• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تعظیم اور اُسے گالی دینے والے کا حُکم

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
[اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے میں فرق ]
جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے کا معاملہ اسکے برعکس ہے،کیونکہ یہ ایسا حق ہے جسکا لینا ضروری ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی موت کی وجہ سے ہر گالی دینے والے شخص کو معاف نہیں کیا ہے۔
اور اس سلسلے میں اصل : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم حق کو لینا ہے،اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینا کفرہے، اور ایسا کرنے والے کے حق میں قتل کرنا واجب ہے۔
پھر یہ بات بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینا، لوگوں کے اندر آپ کی قدرومنزلت کو متاثر کرتا ہے، اور دلوں کے اندر آپ کے مقام کو کمزور کر دیتا ہے، جبکہ اللہ کو گالی دینے اور بُرا بھلا کہنے کا معاملہ اسکے برعکس ہے! کیونکہ اللہ کو گالی دینے والا خود اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے۔
 
Last edited by a moderator:

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
[اللہ کو گالی دینے والے کے سلسلے میں راجح قول اور گالی کی اقسام]

˜ اور سچائی یہ ہے کہ: جس نے اللہ تعالیٰ کو گالی دی، اسے قتل کرنا ضروری ہے اور اس سےتوبہ نہیں کروایا جائے گا، اور اُسکی توبہ اللہ کے حوالے ہے جس سے وہ اپنی باطن کے ساتھ ملاقات کرے گا، اور اللہ اسکے ساتھ عدل ،یا عفو سے معاملہ کرے گا۔
اور جس شخص نے اللہ کو گالی دی اور توبہ کرلیا ،اور اسے طلب کرنے اور اس پر قدرت پانے سے پہلے اپنی توبہ کا اظہا رکردیا ، تو اسکی سچائی ظاہر ہونے کی بنا پر اسکی توبہ قبول کی جائے گی۔ اور اسکا حکم ان کافروں کے جیسا ہے جو رضامندی سے اسلام میں داخل ہوتے ہیں ، بھلے ہی وہ اپنے اسلام قبول کرنے سے پہلے اللہ کو بُرا بھلا کہنے پر متفق تھے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اور اللہ کو گالی دینا دو طرح سے ہے:
پہلا: ظاہر اور واضح طور پر گالی دینا(ڈائرکٹ گالی دینا):

جیسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو لعن طعن کرنا، اسکی برائی کرنا، اسکا مذاق اُڑانا، اسکے اندر عیب اور کمی نکالنا ؛ تو ایسے شخص پر گذشتہ سبھی احکام نافذ ہوں گے، اور جب علماء اللہ تعالیٰ کو گالی دینے کے احکام کا تذکرہ کرتے ہیں تو یہی مُراد ہوتی ہے۔

دوسرا: غیر ظاہری طور پر گالی دینا (بالواسطہ گالی دینا ):
جیسے کہ اللہ کی ان نشانیوں اور مخلوقات کو گالی دینا جن میں وہ تصرّف کرتا ہے، اور جنکی انسانی اختیارات وکمائی کی طرح، کوئی اختیارات اور کمائی نہیں ہوتی ہے،
جیسےزمانہ،دنوں،گھنٹوں،سکنڈوں،مہینوں،سالوں،ستاروں اور انکی گرش وغیرہ کو گالی دینا، تو اس پر گالی دینے والے کے کُفر، اسے قتل کرنے کے حکم وغیرہ کے بارے میں سابقہ احکام عائد نہ ہوں گے،مگر یہ واضح ہوجائے کہ اس نے انہیں چلانے اور جاری کرنے والے کا قصد کیا ہے، اور واضح طور سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو مراد لیا ہے۔
صحیحین میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘اللہ فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف دیتا ہے،وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے،جبکہ زمانہ میں ہی ہوں،میرے ہاتھ میں تمام امورہیں، میں ہی دن اوررات کو پھیرتا ہوں (صحیح بخاری: 4826،7491) ،(مسلم:2246)۔
اور دوسری روایت میں یہ ہے:
‘‘ابن آدم مجھے تکلیف دیتا ہے، اور کہتا ہے: ہائے زمانے کی ناکامی؛ تو تم میں سے کوئی ہرگز یہ نہ کہے: کہ ہائے زمانے کی بربادی؛کیونکہ زمانہ میں ہی ہوں ،میں ہی اس کے رات اور دن کو پھیرتا ہوں، اور جب میں چاہوں گا تو اسے سمیٹ لوں گا ( صحیح مسلم:2246)
اور ستارے جیسے سورج چاند ،اور اور انکے آثار جیسے رات اوردن اور زمانے، مجبور ہیں خود مختار نہیں ہیں،اور اللہ وحدہ کے ارادہ سے خارج نہیں ہوتے ہیں، اور نہ ہی انکی کوئی مشیئت ،اختیار اور کمائی ہے، انہیں صر ف کونی امور کا ہی حکم دیا جاتا ہے ، انہیں اس سے باہر نکلنے کا حق نہیں ہے۔
اسلئے ان چیزوں کا گالی دینا اور بُرا بھلا کہنا، انکے چلانے والے اور انہیں حکم دینے والے اللہ سبحانہ کی ذات پر زیادتی کرنا ،اور اسمیں اسکے ارادے اور حکمت پر اعتراض ظاہر کرنا ہے۔
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے زمانےکو گالی دینے کو لازمی طور پر اپنا گالی دینے والاٹہرایا ہے!
اور انسان کو گالی دینے کو اپنے گالی دینے کی طرح نہیں بنایا ہے، کیونکہ
انسان کو مشیئت اوراختیار ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کی ہے؛ اللہ کا فرمان ہے :

﴿وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ﴾ [التكوير : 29 ]

‘‘اور تم بغیر پروردگار عالم کے چاہے کچھ نہیں چاه سکتے’’۔[سورہ تکویر:29]
اور جہاں تک ستاروں جیسے سورج اور چاند کی بات ہے ، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

﴿لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ ﴾ [يس : 40 ]
‘‘نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پرآگے بڑھ جانے والی ہے، اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں’’ [سورہ یسین:40]
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اللہ اور اسکی صفات کی تعظیم ضروری ہے!
اور اللہ کی تعظیم میں سے:اسکی تدبیر،اسکے اوامرونواہی کی تعظیم کرنا، انکے پاس رُک کرکے انکی بجاآوری کرنا، اور جس چیز کے بارے میں انسان کو جانکاری نہیں ہے اسکے پیچھے نہ پڑنا ہے ۔
اور اللہ کی تعظیم میں سے ہی : اس کا ذکر کرنا، اسی سے دعا وسوال کرنا، اور دنیا کے حادثات کو صرف اسی سے مربوط کرنا ہے ؛ کیونکہ وہی اسکا خالق اورمدبّر ہے جسکا کوئی شریک نہیں ؛
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

﴿وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ [الزمر:67 ]
‘‘اور ان لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالیٰ کی کرنی چاہئے تھی نہیں کی، ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے، وه پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے جسے لوگ اس کا شریک بنائیں’’ [سورہ الزمر:67]
اسی پر اختصار کے ساتھ اس رسالہ کا اختتام ہوتا ہے۔ اور تنہا اللہ ہی مددگار اور صحیح راستہ دکھانے والا ہے، اسکا کوئی شریک نہیں ، ہم اس سے صحیح نیت اور نفع عام کا سوال کرتے ہیں ۔
اللہ ہمارے پیغمبر محمد، انکی اولاد، انکے ساتھیوں اور بھلائی کے ساتھ قیامت تک انکی اتباع وپیروی کرنے والوں پر درودوسلام نازل فرمائے۔ آمین!

کاتب:
عبدالعزیز بن مرزوق الطّریفی
۲۱ ،محرّم الحرام ۱۴۳۴ھ
 
Top