امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک دونوں ایک ہی راوی ہیں
امام بخاری رحمہ اللہ کے طرزعمل سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں مذکورہ دونوں راوی ایک ہی ہیں ۔
پہلی دلیل:
امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے ترجمہ میں بین السطور یہ بھی لکھا ہے :۔۔۔
أراه بن أبي عطاء۔۔۔۔۔۔۔۔
پوری عبارت ملاحظہ ہو:
٧ - إبراهيم بن محمد أراه بن أبي عطاء عن موسى بن وردان قال بن جريج أخبرت عنه فقال هو إبراهيم بن أبي يحيى تركه بن المبارك
٨ - إبراهيم بن محمد بن أبي يحيى المدني الأسلمي مولاهم كان يرى القدر عن يحيى بن سعيد تركه بن المبارك حدثنا محمد بن إسماعيل حدثنا بن المثنى ثنا بشر بن عمر قال نهاني مالك عن إبراهيم بن محمد بن أبي يحيى قلت من أجل القدر تنهاني عنه قال ليس في دينه بذاك [الضعفاء الصغير للبخاري: ص: 13]۔
دوسری دلیل:
امام بخاری رحمہ اللہ نے دونوں ناموں کے ساتھ ابن المبارک کی
’’تركه‘‘ والی جرح نقل کی ہے اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک یہ دونوں ایک ہی شخص کے نام ہیں۔
دونوں ناموں کو الگ الگ ذکر کرنے کی وجہ
امام بخاری رحمہ اللہ نے انہیں الگ الگ اس لئے ذکر کیا ہے کہ بعض لوگ انہیں الگ ہی سمجھتے ہیں ۔
یا بعض طرق کے مطابق یہ دو الگ الگ راوی معلوم ہوتے ہیں ، واللہ اعلم۔
راجح
امام بخاری رحمہ اللہ ہی کا موقف راجح معلوم ہوتا ہے ، دیگرمحدثین کا بھی یہی موقف ہے کہ یہ دونوں ایک ہی شخص کے نام ہیں ، مثلا:
امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
من مات مريضا مات شهيدا كان بن جريج يقول فيه إبراهيم بن عطاء يكنى عن اسمه وهو إبراهيم بن أبى يحيى وكان رافضيا قدريا[تاريخ ابن معين - رواية الدوري: 3/ 156]۔
امام ابن أبي حاتم رحمه الله (المتوفى327)نے کہا:
إبراهيم بن محمد بن أبى يحيى الأسلمي مولاهم واسم أبى يحيى سمعان روى عن صفوان بن سليم وصالح مولى التوءمة ويحيى بن سعيد وهو إبراهيم بن محمد بن أبى عطاء سمعت أبى يقول ذلك[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 2/ 125]۔
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
۔۔۔۔۔والصحيح عن حجاج، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عَطَاءٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ وَرْدَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. وَكَذَلِكَ قَالَ سَعِيدُ بْنُ سَالِمٍ الْقَدَّاحُ، وَعَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ أَبِي رَوَّادٍ. وَقَالَ مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ: عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عَاصِمٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ وَرْدَانَ. وَإِنَّمَا هُوَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَحْيَى، دَلَّسَ ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْهُ. [علل الدارقطني : 8/ 319]۔
امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
وَكَانَ ابْن جريج يَقُول: إِبْرَاهِيم بْن أَبِي عَطَاء، وَتارَة يَقُول: إِبْرَاهِيم بْن مُحَمَّد بْن عَطَاء، وَتارَة يَقُول حَدَّثَنَا أَبُو الذيب، وَكَانَ يَحْيَى بْن آدم يَقُول حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيم بْن أَبِي يَحْيَى المدنى. وَكَانَ الْوَاقِدِيّ يَقُول حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق بْن مُحَمَّد وَرُبمَا قَالَ إِسْحَاق بْن إِدْرِيس. وَكَانَ مَرْوَان بْن مُعَاوِيَة يَقُول عَبْد الْوَهَّاب المغربي إِلَى غَيْر ذَلِكَ، وَهَذَا الرجل هُوَ إِبْرَاهِيم بْن مُحَمَّد بْن أَبِي يَحْيَى الْأَسْلَمِيّ وَاسم أَبِي يَحْيَى سرحان. [الموضوعات لابن الجوزي 3/ 217]۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔عن ابن جريج عن إبراهيم بن محمد بن عطاء عن موسى بن وردان عن أبي هريرة ورواه عدد عن يحيى بن طلحة اليربوعي ضعيف عن ابن عيينة عن القداح عن ابن جريج بأول الحديث فقط فمداره على إبراهيم وهو ابن أبي يحيى واه بمرة [تلخيص كتاب الموضوعات للذهبي ص: 336]۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
إبراهيم بن محمد بن أبي عاصم عن موسى بن وردان ذكره الساجي في المكيين من الضعفاء وقال بن المبارك قال البناني في الحافل أخطأ فيه الساجي والصواب انه بن عطاء بدل بن أبي عاصم وهو الأسلمي المشهور وحديثه عن موسى بن وردان من رواية بن جريج عنه معروف [لسان الميزان لابن حجر: 1/ 96]۔
تنبیہ
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو الْفضل يَعْقُوب بن إِسْحَاق بن مَحْمُود الْفَقِيه حَدَّثَنَا أَبُو عَليّ صَالح بن مُحَمَّد الْأَسدي قَالَ إِبْرَاهِيم بن مُحَمَّد بن أبي عَطاء مَجْهُول قَالَ أَصْحَاب الحَدِيث إِنَّه إِبْرَاهِيم بن أبي يحيى وغلطوا فِيهِ لِأَن إِبْرَاهِيم بن أبي يحيى لَا يروي عَن مُوسَى بن وردان شَيْئا [موضح أوهام الجمع والتفريق 1/ 367]۔
اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ امام ابوعلی رحمہ اللہ کے نزدیک مذکورہ دونوں نام دو الگ الگ اشخاص کے ہیں ، لیکن :
اول:
تو یہ قول امام ابوعلی رحمہ اللہ سے ثابت ہی نہیں کیونکہ ان سے اس قول کے ناقل
’’أَبُو الْفضل يَعْقُوب بن إِسْحَاق بن مَحْمُود الْفَقِيه‘‘ ہیں جوکہ مجہول ہیں ، ایک سال قبل ایک سند کی تحقیق کرتے ہوئے میں نے ایک ماہ تک اس راوی کا ترجمہ تلاش کرنے کی کوشش کی مگر تاحال مجھے اس کا ترجمہ کہیں نہیں مل سکا ۔
عربی فورم ملتقی اہل الحدیث پربھی میں نے ایک روایت کو اس روای کی جہالت کی وجہ سے ضعیف قراردیا ہے مگراب تک کسی نے تعاقب نہیں کیا ہے ، ملاحظہ ہو:
تدليس الوليد بن مسلم وتسويته ليس بخاص عن الأوزاعي - ملتقى أهل الحديث
دوم :
امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے مذکورہ قول نقل کرنے کے بعد اس کی تردید کرتے ہوئے کہا:
هَذَا القَوْل غلط من أبي عَليّ صَالح بن مُحَمَّد وَقد ثَبت أَن إِبْرَاهِيم بن مُحَمَّد بن أبي عَطاء هُوَ ابْن أبي يحيى بِرِوَايَة عبد الرَّزَّاق عَنهُ هَذَا الحَدِيث وبنص يحيى بن معِين وَغَيره على ذَلِك[موضح أوهام الجمع والتفريق 1/ 367]۔