محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
يَمْحَقُ اللہُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ۰ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيْمٍ۲۷۶ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۰ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۲۷۷ يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۲۷۸
دوسرا مفہوم ذرا زیادہ دقیق ہے اور وہ یہ ہے کہ سود سے اصل سرمایہ میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا اور قوم کے لیے یہ خسران مبین کا باعث ہوتاہے۔ اقتصادیات کا یہ اصول ہے کہ دولت میں اس وقت اضافہ ہوتا ہے جب اسے زیادہ سے زیادہ پھیلایاجائے اورسود سے روپیہ بجائے پھیلنے کے چند ہاتھوں میں سمٹ کے رہ جاتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوم کی تمدنی ترقی رک جاتی ہے ۔بخلاف اس کے اگر تعاونی جذبات کی ترقی ہو۔ روپیہ محدود ہاتھوں میں نہ رہے اورپھیلتا رہے تو قوم کے سرمایہ میں اضافہ ہوگا۔دیکھیے قرآن حکیم نے کس خوب صورتی سے سرمایہ کے مسئلہ کو آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے حل کردیا ہے ۔ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرْ۔
خدا سود کو گھٹاتا اور خیرات کو بڑھاتا ہے اورخدا کسی ناشکر گناہگار کو پسند نہیں کرتا۔۱؎ ( ۲۷۶)جولوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے اور نماز قائم رکھی اورزکوٰۃ دی۔ انھیں ان کے رب کے پاس سے بدلہ ملے گااور نہ ان کو کچھ خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔(۲۷۷) مومنو! اللہ سے ڈرو اور جو سود(کسی کے پاس) باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔ اگر تم مومن ہو۔(۲۷۸)
۱؎ اس آیت کا ایک سیدھا سادا مفہوم تو یہ ہے کہ ربوایا سود میں برکت نہیں ہوتی اور صدقات میں خدا اضافہ ونمود کی استعداد پیداکردیتا ہے۔یعنی سود خوار کامال بالآخر برباد ہوتا ہے ۔ اس کی نالائق اولاد کا ہل اور عیاش ہوجاتی ہے ۔ جس سے مال ودولت جو محنت سے جمع کیاجاتا ہے، سرعت سے برباد ہوجاتا ہے۔بخلاف مرد مومن کے جواپنا منتہائے نظربلند اور وسیع رکھتا ہے ۔ اس کے مال میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔ اس کی اولاد صالح ہوتی ہے ۔ وہ دیکھتی ہے ۔ ہمارا والد کس درجہ کا صالح تھا۔ وہ اس کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتی ہے ، اس لیے کہ ان کا باپ ان کے لیے ایک بہترین اسوہ حیات چھوڑ کر مرتا ہے ۔ وہ مال ودولت کے ڈھیر گو اولاد کو سونپ کر نہیں جاتا مگر اخلاق وعادات کا متاع گرانمایہ وہ ضرور اولاد کے ہاتھوں میں دے جاتا ہے جس سے وہ اپنی زندگی سنوارلیتے ہیں۔ اس سے زیادہ برکت وسعادت اور کیا ہوسکتی ہے ؟یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا (اللہ تعالیٰ! سود، سود خور، اس کے مال اور اولاد وغیرہ سب کو مٹا دیتا ہے)
دوسرا مفہوم ذرا زیادہ دقیق ہے اور وہ یہ ہے کہ سود سے اصل سرمایہ میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا اور قوم کے لیے یہ خسران مبین کا باعث ہوتاہے۔ اقتصادیات کا یہ اصول ہے کہ دولت میں اس وقت اضافہ ہوتا ہے جب اسے زیادہ سے زیادہ پھیلایاجائے اورسود سے روپیہ بجائے پھیلنے کے چند ہاتھوں میں سمٹ کے رہ جاتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوم کی تمدنی ترقی رک جاتی ہے ۔بخلاف اس کے اگر تعاونی جذبات کی ترقی ہو۔ روپیہ محدود ہاتھوں میں نہ رہے اورپھیلتا رہے تو قوم کے سرمایہ میں اضافہ ہوگا۔دیکھیے قرآن حکیم نے کس خوب صورتی سے سرمایہ کے مسئلہ کو آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے حل کردیا ہے ۔ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرْ۔
{یَمْحَقُ} مٹانا۔{یُرْبِْی} بڑھانا۔حل لغات