• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کہاں ہے؟ ( اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فرامین)

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
ابن جوزی صاحب ! بجائے اس کے کہ بیان کردہ قرآنی دلائل پر غور کرتے۔اپنی کلام میں پڑ گئے۔ اور اس ذات کو جس ذات نے تمہاری عقل بنائی ہے۔ اسی عقل سے اس ذات کے بارے میں پہنچان کرنے بیٹھ گئے۔؟ اتنا بھی نہ سوچا کہ شریعت نے ہمیں کس چیز کامکلف بنایا ہے؟ کیا آپ اللہ تعالی نے آپ کو اس بات کامکلف بنایا ہےکہ آپ اللہ تعالی کے بارے میں اپنی عقل کے گھوڑے دوڑائیں ؟
آپ لوگوں کے ہم مثل لوگ پہلے بھی گزرے ہیں۔جن کی مثال اللہ تعالی کچھ یوں بیان فرمائی ہے۔
وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ‌كُمْ أَن تَذْبَحُوا بَقَرَ‌ةً ۖ قَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا ۖ قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ﴿٦٧﴾ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَ‌بَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا هِيَ ۚ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَ‌ةٌ لَّا فَارِ‌ضٌ وَلَا بِكْرٌ‌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَٰلِكَ ۖ فَافْعَلُوا مَا تُؤْمَرُ‌ونَ ﴿٦٨﴾ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَ‌بَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا لَوْنُهَا ۚ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَ‌ةٌ صَفْرَ‌اءُ فَاقِعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ‌ النَّاظِرِ‌ينَ ﴿٦٩﴾قَالُوا ادْعُ لَنَا رَ‌بَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا هِيَ إِنَّ الْبَقَرَ‌ تَشَابَهَ عَلَيْنَا وَإِنَّا إِن شَاءَ اللَّهُ لَمُهْتَدُونَ

امید ہے سمجھ آ گئی ہوگی۔ اگر نہ آئی ہو تو ’’دلیل کیا ہے؟‘‘ کی طرح سمجھادوں گا۔ان شاءاللہ۔اور ہاں آپ کی محبوب ترین چیز جس کو واجب تک کہہ دیا جاتا ہے ’’تقلید کیا ہے؟‘‘ کا تھریڈ بھی بے یارو مددگار اور بآواز بلند مدد کےلیے شیخ وپکار کر رہا ہے۔کچھ اس طرف بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت اللہ کی ذات کہاں تھی؟
الاستواء معلوم والکیفیۃ مجہولۃ والسؤال عنہ بدعۃ
کیا عرش بھی قدیم ہے؟
خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ
کیا محدود لامحدود کومحیط ہوسکتا ہے؟
سوائے رب العالمین کی ذات کے باقی جگہوں پر یہ سوال قائم کیاجاسکتا ہے۔ لیکن اگر محدود لا محدود کی سوچ کا سوال اللہ تعالی کے بارے میں کریں گے تو یہ سوال ہی بنیادی طور پر غلط ہوگا۔
اگر میں آپ کو کہوں کہ مجھے انڈے سے موٹر سائیکل نکال کےدو آپ دو گے ؟ تو جس طرح یہ ناممکنات میں سے ہے تو اسی طرح اللہ تعالی کے بارے میں محدود لا محدود وغیرہ کے بارے میں سوچنا،سوال کرنا بھی ناممکنات میں سے بنا لو۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ان شاءاللہ
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
محترم ابن جوزی بھائی!
آپ سے ایک چھوٹی سی گزارش ہے کہ اس موضوع پر اگر آپ اپنا موقف پیش فرمادیں تو بات کرنا بہت آسان ہوگا۔ کیونکہ ہم آپ کی پیش کردہ آیات سے کچھ اور مطلب لیتے رہیں اور آپ کچھ اور بتانا چاہ رہے ہوں تو ؟ ۔اس لیے ان پیچیدگیوں سے بچنے کےلیے آپ دو ٹوک انداز میں اپنا موقف بتائیں۔
آپ صرف اس سوال کا جواب دو
عرش چاہے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو بہر حال محدود ہے۔ جبکہ اللہ کی ذات حدود سے پاک ہے کیا محدود لامحدود کومحیط ہوسکتا ہے؟
آپ سے گزارش ہے۔ اللہ تعالی کے بارے میں عقلی گھوڑے نہ دوڑائیں۔ اور پھر اس پر پہلے لکھ چکا ہوں
استوٰی کا معنی حسی طور پر فوق ہونا سمجھنا ہی غلط ہے
تو پھر کیا سمجھا جائے؟
بھائی ذرا اس آیت کا ترجمہ کردیں
ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ (سورہ فصلٰت١١)
پوری آیت اور ترجمہ
ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْ‌ضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْ‌هًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ
پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وه دھواں (سا) تھا پس اس سے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے دونوں نے عرض کیا ہم بخوشی حاضر ہیں
اور
ابھی کہاں ہے اسکا تو اللہ نے بتا دیا ہے ۔
اللہ تعالی نے تو بتا دیا ہے لیکن آپ اللہ تعالی کے اس فرمان کو مانتے ہیں ؟ اگر مانتے ہیں تو پھر اگلی پوسٹ میں لکھ دینا
وہ عرش کو محدود نہیں۔ وہ تو حدود سے پاک ذات ہے۔ اور اس آیت میں بتا دیا ہے
وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ ۚ۔۔ سورہ بقرہ آیت١١٥
برائے مہربانی آپ سے گزارش ہے کہ اس آیت کا ترجمہ، مفہوم، مطلب و تشریح پہلے اچھی طرح پڑھ لیں۔
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
شاہد بھائی وہ کتاب pdfفارمیٹ میں ہے اور میں نے اسی کتاب سے یہ مضمون unicode میں ٹائپ کر کے پوسٹ کیا ہے۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
برادر ارسلان، اللہ تعالیٰ آپ کی محنت قبول فرمائے اور اسے نافع بنائے۔
یہ کتاب مائیکروسافٹ ورڈ فارمیٹ میں بالکل تیار ہے لیکن کچھ تحفظات کی وجہ سے نشر نہیں کی گئی تھی۔ آپ ازسر نو ٹائپ کرنے کی محنت نہ کریں، میں یونی کوڈ فائل کا لنک آپ کو بھیج دوں گا ان شاء اللہ۔
والسلام علیکم
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
بھائی محمد ارسلان صاحب ، اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کی محنت قبول فرمائے اور آپ کو اس کا بہترین اجر عطاء فرمائے ،
بھتیجے عبداللہ حیدر صاحب ، آپ کو ورڈ فائل کا لنک مہیا کر رہے ان شاء اللہ آپ مزید ٹائپنگ کی مشقت سے بچ جائیں گے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی ابن جوزی صاحب ،
جیسا کہ بھائی گڈ مسلم صاحب نے کہا ہے ، آپ اپنا عقیدہ واضح طور پر لکھیے ، رہا معاملہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پاک کو محدود یا لا محدود سمجھنے کا تو میرے بھائی ایسی کوئی خرافات ہمارے عقیدوں میں نہیں پائی جاتی،
آپ کی معلومات کی درستگی کے معیار کا اندازہ تو اس مفہوم سے ہوا جاتا ہے جو آپ نے استوی علی العرش اور استویٰ الی السماء سے اخذ کیا ہے ،
میرے بھائی ، اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پاک کو محدود وہ لوگ قرار دیتے ہیں جو اللہ پاک کو اُس کی مخلوقات میں سے کسی مخلوق میں موجود سمجھتے ہیں ،
اس کتاب کو بغور پڑھیے ، آپ کو پیش آنے والے وہم کا جواب اس میں کافی تفصیل سے موجود ہے ،
اس کے بعد اگر آپ کے پاس کوئی ایسی بات ہو ، کوئی معقول دلیل ہو جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پاک کی موجودگی کے بارے میں ہمارے طرف سے ذکر کردہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فرامین مبارکہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ کے علاوہ کوئی اور خبر دیتی ہو تو اسے سامنے لایے ،
اگر عقلی اور منطقی اور فلسفیانہ دلائل سے بات کرنا چاہتے ہیں تو بھائی ہماری طرف سے ابھی سے رخصت سمجھیے کہ اللہ کا دین ، اللہ کے فرامین شریفہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سنت مبارکہ کے مقابلے میں کوئی بھی عقل ، منطق اور فلسفہ ہو ، وہ مردود ہے ،
لہذا آپ سے گذارش ہے کہ آپ شرعی طور پر مقبول علمی دلیل کے ساتھ اپنی بات پیش کیجیے ، اور جو دلیل پیش کرنا چاہتے ہیں اس کے بارے میں اچھی طرح سے جان لیجیے کہ آپ اسے کیا سمجھ رہے ہیں ،
استویٰ علی العرش اور استویٰ الی السماء جیسے معاملات نہ کیجیے ، و السلام علیکم۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
برادر ارسلان، اللہ تعالیٰ آپ کی محنت قبول فرمائے اور اسے نافع بنائے۔
یہ کتاب مائیکروسافٹ ورڈ فارمیٹ میں بالکل تیار ہے لیکن کچھ تحفظات کی وجہ سے نشر نہیں کی گئی تھی۔ آپ ازسر نو ٹائپ کرنے کی محنت نہ کریں، میں یونی کوڈ فائل کا لنک آپ کو بھیج دوں گا ان شاء اللہ۔
والسلام علیکم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ماشاءاللہ
یہ تو اچھی بات ہے،بہت شکریہ۔جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء فی الدنیا و الآخرۃ
میں نے آپ کو اپنا yahooاور Gmail کا آئی ڈی ذاتی پیغام میں بھیج دیا ہے،آپ مجھے ای میل کر دینا ۔ان شاءاللہ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
بھائی محمد ارسلان صاحب ، اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کی محنت قبول فرمائے اور آپ کو اس کا بہترین اجر عطاء فرمائے ،
بھتیجے عبداللہ حیدر صاحب ، آپ کو ورڈ فائل کا لنک مہیا کر رہے ان شاء اللہ آپ مزید ٹائپنگ کی مشقت سے بچ جائیں گے ،
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء فی الدنیا والآخرۃ
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
کچھ نا تھا تو اللہ تھا۔ اس وقت اللہ کی ذات کہاں تھی؟ کیا عرش بھی قدیم ہے؟
اللہ تعالیٰ کی ذات سب سے قدیم ہے جس کی کوئی ابتداء نہیں:
﴿ هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ‌ وَالظَّاهِرُ‌ وَالْبَاطِنُ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ٣ ﴾ ۔۔۔ سورة الحديد

اللہ تعالیٰ سب سے پہلے تھے، ان سے پہلے کوئی بھی نہیں تھا، اور اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا:
﴿ وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْ‌شُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۗ وَلَئِن قُلْتَ إِنَّكُم مَّبْعُوثُونَ مِن بَعْدِ الْمَوْتِ لَيَقُولَنَّ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ‌ مُّبِينٌ ٧ ﴾ ۔۔۔ سورة هود
ثابت ہوا کہ زمین وآسمان کی تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا، فرمانِ نبویﷺ ہے:
« كان الله ولم يكن شيء غيره ، وكان عرشه على الماء ، وكتب في الذكر كل شيء ، وخلق السماوات والأرض » ۔۔۔ صحيح البخاري: 3191

جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ تخلیق عرش سے پہلے اللہ تعالیٰ کہاں تھے؟
اس کا جواب اللہ کو ہی معلوم ہے، ہمیں اس بارے میں اپنی ناقص عقل کے گھوڑے دوڑانے کی کوئی ضرورت نہیں، نہ ہی اللہ تعالیٰ کا ہم سے کوئی ایسا تقاضا ہے۔ لہٰذا اس بارے میں بغیر علم بات كرنا سب سے بڑا ظلم اور افتراء علی اللہ ہے، جو شرک کے برابر یا اس سے بھی بڑا جرم ہے۔ فرمانِ باری ہے:
﴿ قُلْ إِنَّمَا حَرَّ‌مَ رَ‌بِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ‌ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ‌ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِ‌كُوا بِاللَّـهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ٣٣ ﴾ ۔۔۔ سورة الأعراف

عرش چاہے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو بہر حال محدود ہے۔ جبکہ اللہ کی ذات حدود سے پاک ہے کیا محدود لامحدود کومحیط ہوسکتا ہے؟
یہ کس نے کہا کہ عرش اللہ کی ذات کو محیط ہے؟؟؟

میرے ناقص علم کی حد کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں!

البتہ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہیں:
  1. إِنَّ رَ‌بَّكُمُ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ‌ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ‌ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَ‌اتٍ بِأَمْرِ‌هِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ‌ ۗ تَبَارَ‌كَ اللَّـهُ رَ‌بُّ الْعَالَمِينَ ٥٤ ۔۔۔ سورة الأعراف
  2. إِنَّ رَ‌بَّكُمُ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ۖ يُدَبِّرُ‌ الْأَمْرَ‌ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّـهُ رَ‌بُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُ‌ونَ ٣ ۔۔۔ سورة يونس
  3. اللَّـهُ الَّذِي رَ‌فَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ‌ عَمَدٍ تَرَ‌وْنَهَا ۖ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ۖ وَسَخَّرَ‌ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ‌ ۖ كُلٌّ يَجْرِ‌ي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ يُدَبِّرُ‌ الْأَمْرَ‌ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُم بِلِقَاءِ رَ‌بِّكُمْ تُوقِنُونَ ٢ ۔۔۔ سورة الرعد
  4. الرَّ‌حْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْ‌شِ اسْتَوَىٰ ٥ ۔۔۔ سورة طه
  5. الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ۚ الرَّ‌حْمَـٰنُ فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرً‌ا ٥٩ ۔۔۔ سورة الفرقان
  6. اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ۖ مَا لَكُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُ‌ونَ ٤ ۔۔۔ سورة السجدة
  7. هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْ‌شِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْ‌ضِ وَمَا يَخْرُ‌جُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُ‌جُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ‌ ٤ ۔۔۔ سورة الحديد

عرش کے اوپر کیسے اور کہاں ہیں؟

اس کی کیفیت کا اللہ تعالیٰ کو ہی علم ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے، اور بحث ومباحثہ کرنا بدعت ہے:
الاستواء معلوم والكيف مجهول والسؤال عنه بدعة والإيمان به واجب
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
استویٰ کا معنی حسی طور پر فوق ہونا سمجھنا ہی غلط ہے
بھائی ذرا اس آیت کا ترجمہ کردیں
ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ (سورہ فصلت١١)
بھائی! عربی کے الفاظ کے بعد مخصوص صلہ آجانے سے معنی میں فرق آجاتا ہے۔
مثلاً رغب کے بعد فی آئے تو معنیٰ ’پسند کرنا‘ ہوتا ہے، جبکہ بعد میں عن آنے سے معنیٰ ’ناپسند کرنا‘ بن جاتا ہے۔ تفصیل کیلئے دیکھئے:
معنى كلمة رغب في قاموس المعاني. قاموس عربي عربي مصطلحات صفحة 1
یہی معاملہ استویٰ کا ہے، اس کا اصل معنیٰ تو درست ہونا، سیدھا ہونا، مضبوط ہونا وغیرہ ہے، فرمانِ باری ہے:
﴿ وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوَىٰ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ١٤ ﴾ ۔۔۔ سورة القصص

اگر اس کے بعد إلىٰ آئے تو معنیٰ ’متوجہ ہونا‘ یا ’بلند ہونا‘ ہوتا ہے، فرمانِ باری ہے:
﴿ هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْ‌ضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ٢٩ ﴾ ۔۔۔ سورة البقرة

اگر اس کے بعد علىٰ آئے تو معنیٰ ارتفاع، صعود اور استقرار وغیرہ ہوتا ہے، فرمانِ باری ہے:
﴿ وَقِيلَ يَا أَرْ‌ضُ ابْلَعِي مَاءَكِ وَيَا سَمَاءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْمَاءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ‌ وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِيِّ ۖ وَقِيلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ٤٤ ﴾ ۔۔۔ سورة هود
﴿ فَإِذَا اسْتَوَيْتَ أَنتَ وَمَن مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي نَجَّانَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ٢٨ ﴾ ۔۔۔ سورة المؤمنون

﴿ لِتَسْتَوُوا عَلَىٰ ظُهُورِ‌هِ ثُمَّ تَذْكُرُ‌وا نِعْمَةَ رَ‌بِّكُمْ إِذَا اسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَتَقُولُوا سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ‌ لَنَا هَـٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِ‌نِينَ ١٣ ﴾ ۔۔۔ سورة الزخرف

یہ تو مخلوق کیلئے ہے،
اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کے متعلق جتنی آیاتِ کریمہ ہیں، سب میں استویٰ کا صلہ علیٰ ہے۔ لہٰذا اس میں صعود اور حسّی ومعنوی دونوں قسم کی فوقیت وبلندی کا معنیٰ موجود ہے،
البتہ
اس استواء کی کیفیت ہم بیان نہیں کر سکتے۔

اللہ تعالیٰ کے حسی وذاتی طور پر سب سے بلند ہونے کے اور بہت سارے دلائل کتاب وسنت میں موجود ہیں:
  1. ﴿ وَهُوَ الْقَاهِرُ‌ فَوْقَ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ‌ ١٨ ﴾ ۔۔۔۔۔۔ سورة الأنعام
    [*]﴿ وَهُوَ الْقَاهِرُ‌ فَوْقَ عِبَادِهِ ۖ وَيُرْ‌سِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُ‌سُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّ‌طُونَ ٦١ ﴾ ۔۔۔۔۔۔ سورة الأنعام
    [*]﴿ يَخَافُونَ رَ‌بَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُ‌ونَ ۩ ٥٠ ﴾ ۔۔۔ سورة النحل
    [*]﴿ وَالْمَلَكُ عَلَىٰ أَرْ‌جَائِهَا ۚ وَيَحْمِلُ عَرْ‌شَ رَ‌بِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ ١٧ ﴾ ۔۔۔ سورة الحاقة
یہ فوقیت حسی وذاتی بھی ہے اور معنوی بھی (یعنی طاقت وقوت کے اعتبار سے)

علاوه ازیں قرآن کریم اللہ کیلئے جگہ جگہ تعالیٰ بمعنیٰ بلند استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ایک خوبصورت نام علی بھی ہے:
  1. ﴿ اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْ‌ضِ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْ‌سِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ ۔۔۔ البقرة: ٢٥٥ ﴾
    [*]﴿ الرِّ‌جَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّـهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّـهُ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُ‌وهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِ‌بُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرً‌ا ۔۔۔ النساء: ٣٤ ﴾
    [*]﴿ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِيرُ‌ الْمُتَعَالِ ۔۔۔ الرعد: ٩ ﴾
    [*]﴿ ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّـهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللَّـهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ‌ ۔۔۔ الحج: ٦٢ ﴾
    [*]﴿ فَتَعَالَى اللَّـهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ رَ‌بُّ الْعَرْ‌شِ الْكَرِ‌يمِ ۔۔۔ المؤمنون: ١١٦ ﴾
    [*]﴿ ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّـهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللَّـهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ‌ ۔۔۔ لقمان: ٣٠ ﴾
    [*]﴿ وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّىٰ إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَ‌بُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ‌ ۔۔۔ سبإ: ٢٣ ﴾
    [*]﴿ ذَٰلِكُم بِأَنَّهُ إِذَا دُعِيَ اللَّـهُ وَحْدَهُ كَفَرْ‌تُمْ وَإِن يُشْرَ‌كْ بِهِ تُؤْمِنُوا فَالْحُكْمُ لِلَّـهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيرِ‌ ۔۔۔ غافر: ١٢ ﴾
    [*]﴿ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْ‌ضِ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ ۔۔۔ الشورى: ٤ ﴾
    [*]﴿ وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ‌ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّـهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَ‌اءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْ‌سِلَ رَ‌سُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ ۔۔۔ الشورى: ٥١ ﴾
    [*]﴿ سَبِّحِ اسْمَ رَ‌بِّكَ الْأَعْلَى ۔۔۔ الأعلى: ١ ﴾
    [*]﴿ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَ‌بِّهِ الْأَعْلَىٰ ۔۔۔ الليل: ٢٠ ﴾
قرآن وحدیث میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کیلئے فی السماء کا ذکر ہے، اور فی یہاں علیٰ کے معنیٰ میں ہے، اور قرآن کریم میں فی بمعنیٰ علیٰ کی کئی مثالیں موجود ہیں:
ولأصلبنكم في جذوع النخل ۔۔۔ سورة طه
أي ولأصلبنكم على جذوع النخل


صحیح احادیث مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کے اُترنے اور نازل ہونے کا ذکر ملتا ہے، اوپر چڑھنے کا ذکر نہیں ملتا،
ينزل ربنا كل ليلة إلى سماء الدنيا حين يبقى ثلث الليل الآخر
اگر اللہ تعالیٰ اوپر نہیں تو پھر نہ جانے کہاں سے آسمانِ دُنیا پر نازل ہوتے ہیں؟؟؟

کسی کو مشکل ومصیبت آتی ہے تو وہ اوپر دیکھتا ہے، گویا ہر انسان بلکہ حیوان کی فطرت میں بھی یہ بات ودیعت کر دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ رب العٰلمین اوپر ہیں۔

دُعا کیلئے اوپر کی طرف ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں،کسی اور طرف نہیں ۔

فرشتے اور اچھے کلمات اور نیک عمل اللہ تعالیٰ کی طرف چڑھتے ہیں (اُترتے یا جاتے نہیں)، جو اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ سب سے بلند ہیں:
  1. ﴿ سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ ١ لِّلْكَافِرِ‌ينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٌ ٢ مِّنَ اللَّـهِ ذِي الْمَعَارِ‌جِ ٣ تَعْرُ‌جُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّ‌وحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُ‌هُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ ٤ ﴾ ۔۔۔ سورة المعارج
    [*]﴿ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْ‌فَعُهُ ۚ وَالَّذِينَ يَمْكُرُ‌ونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۖ وَمَكْرُ‌ أُولَـٰئِكَ هُوَ يَبُورُ‌ ١٠ ﴾ ۔۔۔ سورة فاطر
ہر نعمت ورحمت وحی وبارش وغیرہ سب اللہ کی طرف سے نیچے اترتی ہیں، جو اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ بلند ہیں۔

یہ سب دلائل اس پر قوی دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ معنوی طور پر بلند (طاقت اور قوت والے) ہونے کے ساتھ ساتھ حسی وذاتی طور پر بھی بلند ہے۔
اور حسی طور پر بلند ہونا صفت کمال اور نیچے ہونا صفت نقص ہے۔ اسی لئے فطری طور پر بزرگوں اور علماء کو اوپر بٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہر صفت نقص سے پاک ہیں۔

اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للتقين إماما
 
Top