• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الله نور السموت والارض ، اس کی تفسیر دے دیں

شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
اس آیت سے اللہ کو ہر جگہ ثابت کیا جاسکتا ہے کیا؟ کوئی تفیسر دے دیں اس کی ۔ اور مکمل سمجھادیں پلیز
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
(الله نور السموت والارض )
اس آیت سے اللہ کو ہر جگہ ثابت کیا جاسکتا ہے کیا؟ کوئی تفیسر دے دیں اس کی ۔ اور مکمل سمجھادیں پلیز
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اس آیت کریمہ کی تفسیر (تیسیرالقرآن ) میں درج ذیل ہے :
نور تین قسم کا ہوتا ہے
(١) روشن چیزوں کا نور مثلاً سورج، چاند، ستاروں اور چراغ یا برقی قمقموں کا نور۔ جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہے۔ ایسے نور کے بغیر انسان ظاہری چیزوں کو دیکھ نہیں سکتا۔
(٢) آنکھ کا نور جس کی عدم موجودگی میں روشن چیزوں کا نور بےکار ہوتا ہے۔ سورج نکلا ہوا ہو تب بھی آنکھ کے اندھے کو کوئی چیز نہیں آتی۔
(٣) وحی یا علم دین کا نور جس کی عدم موجودگی میں انسان ہدایت کے نور سے استفادہ نہیں کرسکتا جس طرح ایک اندھا سورج کی روشنی میں بھی ظاہری اشیاء کو نہیں دیکھ سکتا اسی طرح دل کے اندھے کے لئے تعلیمات الٰہیہ بےکار ثابت ہوتی ہیں۔
ان دیکھئے آنکھ کا نور بھی خالصتؤہ اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے۔ اس کی ماہیت کیا ہے ؟ یہ بات سمجھنا غالباً انسان کی بساط سے باہر ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کسی کا نور بصارت چھین لے تو کوئی طاقت اسے واپس نہیں لاسکتی۔ اور اسی آنکھ کے نور سے ہم کائنات کی اشیاء کو دیکھ سکتے ہیں۔ لہذا اصل منبع نور خود اللہ تعالیٰ کی ذات ہوئی اور اسی کے نور سے کائنات کی ایک ایک چیز کی نمود ہے۔
اور دوسری طرف دل کا نور بھی خالصۃً اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے اور اسی نور سے انسان آیات انفس و آفاق میں فکر و تدبیر کرتا ہے اور وحی الٰہی سے فیض یاب ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جس شخص کو نور و ہدایت حاصل ہوا یا جس مقدار میں حاصل ہوا سب کچھ اسی منبع نور سے حاصل ہوا ہے۔ بعض علماء نے یہاں نور کے معنی منور کیا ہے۔ اس لحاظ سے پہلی توجیہہ فٹ بیٹھتی ہے لیکن نور کا لفظ منور سے زیادہ ابلغ ہے۔ پھر نور کا لفظ ہر دو توجیہات کے مطابق ہے۔ لہذا ہمارے خیال میں نور کا معنی نور یا روشنی ہی سمجھا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔
[٦٠] اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے نور کی جو مثال بیان فرمائی ہے۔ اس کی مندرجہ بالا دو توجیہات کے مطابق دو صورتیں ہیں۔ پہلی توجیہہ کے مطابق یہ پوری کائنات ایک اطاق کی مانند ہے۔ اور اس میں جس چراغ کی روشنی کی مثال پیش کی گئی ہے۔ وہ اللہ کا نور ہے۔ باقی جو باتیں مذکور ہیں وہ اس لحاظ سے ہیں کہ ایک انسان زیادہ سے زیادہ اور صاف شفاف روشنی کا جو تصور اس دور میں کرسکتا تھا وہ پیش کیا گیا ہے مثلاً ایک یہ ہے کہ وہ چراغ ایک اطاق میں ہے جس کا مطلب یہ ہے روشنی کے پھیلاؤ کا دائرہ وسیع نہیں بلکہ بہت محدود حصہ میں ہے تاکہ اطاق میں پڑی ہوئی ہر چیز بڑی واضح اور نمایاں نظر آسکے۔ دوسرے یہ کہ اس چراغ میں جلنے والا تیل زیتوں کا تیل ہے۔ جو دوسرے تمام قسم کے تیلوں سے زیادہ اور صاف روشنی دیتا ہے۔ مزید یہ کہ وہ زیتوں کا دخت ہر وقت دھوپ میں رہتا ہے۔ مشرقی اور مغربی رخ کے سائے اس درخت پر نہیں پڑتے اور ایسے ہمیشہ دھوپ میں رہنے والے درخت کا تیل عام درختوں کے تیل سے زیادہ لطیف ہوتا ہے نیز اس میں یہ خاصیت ہے کہ آگ لگانے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ آگ نزدیک ہونے سے ہی بھڑک اٹھتا ہے۔ جیسا کہ آج کل پٹرول میں یہ خاصیت پائی جاتی ہے۔ اور تیسرے یہ کہ اس چراغ کے گردا گرد نہایت صاف شفاف شیشہ یا فانوس ہے۔ اور ایسے فانوس سے جس قدر روشنی میں اضافہ ہوتا ہے اس کا اندازہ آپ کسی لالٹین سے اس کی شیشہ کی چمنی اتار کرسکتے ہیں۔ گویا چراغ کی روشنی کو سربالا یا نور علی نور کرنے والی تیا چیزیں ہوئیں۔ ایک تیل کی اعلیٰ کو الٹی، دوسرے صاف شفاف فانوس اور تیسرے روشنی کا دائرہ بہت محدود ہونا اور مثال کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنی ایسی روشنی سے کائنات کی ایک ایک چیز کو منور کر رہا ہے۔
اور دوسری صورت میں چراغ اور اس کے تیل سے مراد نور بصیرت یا نور ایمان ہے۔ فانوس سے مراد انسان کا دل ہے۔ جس میں یہ نور بصیرت واقع ہوتا ہے اور اطاق سے مراد اس کا جسم ہے۔ پھر جب ہدایت یا آیات الٰہی پہنچتی ہیں تو ایسے شخص کی بصیرت اس کو قبول کرنے کے لئے پہلے ہی بےتاب ہوتی ہے۔ اب اگر کسی کے دل میں نور بصیرت ہوگا۔ جس کا منبع خود اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ تو ایسے ہی شخص کو یہ آیات فوراً اپیل کرتی اور نظر آنے لگتی ہیں۔ بےبصیرت کو نظر نہیں آتیں۔ یہ دوسری توجیہہ کتاب و سنت سے زیادہ قریب معلوم ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اکثر آسمانی کتب کے لئے بھی نور کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور علم وحی اور ہدایت کے لئے بھی۔ اور اس مثال کا مطلب یہ ہے کہ جس کسی کے دل میں نور بصیرت کا عطیہ موجود ہوتا ہے وہ احکام الٰہی اور وحی الٰہی کو قبول کرنے کے لئے اس قدر بےتاب ہوتا ہے جیسے پٹرول آگ پکڑنے کے لئے بےتاب ہوتا ہے۔
[٦١] جس طرح آنکھ کا نور اللہ تعالیٰ ہر شخص کو فطری طور پر عطا کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر شخص کو نور بصیرت بھی عطا کرتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ کا ایک دوسرا قانون یہ ہے کہ جس عضو یا قوت سے انسان کام لینا چھوڑ دے وہ قوت اس سے چھین لی جاتی ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ کی ہدایت نصیب انہی لوگوں کو ہوتی ہے جو خود بھی اس سے کام لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور جو شخص نور ہدایت کا طالب ہی نہ ہو اور اللہ زبردستی سے کسی کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور شاہ فہد کمپلیکس جدہ کی شائع کردہ تفسیر احسن البیان میں ہے کہ :
١ یعنی اگر اللہ نہ ہوتا تو آسمان میں نور ہوتا نہ زمین میں، نہ آسمان و زمین میں کسی کو ہدایت نصیب ہوتی۔ پس وہ اللہ تعالیٰ ہی آسمان و زمین کو روشن کرنے والا ہے اس کی کتاب نور ہے، اس کا رسول (بحیثیت صفات کے) نور ہے۔ یعنی ان دونوں کے ذریعے سے زندگی کی تاریکیوں میں رہنمائی اور روشنی حاصل کی جاتی ہے، جس طرح چراغ اور بلب سے انسان روشنی حاصل کرتا ہے۔ حدیث سے بھی اللہ کا نور ہونا ثابت ہے، پس اللہ، اس کی ذات نور ہے، اس کا حجاب نور ہے اور ہر ظاہری اور معنوی نور کا خالق، اس کا عطا کرنے والا اور اس کی طرف ہدایت کرنے والا صرف ایک اللہ ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور امام ابن کثیر اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :
قال علي بن أبي طلحة، عن ابن عباس: {الله نور السموات والأرض} يقول: هادي أهل السموات والأرض.
وقال ابن جريج: قال مجاهد وابن عباس في قوله: {الله نور السموات والأرض} يدبر الأمر فيهما، نجومهما وشمسهما وقمرهما.
وقال ابن جرير: حدثنا سليمان بن عمر بن خالد الرقي، حدثنا وهب بن راشد، عن فرقد، عن أنس بن مالك قال: إن إلهي يقول: نوري هداي.
واختار هذا القول ابن جرير، رحمه الله.
وقال أبو جعفر الرازي، عن الربيع بن أنس، عن أبي العالية، عن أبي بن كعب في قول الله تعالى: {الله نور السموات والأرض} قال: هو المؤمن الذي جعل [الله] (4) الإيمان والقرآن في صدره، فضرب الله مثله فقال: {الله نور السموات والأرض} فبدأ بنور نفسه، ثم ذكر نور المؤمن فقال: مثل نور من آمن به. قال: فكان أبي بن كعب يقرؤها: "مثل نور من آمن به (5) فهو المؤمن جعل الإيمان والقرآن في صدره.
ترجمہ :
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”اللہ ہادی ہے، آسمان والوں اور زمین والوں کا،
وہی ان دونوں میں سورج چاند اور ستاروں کی تدبیر کرتا ہے“۔

جناب انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”اللہ کا نور ہدایت ہے“۔ ابن جریر رحمہ اللہ اسی کو اختیار کرتے ہیں۔
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”اس کے نور کی مثال یعنی اس کا نور رکھنے والے مومن کی مثال جن کے سینے میں ایمان و قرآن ہے، اس کی مثال اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے۔ اولاً اپنے نور کا ذکر کیا پھر مومن کی نورانیت کا کہ اللہ پر ایمان رکھنے والے کے نور کی مثال“ بلکہ ابی رضی اللہ عنہ اس کو اس طرح پڑھتے تھے آیت «مَثَلُ نُورِ مَنْ آمَنَ بِهِ»
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top