• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ پر توکل سے زندگی میں برکت

شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
اللہ پر توکل سے زندگی میں برکت

آپؑ جوان اور طاقتور و توانہ تھے۔ آپؑ کوئی شہزادے نہیں تھے بلکہ غلام قوم کے ایک فرد تھے۔ لیکن آپؑ کی پرورش بادشاہ کے محل میں شہزادوں کی طرح عیش و عشرت میں ہوئی تھی۔ آپ کسی پر ظلم ہوتا نہیں دیکھ سکتے تھے اور ہمیشہ مظلوموں کی مدد کیا کرتے تھے۔

ایک دن اپنی قوم کے ایک فرد کی مدد کرتے ہوئے آپؑ سے نا دانِستَہ دشمن قوم کے ایک شخص کا قتل ہوجاتا ہے جس پر آپ پشیمان ہوتے ہیں اور سمجھ جاتے ہیں کہ: ’’یہ شیطانی کام ہے (جو آپ سے انجانے میں سرزَد ہوگئی)، بیشک وہ (شیطان) صریح بہکانے والا دشمن ہے‘‘۔

(اس بات کا احساس ہوتے ہی) آپؑ اپنے رب سے معافی مانگتے ہیں، کہتے ہیں: ’’پروردگار! بے شک میں نے اپنے نفس کے لئے مصیبت مول لی ہے تُو مجھے بخش دے تو رب نے انہیں بخش دیا، بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔

دوسرے دن صبح آپؑ خطرات کو بھانپتے اور ڈرتے ہوئے جب شہر پہنچتے ہیں تو شہر کے آخری کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آتا ہے اور کہتا ہے کہ اے موسیٰ! بیشک دربار والے آپ کے قتل کا مشورہ کررہے ہیں تو نکل جائیے، بیشک میں آپؑ کے خیر خواہوں میں سے ہوں۔ یہ خبر سنتے ہی آپؑ ڈر کر وہاں سے چپکے سے نکل کھڑے ہوتے ہیں، ساتھ ہی دعا کرتے ہیں کہ ’’اے پروردگار! مجھے ظالم قوم سے بچا لے‘‘۔

آپؑ مدین جانے کا ارادہ کرتے ہیں اور مدین کی طرف رُخ کرکے کہتے ہیں: ’’مجھے اُمید ہے کہ میرا رب مجھے ٹھیک راستے پر ڈال دے گا‘‘۔

جب آپؑ مدین کے (ایک کنواں کے) پانی پر پہنچتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہاں لوگوں کی ایک جماعت (اپنی مویشیوں کو) پانی پلا رہی ہے اور ایک طرف دو عورتیں (اپنی بکریوں کو روکے) کھڑی ہیں، (آپؑ اُن عورتوں سے) پوچھتے ہیں کہ تم دونوں یوں کیوں کھڑی ہو؟ تو وه دونوں کہتی ہیں کہ جب تک یہ چرواہے (اپنی مویشیوں کو پانی پلا کر) چلے نہیں جاتے ہم (اپنی بکریوں کو) پانی نہیں پلا سکتیں اور ہمارے والد عمر رسیدہ بزرگ ہیں۔ تو آپؑ خود ان کی بکریوں کو پانی پلا دیتے ہیں۔ پھر ایک سائے کی جگہ جا بیٹھتے ہیں اور (اپنے رب سے) التجا کرتے ہیں:

رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ
’’پروردگار! جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کر دے میں اس کا محتاج ہوں‘‘
(سورة القصص، آیات 15 تا 24 کا مفہوم)

یہ کہانی ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت سے سرفراز کیے جانے سے پہلے کی ہے۔

ذرا اپنے تصور میں لائیے! شاہی محل میں ناز و نعم میں پلا بڑھا ایک نوجوان، اچانک اپنا سب کچھ چھوڑ کر خالی ہاتھ تن تنہا، جان بچا کر مصر سے نکلتا ہے، نہ معلوم کیسی کیسی مشکلات اور تکالیف اٹھا کر صحرائے سینا عبور کرتا ہے، پھر وہ ایک ایسے علاقے میں پہنچتا ہے جہاں اس کا نہ کوئی پرسان حال ہے اور نہ کوئی واقف کار ہے، نہ سر چھپانے کی جگہ ہے اور نہ ہی روٹی روزی کا کوئی وسیلہ ہے، گویا غربت اور محتاجی و مفلسی کی انتہا ہے!

آج کتنے نوجوان بے روزگاری اور تنگ دستی کی وجہ سے فرسٹریشن، ڈپریشن، اور ذہنی انتشار کا شکار ہیں۔ کتنے ایسے نوجوان ہیں جنہیں اچھی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود ملازمت نہیں مل رہی ہے، اگر کچھ کو مل بھی جاتی ہے تو تنخواہ اتنی کم ہوتی ہے کہ ان کا اپنا گزارہ بھی مشکل سے ہوتا ہے، چہ جائے کہ وہ اپنی شادی کرنے اور گھر بسانے کی سوچیں۔ اس لیے آج بہت سے نوجوان وقت پر شادی نہیں کر پاتے اور نوجوانوں کی دین سے دوری انہیں زنا و لواطت جیسی کبیرہ گناہوں میں ملوث کر رہی ہے۔

تو نوجوانوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ حالات کتنے ہی پریشان کن کیوں نہ ہو گناہوں کی طرف قدم نہ بڑھائیں بلکہ دینداروں کی صحبت اختیار کریں، دین کی صحیح علم حاصل کریں اور اللہ پر توکل کریں۔

دیکھیے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ہر موقعے پر اللہ سے رجوع کیا، نادانستہ قتل کردیا اللہ سے معافی مانگی، مصر سے جان بچا کر نکلتے وقت دعا کی ”اے پروردگار! مجھے ظالم قوم سے بچا لے “، مدین کی طرف رخ کیا راستہ نامعلوم ہے کوئی سنگی ساتھی بھی نہیں تو فرمایا : ’’مجھے اُمید ہے کہ میرا رب مجھے ٹھیک راستے پر ڈال دے گا‘‘ اور پھر کئی دنوں کی تھکا دینے والا سفر طے کرکے جب مدین پہنچتے ہیں تو اپنی تھکاوٹ کے باوجود خدمت خلق سر انجام دیتے ہیں، کمزور کی مدد کرنے پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں اور دونوں عورتوں کی بکریوں کو بغیر کسی معاوضے کے پانی پلا دیتے ہیں۔

بکریوں کو پانی پلانے یعنی نیکی کا کام کرنے کے بعد سائے میں جاکر آپ علیہ السلام اپنی زندگی کی سب سے بابرکت دعا مانگتے ہیں:

رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ
’’پروردگار! جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کر دے میں اس کا محتاج ہوں‘‘​


سوچیے! حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسا معاملہ اگر ہمارے ساتھ پیش آتا تو ہم کتنے فرسٹریشن، ڈپریشن، اور ذہنی انتشار کا شکار ہوتے؟ ہماری کیفیت کیا ہوتی؟ اور ہم کیا کرتے؟ اگر ایسے میں ہم اپنے رب سے مانگتے تو کیا مانگتے؟ دعا کرتے تو کیا دعا کرتے؟

ہم سب خوب جانتے ہیں کہ ہم کیا مانگتے۔ ہم اللہ سے روزی روٹی مانگتے اور سر چھپانے کی جگہ مانگتے۔

لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نہ ہی فرسٹریٹ ہوئے نہ ہی ڈپریشن یا ذہنی انتشار کا شکار ہوئے، نہ ہماری طرح اپنے رب سے روزی روٹی کا سوال کیا اور نہ ہی سر چھپانے کے لیے کوئی جائے پناہ مانگی لیکن ایک ایسی جامع دعا کی جس میں سب کچھ اپنے رب پر چھوڑ دیا، سب کچھ اپنے رب سے مانگ لیا، فرمایا:

رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ
’’پروردگار! جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کر دے میں اس کا محتاج ہوں‘‘​

(حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس دعا کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بھی بتا دیا کہ خیر و برکت آسمان سے نازل ہوتی ہے اور اس کا نازل کرنے والا آسمانوں سے اوپر اپنی عرش پر مستوی ہے۔ )

ہم بندے اپنی اوقات کے مطابق ہی مانگ سکتے ہیں لیکن یہ معاملہ جب رب پر چھوڑ دیا جاتا ہے تو وہ اپنی شان کے مطابق عطا فرماتا ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ آپؑ نے اپنی کوئی خواہش ظاہر نہیں کی بلکہ سب کچھ اپنے رب پر چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی شان کے مطابق آپؑ کو وہ کچھ عطا فرما دیا جس کا کوئی انسان دیارِ غیر میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یہ دعا اتنی بابرکت ثابت ہوئی کہ ایک تہی دست مسافر جنہیں اس شہر میں کوئی جاننے والا بھی نہیں تھا وہاں انہیں فوراً ہی سب کچھ مل گئی، مثلاً ملازمت، سر چھپانے کی بہترین جگہ، دیندار خاندان، نیک بیوی اور روحانیت کی تکمیل کے لیے ایک جلیل القدر ہستی کی صحبت۔

اور *بعد میں اسی دعا کی برکت سے آپؑ نبوت سے بھی نوازے گیے۔*
*یہ ہوتی ہے برکت جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے سے ملتی ہے۔*
*یہ ہوتی ہے برکت جودعا کرنے سے مل سکتی ہے۔*

نیز توکل کرنے والوں کے بارے میں فرمانِ الٰہی ہے:

وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا ‎﴿٣﴾‏ ﴿٣﴾ سورة الطلاق
” اور (اللہ) اسے ایسی جگہ سے رِزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا، اور جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے تو وہ (اللہ) اسے کافی ہے، بیشک اللہ اپنا کام پورا کرلینے والا ہے، بیشک اللہ نے ہر شے کے لئے اندازہ مقرر فرما رکھا ہے“ ۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پر توکل کیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں ایسی جگہ سے وہ سب کچھ عطا کر دیا جس کا گمان انسانی ذہن کسی طرح کر ہی نہیں سکتا۔

آج بھی جو شخص اللہ پر توکل اور بھروسہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر جائز کام کے لئے کافی ہوگا۔

حضرت عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم لوگ اللہ پر توکل (بھروسہ) کرو جیسا کہ اس پر توکل (بھروسہ) کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق ملے گا جیسا کہ پرندوں کو ملتا ہے کہ صبح کو وہ بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ واپس آتے ہیں“ ۔(جامع الترمذي:2344، سنن ابن ماجه:4164)

تو نوجوانوں آپ کی ہر پریشانی کا حل دین میں ہے، دین سیکھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی سچی اطاعت و فرمانبرداری کرنے میں ہے۔ اللہ کا ہوجانے میں اور اللہ پر توکل کرنے میں ہے۔

آج بھی وہی رب ہے جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیار غیر میں ملازمت، مکان، خاندان، نیک بیوی اور بزرگ ہستی کی صحبت عطا فرمایا تھا وہ آج بھی ہمیں اور آپ کو یہ سب دینے پر قادر ہے۔

بس ہمیں مانگنا آنا چاہیے، اللہ پر توکل کرنا آنا چاہیے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس دعا کو اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں اسی لیے جگہ دیا ہے کہ قیامت تک آنے والے مومن بندے اللہ سے مانگنے کا طریقہ و سلیقہ سیکھ لیں۔ جو نوجوان پریشان ہیں وہ اس دعا کو چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھے اپنی زبان پر جاری رکھیں تو اللہ تعالیٰ انہیں بھی روزگار، نیک بیوی، مکان و خاندان سب کچھ عطا فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے اُن کی زندگیوں میں بھی برکت آئے گی، ان کی زندگی بابرکت بن جائے گی۔
نوٹ: زندگی میں برکت کے لیے میری کتاب ’’بابرکت و باسعادت بڑھاپا‘‘ کا مطالعہ کیجیے۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔
 
Top