• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الو کی لاٹری ۔(عبد اللہ طارق سہیل)

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
آئی ایس آئی اور میڈیا گروپ کے درمیان تنازعے پر اپنے تبصرے میں نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ پاک فوج میڈیاکو دبانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن یہ اس بات کی علامت نہیں ہے کہ وہ میڈیا پر پھر سے اپنا کنٹرول قائم کر رہی ہے بلکہ اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی بیانیے پر اسٹیبلشمنٹ کا کنٹرول کمزور پڑ رہا ہے اور وہ باہر نکلے جن کو پھر سے بوتل میں بند کرنے کے لئے بے بسی کے عالم میں ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔

یہ تجزیہ کسی حسن زیدی صاحب کا لکھا ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے مضمون نگار ایسا ہی سمجھتے ہوں لیکن حقیقت یہ نہیں لگتی ہے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ پر الزام کے بعد ایک میڈیا گروپ کو سزا دینے کی کوشش ضرورکی گئی ہے لیکن فوج کا مطلق آزادئ صحافت کو نقصان پہنچانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ یہ معاملہ برایا بھلاسلجھ جائے گا۔ وزیراعظم نواز شریف نے اس پر عدالتی کمیشن بنایا ہے اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف آزادی صحافت اور آئین کی بالادستی کے بارے میں اپنے دو ٹوک خیالات ظاہر کرکے معاملہ صاف کر چکے ہیں۔ ایک میڈیا گروپ اور آئی ایس آئی میں کشمکش کو اسی طرح دیکھنا چاہئے جس طر ح وہ ہے۔

لیکن افسوس کی بات ہے کہ نیویارک ٹائمز کے غلط تجزئیے کو کچھ لوگ درست ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ فوج سے جو محبت ظاہر کر رہے ہیں' فوج بھی جانتی ہے کہ یہ محبت سے زیادہ اپنا الّو سیدھا کرنے کی کوشش ہے۔ اور الّو ہر ایک کا اپنا اپنا ہے۔

ادھر ایک کالم نویس نے لکھا ہے کہ80فیصد عوام فوج کے ساتھ ہیں۔ سوال ہے'80فیصد ہی کیوں؟ سو فیصد پاکستانیوں کو فوج کے ساتھ ہونا چاہئے۔ کالم نگار کی تحریر کے بین السطور کچھ اس قسم کا مفہوم کردٹ پذیر ہے کہ 80فیصد پاکستانی مارشل لاء (یا اسی قسم کے کسی اور اقدام) کی حمایت کریں گے۔ اگر یہ مفہوم ہے تو یہ اندازہ80فیصد ہی غلط ہے۔

ملاحظہ فرمائیے۔ بلوچستان اور خیبر کے دونوں صوبوں میں مارشل لاء کو ایک فیصد حمایت بھی نہیں مل سکتی۔ سندھ کے اندرون میں بھی جو سندھ کے50 فیصد سے زیادہ ہے' یہی صورتحال ہے۔ کراچی کے شہری علاقے میں صرف نسل پرست احباب بڑی بے چینی سے تائید کرینگے۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں اُن کے الّو کے سیدھا ہونے کے یقینی حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ الّو یوں سیدھا ہوگا کہ کراچی کو ملک سے کاٹ کر الگ ریاست بنا دیا جائے۔ حالات اس الّو کے سیدھا ہونے کے بالکل خلاف ہیں ۔ لیکن اگر مارشل لاء لگتا ہے تو الّو کی لاٹری نکل آئے گی۔ بہرحال' نسل پرست احباب کو چھوڑ کر کراچی کے باقی عوام' جو بھاری اکثریت میں ہیں' مارشل لاء کی حمایت نہیں کریں گے۔ یہ ملک کے50فیصد عوام کا معاملہ ہوا۔ باقی 50فیصد پنجاب ہے۔ لوڈشیڈنگ' اقربا پروری' مہنگائی' بدامنی اور میٹرو بس منصوبوں کے باوجود پنجاب کے عوام میں مسلم لیگ کی مقبولیت میں فی الحال ایسی کمی نہیں ہوئی جسے خاص کہا جا سکے۔ صرف مسلم لیگ کا ووٹ بینک ہی49فیصد ہے۔ پیپلزپارٹی' جماعت اسلامی' جے یو آئی کو ملا کر یہ ووٹ بینک70فیصد سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے اور اس70فیصد میں ایک فیصد بھی مارشل لاء کی حمایت نہیں کرے گا۔ تحریک انصاف کے19فیصد ووٹروں میں سے کتنے مارشل لاء کی حمایت کریں گے؟ ظاہر ہے کہ بہت کم ۔
تجزیہ میں زیادہ نہیں' تھوڑی سی تبدیلی کر لی جائے یعنی 80کے ہندسے ہیں 8کے ساتھ لگا ہوا صفر ہٹا لیا جائے تو شاید یہ درست ہونے کے کچھ قریب ہو جائے۔ ورنہ تو امکان نہیں۔
__________________________​

وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ طالبان سے امن مذاکرات پر کچھ لوگ ناخوش ہیں' وہی دھماکے کرا رہے ہیں اور حالات خراب کرنے میں لگے ہیں۔
وزیراعظم کی مراد بارودی دھماکوں سے ہے لیکن صرف بارودی نہیں' غیر بارودی دھماکے بھی یہی لوگ پکڑ رہے ہیں اور یہ کوئی اچانک وقوعہ نہیں۔ بہت پہلے بہت سے لوگوں نے صاف لکھ دیا تھا اور صاف بتا دیا تھا کہ پاکستان میں امن بھارتی لابی برداشت نہیں کرے گی۔ صرف پاکستان نہیں' یہ لابی چین کے صوبے سنکیانگ میں بھی امن نہیں رہنے دے گی کہ امن کا نتیجہ جس کاریڈار کی شکل میں نکلنا ہے' وہ سنکیانگ سے ہو کر گوادر پہنچتا ہے۔ یہ راہداری' پاکستان کی ملکیت ہوگی اور جہاں وسط ایشیا کی زیادہ تر درآمدی اور برآمدی تجارت اسی کاریڈار سے ہوگی' وہاں چین بھی خلیج کا تیل اسی کاریڈار کے متوازی پائپ لائن سے منگوائے گا اور اس کے ٹینکروں کو خلیج سے بحرہ عرب' وہاں سے بحیرہ ہند' پھر سری لنکا کا چکر کاٹتے ہوئے بہت آگے جاکر انڈونیشیا اور ملائیشیا کے درمیان آبنائے ملا کا سے گزار کر انڈوچائنہ کے سمندر عبور کرتے ہوئے بحیرہ جنوبی چین تک پہنچانے اور پھر وہاں سے اپنی بندرگاہوں تک لے جانے کی ہزارہا کوس لمبی مسافت طے کرنے سے نجات مل جائے گی۔ ایندھن اور عملے کے اخراجات میں بے پناہ کمی کے علاوہ اسے وقت کی بھی حیران کن بچت ہوگی۔ خلیج سے گوادر کا فاصلہ برائے نام ہے۔ وہاں سے پائپ لائن کو محض ایک ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا ہے اور چین کے اس فائدے کا ''محصول '' پاکستان کو ملے گا۔ ساتھ ہی بھارت کے وہ اربوں ڈالر ضائع ہو جائیں گے جو اس نے افغانستان اور چاہ بہار میں لگا رکھے ہیں۔

امن دشمن عناصر مذاکراتی عمل شروع ہونے سے پہلے ہی سیخ کباب بنے ہوئے تھے' اب تو ان کی شکل دیکھ ایسے چپلّی کبابوں کی یاد آتی ہے جنہیں کوئی توے پر رکھ کر بھول گیا ہو۔ اور جنرل راحیل شریف کے اس اعلان نے ان کی بے کلی مزید بڑھا دی ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ فی الوقت ان چپّلی کبابوں کے سوکھے دھانوں کی ساری امید11مئی سے وابستہ ہے۔ علامہ صاحب کو چھوڑئیے' عمران خاں تو پاکستان کے شہری ہیں اور پاکستان سے ان کی محبت غیر متنازعہ ہے۔ حیرت ہے' وہ بھی ''زید سرخ ٹوپ '' کے ٹریپ میں آگئے۔ زید سرخ ٹوپ کھاتا پاکستان کا ہے اور کام وہ کرتا ہے جو مودی چاہتا ہے۔ یہ چپلی کباب اتنے جل جانے کے بعد بھی بہت طاقتور ہیں۔ نواز حکومت کو اپنی سست روی چھوڑنی ہوگی اور امن عمل کو لوڈشیڈنگ کی طرز کا ماجرا سمجھنے سے گریز کرناہوگا۔
 
Top