• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابوحنیفہ اورامام اوزاعی کا رفع الیدین پر مناظرہ۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
امام ابوحنیفہ(المتوفى150) کی وفات کے تقریبا ڈیڑھ سو سال بعد پیداہونے والے أبو محمد عبد الله بن محمد بن يعقوب بن الحارث الحارثي (المتوفى340)نے کہا:
حدثنا محمد بن إبراهيم بن زياد الرازي، حدثنا سليمان ابن الشاذكوني، قال: سمعت سفيان بن عيينة يقول: اجتمع أبو حنيفة والأوزاعي في دار الحناطين بمكة، فقال الأوزاعي لأبي حنيفة: ما بالكم لا ترفعون أيديكم في الصلاة عند الركوع وعند الرفع منه؟ فقال أبو حنيفة: لأجل أنه لم يصح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه شيء، فقال: كيف لم يصح وقد حدثني الزهري، عن سالم، عن أبيه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه كان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة، وعند الركوع، وعند الرفع منه، فقال له أبو حنيفة: وحدثنا حماد، عن إبراهيم، عن علقمة، والأسود، عن عبد الله بن مسعود، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان لا يرفع يديه إلا عند افتتاح الصلاة، ولا يعود لشيء من ذلك، فقال الأوزاعي: أحدثك عن الزهري، عن سالم، عن أبيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وتقول: حدثني حماد، عن إبراهيم، فقال له أبو حنيفة: كان حماد أفقه من الزهري، وكان إبراهيم أفقه من سالم، وعلقمة ليس بدون ابن عمر في الفقه، وإن كانت لابن عمر صحبة، فله فضل صحبة، والأسود له فضل كثير، وعبد الله عبد الله، فسكت الأوزاعي. [مسند أبي حنيفة للحارثي 1/ 483 رقم 778 ، ط : المكتبة الإمدادية نیز دیکھیں: جامع المسانيد للخوارزمي: 1/ 352 - 353]۔
سفیان بن عیینہ سے نقل کیا جاتا ہے کہ امام ابوحنیفہ اور امام اوزاعی رحمہ اللہ مکہ میں دار حناطین میں اکٹھا ہوئے تو امام اوزاعی رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ سے کہا: تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے تم لوگ رکوع جاتے وقت اوررکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین کیوں نہیں کرتے؟ تو ابوحنیفہ نے جواب دیا: اس لئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں کچھ بھی ثابت نہیں ہے ۔ تو امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا: کیوں نہیں ثابت ہے جبکہ مجھ سے امام زہری نے بیان کیا ، انہوں نے سالم سے نقل کیا انہوں نے اپنے والد سے نقل کیا انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت ، رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرتے تھے ۔ تو امام ابوحنیفہ نے کہا: اور ہم سے حماد نے بیان کیا ، انہوں نے ابراہیم سے روایت کیا ،انہوں نے علقمہ اور اسود سے نقل کیا ، انہوں نے عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صرف نماز شروع کرتے وقت ہی رفع الیدین کرتے تھے ، اور اس کے بعد ایسا کچھ بھی نہیں کرتے تھے ۔ تو امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا: میں تمہیں زہری عن سالم عن ابیہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق سے روایت کررہاہوں اور تم حماد عن ابراہیم کے طریق سے روایت کررہے ہو ؟ تو ابوحنیفہ نے ان سے کہا: حماد یہ زہری سے زیادہ فقیہ تھے اور ابراہیم یہ سالم سے زیادہ فقیہ تھے اور علقمہ ابن عمررضی اللہ عنہ سے فقہ میں کم نہیں گرچہ ابن عمررضی اللہ عنہ صحابی ہیں اور یہ شرف انہیں حاصل ہے ، اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس کے بعد امام اوزاعی رحمہ اللہ خاموش ہوگئے[مسند أبي حنيفة للحارثي 1/ 483 رقم 778 ، ط : المكتبة الإمدادية نیز دیکھیں: جامع المسانيد للخوارزمي: 1/ 352 - 353]۔
یہ پورا واقعہ جھوٹا ومن گھڑت ہے اور سند اس کی سلسلہ الکذب ہے، اس کی سند میں کئی جھوٹے راوی ہیں جو اپنے جوٹھے استاذ سے نقل کررہے ہیں تفصیل ملاحظہ ہو:

عبد الله بن محمد بن يعقوب بن الحارث الحارثی:
مسند ابوحنیفہ للحارثی اسی بدنصیب کی لکھی ہوئی کتاب ہے یہ امام ابوحنیفہ کے دور میں پیداہی نہیں ہوا بلکہ امام ابوحنیفہ کی وفات کے تقریبا ڈیڑھ سوسال بعد پیدا ہوا اور مسند ابوحنیفہ نام کی کتاب لکھی جس میں اکاذیب وخرافات ایک مجموعہ اکٹھا کردیا ۔
یہ شخص جھوٹا و کذاب تھا اور غیرمعتبر تھا ۔
امام أبو زرعة احمد بن الحسين الرازي رحمه الله (المتوفى375)نے کہا:
ضعيف
یہ ضعیف ہے[سؤالات حمزة للدارقطني: ص: 228]۔

امام أبو يعلى الخليلي رحمه الله (المتوفى446)نے کہا:
يعرف بالأستاذ، له معرفة بهذا الشأن، وهو لين ضعفوه، سمع عبد الصمد بن الفضل البلخي، وأقرانه من شيوخ بلخ وسمع ببخارى، ونيسابور، والعراق، يأتي بأحاديث يخالف فيها، حدثنا عنه الملاحمي، وأحمد بن محمد بن الحسين البصير بعجائب
یہ استاذ کے لقب سے جانا جاتا ہے ،اسے حدیث کی جانکاری تھی ، لیکن یہ کمزور ہے اہل فن نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ، اس نے عبدالصمدبن الفضل اور ان کے ہم عصر میں بلخ کے مشائخ سے روایات سنین ، اسی طرح بخاری ، نیسابور اور عراق میں بھی اس نے روایات سنیں ، یہ ایسی احادیث لاتا ہے جس میں دوسری کی مخالفت ہوتی ہے، اس کے واسطہ سے ہمیں ملاحمی اور احمدبن محمد نے عجیب وغریب روایات بیان کی ہیں[الإرشاد في معرفة علماء الحديث للخليلي: 3/ 971]۔

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463) نے کہا:
وليس بموضع الحجة
یہ اس لائق نہیں کہ اس سے حجت پکڑی جائے[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 10/ 126]۔

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے مزید کہا:
صاحب عجائب ومناكير وغرائب
یہ عجیب وغریب اور منکر باتیں بیان کرتاہے [تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 10/ 126]۔

امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
عبد الله بن محمد بن يعقوب البخاري يروي عن العباس بن حمزة قال أبو سعيد الرواس كان يتهم بوضع الحدي
عبد الله بن محمد بن يعقوب البخاري یہ عباس بن حمزہ سے روایات بیان کرتا ہے اور ابوسعید الرواس نے کہا کہ یہ حدیث گھڑنے میں متھم تھاث [الضعفاء والمتروكين لابن الجوزي: 2/ 141]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
عبد الله بن محمد بن يعقوب البخاري قال أبو سعيد الرواس يتهم بالوضع
عبد الله بن محمد بن يعقوب کے بارے میں ابوسعید الرواس نے کہا کہ: یہ حدیث گھڑنے کے لئے متھم ہے[المغني في الضعفاء للذهبي: ص: 36]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
عبد الله بن محمد بن يعقوب البخاري الفقيه: يأتي بعجائب واهية.
عبد الله بن محمد بن يعقوب انتہائی بودی قسم کی عجیب وغریب باتیں بیان کرتاہے[ديوان الضعفاء ص: 227]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
وقال أحمدالسليماني: كان يضع هذا الإسناد على هذا المتن، وهذا المتن على هذا الإسناد، وهذا ضرب من الوضع.
احمد سلیمانی نے کہا کہ: ''یہ شخص ایک سند کو دوسری متن پر فٹ کردیتاتھا اور دوسرے متن کو کسی اور سند پر فٹ کردیتا تھا '' امامم ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ چیز بھی حدیث گھڑنے میں شامل ہے[ميزان الاعتدال للذهبي: 2/ 496]۔

محمد بن إبراهيم بن زياد الرازي:
حارثی کذاب نے اسی شخص نے مذکورہ واقعہ نقل کیا ہے اور یہ شخص بھی کذاب ہے ۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
محمد بن إبراهيم بن زياد متروك
محمدبن ابراہیم بن زیاد متروک ہے[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 1/ 406]

حافظ ابن حجر رحمه الله نقل کرتے ہیں:
قال الدارقطني أيضًا: دجال يضع الحديث
امام دارقطنی نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ دجال اور حدیث گھڑنے والا تھا[لسان الميزان ت أبي غدة 6/ 474]۔

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
سألت عنه أبا بكر البرقاني فقال بئس الرجل
میں نے اس کے متعلق ابوبکر باقالانی رحمہ اللہ نے پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ بہت برا آدمی ہے[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 1/ 406]۔

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے اس کی ایک حدیث ذکر کرنے کے بعدکہا:
أراه مما صنعت يداه
میں سمجھتاہوں کہ اس حدیث کو اسی کے ہاتھوں نے بنایا ہے[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 11/ 305]

سليمان بن داود الشاذكوني:
امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
كذاب عدوالله كان يضع الحديث
یہ بہت بڑا جھوٹا اور اللہ کا دشمن ہے یہ حدیث گھڑتاتھا[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 114]۔

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
من نحو عبد الله بن سلمة الأفطس يعنى انه يكذب
یہ عبداللہ بن سلمہ کی طرح ہے یعنی یہ بھی جھوٹ بولتاہے[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 114]۔

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
عندي ممن يسرق الحديث
میرے نزدیک یہ حدیث چور ہے [الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 4/ 299]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
مناظرہ کے مضمون کا جائزہ

سند میں جو کذابین ہیں ان کے علاوہ اصل واقعہ میں بہت ہی عجیب وغریب باتیں ہیں جو اس واقعہ کے جھوٹ ہونے پرمزید دلالت کرتی ہیں مثلا:
امام اوزاعی رحمہ اللہ کو ایسی سند پر خاموش ظاہر کیا جارہا جو انتہائی مردود اور واجح طور پر ضعیف ہے ، چنانچہ اس میں موجود حماد اختلاط کے شکار ہوگئے تھے اوراختلاط سے قبل جن لوگوں نے ان سے روایت لیا ہے ان میں ابوحنیفہ نہیں ہیں ، نیز خود امام ابوحنیفہ کا حافظہ بہت خراب تھا امام ابن عبدالبررحمہ اللہ کہتے ہیں:
ولم يسنده غير أبي حنيفة وهو سيء الحفظ عند أهل الحديث
اس حدیث کو ابوحنیفہ کے علاوہ کسی نے بھی مسند نہیں بیان کیا ہے اور ابوحنیفہ محدثین کے نزدیک برے وبے کار حافظہ والے تھے [التمهيد لابن عبد البر: 11/ 48]۔
جس سند کی یہ حالت ہو کیا امام اوزاعی رحمہ اللہ اسے سن کر خاموش رہ سکتے ہیں؟؟
اس واقعہ میں یہ کہا گیا کہ حماد زہری سے زیادہ افقہ تھے حالانکہ یہ سفید جھوٹ ہے۔
اس طرح اس واقعہ میں کہا گیا کہ ابراہیم سالم سے سے بڑے فقیہ تھی یہ بھی مضحکہ خیز ہے۔
اورسب سے بڑی جسارت یہ کہ اس واقعہ میں یہاں تک کہہ دیا گیا علقمہ( تابعی) جلیل القدر صحابی ابن عمررضی اللہ عنہ سے فقہ میں کم تر نہیں تھے گرچہ ابن عمررضی اللہ عنہ صحابی ہیں۔
یہ صحابی رسول ابن عمررضی اللہ عنہ کی واضح توہین ہیں کہ ایک تابعی کو فقہ میں ان کے ہم پلہ قرار دیا جائے ، اگر اتنی لغو اوربے ہودہ بات امام ابوحنیفہ سے ثابت ہوتی تب بھی ہم اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے چہ جائے کہ امام ابوحنیفہ سے اسے جھوٹے اور کذابین نے نقل کیا ہے یعنی امام ابوحنیفہ سے یہ پوری بات ثابت ہی نہیں۔
نیز اس واقعہ میں ایک اور گپ یہ دیکھئے کہ امام ابوحنیفہ سے نقل کیا جارہا ہے کہ انہوں نے امام اوزاعی سے کہا:
لأنه لم يصح عن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في ذلك شيء
یعنی ہم رفع الیدین اس لئے نہیں کرتے کیونکہ اس سلسلے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بھی ثابت نہیں ۔
عرض ہے کہ یہ اتنابڑا گپ ہے کہ ابوحنیفہ کے بعد آج تک دنیائے حنفیت میں کوئی ایک بھی حنفی یہ جرآت نہ کرسکا کہ امام ابوحنیفہ کی تقلید میں کہے کہ رفع الیدین کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بھی ثابت نہیں بلکہ احناف کی طرف سے یہی کہاجاتا ہے کہ رفع الیدین تو ثابت ہے لیکن منسوخ ہے یا اوردوسرے بہانے۔
اس جھوٹے واقعہ میں خود امام ابوحنیفہ کی بھی تنقیص ہے کہ کیونکہ اس واقعہ میں یہ ظاہر کیا گیا کہ ابوحنیفہ کے پاس رفع الیدین سے متعلق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بھی ثابت نہیں حلانکہ رفع الیدین کی احادیث متواتر ہے اور متواتر صحت حدیث کا سب سے اعلی درجہ ہے یہ درجہ اسی حدیث کو ملتا ہے جو بہت زیادہ طرق سے مروی ہو یعنی بہت زیادہ مشہور ومعروف حدیث ہو اور قطعی طور پر صحیح ہو۔
اب غور کریں جب امام ابوحنیفہ کو اتنی مشہور ومعروف اور متواتر حدیث کا بھی پتہ نہ تھا تو دیگر احادیث سےمتعلق موصوف کے علم کا کیا حال رہا ہوگا؟؟؟
اس واقعہ میں ایک اور عجوبہ یہ بھی دیکھئے کہ ایک علمی بحث میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ امام ابوحنیفہ نے اپنے استاذ امام اوزعی رحمہ اللہ کو خاموش کردیا ، حالانکہ حقیقت یہ کہ علمی بحث میں استاذ تو دور کی بات خود اپنے شاگرد کے سامنے بھی امام ابوحنیفہ کے لاجواب ہونے کا ثبوت ملتا ہے ملاحظہ ہو:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سچامناظرہ

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أنبأ الْحَسَنُ بْنُ حَلِيمٍ الصَّائِغُ، بِمَرْوَ ثنا أَبُو الْمُوَجَّهِ، أَخْبَرَنِي أَبُو نَصْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْخَطَّابِ السُّلَمِيُّ، وَكَانَ رَجُلًا صَالِحًا قَالَ: أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ يُونُسَ، ثنا وَكِيعٌ قَالَ: " صَلَّيْتُ فِي مَسْجِدِ الْكُوفَةِ فَإِذَا أَبُو حَنِيفَةَ قَائِمٌ يُصَلِّي، وَابْنُ الْمُبَارَكِ إِلَى جَنْبِهِ يُصَلِّي، فَإِذَا عَبْدُ اللهِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ كُلَّمَا رَكَعَ وَكُلَّمَا رَفَعَ، وَأَبُو حَنِيفَةَ لَا يَرْفَعُ، فَلَمَّا فَرَغُوا مِنَ الصَّلَاةِ قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ لِعَبْدِ اللهِ: يَا أَبَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ، رَأَيْتُكَ تُكْثِرُ رَفْعَ الْيَدَيْنِ، أَرَدْتَ أَنْ تَطِيرَ؟ قَالَ لَهُ عَبْدُ اللهِ: يَا أَبَا حَنِيفَةَ قَدْ رَأَيْتُكَ تَرْفَعُ يَدَيْكَ حِينَ افْتَتَحْتَ الصَّلَاةَ فَأَرَدْتَ أَنْ تَطِيرَ؟ فَسَكَتَ أَبُو حَنِيفَةَ " قَالَ وَكِيعٌ فَمَا رَأَيْتُ جَوَابًا أَحْضَرَ مِنْ جَوَابِ عَبْدِ اللهِ، لِأَبِي حَنِيفَةَ[السنن الكبرى للبيهقي 2/ 117 رقم 2538 واسنادہ صحیح ولہ شواہد]۔
امام وکیع فرماتے ہیں کہ میں نے کوفہ کی مسجد میں‌ نماز پڑھی تو وہاں ابوحنیفہ رحمہ اللہ بھی نماز پڑھ رہے تھے اوران کے بغل میں امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نماز پڑھ رہے تھے تو عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ نماز میں جب بھی رکوع میں جاتے اوررکوع سے اٹھتے تو رفع الیدین کرتے تھے، اورابوحنیفہ رفع الیدین نہیں کرتے تھے جب یہ لوگ نماز سے فارغ ہوئے تو ابوحنیفہ نے امام ابن المبارک رحمہ اللہ سے کہا: اے ابوعبدالرحمان (ابن المبارک) ! میں‌ نے تمہیں نماز میں بکثرت رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھا کیا تم نماز میں اڑنا چاہ رہے ہو؟ اس پر امام ابن المبارک رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو جواب دیا کہ : اے ابوحنیفہ ! میں نے دیکھا آپ نے نماز کے شروع میں رفع الیدین کیا تو کیا آپ اڑنا چاہ رہے تھے؟ اس جواب پر ابوحنیفہ خاموش ہوگئے ،امام وکیع فرماتے ہیں‌ کہ میں نے امام ابن المارک رحمہ اللہ سے زیادہ حاضر جواب کسی کو نہیں دیکھا ۔
یہ واقعہ بالکل صحیح سند سے ثابت ہے بلکہ یہی واقعہ اور بھی متعدد طرق سے مروی ہے دیکھئے : ( کتاب السنۃ لعبداللہ بن احمد بن حنبل ، ص : 59 ، تاویل مختلف الحدیث لابن قتیبی ، ص : 66 ، سنن بیہقی ، ج : 2 ، ص :82 ، ثقات ابن حبان ، ج : 4 ، ص : 17، تاریخ خطیب ، ج : 13 ، ص :406 ، تمھید لابن عبدالبرج :5 ، ص :66 ، جزءرفع الیدین للبخاری مع جلاءص : 125,123 )
اس صحیح اور سچے واقعہ سے معلوم ہوا کہ امام ابوحنیفہ اپنے شاگرد ابن المبارک رحمہ اللہ کے سامنے لاجواب ہوگئے تھے ۔
واضح رہے کہ یہاں‌ امام ابن البارک رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ کو جو مسکت جواب عنایت کیا ہے وہ دراصل رفع الیدین کے خلاف اٹھائے جانے والے ہر شبہے کا جواب ہے۔
آج امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے پیروکار اس عظیم سنت کے خلاف جو بھی اعتراضات پیش کرتے ہیں ان سب کا جواب عبداللہ ابن المبارک رحمہ اللہ کی مذکورہ بات میں‌ موجود ہے جس پر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بھی مبہوت ہوکررہ گئے تھے۔
ذیل مین‌ تارکین رفع الیدین کے کچھ اعتراضات پیش کئے جاتے ہیں جوبالکل ان کے امام ہی کے پیش کردہ اعتراض سے ملتے جلتے ہیں ، نیز ان سب کا جواب بھی امام ابن المبارک رحمہ کے مسکت جواب ہی کی طرح ہے:
ملاحظہ ہو:

اعتراض‌ :
صحیح‌ مسلم کی حدیث میں‌ رفع الیدین کو سرکش گھوڑوں‌ کے دم سے تشبیہ دی گئی ہے
جواب امام ابن المبارک رحمہ اللہ کی زبان میں‌:
تو پھر تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین کے بارے میں‌ کیا خیال ہے؟

اعتراض‌ :
کوئی ایسی حدیث پیش کریں‌ جس میں‌ یہ لکھا ہو کی تاحیات رفع الیدین کرناہے۔
جواب امام ابن المبارک رحمہ اللہ کی زبان میں‌:
کوئی ایسی حدیث پیش کریں‌ جس میں تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین سے متعلق تا حیات کی صراحت ہو ۔

اعتراض‌ :
کوئی ایسی حدیث پیش کریں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہوکہ رفع الیدین کرو۔
جواب امام ابن المبارک رحمہ اللہ کی زبان میں‌:
کوئی ایسی حدیث پیش کریں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہوکہ تکبیرتحریمہ کے وقت رفع الیدین کرو۔

اعتراض‌ :
اگرکوئی رفع الیدین نہ کرے تو اس کی نماز ہوتی ہے یا نہیں؟
جواب امام ابن المبارک رحمہ اللہ کی زبان میں‌:
اگر کوئی تکبیرتحریمہ والا رفع الیدین نہ کرے تو اس کی نماز ہوتی ہے یا نہیں ۔

اعتراض‌:
رفع الیدین واجب فرض ہے یا سنت ؟
جواب امام ابن المبارک رحمہ اللہ کی زبان میں‌:
تکبیرتحریمہ والا رفع الیدین واجب فرض ہے یا سنت؟
فماکان جوابکم فهوجوابنا
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جزاكم الله خيرا و بارك فيكم .
اس سے پہلے مولانا بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ نے بھی اس کی حقیقت خوب واضح کی ہے ۔
كحل العينين في تحقيق مناظرة أبي حنيفة مع الأوزاعي في رفع اليدين
یہ تحقیقی مضمون : مقالات راشدیہ ( جلد نمبر 5 ص 293 تا 350 ) پر موجود ہے ۔ جو مسئلہ سے متعلق اور بھی کئی فوائد اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ۔ مثلا شاہ صاحب نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت پر راحج ہونا 17 وجوہ سے ثابت کیا ہے ۔
 
Top