• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کی قسم اٹھانا

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اللہ کی قسم اٹھانا

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِحْلِفُوْا بِاللّٰہِ وَبِرُّوْا وَاصْدُقُوْا، فَإِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ أَنْ یَحْلَفَ بِہٖ۔ ))1
'' اللہ کی قسم اٹھاؤ، نیکی کرو اور سچ بولو (کیونکہ) اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کی قسم اٹھائی جائے۔ ''
شرح...: جب کوئی مصلحت ہو تو اللہ تعالیٰ کے کسی نام یا کسی صفت کے ساتھ قسم اٹھانا رب ذوالجلال کو بہت پسند ہے۔ کیونکہ اللہ کی قسم ان اشیاء میں سے ہے جن کے ذریعہ وعدوں کو پختہ کیا جاتا ہے، نیز قسم اٹھانے میں سچائی اور نیکی سے کام لے۔ چنانچہ جب قسم اٹھانے والے کی غرض فرمانبرداری ہو تو اللہ تعالیٰ اپنی قسم کو محبوب رکھتے ہیں مثلاً جہاد یا وعظ کرنے کے لیے یا کسی گناہ سے ڈانٹنے کے لیے یا کسی اچھائی پر ابھارنے کے لیے ہو۔
جس وقت حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے اپنے بھائی کو ساتھ لے جانے کی ضد کی تو اللہ تعالیٰ نے یعقوب علیہ السلام کا ان سے قسم لینا قرآن پاک میں بیان کیا۔ معلوم ہوا کہ یہ قسم اٹھوانا اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ہے اور اس کی اجازت صرف اسی چیز میں ہوتی ہے جو اس کو محبوب و مطلوب ہو۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۲۱۱۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
کسی مصلحت کے لیے بغیر مطالبہ کے قسم اٹھانا بھی مستحب ہے۔ مثلاً کسی مبہم چیز کو مؤکد اور واضح کرنا، اللہ تعالیٰ سے مجاز کی نفی کرنے کے لیے، چنانچہ اسی غرض کے لیے مصطفی علیہ السلام کا قسم اٹھانا کئی صحیح احادیث میں مروی ہیں۔
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر: (( لَا وَمُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ۔)) قسم اٹھایا کرتے تھے۔ (یعنی دلوں کو پھیرنے والے کی قسم!)۔1
رفاعہ الجہنی سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب قسم اٹھاتے تو کہتے:
(( وَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ۔)) ...
'' اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے۔ '' 2
غیر اللہ کی قسم مذموم اور حرام ہے لیکن لوگوں نے اپنے اسلام میں نئی جاہلیت کو رواج دے دیا ہے یعنی اگر کوئی اللہ تعالیٰ کے تمام نام اور ساری صفات کی بھی قسم اٹھا لے تو بات قبول نہیں کی جاتی، ہاں! اگر اپنے ملک کے حاکم یا استاد یا اپنے والد یا والدہ یا زندگی یا شرف وغیرہ کی قسم اٹھائے گا تو فوراً مان لی جائے گی۔ یہ لوگوں کے ہاں ایسی پکی قسم ہے جس کے بعد اور قسم لینے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
(( أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی صلی اللہ علیہ وسلم أَدْرَکَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضی اللہ عنہ وَہُوَ یَسِیرُ فِی رَکْبٍ یَحْلِفُ بِأَبِیہِ فَقَالَ أَلَا إِنَّ اللَّہَ یَنْہَاکُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِکُمْ مَنْ کَانَ حَالِفًا فَلْیَحْلِفْ بِاللَّہِ أَوْ لِیَصْمُتْ۔)) 3
''بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ایک سواری پر جاتے ہوئے پایا اور وہ اپنے باپ کی قسم اٹھا رہے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار! بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے باپوں کی قسمیں اٹھانے سے منع کرتا ہے۔ جس نے قسم اٹھانی ہو تو وہ اللہ کی اٹھائے وگرنہ خاموش ہوجائے۔ ''
ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک آدمی کو کعبہ کی قسم کھاتے سنا تو فرمایا: اللہ کے علاوہ کسی کی قسم نہیں اٹھانی چاہیے کیونکہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ:
(( مَنْ حَلَفَ بِغَیْرِ اللّٰہِ فَقَدْ کَفَرَ أَوْ أَشْرَکَ۔ ))4
'' جس نے اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم اٹھائی تو اس نے کفر یا شرک کیا۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1بخاری، کتاب التوحید، باب: مقلب القلوب؍ حدیث: ۷۳۹۱۔
2 صحیح ابن ماجہ، رقم: ۱۷۰۰۔
3 أخرجہ البخاري في کتاب الأیمان والنذور، باب: لا تحلفوا بآبائکم، رقم: ۶۶۴۷۔
4 صحیح سنن الترمذي، رقم: ۱۲۴۱۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
امام نووی رحمہ اللہ کا قول ہے: رب کائنات کے اسماء اور صفات کے علاوہ ہر چیز کی قسم اٹھانا مکروہ ہے چاہے نبی علیہ السلام ہوں یا کعبہ یا فرشتے یا امانت، زندگی یا روح وغیرہ ہو ان سب سے زیادہ بری امانت کی قسم ہے...
علماء کا قول ہے: غیر اللہ کی قسم اٹھانے سے منع کرنے کی حکمت یہ ہے کہ جس کی قسم اٹھائی جاتی ہے قسم اس کی تعظیم کا تقاضا کرتی ہے اور عظمت کی حقیقت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے کوئی بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ مذکورہ احادیث کا ظاہر قسم کو اللہ کے ساتھ خاص کرتا ہے لیکن فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ قسم اللہ کی اور اس کی ذات اور بلند صفات سے بھی منعقد ہوجاتی ہے۔ قسم اٹھانے والے کے لیے قسم میں سچ بولنا لازم ہے جیسے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ:
(( لَا تَحْلِفُوْا بِآبَائِکُمْ، مَنْ حَلَفَ بِاللّٰہِ فَلْیَصْدُقْ، وَمَنْ حُلِفَ لَہُ بِاللّٰہِ فَلْیَرْضَ وَمَنْ لَمْ یَرْضَ بِاللّٰہِ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ مَنْ حَلَفَ بِاللّٰہِ فَلْیَصْدُقْ۔))1
''اپنے باپوں کی قسمیں مت اٹھاؤ، جسے اللہ کی قسم اٹھانا ہو اسے سچ کہنا ہوگا۔ اور جس کے لیے اللہ کی قسم اٹھائی گئی ہو اسے بھی راضی ہوجانا چاہیے۔ جو اللہ سے راضی نہیں ہوتا ،اللہ سے اس کا کیا واسطہ۔ جو اللہ کی قسم اٹھائے تو سچ بولے۔ ''
نیز فرمایا:
(( لَا تَحْلِفُوْا بِآبَائِکُمْ وَلَا بِأَمَّھَاتِکُمْ، وَلَا بِالْأَنْدَادِ، وَلَا تَحْلِفُوْا إِلاَّ بِاللّٰہِ، وَلَا تَحْلِفُوْا إِلاَّ وَأَنْتُمْ صَادِقُوْنَ۔ ))2
'' اپنے باپ اور ماؤں کی قسمیں مت اٹھاؤ اور نہ ہی بتوں کی قسم اٹھاؤ صرف اللہ کی قسم اٹھاؤ اور اسی وقت اٹھاؤ جب تم سچ بول رہے ہو۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1صحیح سنن ابن ماجہ، رقم: ۱۷۰۸۔
2 صحیح سنن أبي داؤد، رقم: ۲۷۸۴۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
جھوٹی قسمیں اٹھانے والا اللہ کو ملے گا تو رب کائنات اس پر ناراض ہوگا جیسے کہ نبی علیہ السلام نے خبر دی کہ :
(( قَالَ عَبْدُاللّٰہِ رضی اللہ عنہ : مَنْ حَلَفَ عَلَی یَمِینٍ یَسْتَحِقُّ بِہَا مَالًا وَہُوَ فِیہَا فَاجِرٌ لَقِیَ اللّٰہَ وَہُوَ عَلَیْہِ غَضْبَانُ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَصْدِیقَ ذَلِکَ: {إِنَّ الَّذِینَ یَشْتَرُونَ بِعَہْدِ اللّٰہِ وَأَیْمَانِہِمْ ثَمَنًا قَلِیلًا} فَقَرَأَ إِلَی: {عَذَابٌ أَلِیمٌ} ثُمَّ إِنَّ الْأَشْعَثَ بْنَ قَیْسٍ خَرَجَ إِلَیْنَا فَقَالَ: مَا یُحَدِّثُکُمْ أَبُو عَبْدِالرَّحْمَنِ قَالَ فَحَدَّثْنَاہُ، قَالَ: فَقَالَ: صَدَقَ لَفِیَّ وَاللّٰہِ أُنْزِلَتْ کَانَتْ بَیْنِی وَبَیْنَ رَجُلٍ خُصُومَۃٌ فِی بِئْرٍ فَاخْتَصَمْنَا إِلَی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ شَاہِدَاکَ أَوْ یَمِینُہُ قُلْتُ إِنَّہُ إِذًا یَحْلِفُ وَلَا یُبَالِی فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ حَلَفَ عَلَی یَمِینٍ یَسْتَحِقُّ بِہَا مَالًا وَہُوَ فِیہَا فَاجِرٌ لَقِیَ اللّٰہَ وَہُوَ عَلَیْہِ غَضْبَانُ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَصْدِیقَ ذَلِکَ ثُمَّ اقْرَأَ ہَذِہِ الْآیَۃَ: {إِنَّ الَّذِینَ یَشْتَرُونَ بِعَہْدِ اللّٰہِ وَأَیْمَانِہِمْ ثَمَنًا قَلِیلًا} إِلَی: {وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ}۔ ))1
'' عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ''جس نے قسم اٹھا کر اپنے آپ کو کسی کے مال کا ناحق مستحق ٹھہرایا وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس سے ناراض ہوں گے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق نازل فرمائی ''بے شک وہ لوگ جو اپنے عہد اور قسمیں دنیا کے بدلے بیچتے ہیں ان کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں۔ اور نہ اللہ تعالیٰ ان سے کلام کریں گے۔ نہ قیامت کے دن ان کی طرف دیکھنا گوارا کریں گے۔ اور نہ انہیں پاک کریں گے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ سند کے راوی ابو وائل کہتے ہیں: پھر اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ ہماری طرف آئے اور کہا ابوعبد الرحمن تم سے کیا بیان کر رہے تھے؟ ابو وائل کہتے ہیں کہ: سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ہم سے جو بیان کیا تھا وہ ہم نے ان سے بیان کردیا ۔انہوں نے کہا ''سچ ہے یہ میرے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی۔ میرے اور ایک شخص کے درمیان ایک کنویں کے بارے میں جھگڑا تھا پس ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا معاملہ پیش کردیا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''گواہ لاؤ یا قسم دو میں نے عرض کیا اگر وہ دوسرا فریق قسم اٹھا لے تو مجھے کچھ پروا نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے قسم اٹھائی اور وہ اس کی وجہ سے کسی مال کا حقدار بن رہا ہے لیکن وہ جھوٹا ہے تو اللہ کو اس حالت میں ملے گا کہ رب تعالیٰ اس پر ناراض ہوگا۔ ''
جس نے ایسی حرکتیں کیں اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے عذاب الیم کا وعدہ کر رکھا ہے۔
چنانچہ فرمایا:
{إِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَھْدِ اللّٰہِ وَأَیْمَانِھِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا أُولٰٓئِکَ لَا خَلَاقَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ وَلَا یُکَلِّمُھُمْ اللّٰہُ وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلَا یُزَکِّیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌo} [آل عمران : ۷۷]
'' بے شک وہ لوگ جو اللہ کے وعدوں اور اپنی قسموں کے بدلے تھوڑی قیمت خریدتے ہیں ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور نہ ہی اللہ ان سے کلام کرے گا اور نہ ہی قیامت کے روز ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ہی انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ البخاري في کتاب الرہن، باب: إِذا اختلف الراہن والمرتہن ونحوہ، رقم: ۲۵۱۶۔
اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top