو مردود قرار دیا تھا اوراس کے خلاف اپنی یہ تحقیق پیش کی تھی کہ جمہور نے اس راوی کو ثقہ کہا ہے دیکھئے : تحقیقی مقالات ج 3 ص 385 ۔ نیز دیکھیں : مجلہ الحدیث : 107 ص 48۔
لیکن شاید یہ تحقیق پیش کرتے وقت انہیں یہ علم نہیں تھا کہ اسی راوی نے ایک عظیم صحابی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے یزید بن معاویہ کی تعریف نقل کی ہے ۔ اور جوں ہی آں جناب کے سامنے میرا مضمون پیش ہوا اور یہ حقیقت سامنے آئی کہ اس راوی نے ایک عظیم صحابی سے یزید بن معاویہ کی تعریف نقل کی ہے ۔ پھر کیا تھا ! تحقیق کی پوری کایا پلٹ گئی، توثیق کرنے والے جمہور کی پوری عمارت منہدم ہوگئی۔ اب دوبارہ الیکشن ہوا ، نئے سرے سے ووٹنگ ہوئی اور اس بار ٹوٹے پھوٹے ووٹ حاصل کرکے نام نہاد جمہوریت کی تلوار اٹھائی گئی اور مدح یزید میں روایت بیان کرنے کی پاداش میں بے چارے ’’عبدالرحمن بن معاویہ‘‘ کی ثقاہت کا بڑی ہی بے دردی و بے رحمی سے خون کردیا گیا ۔
عرض ہے کہ اول تو محض جمہوریت اور ووٹنگ سے کسی راوی کی توثیق و تضعیف والا اصول ہی مضحکہ خیز ہے ۔ دوم یہ کہ خود جمہور ہی نے اس راوی کو ثقہ وصدوق اور حسن الحدیث مانا ہے ۔ثبوت میں درج ذیل سطور پیش خدمت ہیں :
اقوال جارحین
صحابی رسول عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی زبانی یزید بن معاویہ کو صالح و نیک قراردینے والی بلاذری رحمہ اللہ کی روایت کو ضعیف ثابت کرنے کے لئے محمد مهدي الخرسان رافضی لکھتا ہے :
والراوي عنه عبد الرحمن بن معاوية هو ابن الحويرث الانصاري الزرقي أبو الحويرث المدني الّذي قال فيه مالك: ليس بثقة، قال ابن عدي: ليس له كثير حديث ومالك أعلم به لأنّه مدني ولم يرو عنه شيئاً. وقال أبو حاتم: ليس بقوي يكتب حديثه ولا يحتج به، وعن ابن معين: ليس يحتج بحديثه. وقال مالك: قدم علينا سفيان فكتب عن قوم یرمون بالتخنيث يعني أبا الحويرث منهم، قال أبو داود: وكان يخضب رجليه وكان من مرجيء أهل المدينة، وقال النسائي: ليس بذاك
عامربن مسعود رحمہ اللہ سے اس روایت کو نقل کرنے والا عبدلرحمن بن معاویہ ہے اور یہ ابن الحویرث انصاری ، زرقی ، مدنی ابوالحویرث ہے جس کے بارے میں امام مالک نے کہا : یہ ثقہ نہیں ہے ، اور ابن عدی نے کہا : اس کی زیادہ حدیثیں نہیں ہیں اور امام مالک اس کے بارے میں بہتر جانتے ہیں کیونکہ یہ مدنی ہے اورامام مالک نے اس سے کچھ روایت نہیں کیا۔ ابوحاتم نے کہا: یہ قوی نہیں ہے اس کی حدیث لکھی جائے گی اور اس سے حجت نہیں پکڑی جائے گی ۔ ابن معین نے کہا: اس سے حجت نہیں پکڑی جائے گی۔امام مالک کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سفیان آئے وہ ایسے لوگوں سے روایت لکھتے تھے جن پر ہجڑے پن کی تہمت لگائی جاتی تھی یہ ان میں ابوالحویرث کو بھی مراد لیتے تھے۔ اورامام ابوداؤد نے کہا کہ: یہ اپنے پاؤں میں مہدی لگاتا تھا اور یہ اہل مدینہ کے مرجئوں میں سے تھا ۔ اور امام نسائی نے کہا کہ یہ بہت زیادہ قوی نہیں ہے۔[موسوعة عبد الله بن عباس ـ ج 05 ص 211...]۔
عرض ہے کہ جارحین کے کے اقوال پر تبصرہ ہم آگے کریں لیکن اس قبل یہ واضح ہو کہ رافضی کی ذکردہ باتوں میں سے کچھ باتیں جرح کے باب میں سرے سے غیر مقبول ہیں مثلا امام مالک نے بھی ابوالحویرث پرلگائی گئی ہجڑے پن کی تہمت کا ذکر کیا ہے لیکن انہوں نے ’’یرمون‘‘ ان پرتہمت لگائی جاتی تھی کہا ہے اور یہ صراحت نہیں کی ہے کہ یہ تہمت لگانے والے کون لوگ ہیں وہ ثقہ ہیں یا نہیں اسی طرح انہوں نے خود یہ بات دیکھی ہے یا نہیں اس لئے امام مالک رحمہ اللہ کی یہ جرح بھی بغیر شہادت و ثبوت کے ہے اس لئے غیر مسموع ہے۔
اور اس طرح کے چیزوں کا ماخذ راوی کی روایات نہیں ہوتی ہیں بلکہ اس کے لئے شہادت وثبوت کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا اگر کوئی محدث بغیر شہادت وثبوت کے اس طرح کا الزام لگائے تو اسے رد کردیا جاتا ہے۔بعض محدثین پر گانا باجا وغیرہ سننے کا بھی الزام ہے لیکن چونکہ اس سے متعلق کوئی گواہی اور ثبوت موجود نہیں ہے اس لئے اہل فن نے اس طرح کے الزامات کو رد کردیا ہے۔
یہی حال امام ابوداؤد کے تبصرہ کا بھی ہے اس کی بنیاد ابولحویرث کی طرف منسوب عقیدہ و عمل ہے اور ابوالحویرث سے اس طرح کے عقیدہ یا اس طرح کے عمل کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ۔ لہذا اصل بنیاد منہدم ہونے کے سبب یہ جرح بھی منہدم ہے۔
زبیرعلی زئی صاحب لکھتے ہیں:
حافظ ذہبی نے بھی عمروبن یحیی کو ابن معین کی طرف منسوب غیرثابت جرح کی وجہ سے دیوان الضعفاء والمتروکین (٢/ ٢١٢ت ٩٢٢٣) وغیرہ میں ذکرکیا ہے اوراصل بنیاد منہدم ہونے کی وجہ سے یہ جرح بھی منہدم ہے [الحدیث :95 ص 82]۔
نیز ان باتوں کو نقل کرنے والے ابوعبید الاجری ہیں اور بعض کے نزدیک ابوعبید الآجری مجہول ہیں اس لئے ان کے اصول کے تحت یہ باتیں ثابت ہی نہیں۔اس کے علامہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے امام مالک کی یہ بات کس کے ذریعہ سنی ہے اس کا بھی نام نہیں بتایا ہے لہٰذا امام مالک سے بھی یہ بات بسند صحیح ثابت نہیں ہے۔اور امام ابوداؤد نے اپنے الزام کا بھی کوئی حوالہ نہیں دیا ہے کہ یہ بات انہیں کیسے معلوم ہوئی۔لہٰذا ان سب باتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
اب اس رافضی کے ذکر کردہ دیگر اقوال اور اس کے ساتھ ساتھ زبیرعلی زئی صاحب کی پیش کردہ جروح اسی طرح بعض دیگر اقوال جرح پرتبصرہ ملاحظہ ہو:
امام مالک رحمہ اللہ۔
امام ابن أبي حاتم رحمه الله (المتوفى327)نےکہا:
أنا عبد الله بن أحمد بن محمد ابن حنبل فيما كتب إلى قال قال أبي: أبو الحويرث روى عنه سفيان الثوري وشعبة، فقلت إن بشر بن عمر زعم أنه سأل مالك بن أنس عنه فقال: ليس بثقة، فأنكره فقال: لا وقد حدث عنه شعبة.[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 5/ 284 وسندہ صحیح]۔
امام مالک رحمہ اللہ جرح کرنے میں متشدد ہیں اور آپ کی جرح غیر مفسر ہے اوراس کے ساتھ ساتھ جمہورمحدثین کے خلاف بھی ہے بھی لہٰذا غیرمسموع ہے اسی لئے امام احمدرحمہ اللہ نے اسے ردکردیاہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ’’امام احمد رحمہ اللہ کی توثیق کا مدار امام شعبہ کی توثیق پر ھے اور اگر امام شعبہ کا قول امام مالک کے تعارض میں آجائے تو امام مالک کے قول کا اعتبار کیا جائے گا نہ کہ امام شعبہ کے قول کا‘‘
عرض ہے کہ:
یہاں امام مالک کے بالمقابل امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کی توثیق کئی لحاظ سے راجح ہے۔
- 1: امام مالک رحمہ اللہ کی جرح غیرمفسر ہے اور توثیق کے خلاف جرح غیرمفسر ناقابل قبول ہے۔
- 2: امام شعبہ رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ سے زیادہ متشدد ہیں بلکہ اس قدر متشدد ہیں کہ مدلسین کی وہی احادیث روایت کرتے تھے جن میں ان کے سماع کی صراحت ہو اوریہ خوبی امام مالک سے منقول نہیں ہے ثابت ہوا کہ امام شعبہ رحمہ اللہ امام مالک سے زیادہ متشدد ہیں اورجب ایک متشدد توثیق کردے تو اس کی توثیق زیادہ اہم ہوتی ہے بالخصوص متشدد کے خلاف ۔
- 3: یہاں صرف جرح وتعدیل کا تعارض نہیں بلکہ جرح کا انکار اوراس پررد ہے۔
- یعنی صرف یہ بات نہیں ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے ایک راوی کو ضعیف کہا اور اسی راوی کو امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے ثقہ کہا ہے۔اوردونوں میں تعارض ہے۔بلکہ معاملہ یہ ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے براہ راست امام مالک کی جرح کی تردید کی ہے۔یعنی ایک ناقد امام نے ایک دوسرے ناقد امام کی جرح کو رد کردیا ہے لہٰذا یہاں صرف تعارض کی بات نہیں ہے بلکہ جرح کی تردید کی بات ہے۔ اور یہ بہت اہم بات ہے یہ بات عبدالرحمن بن معاویہ کی توثیق کو مزید راجح قراردیتی ہے کیونکہ یہ ترجیح ایک بہت بڑے ناقد امام کی طرف سے مل رہی ہے۔
- 4: جیساکہ اوپر ذکر کیا گیا کہ امام مالک رحمہ اللہ کی طرف یہ بھی منسوب ہے کہ وہ ابوالحویرث پر ہجڑے پن کی لگائی گئی بے بنیاد تہمت کی وجہ سے ان سے روایت لکھنے کو معیوب سمجھتے تھے اگر یہ بات ثابت ہوجائے تو یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ امام مالک رحمہ اللہ نے ایسی چیز کی بنا پرجرح کی ہے جو بے بنیاد ہے ۔لہٰذا یہ جرح غیرمسموع ہے۔
امام ابوحاتم رحمہ اللہ:
امام ابن أبي حاتم رحمه الله (المتوفى327)نے کہا:
سألت أبي عن أبي الحويرث فقال: ليس بقوي يكتب حديثه ولا يحتج به[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 5/ 284]۔
اول تو یہ جرح جمہورکے خلاف ہے، دوم ثابت شدہ توثیق کے بالمقابل ابوحاتم کا یہ جملہ غیرمسموع ہے کیونکہ وہ متشدد ہیں اورثٖقات کے بارے میں بھی یہ جملہ عام طورپربولتے ہیں:
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
إِذَا وَثَّقَ أَبُو حَاتِمٍ رَجُلاً فَتَمَسَّكْ بِقَولِهِ، فَإِنَّهُ لاَ يُوَثِّقُ إِلاَّ رَجُلاً صَحِيْحَ الحَدِيْثِ، وَإِذَا لَيَّنَ رَجُلاً، أَوْ قَالَ فِيْهِ: لاَ يُحْتَجُّ بِهِ، فَتَوَقَّفْ حَتَّى تَرَى مَا قَالَ غَيْرُهُ فِيْهِ، فَإِنْ وَثَّقَهُ أَحَدٌ، فَلاَ تَبْنِ عَلَى تَجْرِيْحِ أَبِي حَاتِمٍ، فَإِنَّهُ مُتَعَنِّتٌ فِي الرِّجَالِ ، قَدْ قَالَ فِي طَائِفَةٍ مِنْ رِجَالِ (الصِّحَاحِ): لَيْسَ بِحُجَّةٍ، لَيْسَ بِقَوِيٍّ، أَوْ نَحْو ذَلِكَ.
جب امام ابوحاتم کسی راوی کو ثقہ کہہ دیں تو اسے لازم پکڑلو کیونکہ وہ صرف صحیح الحدیث شخص ہی کی توثیق کرتے ہیں اور جب وہ کسی شخص کو ’’لین‘‘ قرار دیں یا اس کے بارے میں یہ کہیں کہ ’’اس سے حجت نہیں پکڑی جائے گی ‘‘ تو اس جرح میں توقف اختیار کرو یہاں تک کہ دیکھ لو کہ دوسرے ائمہ نے اس کے بارے میں کیا کہا ہے ، پھر اگر کسی نے اس راوی کی توثیق کی ہے تو ابو حاتم کی جرح کا اعتبار مت کرو کیونکہ وہ رواۃ پر جرح کرنے میں متشدد ہیں ، انہوں نے صحیحین کے کئی راویوں کے بارے میں یہ کہہ دیا کہ : ’’یہ حجت نہیں ہیں ، یہ قوی نہیں ہیں ،وغیرہ وغیرہ [سير أعلام النبلاء للذهبي: 13/ 260]۔
امام زيلعي رحمه الله (المتوفى762)نے کہا:
قَوْلُ أَبِي حَاتِمٍ: لَا يُحْتَجُّ بِهِ، غَيْرُ قَادِحٍ أَيْضًا، فَإِنَّهُ لَمْ يَذْكُرْ السَّبَبَ، وَقَدْ تَكَرَّرَتْ هَذِهِ اللَّفْظَةُ مِنْهُ فِي رِجَالٍ كَثِيرِينَ مِنْ أصحاب الثِّقَاتِ الْأَثْبَاتِ مِنْ غَيْرِ بَيَانِ السَّبَبِ، كَخَالِدٍ الْحَذَّاءِ، وَغَيْرِهِ، وَاَللَّهُ أَعْلَمُ.
امام ابوحاتم کا یہ فرمانا: ’’اس سے حجت نہیں لی جائے گی ‘‘ غیر قادح ہے، کیونکہ انہوں نے سبب ذکر نہیں کیا اوراس طرح کی جرح ان سے بغیر کسی تفسیر کے بڑے بڑے ثقات کے بارے میں صادر ہوئی ہے جیسے خالد الحذاء وغیرہ واللہ اعلم[نصب الراية للزيلعي: 2/ 439]۔
امام نسائی رحمہ اللہ :
آپ نے کہا:
عبد الرَّحْمَن بن مُعَاوِيَة أَبُو الْحُوَيْرِث لَيْسَ بِثِقَة
عبدالرحمن بن معاویہ ابوالحویرث ثقہ نہیں ہیں[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 68]۔
امام نسائی بھی متشددین میں سے ہیں نیز ان کی جرح غیرمفسر ہونے کے ساتھ ساتھ جمہورکے خلاف ہے لہٰذا غیرمسموع ہے۔
امام زکریا بن یحیی الساجی رحمہ اللہ
آپ نے ابو الحویرث کو اپنی کتاب الضعفاء میں ذکر کیا ہے۔ [بحوالہ: اکمال تہذیب الکمال للمغلطائی 8/229]
عرض ہے کہ ضعفاء کے مؤلفین کبھی کبھی ثقہ رواۃ کو بھی ضعفاء میں ذکر کردیتے ہیں یہ بتانے کے لئے ان پرفلان نے یہ جرح کی ہے اور ان کا مقصد اس راوی کو ضعیف بتلانا نہیں ہوتا ہے اورامام ساجی نے اس راوی کو ضعفاء میں کس طرح ذکر کیا ہے یہ معلوم نہیں ہے کہ ان کی کتاب مفقود ہے اور ان کے الفاظ کو بھی کسی نے نقل نہیں کیا ہے۔
امام بوصيري رحمه الله :
آپ فرماتے ہیں:
رَوَاهُ أَبُو يَعْلَى الْمَوْصِلِيُّ بِسَنَدٍ ضَعِيفٌ لِضَعْفِ أَبِي الْحُوَيْرِثِ
اسے ابویعلی موصلی نے ضعیف سند سے روایت کیا ہے کوینکہ ابوالحویرث یہ ضعیف ہے[إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة : 7 / 195 ]
یہ جرح بھی غیرمفسرہے نیز جمہور اور کبار ائمہ فن کے خلاف ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صرف پانچ محدثین سے عبدالرحمن بن معاویہ کی تضعیف ثابت ہے اور ان پانچ میں چار محدثین جرح میں متشدد ہیں اور انہوں نے یہاں مفسر جرح نہیں کی ہے اور پانچویں امام بوصیری ہیں جو بہت بعد کے اور متاخر عالم ہیں ۔
اس کے برخلاف بیس (20) محدثین سے اس راوی کی توثیق ثابت ہے جیساکہ تفصیل آگے آرہی ہے