• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الیاس قادری کی کتاب "فیضان جمعہ" کی چند روایات کی تحقیق

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
اس تھریڈ میں طاہر القادری کی کتاب فیضان جمعہ کی ان روایات کی تحقیق پیش کی جائے گی جن کے متعلق چند روز قبل ایک بھائی نے سوال کیا تھا۔ ترتیب ان کے سوال کے مطابق ہی رکھی گھی ہے۔

اکثر احادیث کی تحقیق شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللّٰہ کی کتاب سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة (ضعیفہ) سے لی ہے اور ایک دو احادیث دوسری کتب سے۔

طاہر القادری کی یہ علمی خیانت اور نبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم پر جھوٹ بولنے کی مثالیں ہیں، کیونکہ اس نے جن کتب کا حوالہ نقل کیا ہے ان بعض میں سند یا حدیث کے ضعیف ہونے کا ذکر خود مؤلف نے کر دیا ہے۔

اللّٰہ امت کو طاہرالقادری جیسے شریروں اور کذابوں اور دھوکے بازوں کی شر سے محفوظ رکھے، آمین۔
 
Last edited:

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
پہلی حدیث کی تحقیق شیخ کفایت اللّٰہ سنابلی حفظہ اللّٰہ نے پیش کی تھی میں اسی طرح اسے یہاں پیسٹ کر رہا ہوں۔

① من صلى على يوم الجمعة مائتى صلاة غفر له ذنب مائتى عام

(الديلمى عن أبى ذر) [جمع الجوامع أو الجامع الكبير للسيوطي ص: 23418]

ترجمہ: جس نے مجھ پر روزِ جمعہ دو سو بار درود پاک پڑھا اس کے دو سو سال کے گنا معاف ہوں گے۔

(جمع الجوامع للسیوطی ج 7 ص 199 حدیث 22353)

یعنی یہ روایت دیلمی کے حوالہ سے منقول ہے ۔
اور دیلمی کی کتاب کا جو حصہ موجود ہے اس میں ہمیں یہ روایت نہیں ملی ۔

البتہ امام سخاوی نے اسے اپنی کتاب میں نقل کیا اور اسے ضعیف قرار دیتے ہوئے کہا: ولا يصح
یہ صحیح نہیں ہے[القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع ص: 196]
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
② قَالَ العُقَيْلِي: حَدَّثَنَا أَبُو ذَرٍّ هَارُونُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عَدِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا «أَيُّوبُ بْنُ مُدْرِكٍ» عَنْ مَكْحُولٍ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى أَصْحَابِ الْعَمَائِمِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ»

ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے جمعہ کے دن عمامہ باندھنے والوں پر درود بھیجتے ہیں۔

۩تخريج: الضعفاء الكبير للعقيلي (في ترجمة ١٣٤- أَيُّوبُ بْنُ مُدْرِكٍ الْحَنَفِيُّ) (المتوفى: ٣٢٢هـ)؛ المعجم الكبير للطبراني (كما في المجمع) (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (في ترجمة ١٨٠- أيوب بْنُ مُدْرِكٍ الْحَنَفِيُّ) (المتوفى: ٣٦٥هـ)؛ حلية الأولياء وطبقات الأصفياء لأبي نعيم الأصبهاني (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛ الموضوعات لابن الجوزي (المتوفى: ٥٩٧هـ)؛ التدوين في أخبار قزوين لعبد الكريم الرافعي (المتوفى: ٦٢٣هـ)؛ الضعيفة (١٥٩) (موضوع)


[مترجم: اس حدیث کو «أَيُّوبُ بْنُ مُدْرِكٍ» سے تین راویوں نے روایت کیا ہے:
۱) يُوسُفُ بْنُ عَدِي (جیسا کہ عقیلی، طبرانی اور ابو نعیم کی روایات میں ہے)، اور یوسف بن عدی ثقہ، بخاری کے راویوں میں سے ہیں، جیسا کہ شیخ البانی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے۔

۲) أَبُو الْمُحَيَّاةِ (جیسا کہ ابن عدی اور عبدالکریم رافعی کی روایت میں ہے)، ان کا پورا نام يحيى ابن يعلى التيمي أبوالمحياة ہے، ثقہ، مسلم کے راویوں میں سے ہیں جیسا کہ ابن حجر رحمہ اللّٰہ نے تقریب التہذیب میں کہا ہے۔

۳) الْعَلاءُ بْنُ عَمْرٍو الْحَنَفِيُّ (جیسا کہ ابن جوزی کی ایک روایت میں ہے)، متہم بالکذب ہے جیسا کہ شیخ البانی نے کہا ہے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس حدیث کا دارومدار «أَيُّوبُ بْنُ مُدْرِكٍ» ہی پر ہے جیسا کہ ابن جوزی اور شیخ البانی رحمہما اللّٰہ نے کہا ہے]۔


عقیلی رحمہ اللّٰہ: ایوب بن مدرک کی متابعت نہیں کی جاتی اور وہ مناکیر روایت کرتا ہے۔

ابن عدی رحمہ اللّٰہ: یہ حدیث منکر ہے

ابو نعیم اصفہانی: یہ مکحول کی غریب روایات میں سے ہے اور مکحول سے اس حدیث کو صرف ایوب بن مدرک ہی نے روایت کیا ہے۔

ابن جوزی رحمہ اللّٰہ: "اس حدیث کی کوئی اصل نہیں، اس کا دارومدار ایوب بن مدرک پر ہے، ابو فتح ازدی نے کہا ہے کہ یہ حدیث ایوب بن مدرک کی وضع کردہ ہے، یحییٰ بن معین رحمہ اللّٰہ نے ایوب کو کذاب کہا ہے اور ابو حاتم اور دار قطنی رحمہما اللّٰہ نے متروک کہا ہے"

ہیثمی رحمہ اللّٰہ: اس حدیث کو طبرانی نے معجم کبیر میں روایت کیا ہے اس کی سند میں ایوب بن مدرک ہے اس کو ابن معین رحمہ اللّٰہ نے کذاب کہا ہے۔

امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں ہیثمی رحمہ اللّٰہ کا قول نقل کیا ہے اور لسان المیزان میں عقیلی رحمہ اللّٰہ کا اوپر کا قول نقل کیا ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
③ قال أبو نعيم: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ الْمُذَكِّرُ حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ جَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا «طَلْحَةُ بْنُ عَمْرٍو» عَنْ عَطَاءٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

«مَنْ قَلَّمَ أَظَافِيرَهُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ أَخْرَجَ اللَّهُ مِنْهُ كُلَّ دَاءٍ، وَأَدْخَلَ مَكَانَهُ الشِّفَاءَ وَالرَّحْمَةَ»

ترجمہ: جو شخص جمعہ کے دن نماز سے پہلے اپنے ناخن تراشتا ہے اللّٰہ اس سے ہر بیماری کو نکال دیتا ہے اور اس کی جگہ شفا اور رحمت داخل کر دیتا ہے۔

۩تخريج: تاريخ أصبهان لأبي نعيم (في ترجمة ٥٠٨ - جَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْقَطَّانُ أَبُو مُحَمَّدٍ)؛ الضعيفة (٢٠٢١) (ضعيف جدًا)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں یہ سند بہت زیادہ ضعیف ہے کیونکہ طلحہ بن عمرو (بن عثمان حضرمی مکی) متروک الحدیث، متہم بالوضع ہے

(محدثین کے طلحہ بن عمرو کے متعلق اقوال کے لیے ابن حجر رحمہ اللّٰہ کی تہذیب التہذیب دیکھیں)۔


طاہر القادری نے اپنی کتاب میں مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالے جو حدیث پیش کی ہے اس کی سند مقطوع ہے۔(اس کی نسبت نبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی طرف نہیں کی گئی ہے)


قال ابن أبي شيبة: حَدَّثَنَا مُعَاذٌ عَنِ الْمَسْعُودِيِّ عَنِ ابْنِ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ قَالَ فِيمَنْ قَلَّمَ أَظْفَارَهُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ: «أَخْرَجَ اللَّهُ مِنْهَا الدَّاءَ وَأَدْخَلَ فِيهَا الشِّفَاءَ»

ترجمہ: ابن حمید کہتے ہیں کہ ان کے والد عبدالرحمن نے اس شخص کے متعلق جو جمعہ کے دن ناخن کاٹتا ہے کہا: اللہ تعالیٰ اس سے بیماری نکال کر شفا داخل کر دیتا ہے۔

۩تخريج: مصنف ابن أبي شيبة (٥٥٧٠) (المتوفى: ٢٣٥هـ)؛ (حديث مقطوع)
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
④ قال القضاعي: أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ التُّجِيبِيُّ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْأَعْرَابِيِّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ هُوَ ابْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ الْعَامِرِيُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا أَبُو يُوسُفَ عَنْ «عِيسَى بْنِ إِبْرَاهِيمَ» عَنْ «مُقَاتِلٍ» عَنِ الضَّحَّاكِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«الْجُمُعَةُ حَجُّ الْفُقَرَاءِ»

ترجمہ: جمعہ فقراء کا حج ہے۔

۩تخريج «الْجُمُعَةُ حَجُّ الْفُقَرَاءِ»: مسند الشهاب القضاعي (٧٩) (المتوفى: ٤٥٤هـ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (في ترجمة ٤٦١٢ - عثمان بن عبد الرحمن) (المتوفى: ٥٧١هـ)

قال أبو نعيم: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ نَصْرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَارُونَ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنَا «عِيسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْهَاشِمِيُّ» عَنْ «مُقَاتِلٍ» عَنِ الضَّحَّاكِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

«الْجُمُعَةُ حَجُّ الْمَسَاكِينِ»

ترجمہ: جمعہ مساکین کا حج ہے۔

۩تخريج «الْجُمُعَةُ حَجُّ الْمَسَاكِينِ»: الترغيب والترهيب لابن زنجويه (المتوفى: ٢٥١هـ)؛ مسند الحارث (كما قال المناوي في شرحه) (المتوفى: ٢٨٢هـ)؛ تاريخ أصبهان لأبي نعيم الأصبهاني (في ترجمة ١٣٥٢ - مُحَمَّد بن هارون أَبُو جعفر الرازي) (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛ مسند الشهاب القضاعي (٧٨) (المتوفى: ٤٥٤هـ)؛ الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي (٢٦١٤) (المتوفى: ٥٠٩هـ)؛ ابن النجار (كما في جامع الأحاديث) (المتوفى: ٦٤٣هـ)؛ الضعيفة (١٩١) (موضوع)

حافظ عراقی رحمہ اللّٰہ نے اس کی سند کو ضعیف کہا ہے، ابن حجر رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو میزان الاعتدال میں اس حدیث کو عیسیٰ کے تعارف میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ منکر الحدیث اور متروک ہے۔

سخاوی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ مقاتل ضعیف ہے اور اس سے روایت کرنے والا بھی ضعیف ہے۔


شیخ البانی کہتے ہیں کہ مقاتل ضعیف نہیں بلکہ کذاب ہے جیسا کہ ہم نے وکیع رحمہ اللّٰہ کا قول (ضعیفہ، حدیث نمبر: ١٦٨) میں نقل کیا ہے۔ اور اس سے روایت کرنے والا عیسیٰ بن ابراہیم بہت زیادہ ضعیف ہے، بخاری اور نسائی رحمہما اللّٰہ نے اسے منکر الحدیث کہا ہے، اس لئے ابن جوزی رحمہ اللّٰہ اور ان کے بعد صغانی رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو موضوع کہا ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
⑤ قال ابن عدي: حَدَّثَنَا «الْقَاسِمُ بْنُ عَبد اللَّهِ بْنِ مَهْدِيٍ مِنْ حِفْظِهِ وَلَمْ يكن في كتابه» حَدَّثَنا أَبُو مُصْعَبٍ الزُّهْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسلَّمَ:

«إِنَّ لَكُمْ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ حَجَّةً وَعُمْرَةً، الْحَجَّةُ الْهَجِيرُ إِلَى الْجُمُعَةِ وَالْعُمْرَةُ اِنْتِظَارُ الْعَصْرِ بَعْدَ الْجُمُعَةِ»

ترجمہ: بلاشبہ تمہارے لئے ہر جمعہ کے دن میں ایک حج اور ایک عمرہ موجود ہے، جمعہ کی نماز کیلئے جلدی نکلنا حج ہے اور جمعہ کی نماز کے بعد عصر کی نماز کے لئے انتظار کرنا عمرہ ہے۔

۩تخريج: الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (في ترجمة ١٥٨٥- قاسم بْنُ عَبد اللَّهِ بْنِ مَهْدِيٍّ أَبُو الطاهر) (المتوفى: ٣٦٥هـ)؛ السنن الكبرى (٥٩٥٠) و شعب الإيمان (٢٧٨٤) للبيهقي (المتوفى: ٤٥٨هـ)؛ (موضوع)

بیہقی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ اس حدیث کو اس سند سے صرف قاسم نے ہی روایت کیا ہے۔ اور یہ حدیث اس سند سے بھی مروی ہے: (عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ مَرْفُوعًا)
بیہقی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ ان دونوں میں ضعف ہے۔

ابن القيسراني (المتوفى: ٥٠٧هـ) نے ذخيرة الحفاظ (حدیث نمبر: ١٩٧٣) میں کہا ہے کہ مصر کے بعض شیوخ نے قاسم بن عبداللہ بن مہدی کو ضعیف کہا ہے۔

امام ذہبی رحمہ اللّٰہ (المتوفى: ٧٤٨هـ) نے اس حدیث کو "المغني في الضعفاء" میں قاسم بن عبداللہ بن مہدی کے تعارف میں ذکر کرنے کے بعد موضوع اور "ميزان الاعتدال" میں موضوع باطل کہا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ نے بھی امام ذہبی کے اس کلام کو لسان المیزان میں نقل کیا ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
⑥ قال ابن الجوزي: أَنْبَأَنَا الْحَرِيرِيُّ قَالَ أَنْبَأَنَا الْعُشَارِيُّ قَالَ أَنْبَأَنَا الدارقطني قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْبَاهِلِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ أَبِي خِدَاشٍ قَالَ حَدَّثَنَا الْعَوَّامُ بْنُ عَبْدِ الْغَفَّارِ الْبَصْرِيِّ عَنْ «عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ زَيْدٍ» عَنْ ثَابِتٍ الْبَنَّانِيِّ عَنْ أَنَسٍ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«إِنَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ أَرْبَعَةٌ وَعِشْرُونَ سَاعَةً لَيْسَ فِيهَا سَاعَةٌ إِلا وَلَهُ فِيهِمَا سِتَّمِائَةِ أَلْفِ عَتِيقٍ مِنَ النَّارِ»

ترجمہ: جمعہ کے دن اور رات میں چوبیس گھنٹے ہیں کوئی گھنٹا ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ جہنم سے چھ لاکھ آزاد نہ کرتا ہو۔


ابن جوزی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے، عبدالواحد بن زید کے متعلق یحییٰ رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے "لَيْسَ بِشَيْءٍ" اور فلاس رحمہ اللّٰہ نے متروک الحدیث کہا ہے۔

اور ایسی ہی ایک حدیث مسند ابو یعلی وغیرہ میں بھی ہے:


قال أبو يعلى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَحْرٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ الطَّائِفِيُّ حَدَّثَنَا «الْأَزْوَرُ بْنُ غَالِبٍ الْبَصْرِيُّ» عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ وَسُلَيْمَانَ التَّيْمِيَّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«إِنَّ لِلَّهِ فِي كُلِّ يَوْمِ جُمُعَةٍ سِتَّمِائَةِ أَلْفِ عَتِيقٍ يَعْتِقُهُمْ مِنَ النَّارِ (قَالَ أَحَدُهُمَا فِي حَدِيثِهِ) كُلُّهُمْ قَدِ اسْتَوْجَبُوا النَّارَ»

ترجمہ: اللّٰہ ہر جمعہ کے دن چھ لاکھ ایسے لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے جن پر جہنم واجب ہوگی ہو۔


۩تخريج: مسند أبي يعلى (٣٤٣٤) (المتوفى: ٣٠٧هـ)؛ العلل المتناهية في الأحاديث الواهية لابن الجوزي (٧٩٠) (المتوفى: ٥٩٧هـ)؛ شعب الإيمان للبيهقي (٢٧٨٠) (المتوفى: ٤٥٨هـ)؛ الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي(المتوفى: ٥٠٩هـ)

دار قطنی رحمہ اللّٰہ (المتوفى: ٣٨٥هـ) نے العلل حدیث نمبر: ٢٣٧٣ میں کہا ہے کہ ازور بن غالب متروک ہے اور یہ حدیث ثابت نہیں ہے۔

بیہقی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ اس کی سند میں ضعف ہے۔

ابن جوزی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ نسائی رحمہ اللّٰہ نے ازور بن غالب کو ضعیف کہا ہے اور دار قطنی نے متروک الحدیث کہا ہے۔ اور ابن جوزی رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو "العلل المتناهية (رقم ٧٩١)" میں نقل کرنے کے بعد کہا ہے: یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔

شیخ حسین سلیم اسد نے مسند ابو یعلی کی تحقیق میں اس کی سند کو بہت زیادہ ضعیف کہا ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
⑦ قال الطبراني: حَدَّثَنَا أَبُو الدَّرْدَاءَ عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْأَشْعَثِ بِطَرَسُوسٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدَةَ حَدَّثَنِي أَبِي حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ ذِي حِمَايَةَ عَنِ ‌«الضَّحَّاكِ بْنِ حُمْرَةَ» عَنْ أَبِي نُصَيْرَةَ عَنْ أَبِي رَجَاءٍ الْعُطَارِدِيِّ عَنْ عَتِيقِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَعَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ الْخُزَاعِيِّ قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«مَنِ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ كُفِّرَتْ ذُنُوبُهُ وَخَطَايَاهُ، فَإِذَا أَخَذَ فِي الْمَشْي كُتِبَتْ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ عِشْرُونَ حَسَنَةً، فَإِذَا انْصَرَفَ مِنَ الصَّلَاةِ أُخِيزَ بِعَمَلِ مِائَتَيْ سَنَةٍ»

ترجمہ: جو شخص جمعہ کے دن نہائے اس کے گناہ اور خطائیں مٹادی جاتی ہیں، جب وہ جمعہ کے لیے چلتا ہے تو ہر قدم پر بیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔
اور جب نماز سے فارغ ہوتا ہے تو اسے دو سو سال کے عمل کا اجر دیا جاتا ہے۔

۩تخريج: المعجم الكبير و الأوسط (٤٤١٣) للطبراني (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي (٥٨٩٤) (المتوفى: ٥٠٩هـ)

ہیثمی رحمہ اللّٰہ مجمع الزوائد میں کہتے ہیں کہ ضحاک بن حمرہ کو یحییٰ بن معین اور نسائی رحمہما اللّٰہ نے ضعیف کہا ہے اور ابن حبان رحمہ اللّٰہ نے اس کو اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے۔

یہ حدیث درج ذیل الفاظ سے بھی مروی ہے:

قال الطبراني: حَدَّثَنَا جَبْرُونُ بْنُ عِيسَى الْمَغْرِبِيُّ الْمِصْرِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ الْجفْرِيُّ الْمَغْرِبِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا «عَبَّادُ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ أَبُو مَعْمَرٍ» عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«مَنِ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ غُفِرَتْ لَهُ ذُنُوبُهُ وَخَطَايَاهُ، فَإِذَا أَخَذَ فِي الْمَشْيِ إِلَى الْجُمُعَةِ كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ عَمَلَ عِشْرِينَ سَنَةً، فَإِذَا فَرَغَ مِنْ صَلَاةِ الْجُمُعَةِ أُجِيزَ بِعَمَلِ مِائَتَيْ سَنَةٍ»

ترجمہ: جو شخص جمعہ کے دن نہائے اس کے گناہ اور خطائیں مٹادی جاتی ہیں، جب وہ جمعہ کے لیے چلتا ہے تو ہر قدم پر بیس سال کی نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ اور جب نماز سے فارغ ہوتا ہے تو اسے دو سو سال کے عمل کا اجر دیا جاتا ہے۔

۩تخريج: المعجم الأوسط (٣٣٩٧) للطبراني (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي (٤٢٩٦) (المتوفى: ٥٠٩هـ)

ہیثمی رحمہ اللّٰہ مجمع الزوائد میں کہتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں عباد بن عبدالصمد ابو معمر ہے اس کو بخاری رحمہ اللّٰہ اور ابن حبان رحمہ اللّٰہ نے ضعیف کہا ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
یہ ۔۔فیضان جمعہ ۔۔ تو مولوی الیاس عطاری کی کتاب نہیں
پتہ نہيں شیخ، طاہر القادری کی ہے یا الیاس عطاری کی ہے، میں نے اصل کتاب نہیں دیکھی، ایک بھائی نے فورم پر سوال کیا تھا شاید انہوں نے طاہر القادری کی کتاب کہا تھا؟ اگر آپ کو معلوم ہو تو برائے مہربانی تھریڈ کا نام تبدیل کر دیں ۔ جزاک اللّٰہ خیرا

شیخ الاسلام کی جگہ بابا الیاس عطاری کا نام لکھ دیں۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
⑨ قال أبو الشيخ الأصبهاني: حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيِّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مَسْعُودٍ يَزِيدُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا «عَمْرُو بْنُ زِيَادٍ الْبَقَالَيُّ الْخُرَاسَانِيُّ بِجُنْدِيسَابُورَ» قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:

«مَنْ زَارَ قَبْرَ وَالِدَيْهِ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ أَوْ أَحَدِهِمَا، فَقَرَأَ عِنْدَهُمَا أَوْ عِنْدَهُ: يس، غُفِرَ لَهُ بِعَدَدِ ذَلِكَ آيَةً أَوْ حَرْفًا»

ترجمہ: جو ہر جمعہ والدین یا ان میں سے ایک کی قبر کی زیارت کر کے وہاں یٰس پڑھتا ہے، تو یٰس میں جتنے حرف یا آیات ہیں ان کی گنتی کے برابر اس کی مغفرت کی جاتی ہے۔

۩تخريج: طبقات المحدثين بأصبهان والواردين عليها لأبِي الشيخ الأصبهاني (المتوفى: ٣٦٩هـ)؛ تاريخ أصبهان لأبي نعيم (في ترجمة ١٨٥١ - يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ الْأَنْصَارِيُّ) (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛ سنن عبد الغني المقدسي (المتوفى: ٦٠٠هـ)؛ الضعيفة (٥٠)‌ (موضوع)

یہ حدیث درج ذیل الفاظ سے بھی مروی ہے:

قال ابن عدي: حَدَّثَنَا مُحَمد بْنُ الضَّحَّاكِ بْنُ عَمْرو بْنِ أَبِي عَاصِمٍ النبيل، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدٍ الأَصْبَهَانِيُّ حَدَّثَنا «عَمْرُو بْنُ زِيَادَ» حَدَّثَنا يَحْيى بْنُ سُلَيْمٍ الطَّائِفِيُّ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَن أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:

«مَن زَارَ قَبْرَ وَالِدَيْهِ أَوْ أَحَدِهِمَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَقَرَأَ يس غُفِرَ لَهُ»


۩تخريج: الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (المتوفى: ٣٦٥هـ) (في ترجمة ١٣١٦- عَمْرو بْن زياد بْن عَبد الرَّحْمَنِ بْن ثوبان)؛ الموضوعات لابن الجوزي (المتوفى: ٥٩٧هـ)؛ التدوين في أخبار قزوين لعبد الكريم الرافعي (المتوفى: ٦٢٣هـ)؛


شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں: بعض محدثین - میرا خیال ہے کہ ابن محب یا ذہبی - نے سنن مقدسی کے نسخے کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ یہ "حدیث ثابت نہیں ہے"۔

ابن عدی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث باطل ہے، اس سند سے اس کی کوئی اصل نہیں ہے، اور ابن عدی رحمہ اللّٰہ نے عمرو بن زیاد کے تعارف میں اس کی دوسری روایات کے ساتھ اس حدیث کو بھی روایت کیا ہے اور ایک روایت کے متعلق کہا ہے کہ یہ موضوع ہے، پھر کہا ہے کہ اس کی اور بھی روایات ہیں جن میں بعض اس نے ثقہ راویوں سے چوری کی ہیں اور بعض موضوع ہیں اور ان احادیث کو گڑھنے کا الزام اسی پر ہے۔

دار قطنی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ عمرو بن زیاد احادیث گڑھتا تھا، اس لیے ابن جوزی رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو ابن عدی کی سند سے موضوعات میں بیان کیا ہے اور انہوں نے بالکل ٹھیک کیا ہے۔

سیوطی نے "اللآليء" میں ابن جوزی کا تعقب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا شاہد ہے، پھر اس سے پہلے کی حدیث کی سند بیان کی ہے، آپ نے یہ جان لیا کہ وہ بھی موضوع ہی ہے، بالفرض مان لیا جائے کہ یہ صرف ضعیف ہے تو بھی یہ روایت شاہد نہیں ہو سکتی، اس کے دو وجہ ہیں:

پہلی وجہ: اس کا معنی الگ ہے

دوسری وجہ: جیسا کہ مناوی رحمہ اللّٰہ نے جامع صغیر کی شرح میں کہا ہے کہ سیوطی رحمہ اللّٰہ کا اس کی شاہد روایت پیش کرنا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ موضوع اور (سخت) ضعیف روایات کے شواہد پیش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔


فائدہ: یہ حدیث قبروں کے پاس تلاوتِ قرآن کے استحباب پر دلالت کرتی ہے، اور صحیح احادیث میں اس کے متعلق کچھ بھی ثابت نہیں ہے، بلکہ صحیح احادیث سے صرف اتنا ہی ثابت ہے کہ زیارتِ قبور کے وقت ان کو سلام کیا جائے اور آخرت کی یاد کی جائے، اور سلف صالحین رضی اللّٰہ عنہم کا بھی یہی عمل رہا ہے، اور قبروں کے پاس قرآن کی تلاوت ایک مکروہ بدعت ہے جیسا کہ متقدمین علماء میں سے بعض نے اس کی وضاحت کی ہے جن میں امام ابو حنیفہ، امام مالک، اور ایک روایت کے مطابق امام احمد رحمہم اللّٰہ ہیں جیسا کہ زبیدی رحمہ اللّٰہ نے احیاء علوم الدین کی شرح میں بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ بدعت ہے کیونکہ یہ سنت سے ثابت نہیں ہے۔

اور محمد بن حسن اور ایک روایت کے مطابق امام احمد بن حنبل رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ اس میں کوئی کراہت نہیں ہے کیونکہ ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے یہ وصیت کی تھی کہ ان کو دفن کرتے وقت ان کی قبر پر سورہ بقرہ کی ابتدائی اور آخری آیات کی تلاوت کی جائے۔

ہم کہتے ہیں کہ یہ اثر ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ سے صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، اور ثابت ہو بھی جائے تو یہ صرف دفن کے وقت تلاوت پر دلالت کرتا ہے مطلق تلاوت پر دلالت نہیں کرتا جیسا کہ اس اثر سے واضح ہے۔

پس اے مسلمان! تجھ پر سنت کی پیروی اور بدعت سے اجتناب لازم ہے چاہے لوگ بدعت کو اچھا ہی سمجھتے ہوں کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے جیسا کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے۔
 
Top