• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ کے ایک ہونے کا مطلب

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اللہ کے ایک ہونے کا مطلب
{بسم اللہ الرحمن الرحیم}​
نام کتاب : اللہ کے ایک ہونے کا مطلب کیا ہے؟​
ترتیب و تالیف : ابوعبداللہ محمد بن عبدالمالک حفظہ اللہ
E-mail: mbinmalik@yahoo.com
کمپوزنگ :​
اشاعت اوّل : نومبر2007ء​
ناشر : محمد سعید ٹیلررحمانیہ مسجد بوہرہ پیر کراچی​
{مفت ملنے کا پتہ}
محمد سعید ٹیلررحمانیہ مسجد نزد بوہرہ پیر کراچی پوسٹ کوڈ 74200​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ کے ایک ہونے کا مطلب کیا ہے؟
کلمے کا سادہ مطلب: کلمۂ طیبہ لَا اِلٰہ اِلا اللہ کا مفہوم یوں بھی بیان کیا جاتا ہے کہ ''اللہ ایک ہے''، یا ''اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے''۔ اور یہی مفہوم سورئہ اخلاص (قُلْ ھُوَ اﷲُ اَحَدٌ) میں بھی پایا جاتا ہے۔​
ہر کلمہ پڑھنے والا، چاہے وہ کسی گروہ سے تعلق رکھتا ہو، اس مفہوم کا قائل ہوتا ہے اور اسے اسلام کی بنیاد سمجھتا ہے۔​
اللہ تعالیٰ کا ایک اور اکیلا ہونا ایک بڑا اور وسیع لفظ ہے جس میں کچھ اہم باتیں اور مفاہیم شامل ہیں۔ محض اتنا کہہ دینے سے کہ ''اللہ ایک ہے''، اللہ کے ایک کہلانے کا حق ادا نہیں ہو سکتا جب تک اس ''ایک ہونے'' کی مراد اور حقیقت کو نہ پہنچا جائے۔​
تمام قومیں اللہ کو ایک مانتی ہیں: ہندو، سکھ، پارسی، عیسائی، یہودی، مجوسی وغیرہ سب کے سب نہ صرف اللہ کے وجود کو مانتے ہیں بلکہ اس کے ایک ہونے کے بھی قائل ہیں۔ اس کے باوجود یہ سب مشرک ہیں۔ اللہ کے آخری پیغمبر محمد رسول اللہ e کے دور میں مکہ کے مشرکین بھی اللہ کو ایک مانتے تھے۔ قرآن مجید میں کئی جگہ اس کی وضاحت موجود ہے۔​
لہٰذا اصل جھگڑا یہ نہیں ہے کہ اللہ کو ایک مانو یا اللہ کو ایک کہو۔ اصل جھگڑا اس تفصیل میں ہے کہ اللہ کے ایک ہونے کا اصل اور صحیح مطلب کیا ہے اور کوئی اور اس کا کیا مطلب لیتا ہے؟​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ایک ماننے کے باوجود مشرک: عیسائی اللہ کو ایک سمجھتے ہیں لیکن اس کے ایک ہونے سے ان کے نزدیک یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی کوئی اولاد نہ ہو۔ معاذ اللہ۔ ہندو بھی ایک ہی بھگوان کو مانتے ہیں ۔لیکن اس ایک ماننے کا مطلب وہ یہ نہیں لیتے کہ اس کے جیسی صفات اور خصوصیات رکھنے والے اس کے اپنے اوتار اور دیوی دیوتا وغیرہ نہ ہوں۔ بالکل اسی طرح اب بہت سے ''مسلمان'' جو یقینا اللہ کو ایک کہتے اور مانتے ہیں، وہ ایسے نظریات اور اعمال کے قائل ہیں جو واضح طور پر اللہ کے ایک ہونے کے تصور کی مخالفت کرتے ہیں۔ لیکن خود ان ''مسلمانوں'' کے نزدیک ان نظریات و اعمال سے اللہ کے ایک ہونے کے نظریے میں کوئی فرق واقع نہیں ہو رہا ہوتا۔!
مشرک ہونے کی وجہ:
ان سب باتوں کی وجہ وہی ایک ہے۔ یعنی اللہ کے ایک ہونے کے صحیح اور مکمل مفہوم کا نگاہوں سے اوجھل ہونا۔ یہ مفہوم اگر عیسائی پر واضح ہو جائے تو وہ عیسائی نہ رہے، ہندو پر کھل جائے تو وہ اپنا دَھرم چھوڑ دے۔ اور اگر اس نام نہاد مسلمان پر آشکار ہو جائے تو وہ حقیقتاً مسلمان ہو جائے۔ وَ مَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاﷲ۔
جن جن قوموں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول o بھیجے، ان میں سے ہر قوم نہ صرف اللہ کے وجود کو مانتی تھی بلکہ اس کے ایک ہونے کی بھی قائل تھی۔ لیکن اللہ کا ایک ہونا ان پر مکمل اور صحیح طور پر واضح نہ تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے نظریات اور اعمال میں اس عقیدے کی مخالفت کا ارتکاب کرتی رہتی تھیں۔ یوں انہوں نے اللہ کی بندگی کے حقوق کی وہ پاسداری نہ کی جو اللہ کا حق ہے۔
وَ مَا قَدَرُوا اﷲَ حَقَّ قَدْرِہٖ
اور (لوگوں نے) اللہ کی قدر نہیں کی جیسے کہ اُس کی قدر کی جانی چاہیے تھی۔
انبیاء علیہم السلام اسی عقیدے کی درستی اور اعمال کو اس کے مطابق استوار کروانے کے لئے بھیجے گئے۔ قوموں کے کافر کہلانے جانے کی اصل وجہ بھی عقیدے کی یہی خرابی تھی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ایک ماننے کی مخالفت کے انداز:
چنانچہ ماضی میں اور آج بھی، جو قومیں اللہ کو ایک ماننے کے باوجود مشرک ہیں وہ یہ نہیں کہتیں کہ ''اللہ دو ہیں'' یا ''اللہ بہت سارے ہیں'' (معاذ اللہ، استغفر اﷲ) ۔بلکہ یا تو وہ اللہ کی بعض صفات میں نقص مان کر اور ان میں اس کو مخلوق کے برابر یا اس کے جیسا قرار دے کر شرک کی مرتکب ٹھہرتی ہیں اور یا پھر بعض مخلوق کو ان کی کسی صفت یا صفات میں خالق جیسی صفات کا (تھوڑا یا زیادہ) حامل سمجھ کر مشرک قرار پاتی ہیں۔ پہلی صورت میں خالق کا کسی مخلوق کی شکل میں دنیا میں نمودار ہونا یا کسی مخلوق کے اندر حلول کر جانے کا عقیدہ شامل ہے (جیسا کہ عیسائیوں وغیرہ کے عقائد ہیں) جبکہ دوسری صورت میں کسی مخلوق کے اندر کسی ایسی صفت کے موجود ہونے کا نظریہ رکھنا جو اللہ تعالیٰ میں پائی جاتی ہو، شامل ہے۔ ہر دوصورت میں، یہ مشرک قومیں اللہ کو ذات اور ہستی کے اعتبار سے تو ایک مان رہی ہوتی ہیں، اور مخلوق کو مخلوق ہی سمجھ رہی ہوتی ہیں۔ لیکن کہیں نہ کہیں اللہ کو مخلوق کے برابر کھڑا کر کے، یا مخلوق کو اس کے برابر لے جا کر شرک کا ارتکاب کر رہی ہوتی ہیں۔
اللہ کے ایک ہونے کا مطلب کہاں سے لیا جائے؟
اللہ کے ایک ہونے کا عقیدہ اللہ کی ذات کے تعارف اور اس کی صفات کے بھرپور مطالعے سے حاصل کیا گیا ہو تو اس میں نقص کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ اللہ نے اپنی صفات خود بیان کی ہیں۔ رسولوں نے وحی اور آسمانی کتابوں کی روشنی میں ان صفات کو کھول کھول کر بیان کیا ہے۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی صفات کے تذکروں سے بھرا پڑا ہے۔ ان صفات کی نشانیاں کائنات کے ان گنت مظاہر کی شکل میں اور خود انسان کے اپنے نفس کی صورت میں جابجا موجود ہیں، جو اللہ کے ایک ہونے کا پتہ دیتی ہیں
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اللہ کے ایک ہونے کے تصور کی بنیاد: اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور تمام صفات میں یکتا اور بے مثال ہے۔ اللہ کے ایک ہونے کے عقیدے کا بنیادی تصور یہی حقیقت ہے ۔
لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ (الشورٰی:۱۱)
''کوئی بھی شے اس (اللہ) کے جیسی نہیں ہیــــــــ۔''
وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًااَحَدٌ (الاخلاص:۴)
''اور کوئی ایک بھی اس کا ہم سر نہیں ہے۔''
ایک ہونے کے صحیح تصور کی وضاحت:
کسی شے یا ہستی کا ''اللہ تعالیٰ کے جیسا نہ ہونے ''اور'' اس کا ہم سر نہ ہو نے ''کا مطلب جہاں یہ ہے کہ کوئی شے ''مکمل طور سے'' اللہ تعالیٰ جیسی اور اس کے برابر نہیں ہے، وہاں یہ بھی ہے کہ کوئی شے یا ہستی کسی بھی لحاظ سے، کسی بھی درجے میں (کم یا زیادہ) اللہ کے جیسی نہیں ہے، اس کی کسی صفت کی حامل نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ''سننا'' ہے، مخلوق کا سننا کسی بھی طرح، کسی بھی درجے میں اللہ کے سننے کی طرح نہیں ہو سکتا۔ نہ کم نہ برابر۔ ذرہ برابر بھی کسی مشابہت یا مماثلت کا تصور محال ہے۔ محض لفظی مُشابہت ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ''دیکھنا'' ہے۔ مخلوق کا دیکھنا کسی بھی لحاظ سے، کسی بھی درجے میں اللہ تعالیٰ کے دیکھنے کی طرح نہیں ہو سکتا۔ نہ تھوڑا نہ زیادہ۔
اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ''جاننا'' ہے۔ مخلوق کا جاننا کسی بھی طور سے، کسی بھی درجے میں اللہ تعالیٰ کے جاننے جیسا نہیں ہو سکتا۔ نہ محدود نہ غیر محدود۔
اللہ تعالیٰ کی ایک صف ''قدرت اور اختیار رکھنا'' ہے۔ مخلوق کا قدرت اور اختیار رکھنا کسی بھی انداز سے، کسی بھی درجے میں اللہ تعالیٰ کے قدرت رکھنے کی مانند نہیں ہو سکتا۔ نہ معمولی طور پر نہ غیر معمولی طور پر۔ صرف لفظی مُماثلت ہے۔
یہی معاملہ اللہ تعالیٰ کی باقی تمام صفات کا ہے۔ کسی مخلوق کی کوئی صفت کسی بھی درجے میں اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کے جیسے نہیں ہو سکتی۔ کوئی بھی ایک صفت یا خصوصیت اللہ تعالیٰ اوراس کی مخلوق میں کسی بھی طرح مشترک (Common or Similar) نہیں ہے۔ ایک ذرّے کے برابر بھی نہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
خالق و مخلوق کی صفات کا اصل فرق:
خالق اور مخلوق کی صفات کے درمیان جو اصل فرق ہے وہ کم زیادہ، یا محدود لا محدود کا نہیں ہے، جیسا کہ کچھ لوگ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اللہ کی صفات لامحدود اور وسیع ہیں اور ان میں سے فلاں فلاں صفات، فلاں مخلوق (مثلاً انبیاء o اور اولیاء s وغیرہ) میں بھی پائی جاتی ہیں، مگر ان میں وہ محدود اورغیروسیع ہیں۔!! اللہ کی صفات بے شک لا محدود اور وسیع ہیں، مگر ان کا کسی مخلوق میں پایا جانا سرے سے ہی ناممکن ہے، ان کا محدود ہو جانا تو دور کی بات ہے۔
قرآن مجید میں ہے:
اِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ (یٰس:۸۲)
''وہ (اللہ) جب کسی چیز کا ارادہ فرماتا ہے تو بس اتنا کرتا ہے کہ اس کام کو حکم فرما دیتا ہے کہ ''ہو جا'' تو وہ کام خود ہی ہو جاتا ہے۔''
اِذَا قَضٰٓی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ (آل عمران:۴۷)
''وہ (اللہ) جب کسی کام کا فیصلہ کر لیتا ہے تو بس اس کو حکم فرما دیتا ہے کہ ''ہو جا'' تو وہ کام ہو جاتا ہے۔''
اللہ اسباب سے بے نیاز ہے: یہ ہے اللہ کی بے مثال صفات اور قدرت کی ایک مثال۔ اللہ تعالیٰ جس کام کا ارادہ فرماتا ہے، اس کے لئے اس کو اسباب، سامان، وسائل، ذرائع اور راستوں وغیرہ کی ضرورت قطعاً پیش نہیں آسکتی۔ وہ ان سب سے بے نیاز، بلند اور غنی ہے۔ کیونکہ یہ اسباب وغیرہ تو خود اس کے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ جنہیں اس نے اپنی مخلوق کے لئے پیدا فرمایا ہے۔ البتہ اسباب و وسائل کسی کام کو تکمیل تک پہنچانے میں خود اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ ہو تو کوئی سبب جس مقصد کے لئے بنایا گیا ہے، کارآمد ہو ہی نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے تو تمام اسباب خود بخود اللہ کے حکم کی تعمیل میں لگ جاتے ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تمام مخلوقات اسباب کی پابند ہیں:
البتہ انسان اور دیگر تمام مخلوقات کے افعال اور کوششیں اسباب و وَسائل کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جو جو اسباب مقرر فرما دیے ہیں، انہیں اپنے کاموں کو سرانجام دینے کے لئے ان اسباب کو جمع کرنا اور انہیں بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ غرض مخلوق کے ہر کام کے لئے اسباب مقرر ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے کاموں میں ہر ایک سبب سے بے نیاز ہے۔
مخلوق کی صفات کی حدود:
خالق کی صفات کے لامحدود ہونے کی وجہ یہی ہے کہ وہ ہر سبب سے آزاد اور پاک ہیں۔ جبکہ مخلوق کی صفات کچھ خاص اسباب کی قید میں جکڑے ہونے کی بناء پر ایک محدود دائرے سے باہر اپنا اثر نہیں رکھتیں۔ جو مادی اسباب کی اثر پذیری کا دائرہ ہے، وہی مخلوق کی صفات کی اثر پذیری کی حدود کو ظاہر کرتا ہے۔
فرق کی وضاحت:
انسان سنتا ہے۔ اگر سننے کے بہت سارے اسبا ب میں سے صرف ایک سبب'' ہوا''ـ موجود نہ ہو تو انسان ہرگز نہیں سن سکتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے سننے میں تمام اسباب سے بے نیاز ہے۔ پھر، ہوا اور سننے کی صلاحیت کے ہوتے ہوئے بھی انسان اور ہر مخلوق کے سننے کی طاقت کا ایک مخصوص دائرہ ہے ،جس کے باہر کوئی انسان کچھ اضافی اسباب مثلاً مخصوص آلات اور ایجادات کے بغیر ہرگز نہیں سن سکتا۔ جن کی اپنی کچھ حدود ہیں۔ جیسے ٹیلی فون وغیرہ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کو، سننے کے لئے ان میں سے کسی چیز اور سبب کی سرے سے ضرورت ہی نہیں۔ وہ تمام کائنات کی چھوٹی بڑی ہر ایک آواز کو سنتا ہے، ہر وقت سنتا ہے، اور براہِ راست کسی واسطہ، وسیلہ، ذریعہ سبب اور آلے کے بغیر سنتا ہے۔
انسان دیکھتا ہے۔ اگر دیکھنے کے بہت سارے اسباب میں سے محض ایک سبب ''روشنی'' موجود نہ ہو تو انسان ہرگز نہیں دیکھ سکتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے دیکھنے میں تمام اسباب سے بلند تر ہے۔ پھر روشنی اور دیکھنے کی صلاحیت کے ہونے کے باوجود انسان اور ہر مخلوق کے دیکھنے کی قوت کا ایک خاص اور محدود دائرہ ہے۔ جس کے باہر کوئی انسان کچھ مخصوص آلات مثلاً دوربین، کیمرہ، سیٹلائٹ وغیرہ کے بغیر دیکھنے سے قاصر ہے، جن کی پھر اپنی حدود ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ دور و نزدیک، کائنات کے ایک ایک ذرّے کو ہر وقت دیکھتا ہے۔ اور بغیر کسی واسطہ، وسیلہ اور سبب کے دیکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنی صفات کو بروئے کار لانے میں ہر سبب سے بالا اور ماوراء ہے۔
بس یہی فرق ہے خالق کی صفات اور مخلوق کی صفات میں۔
اس فرق کا واضح ہونا، اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کا مطلب واضح ہونے کے لئے لازمی ہے۔
مخلوق کو کسی کام میں اسباب سے آزاد و بے نیاز سمجھنا ،یا اسباب کو اس کا محکوم سمجھنا، اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کے نظریے کی مخالفت ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اسباب سے کیا مرادہے؟
مادی یا ظاہری اسباب سے مراد وہ اشیاء، چیزیں یا عناصر وغیرہ ہیں جو اس دنیا میں زندگی گذارنے کے لئے انسان کے لئے لازم ہیں یا لازم ہو سکتے ہیں۔ ان میں بنیادی اہمیت ان چار کو حاصل ہے: آگ، پانی، مٹی اور ہوا۔ تمام مادی اشیاء یا چیزیں (جنہیں یہاں اسباب کہا جارہا ہے) انہی چار بنیادی عناصر سے حاصل ہوتی ہیں یا انہی کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں۔
اسباب کا اثر مخصوص اصولوں کے تحت ہوتا ہے:
پھر ان اشیاء اور ان سے حاصل ہونے والے دیگر اشیاء کے عمل کرنے کے کچھ مخصوص اصول و قوانین ہیں جنہیں قادرِ مطلق نے اپنی حکمت کے تحت مقرر فرما دیا ہے۔ ان اصول و قوانین کو لوگ، طبیعی یا سائنسی قوانین کہتے ہیں۔ اشیاء کے خواص اور ان کا عمل یا تعامل یا تفاعل کرنا انہی ازل سے طے شدہ طبیعی قوانین کے تحت ہوتا ہے، خواہ وہ قوانین لوگوں نے سب کے سب دریافت کر لئے ہوں یا نہ۔ جمادات (بے جان اشیاء) نباتات (پودے درخت وغیرہ)، حیوانات اور انسانوں کے اپنے افعال یا ان پر کیے گئے افعال کے ظاہری نتائج اور اثرات ان قوانین کی حدود سے باہر نہیں ہوتے۔ مثلاً ہوا سے بھاری اشیاء اگر ہوا میں آزاد چھوڑ دی جائیں تو وہ ہمیشہ نیچے زمین کی طرف گریں گی۔ نہ تو وہ اوپر کو جائیں گی اور نہ ہوا میں معلق ہی رہیں گی۔ یہ ایک طبیعی قانون ہے۔ لیکن اگر کچھ اور طبیعی قوانین، مثلاً قوت کے طبیعی قوانین کو مناسب طور پر عمل میں لایا جائے تو بھاری اشیاء ہوا میں معلق بھی رکھی جا سکتی ہیں، پرواز بھی کرائی جا سکتی ہیں اور نیچے سے اوپر بھی بھیجی جا سکتی ہیں۔ لیکن یہ کام بھی طبیعی قوانین کے تحت ہی انجام دیے جا سکتے ہیں۔
انسان کی قوت و اختیار کی حدود:
انسان کی تمام تر طاقت اور اختیار کی حدود اِن طبیعی قوانین کے اندر اندر ہی ہوتی ہیں۔ کوئی انسان اگر یہ چاہے کہ وہ کوئی طبیعی قوت استعمال کیے بغیر کسی شے کو ہوا میں معلق کر دے ،یا اُڑانا شروع کر دے ،یا خود پرواز کرنے لگ جائے، تو یہ اس کے لئے قطعاً ناممکن ہے۔ یہی مطلب ہے انسان کے اسباب کا پابند ہونے کا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اسباب و قوانین اللہ کے محکوم ہیں:
البتہ اللہ اگر چاہے تو طبیعی قوانین خواہ کچھ بھی ہوں، ہر چیز واقع ہو سکتی ہے۔ بھاری چیزیں بغیر کسی مادی سبب کے ہوا میں پرواز کر سکتی ہیں، پانی چلنے کے لئے فرش کی مانند ہو سکتا ہے، جمادات (بے جان اشیاء) خود بخود حرکت کر سکتی ہیں، وغیرہ ۔ لیکن ایسے کام صرف اور صرف اللہ کی قدرت اور اختیار میں ہیں۔ لہٰذا ان کی نسبت صرف اور صرف اللہ کی طرف کی جانی چاہیے، جبکہ ایسے کسی کام کا کہیں واقع ہونا ثابت ہو جائے۔ کیونکہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات اسباب اور ان کے قوانین سے پاک اور بلند ہے، اور سب اسباب و قوانین اس کی مخلوق اور اس کے حکم کے پابند ہیں۔
کچھ اور سائنسی قوانین:
دیگر مسلمہ سائنسی قوانین میں کچھ طبی اصول بھی شامل ہیں۔ مثلاً یہ کہ ایک مردہ آدمی نہ تو خود سے زندہ ہو سکتا ہے اور نہ کوئی اسے زندہ کر سکتا ہے۔ کوئی بوڑھا آدمی یا نومولود بچہ یکایک جوان نہیں ہو سکتا، طویل عرصے تک کوئی شخص خوراک، پانی اور آکسیجن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، وغیرہ وغیرہ۔ میڈیکل سائنس کے تسلیم کردہ ان اصولوں سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ تمام انسان یکساں طور پر اللہ کے طے کردہ ان اصولوں کے سامنے مجبور ہیں، خواہ وہ نیک ہوں یا بد۔
صرف اللہ جو چاہے کر سکتا ہے:
البتہ اللہ تعالیٰ جب چاہے اور جس کے لئے چاہے ، یہ اصول ٹوٹ سکتے ہیں۔ ایک مردہ آدمی صرف اللہ کے اِذن اور چاہنے سے زندہ ہو سکتا ہے۔ اور ایک بوڑھا آدمی یا نومولود بچہ صرف اللہ کے چاہنے سے یکایک جوان ہو سکتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن چونکہ ایسے کام صرف اور صرف اللہ کی قدرت اور اختیار میں ہیں (کیونکہ اسباب صرف اسی کے محکوم ہیں اور وہ ان کے قوانین سے بالا ہے) اس لئے اگر ایسے کسی کام کا کہیں واقع ہونا ثابت ہو جائے تو ان کا کرنے والا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو ماننا چاہیے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اسباب کی پابندی میں تمام انسان یکساں ہیں:
اللہ تعالیٰ نے کسی بھی قسم کی مخلوق کے لئے جو اسباب مقرر فرما دیے ہیں، وہ اس مخلوق کے تمام افراد کے لئے یکساں حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔ انسانوں کے کاموں کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو اسباب طے کر دیے ہیں وہ تمام انسانوں کے لئے ایک جیسے ہیں۔ ان اسباب کو استعمال کرنے کی صلاحیت مختلف انسانوں میں کم زیادہ ضرور ہو سکتی ہے لیکن کوئی انسان ان اسباب سے کسی بھی معاملہ میں بالکل آزاد نہیں رہ سکتا۔ انبیاء o بھی انسان اور بشر تھے۔ وہ کھاتے تھے، پیتے تھے اور بازاروں میں اشیائے ضرورت کی خرید و فروخت کے لئے آتے جاتے تھے۔ انہیں بھی تکالیف اور پریشانیاں محسوس ہوتی تھیں۔ بلکہ سب انسانوں میں سب سے زیادہ تکالیف انبیاء o نے ہی اٹھائی ہیں۔ اگر وہ اسباب کے بغیر زندگی گزارنے کی قوت رکھتے ہوتے، یا اُن پر اپنی مرضی کے مطابق قدرت رکھتے ہوتے تو سب سے پہلے اپنے آپ کو کھانے پینے کی سے آزاد کرتے، اور جن جن اسباب سے ان کو تکالیف پہنچتی تھیں ان کو اپنے سے دور کر دیتے۔ کون ہے جو طاقت رکھنے کے باوجود خواہ مخواہ تکلیفیں اور پریشانیاں اُٹھاتا رہے؟!
اللہ اپنے اختیار کا اظہار کس طرح کرتا ہے؟
البتہ بعض بہت ہی خاص حالات میں اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے اپنے برگزیدہ بندوں (انبیاء o اور اولیائے کرام) سے کچھ ایسے کام کروا دیتا ہے جو دراصل خود ان کی طاقت و اختیار سے باہر ہوتے ہیں، اور دنیا کے عام طبیعی قانون سے ہٹ کر واقع ہوتے ہیں۔ ایسے کام بہت شاذ و نادر ہوتے ہیں اور ان کے ہونے میں ان ہستیوں کی مرضی اور چاہت کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ نہ ہی ان ہستیوں کو لازمی طور پر ان اُمور کے ہوجانے کا پہلے سے علم ہوتا ہے۔ ایسے کام اللہ تعالیٰ انبیاء o سے ظاہر کرائے تو وہ معجزات کہلاتے ہیں۔ اور اگر یہ دیگر نیک ہستیوں سے صادر ہوں تو کرامات کہلاتے ہیں۔ معجزات و کرامات کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی مدد بھی کرتا ہے اور دیگر لوگوں کو اپنی قدرت کی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ وہ اللہ پر ایمان لے آئیں۔
صرف انہی معجزات پر ایمان رکھنا ضروری ہے جو قرآن اورصحیح احادیث سے ثابت ہوں۔ باقی رہیں کرامات، تو جب تک روایتوں کا سچا ہونا ثابت نہ ہو جائے، کسی کرامت کو بیان نہیں کرنا چاہیے۔ نیز، عمومی طور پر تو کرامات کے وقوع پر یقین رکھا جائے لیکن (خصوصاً موجودہ دور یا ماضی قریب کے) کسی خاص واقعے کی نسبت سے کسی کرامت پر ایمان رکھنا لازمی نہیں۔
 
Top