• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الولاء والبراء کی پامالی۔

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
عقیدۃ’’ الولاء والبراء‘‘ کی پامالی
وائے ناکامی، متاعِ کارواں جاتا رہا!



فضیلت مآب ابو اسحاق الحوینی

شیخ ابو اسحاق الحوینی مصر کے ایک بڑے عالم، مفتی اور محدث ہیں۔ محدثِ عصر شیخ ناصر الدین البانیؒ کے خاص شاگردوں میں آتے ہیں۔ چوٹی کے عرب خطیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔ زیر نظر عبارت ان کے ایک خطبہ بہ عنوان ’’الولاء لمن؟‘‘ سے ماخوذ ہے۔ اس عبارت کا ذیلی عنوان ہے: ضیاع عقیدۃ الولاء والبراء فی واقعنا المعاصر۔

عقیدہ ’’الولاء والبراء‘‘ اللہ رب العزت کے ساتھ مسلمان کی براہ راست وابستگی کا ہی دوسرا نام ہے؛ اِس کی رُو سے مسلمان کی دوستی اور دشمنی کا محور خدا کی ذات ہو جاتی ہے۔۔۔ ہمارے دشمنوں نے جب یہ جانا تو وہ سب سے بڑھ کر ہمارے اِسی عقیدہ کے درپے ہوئے اور اِسی کو بے جان کر دینے کی ٹھانی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہاں عجیب و غریب اصطلاحات کا ڈھیر لگ گیا؛ ایسی اصطلاحات جن کو ہماری امت نے آج تک کبھی نہیں جپا تھا: ’انسانی اخوت‘ اور ’عالمی برادری‘ اور نہ جانے کیاکیا! اور تو اور، داعیانِ دین یہ بولی بولنے لگے: ’ہمارے عیسائی بھائی‘! ’ہمارے غیر مسلم بھائی‘! خبردار رہو؛ یہ اپنے ایمان کو داغ لگانے کے مترادف ہے۔ یہ عقیدہ ’’الولاء والبراء‘‘ کی پامالی ہے۔ یہ جن کو تم ’بھائی‘ کہتے ہو، اللہ عزوجل ان کو ’’کافر‘‘ کہتا ہے۔ ادھر کوئی دین دار صاحب بولتے ہیں: ’ہمارے وطن کے بھائی، ہماری عیسائی برادری‘! (ہمارے برصغیر میں کہنا ہو تو: ’ہمارے ہندو بھائی‘ اور ’ہمارے سکھ بھائی‘!)۔ سنو! یہ حرام ہے؛ تمہارا پرودگار ان کو کافر کہہ چکا ہے۔ جس کو اللہ کافر کہے اور ذلیل قرار دے، تمہارے لیے روا نہیں کہ تم اس کی تکریم کرو۔ اِس عقیدہ ’’الولاء والبراء‘‘ کو پامال ہوتا دیکھنا ہو تو اپنے امپورٹ اور ایکسپورٹ سے منسلک تاجروں کو دیکھو یہ اُن کو کیسا احترام دیتے ہیں۔ کس طرح اُن کے آگے بچھے جاتے ہیں۔ جب تک کافر کرسی پر رونق افروز نہ ہوجائے ہمارا یہ فرزند اسلام نشست سنبھالنے کا روادار نہ ہوگا! اُس کے آگے پیچھے یوں دوڑا پھرے گا گویا ایسی سعادت دوبارہ نصیب ہونے والی نہیں! وہ کوئی کفر بک دے، حرام کاری کرے، بدبودار مشروب پئے، اِس کی مسکراہٹیں ختم ہونے میں نہ آئیں گی اور خدا کی خاطر غضب ناک ہونا تو گویا اِس نے کبھی سنا اور نہ جانا! اِس عقیدہ ’’الولاء والبراء‘‘ کو پامال ہوتا دیکھنا چاہو تو اس وقت دیکھو جب کسی یونیورسٹی میں کوئی نامور مستشرق تقریر فرمانے آیا ہو؛ تم پہلی بار اپنے بڑے بڑے دانشوروں کے ہوش اڑے دیکھو گے؛ اور اُس کے لیے اِنہیں ایسے ایسے القاب استعمال کرتا اور اُس کی عبقریت کے ایسے ایسے گن گاتا دیکھو گے کہ تھرڈ ورلڈ چاہے تو اس میں اپنی پوری اوقات دیکھ لے! مجھے آج تک یاد ہے جب جان پالکٹر جو کہ ایک وجودی Existentialist دہریہ ہے، اپنی داشتہ کے ہمراہ جامع ازھر میں ’خطاب‘ فرمانے آیا؛ اُس وقت میں اَزھر میں تھا اور میں نے وہاں پر عجب حال دیکھا تھا۔ ازھر میں ہی میرا اپنا چشم دید واقعہ ہے، جہاں کافر سیاحوں کا سیر کے لیے آنا ایک معمول ہے (جس طرح ہمارے یہاں کافر مردوں اور عورتوں کے لیے فیصل مسجد اور بادشاہی مسجد وغیرہ کو ’سیرگاہ‘ کا درجہ دے رکھا گیا ہے)؛ مسجد انتظامیہ نے ایک خاکروب کو دوپٹے تھما رکھے تھے کہ غیر ملکی سیاح عورتوں کو، جو یہاں ’سیر‘ کرنے اور مسجد کا تقدس اپنے پیروں تلے روندنے آتی ہیں، ننگے سر دیکھو تو ایک عدد دوپٹہ پیش کرو ! انتظامیہ کے تقویٰ اور خداخوفی کی داد دیتے چلئے؛ سر کے کچھ حصے پر پارچہ نما کوئی چیز ہونا لازم ہے ورنہ مسجد کی بے حرمتی ہو سکتی ہے! کیا دیکھتا ہوں، ایک عورت جو منی سکرٹ پہنے ہوئے ہے؛ آدھی آدھی رانیں برہنہ کررکھی ہیں، خاکروب کا دیا ہوا دوپٹہ ’انجوائے‘ کرتی ہوئی مسجد میں ہر طرف چلی پھرتی ہے۔ ادھر اسی حلیہ کی ایک عورت خاکروب سے دوپٹہ پکڑنے پر ہی آمادہ نہیں! میں خاکروب اور اس عورت کی تکرار سننے کے لیے ذرا رک گیا۔ خاکروب کو اپنی کارگزاری کرنی ہے جبکہ منی سکرٹ میں ’مستور‘ یہ عورت دوپٹے کے بغیر ہی مسجد کی سیر کر کے جانے پر مصر ہے! پھر جانتے ہو کیا ہوا؟ عورت اپنے پرس سے ایک پاونڈ کا نوٹ نکالتی ہے اور خاکروب کے ہاتھ میں تھما دیتی ہے جس پر خاکروب جھٹ سے اپنا مطالبہ واپس لے لیتا ہے! یہ ہو رہا ہے خدا کے گھروں میں! فِیْ بُیُوتٍ أذِنَ اللّٰہُ أن تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فَیہَا اسْمُہ! ذرا میرے ساتھ غور کرتے چلئے ؛ جامع مسجد ازھر میں کفار کا آنا بھلا کس غرض سے ہے؟ کیا یہ عجائب گھر ہے؟ سیرگاہ ہے؟ نہیں، یہ اللہ کا گھر ہے جس کا یہ حشر ہو رہا ہے۔ ہم بھی کہتے ہیں کافر مسجد میں داخل ہو سکتا ہے مگر صرف کسی ایسی غرض سے جو اللہ کے گھر کے شایان ہو، نہ کہ اس کو سیرگاہ سمجھ کر۔ کافر یہاں کوئی سوال پوچھنے کے لیے آنا چاہیں، مسلمانوں سے کسی معاملہ میں رجوع کے لیے آنا چاہیں، یا کسی اور معقول غرض کے لیے آنا چاہیں؛ ضرور آئیں۔ کفار یقیناًنبی ا کے پاس مسجد میں ہی حاضر ہوا کر تے تھے، مگر کفار کے نبی ا کے پاس وہاں حاضر ہونے میں بھی مسجد کی ایک ہیبت اور شان قائم ہوتی تھی۔ البتہ مسجد کو ’تماشے کی جگہ‘ بنانے والے ہمارے یہ آج کے مسلمان ہیں جو اپنے دین کے مسلمات کو مسلسل روندتے چلے آرہے ہیں۔ اسلام کے یہ سپوت آج مسجدوں سے ’’سیاحت‘‘ کی کمائی کریں گے اور اگر برہنہ عورتوں کو یہاں آنے سے روکا گیا تو سیاحوں کا رخ اِدھر کو نہیں رہے گا! اف خدایا! آج ہم کس دور میں ہیں! آج یہاں ایسے ایسے ’مفسر‘ پائے جانے لگے ہیں کہ ان کی تفسیر کو دیکھ کر آدمی لرز اٹھتا ہے۔ اخبارات میں ۱۹۷۴ ؁ء سے میں ایک دانشور کے کالم پڑھتا آرہا ہوں جو اپنا پورا زور اِس بات پر صرف کر رہا ہے کہ یہود اور نصاریٰ اور مجوس اور مسلمین سب کو اہل جنت ثابت کر دے! اِس سال بھی اُس نے ’ثابت‘ کیا ہے کہ مسلمان، یہودی، عیسائی، مجوسی اور صابی سب جنتی ہیں؛ کیونکہ اس کا فہم قرآن یہی کہتا ہے! ایسے لوگ آج دانشور ہیں؛ بڑے بڑے اسٹیج، بڑے بڑے چینل، بڑے بڑے اخبار، بڑے بڑے فورم اِنہی کے لیے مختص ہیں، خواہ یہ ہمارے مسلمات کے بخئے ادھیڑ کر رکھ دیں اور ہمارے عقیدہ کا ستیاناس کر دیں؛ کیونکہ حریتِ اظہار اِسی کا نام ہے! کفار کے تہواروں میں شرکت کے مسئلہ کو نرم کر دینا ضروری ہو چکا ہے! بھائی تنگ نظر اور متعصب کیوں بنو؛ دین اور عقیدہ کو ملیامیٹ کردو۔ سب سے زیادہ شست باندھ کر تیر چلاؤ تو عقیدہ ’’الولاء والبراء‘‘ پر؛ کیونکہ یہی اِس سارے مسئلے کی اصل جڑ ہے۔ کفار کے تہواروں پر اژدھام کرنے والے یہ کون ہیں؟ مسلمان! موحد! یہ مسلم مصر ہے؛ ایسٹر پر جدھر دیکھیں آپ کو مسلمان نظر آئیں گے! یہی کیا، آپ کو یہاں پوری پوری داڑھیوں والے نظر آئیں گے! پابندِ نقاب خواتین ملیں گی! ماشاء اللہ پوری فیملی ایسٹر کی سیر کو نکلی ہوئی ہے؛ سڑکوں اور پارکوں میں تل دھرنے کو جگہ نہیں! (قبطی عیسائیوں کے ہاں باغات میں نکل کر نسیم صبح سے لطف اندوز ہونا اور خاص کھانوں پر مشتمل ایک ناشتہ کرکے آنا ایسٹر کے مناسک میں گنا جاتا ہے)۔ جی ہاں آج ایسٹر ہے! پوری پوری داڑھیوں والوں اور نقاب اوڑ رکھنے والیوں کو آج یہ بھی یاد نہیں کہ عالمی صنف بندی میں اِن کے لیے جو خانہ مخصوص ہے اس کا نام ’دہشت گرد‘ ہے؟ اِن کو یہ بھی یاد نہیں کہ پوری دنیا میں آج جو بھی جنگ کھڑی کی جا رہی ہے وہ دراصل اِنہی کے خلاف ہے؟ آج ایسی کوئی بات یاد رکھنے کا دن نہیں؛ کافروں کی تماشاگاہیں بھرنے کا دن ہے! اور یہ ہیپی نیو ایئر کی رات ہے۔ بدکاریوں کی رات۔ زناکاریوں کی رات۔ شرابیں چلنے کی رات۔ خدایا ایک مسلم ملک میں یہ سارا شور شرابا، کیا کافر یہاں اتنے ہو گئے ہیں؟ نہیں یہ مسلمان ہیں! بدکاری، شرابیں، کافروں کے تہوار کی یہ ساری رونق فرزندانِ اسلام کے دم سے ہے! ہوٹلوں میں جاؤ، جگہ نہیں ملتی؛ سارے ہوٹل بک ہیں! کمرہ پانے کے لیے واسطے اور تعلقات کام میں لائے جا رہے ہیں، پیسوں کی پروا نہیں جتنے مرضی لے لیں، اس رات کسی اچھے ہوٹل میں کمرہ ملنا چاہیے! چھپنے چھپانے کی احتیاج نہیں؛ سب کچھ ’معمول‘ کی بات ہے۔ ایک آزاد خودمختار مسلمان ملک میں یہ سب کون کر رہا ہے؟ یہی، مسلمان! ہاں ابھی یہ گلہ باقی ہے کہ خدا کی مدد اور نصرت کیوں ہمارے شامل حال نہیں!!! روئے زمین پر ایسی قوم کا باقی رہ جانا ہی کیا کم معجزہ ہے جو فتح و شادمانی نہ ملنے کے شکوے بھی ہونے لگے!!! پوچھتے ہو ترقی اور کامرانی کیوں نہیں ملی! یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ زمین ہمارے نیچے دھنسا کیوں نہیں دی گئی!!! کیا کبھی قرآن نہیں پڑھا؟ کبھی اپنے نبیؐ کے ارشادات نہیں سنے؟ ہمیں تو منع کر دیا جاتا ہے کہ ہم اُن قوموں کے مسکنوں میں سکونت اختیار کریں جنہوں نے ظلم کیا اور پھر ان پر خدا کا عذاب اترا؛ حالانکہ زمین ساری خدا کی ہے۔ زمین کی سب پاکی اور ناپاکی اس کے باشندوں کے دم سے ہے ۔ خطہ ہائے زمین پر جو احکام لگتے ہیں وہ دراصل وہاں چلنے پھرنے والے انسانوں سے متعلقہ احکام ہوتے۔ یہی مکہ ہے جو خدا کا پسندیدہ ترین بقعۂ ارض ہے مگر پھر بھی یہ کچھ دیر دارالکفر رہتا ہے اور بعد ازاں دارالاسلام بنتا ہے۔ آج کا دارالکفر کل کا دارالاسلام ہوسکتا ہے اور کل کا دارالاسلام آج کا دار الکفر۔ ایمان وکفر کے مسئلہ سے زمین بیچاری کا کیا تعلق؟ اس کے باوجود، خدا ہمیں منع کرتا ہے کہ ’’مساکن الذین ظلموا‘‘ کے باشندے بن کر رہیں، حالانکہ زمین ساری اللہ کی ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ یہ مسئلہ عقیدہ ’’الولاء والبراء‘‘ میں داخل ہے۔ ان بستیوں میں ظالموں کے آثار صبح شام دیکھنا قلوب کو متاثر کرتا ہے؛ جن مقامات پر خدا کا قہر اترا وہ ہماری نگاہ میں معمول کی چیز ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ’ابوالہول‘ اور ’اہرام‘ ایسی تماشگاہیں بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تبوک کے سفر کے دوران نبی ا حجر میں دیارِ ثمود کے پاس سے گزرے تو چہرہ مبارک ڈھانپ لیا۔ سواری کو تیز کر لیا۔ اور اصحابؓ سے فرمایا: إذَا مَرَرْتُمْ بِدِیَارِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَأسْرِعُوْا؛ خَشْیَۃَ أنْ یُصِیْبَکُمْ مَا أصَابَہُمْ ’’جب تم ظالموں کے دیار سے گزرو تو تیز ہو جاؤ، اس ڈر سے کہ تمہیں بھی وہ چیز نہ آلے جس نے اُن کو آلیا تھا‘‘۔ کیا تم نے غور کیا؟ یہ کافر مرا پڑا ہے اور تمہیں ہدایت کی جارہی ہے کہ یہاں تیزی سے گزر جاؤ اور اس والے انجامِ بد سے خدا کی پناہ مانگو۔ تو پھر زندہ کافر سے دوستی اور بغل گیری چہ معنیٰ! وہ کافر جو خود تمہارے سامنے کفر کررہا ہے اس کے ساتھ البتہ تمہاری خوب خوب دوستی نبھے؟! یہ تمہارے نبی ا ہیں جو تمہیں خبردار فرما رہے ہیں: مَنْ جَامَعَ الْمُشْرِکِیْنَ فَہُوَ مِنْہُمْ ’’جو شخص مشرکوں کے ساتھ رہن سہن رکھے وہ انہی میں سے ہے‘‘۔ کیا نبی صلى اللہ عليہ وسلم کی یہ تنبیہ کافی نھیں۔
 
Top