• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابوحنیفہ کا فتویٰ بابت مدت رضاعت!!!

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
پہلی بات تو دو سال سے مدت سے ذیادہ رضاعت کی مدت کا قول صرف امام ابو حنیفہ کا نہیں باقیوں پر آپ اعتراض کیوں نہیں کیا ۔ کیا وہ قرآن سے مخالف قانون نہیں ؟

قال الحافظ ابن حجر العسقلاني في فتح الباري :

قوله ( باب من قال لا رضاع بعد حولين ، لقوله عز وجل ( حولين كاملين لمن أراد أن يتم الرضاعة )

أشار بهذا إلى قول الحنفية إن أقصى مدة الرضاع ثلاثون شهرا وحجتهم قوله تعالى ( وحمله وفصاله ثلاثون شهرا ) أي المدة المذكورة لكل من الحمل والفصال ، وهذا تأويل غريب . والمشهور عند الجمهور أنها تقدير مدة أقل الحمل وأكثر مدة الرضاع ، وإلى ذلك صار أبو يوسف ومحمد بن الحسن ، ويؤيد ذلك أن أبا حنيفة لا يقول إن أقصى الحمل سنتان ونصف .

وعند المالكية رواية توافق قول الحنفية لكن منزعهم في ذلك أنه يغتفر بعد الحولين مدة يدمن الطفل فيها على الفطام ، لأن العادة أن الصبي لا يفطم دفعة واحدة بل على التدريج في أيام قليلات ، فللأيام التي يحاول فيها فطامه حكم الحولين .

ثم اختلفوا في تقدير تلك المدة قيل يغتفر نصف سنة ، وقيل شهران ، وقيل شهر ونحوه ، وقيل أيام يسيرة ، وقيل شهر ، وقيل لا يزاد على الحولين وهي رواية ابن وهب عن مالك وبه قال الجمهور ومن حجتهم حديث ابن عباس رفعه " لا رضاع إلا ما كان في الحولين " أخرجه الدارقطني ، وقال : لم يسنده عن ابن عيينة غير الهيثم بن جميل ، وهو ثقة حافظ . وأخرجه ابن عدي . وقال غير الهيثم يوقفه على ابن عباس وهو المحفوظ ، وعندهم متى وقع الرضاع بعد الحولين ولو بلحظة لم يترتب عليه حكم ،

وعند الشافعية لو ابتدأ الوضع في أثناء الشهر جبر المنكسر من شهر آخر ثلاثين يوما ،

وقال زفر : يستمر إلى ثلاث سنين إذا كان يجتزئ باللبن ولا يجتزئ بالطعام ،

وحكى ابن عبد البر عنه أنه يشترط مع ذلك أن يكون يجتزئ باللبن ، وحكى عن الأوزاعي مثله لكن قال بشرط أن لا يفطم ، فمتى فطم ولو قبل الحولين فما رضع بعده لا يكون رضاعا


دوسری بات آپ نے میری پوسٹ کا جواب دیا لیکن بیچ والے حصہ کو گول کر گئے جو حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے متعلق تھا ۔ اور کرنا بھی ایسے ہی چاہئیے تھا ۔
اگر آپ اپنی تھریڈ یوں شروع کرتے کہ مدعت رضاعت دو سال ہے اور اس بارے میں دلائل دیتے تو یہ بہتر تھا بجائے اس کے ایک فقیہ کے بارے میں اس طرح کے سخت الفاظ استعمال کرتے ۔ جو دوسروں کو آپ کے منہج سے متنفر کا کام تو دے سکتی ہے قائل کرنے کا نہیں ۔

سعودی علماء کے فتوی میں بھی امام ابو حنیقہ کے قول کا ذکر ہے

وذهب الإمام أبو حنيفة إلى أن المدة التي تثبت بها الحرمة هي مـدة سنتين ونصف ، وهي ثلاثون شهراً ، فقال : إن الرضاع إذا كـان في هذه المدة اعتبر محرماً ، أما إذا كان بعـدها فـلا يعتبر محرماً ، واستـدل بقولـه تعالى : وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلاثُونَ شَهْرًا فقال : إن المقصود بالحمل هنا هو حمله مدة الرضاع وليس المقصود به حمل الأحشاء ، إذ قد يتأخر الطفل في داخل البطن لمدة سنتين ، لهذا نعلم أن اللّه سبحانه وتعالى أراد بالحمل حمل الفطام وليس حمل الأحشاء

انہوں نے بھی امام ابو حنیفہ کی وہی دلیل نقل کی جو صاحب ہدایہ نے دی ۔ اگر چہ انہوں نے امام ابو حنیفہ کا قول اختیار نہیں کیا لیکن اسے قرآن کا مخالف قول بھی نہ کہا ۔ کیوں ؟

اگر مجھ پر الزام ہے کہ میں تو قرآن میں تعارض ثابت کرہا ہوں تو غلط ہے ۔ جس طرح میں نے تشریح کی اگر یہ تعارض ہے تو آپ کے نذدیک وہاں بھی تعارض ہے کہ قرآن کہیں کہ رہا ہے کہ زمین و آسمان چھ دن میں پیدا کیے اور کہیں کہ رہا ہے کہ ہر چیز کو کن فيکوں سے پیدا کیا یعنی کہا ہو جا تو وہ ہوگیا بھر زمیں اور آسماں میں چھ دن کیوں لگ گئیے ۔
مجھے الحمد للہ ان آیت کی تشریح معلوم ہے اور میرے نذدیک اس میں کوئی تعارض نہیں ۔ لیکن جو لوگ اپنی من پسند تفسیر سے چمٹے ہوئے ہیں ان کو تعارض نظر آئے گا

اس تھریڈ میں دلائل کے بجائے جذ باتیت ہے اور بعض پوسٹ میں تو نہ مانوں کی پالیسی ہے اس لئیے اس تھریڈ میں میری آخری پوسٹ ہے

میں مجلس سے اختتامی دعا کے ساتھ اس تھریڈ سے رخصت ہوتا ہوں ۔ باقی دوسرے تھریڈ میں میں ان شاء اللہ موجود رہوں گا۔
سبحانك اللهم وبحمدك أشهد أن لا إله إلا أنت أستغفرك وأتوب إليك
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
میں تو اس دھاگے میں اس وقت تک پوسٹ نہیں کر سکتا کہ جب تک یہ اسلامی زمرہ میں نہ آئے! بالاتفاق تمام مسالک و علما مجتہد کو غلطی کی صورت میں بھی اجر ملتا ہے، کیا یہ اچھا تاثر ہم دنیا کو دے رہے ہیں کہ ائمہ مجتہدین کو دائرہ اسلام ہی سے باہر کر رہے ہیں، آج یہاں ہوا کل کوئی اس کا مخالف فورم ایسا ہی زمرہ بنائے گا اور تمام غیر مقلدین علمائ فقہائ کو اس میں ڈال دے گا ، تو پھر غیر مسلم کیا سوچیں گے کہ اسلام ہے کہاں؟ کوئی اسلام قبول کرنا چاہے گا تو کہاں جائے گا، کہ جب سب فریق ایک دوسرے کو غیر اسلامی نظریات کا حامل قرار دے دیں گے۔ العیاذ باللہ
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
میں تو اس دھاگے میں اس وقت تک پوسٹ نہیں کر سکتا کہ جب تک یہ اسلامی زمرہ میں نہ آئے! بالاتفاق تمام مسالک و علما مجتہد کو غلطی کی صورت میں بھی اجر ملتا ہے، کیا یہ اچھا تاثر ہم دنیا کو دے رہے ہیں کہ ائمہ مجتہدین کو دائرہ اسلام ہی سے باہر کر رہے ہیں، آج یہاں ہوا کل کوئی اس کا مخالف فورم ایسا ہی زمرہ بنائے گا اور تمام غیر مقلدین علمائ فقہائ کو اس میں ڈال دے گا ، تو پھر غیر مسلم کیا سوچیں گے کہ اسلام ہے کہاں؟ کوئی اسلام قبول کرنا چاہے گا تو کہاں جائے گا، کہ جب سب فریق ایک دوسرے کو غیر اسلامی نظریات کا حامل قرار دے دیں گے۔ العیاذ باللہ
محترم عمر معاویہ میں پہلے بھی آپ کی اس بات کا جواب دے چکا ہوں کہ اجتہاد اس وقت کیا جاتا ہے جب نص نہ ہو اور اگر اس مسئلہ سے متعلق نص موجود ہو تو پھر اس کے مقابلے پر کیا گیا اجتہاد مردود ہوتا ہے۔ تو پھر ایسے اجتہاد پر اجر کیسا؟ ایسا اجتہاد تو قابل گرفت و قابل مذمت ہے؟ معاف کیجئے گا دلائل کی رو سے تو ہم اسے اجتہاد بھی ماننے کے لئے تیار نہیں بلکہ یہ سیدھی سادھی قرآن کی اہانت ہے اور اللہ کے حکم کا مقابلہ!!!

چلیں اگر حدیث کی بات ہوتی تو ہم سمجھ لیتے کہ امام صاحب تک حدیث نہیں پہنچی تھی اس لئے علم نہ ہونے کی وجہ سے ان سے ایسا فتویٰ صادر ہوا۔ لیکن کیا امام موصوف تک قرآن بھی نہیں پہنچا تھا؟

آپکو اس بات کی بہت فکر ہے اس مضمون کو غیراسلامی افکار ونظریات کے زمرے میں منتقل کرنے سے غیر مسلم کیا سوچیں گے۔لیکن آپ کو اس بات کی فکر نہیں امام صاحب کا خلاف قرآن فتویٰ پھر اس پر احناف کا دفاع دیکھ کر اگر غیر مسلم نے یہ سمجھ لیا کہ مسلمانوں کے ہاں جو مقام ان کے معبود کا ہے بعینہ وہی مقام امام ابوحنیفہ کا بھی ہے تو پھر اس کا ذمہ دار کون ہوگا اور غیرمسلموں پر اسلام کے بارے میں کیا تاثر پیدا ہوگا؟؟؟

میں سمجھتا تھا کہ وہ پرانے مقلدین تھے جو یہ کہتے تھے کہ اگر ہمارے امام کے قول کے خلاف قرآن کی کوئی آیت آئی تو منسوخ ہوگی یا ہماری دلیل قرآن و حدیث نہیں بلکہ قول امام ہی ہماری دلیل ہے۔ لیکن آج وقت اور حالات بدل گئے ہیں اور مقلدین ویسے نہیں رہے لیکن یہاں بھی اور دیگر مضامین میں مقلدین کی جانب سے روا رکھا گیا رویہ دیکھ کر یقین آگیا کہ کل بھی مقلد وہی تھا اور آج بھی وہی ہے۔ میں نے اس مسئلہ میں جو مضمون لکھا تھا آپ نے اسے سچ کر دکھایا۔ملاحظہ فرمائیں:
http://www.kitabosunnat.com/forum/غیر-اسلامی-افکار-و-نظریات-87/کہیں-تقلید-اپنے-امام-کی-عبادت-تو-نہیں؟-761/
ویسے تو اس موضوع کا عنوان تھا۔ جی ہاں! حنفی اپنے امام ابوحنیفہ کی عبادت کرتے ہیں لیکن انتظامیہ نے اس کا عنوان بدل دیا ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
ہدایت کی پیروی کرنے والے پر سلام!

تمام بھائی اور خصوصاً آفتاب بھائی نوٹ فرمالیں کہ میں عربی نہیں جانتا اس لئے آئندہ کم ازکم مجھ سے بحث کے دوران کوئی ایسی عربی عبارت جس کا ترجمہ نہ کردیا گیا ہو یا اردو میں اس کا مفہوم نہ بتا دیا گیا ہو پیش نہ کریں۔ ورنہ مجھے جواب دینے میں بہت مشکل ہوگی۔

پہلی بات تو دو سال سے مدت سے ذیادہ رضاعت کی مدت کا قول صرف امام ابو حنیفہ کا نہیں باقیوں پر آپ اعتراض کیوں نہیں کیا ۔ کیا وہ قرآن سے مخالف قانون نہیں ؟
میرے بھائی آپ کو دوسروں کی اتنی فکر کیوں ہے؟ اگر کسی دوسرے کا کوئی ایسا فتویٰ مل بھی گیا جو قرآن کے خلاف ہو تو بھی، نہ تو وہ امام صاحب کی دلیل بنے گا اور نہ ہی کسی اور کے اس طرح کے فتوے سے امام ابوحنیفہ پر عائد قرآن کی مخالفت کا الزام رفع ہوگا۔

چونکہ یہاں زیر بحث امام ابوحنیفہ کا فتوی ہے اس لئے آپ موضوع پر رہتے ہوئے پہلے اپنے امام کے بارے میں تو کوئی فیصلہ کرلیں کہ ان کے خلاف قرآن فتوے کی وجہ آپ کے نزدیک کیا ہے۔ کیا قرآن سے لا علمی؟ یا قرآن کی جان بوجھ کر مخالفت؟

اس کے بعد اگر آپ نے باحوالہ کسی اور شخصیت کا ایسا ہی کوئی خلاف قرآن فتویٰ پیش کیا تو اس پر بھی بات کر لیں گے۔ ان شاءاللہ

قال الحافظ ابن حجر العسقلاني في فتح الباري :

قوله ( باب من قال لا رضاع بعد حولين ، لقوله عز وجل ( حولين كاملين لمن أراد أن يتم الرضاعة )

أشار بهذا إلى قول الحنفية إن أقصى مدة الرضاع ثلاثون شهرا وحجتهم قوله تعالى ( وحمله وفصاله ثلاثون شهرا ) أي المدة المذكورة لكل من الحمل والفصال ، وهذا تأويل غريب . والمشهور عند الجمهور أنها تقدير مدة أقل الحمل وأكثر مدة الرضاع ، وإلى ذلك صار أبو يوسف ومحمد بن الحسن ، ويؤيد ذلك أن أبا حنيفة لا يقول إن أقصى الحمل سنتان ونصف .

وعند المالكية رواية توافق قول الحنفية لكن منزعهم في ذلك أنه يغتفر بعد الحولين مدة يدمن الطفل فيها على الفطام ، لأن العادة أن الصبي لا يفطم دفعة واحدة بل على التدريج في أيام قليلات ، فللأيام التي يحاول فيها فطامه حكم الحولين .

ثم اختلفوا في تقدير تلك المدة قيل يغتفر نصف سنة ، وقيل شهران ، وقيل شهر ونحوه ، وقيل أيام يسيرة ، وقيل شهر ، وقيل لا يزاد على الحولين وهي رواية ابن وهب عن مالك وبه قال الجمهور ومن حجتهم حديث ابن عباس رفعه " لا رضاع إلا ما كان في الحولين " أخرجه الدارقطني ، وقال : لم يسنده عن ابن عيينة غير الهيثم بن جميل ، وهو ثقة حافظ . وأخرجه ابن عدي . وقال غير الهيثم يوقفه على ابن عباس وهو المحفوظ ، وعندهم متى وقع الرضاع بعد الحولين ولو بلحظة لم يترتب عليه حكم ،

وعند الشافعية لو ابتدأ الوضع في أثناء الشهر جبر المنكسر من شهر آخر ثلاثين يوما ،

وقال زفر : يستمر إلى ثلاث سنين إذا كان يجتزئ باللبن ولا يجتزئ بالطعام ،

وحكى ابن عبد البر عنه أنه يشترط مع ذلك أن يكون يجتزئ باللبن ، وحكى عن الأوزاعي مثله لكن قال بشرط أن لا يفطم ، فمتى فطم ولو قبل الحولين فما رضع بعده لا يكون رضاعا
آپ نے ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی عبارت اس طرح پیش کی ہے جس سے کم ازکم میں جو عربی نہیں جانتا یہ سمجھا کہ شاید ابن حجر رحمہ اللہ بھی رضاعت کی مدت ڈھائی برس بتاتے ہیں یا امام ابوحنیفہ کے فتوے کو حق سمجھتے ہیں۔ لیکن جتنا میں نے اس عربی عبارت پر غور کیا ہے تو ابن حجر رحمہ اللہ نے تو اس کا عنوان ہی ایسا رکھا ہے جو آپ کے خلاف ہے۔ ترجمہ میرے خیال سے یہ ہے کہ دوسال بعد رضاعت قائم نہیں ہوتی۔ اسکے بعد ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ کا فتویٰ کہ رضاعت ڈھائی برس ہے ذکر کر کے اور ساتھ میں امام صاحب کی دلیل بھی بیان کرکے۔ امام صاحب کے فتوے اور ان کی دلیل کو یہ کہہ کر رد کر دیا ہے۔ وهذا تأويل غريب

مجھے نہیں معلوم جو عبارت سراسر آپ کے دعوے کے خلاف ہے اس کوکیوں آپ نے اس انداز سے پیش کیا ہے کہ عربی نہ جاننے والے یہ سمجھیں کہ آپ نے امام صاحب کا کامیابی سے دفاع کر لیا ہے۔

دوسری بات آپ نے میری پوسٹ کا جواب دیا لیکن بیچ والے حصہ کو گول کر گئے جو حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے متعلق تھا ۔ اور کرنا بھی ایسے ہی چاہئیے تھا ۔
جناب والا بیچ والے حصے کو میں نے گول نہیں کیا بلکہ دانستا اس کا جواب اس لئے نہیں دیا کہ وہ موضوع سے بالکل غیر متعلق تھا لیکن اب اس کا جواب ملاحظہ فرمالیں۔ صحابہ کرام تمام کےتمام بمطابق قرآن مجید جنتی ہیں۔ جبکہ امام ابوحنیفہ کے بارے میں صرف خیال ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ شاید وہ جنتی ہونگے۔ لیکن یہ ایک خیال ہے جو صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی۔ اس لئے امام صاحب کے مسئلہ پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کی مثال دینا ہی غلط ہے۔ اور اگر صحابہ کرام کے درمیان کوئی جنگ یا لڑائی ہوئی تو اس کے لئے انہوں نے اجتہاد کیا جس میں اگر کسی فریق کا اجتہاد غلط بھی ہوگیا تو وہ ایک اجر کا مستحق ضرور ہوگا۔ اس کے برعکس امام ابوحنیفہ نے جو اجتہاد کیا وہ نص کے مقابلے پر کیا ہے اور نص کی موجودگی میں کیا گیا اجتہاد مردود ہے اور ظاہر ہے ایک مردود عمل پر اجر کی امید بھی غلط ہے۔

آپ سے عرض ہے کہ غیر متعلق مثالوں کے بجائے کوئی واضح دلیل فراہم کریں۔

اگر آپ اپنی تھریڈ یوں شروع کرتے کہ مدعت رضاعت دو سال ہے اور اس بارے میں دلائل دیتے تو یہ بہتر تھا بجائے اس کے ایک فقیہ کے بارے میں اس طرح کے سخت الفاظ استعمال کرتے ۔ جو دوسروں کو آپ کے منہج سے متنفر کا کام تو دے سکتی ہے قائل کرنے کا نہیں ۔
محترم یہ آپ کا امام ابوحنیفہ کےبارے میں جذباتی پن ہے ورنہ ہم نے صرف ایک خلاف قرآن مسئلہ کی نشاندہی کی ہے اور کسی قسم کے سخت الفاظ استعمال نہیں کئے۔ لیکن اگر آپ کو اس پر بھی اعتراض ہے کہ کوئی امام صاحب کی کسی غلطی کی نشاندہی کرے تو آپ ایسے فتوے اپنی کتابوں سے نکال کیوں نہیں دیتے؟!

اگر کوئی اس لئے ہمارے منہج سے متنفر ہوتا ہے کہ ہم بلا تفریق ہر شخص کی غلطی کو (چاہے وہ ہمارے اپنے ہوں یا پرائے) بیان کرتے ہیں تو یہ اس شخص کی بدنصیبی ہی کہی جاسکتی ہے۔ اور آپ جو اپنے امام کے قول و فتوے کو اگر وہ قرآن و حدیث سے ٹکرا جائے تو قرآن و حدیث کو پس پشت ڈال کر ہر حال میں اپنے امام کے قول کو مقدم رکھتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ آپکے اس عمل کی وجہ سے دوسرے آپکے منہج و مذہب کے بارے میں کیا رائے قائم کرتے ہیں؟!

سعودی علماء کے فتوی میں بھی امام ابو حنیقہ کے قول کا ذکر ہے

وذهب الإمام أبو حنيفة إلى أن المدة التي تثبت بها الحرمة هي مـدة سنتين ونصف ، وهي ثلاثون شهراً ، فقال : إن الرضاع إذا كـان في هذه المدة اعتبر محرماً ، أما إذا كان بعـدها فـلا يعتبر محرماً ، واستـدل بقولـه تعالى : وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلاثُونَ شَهْرًا فقال : إن المقصود بالحمل هنا هو حمله مدة الرضاع وليس المقصود به حمل الأحشاء ، إذ قد يتأخر الطفل في داخل البطن لمدة سنتين ، لهذا نعلم أن اللّه سبحانه وتعالى أراد بالحمل حمل الفطام وليس حمل الأحشاء

انہوں نے بھی امام ابو حنیفہ کی وہی دلیل نقل کی جو صاحب ہدایہ نے دی ۔ اگر چہ انہوں نے امام ابو حنیفہ کا قول اختیار نہیں کیا لیکن اسے قرآن کا مخالف قول بھی نہ کہا ۔ کیوں ؟
میرے بھائی آپ نے سعودی علماء کی ادھوری عبارت نقل کرکے کیسے فیصلہ کر لیا کہ سعودی علماء کے نزدیک ایک خلاف قرآن فتویٰ، قرآن کے خلاف نہیں۔ آپ اس فتوے کی مکمل عبارت پیش کریں اور مکمل حوالہ دیں تاکہ ہم آپ کے دعوے کی تصدیق کر سکیں ورنہ بلا حوالہ ادھوری عبارتیں پیش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

اگر مجھ پر الزام ہے کہ میں تو قرآن میں تعارض ثابت کرہا ہوں تو غلط ہے ۔ جس طرح میں نے تشریح کی اگر یہ تعارض ہے تو آپ کے نذدیک وہاں بھی تعارض ہے کہ قرآن کہیں کہ رہا ہے کہ زمین و آسمان چھ دن میں پیدا کیے اور کہیں کہ رہا ہے کہ ہر چیز کو کن فيکوں سے پیدا کیا یعنی کہا ہو جا تو وہ ہوگیا بھر زمیں اور آسماں میں چھ دن کیوں لگ گئیے ۔
مجھے الحمد للہ ان آیت کی تشریح معلوم ہے اور میرے نذدیک اس میں کوئی تعارض نہیں ۔ لیکن جو لوگ اپنی من پسند تفسیر سے چمٹے ہوئے ہیں ان کو تعارض نظر آئے گا
آپ پر تعارض کا کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا بلکہ آپ حقیقتاً اس فعل کےمرتکب ہورہے ہیں اور بزعم خود اسے الزام کہہ کر معاملے کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایک مرتبہ پھر آپ نے ایک ایسی مثال پیش کی ہے جو بے موقع اور بے محل ہے۔ جناب والا کسی مسلمان کا بھی یہ عقیدہ نہیں کہ اللہ کے کلام میں کوئی تضاد ہے۔ ہم تو بات کر رہے ہیں کہ ایک امتی کی تو کیا ایک ایسے شخص کا فتویٰ خلاف قرآن نہیں ہوسکتا؟

کیا ہم یہ سمجھیں کہ آپ نے کلام اللہ کی مثال اس لئے دی ہے کہ یہ بات آپ کے عقیدہ میں شامل ہے کہ جس طرح اللہ کے کلام میں کوئی تضاد اور تعارض نہیں اسی طرح امام ابوحنیفہ کا کوئی کلام اور فتویٰ بھی تضاد اور تعارض سے پاک ہے۔

یا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات قرآن سے نہیں ٹکراتی اسی طرح ابوحنیفہ کا قول اور فتویٰ بھی قرآن کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو معصوم عن الخطاء تھے۔ کیا امام ابوحنیفہ بھی غلطیوں اور خطاؤں سے پاک صاف تھے؟؟؟

اس تھریڈ میں دلائل کے بجائے جذ باتیت ہے اور بعض پوسٹ میں تو نہ مانوں کی پالیسی ہے اس لئیے اس تھریڈ میں میری آخری پوسٹ ہے
اس بارے میں تو میں صرف یہی کہونگا سبحانک!ھذا بہتان عظیم

میں مجلس سے اختتامی دعا کے ساتھ اس تھریڈ سے رخصت ہوتا ہوں ۔ باقی دوسرے تھریڈ میں میں ان شاء اللہ موجود رہوں گا۔
ہمیں یقین ہے کہ اگر آپ کو اس مسئلہ میں کوئی اور تاؤیل مل گئی تو آپ ضرور حاضر ہونگے۔ ابھی آپکے رخصت ہونے کی وجہ غالباً یہ ہے کہ کوئی مزید تاویل بچی نہیں۔ واللہ اعلم!

تنبیہہ: نامناسب الفاظ و عبارات حذف۔ انتظامیہ
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
شبیراحمد عثمانی دیو بندی صاحب اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ابو حنیفہ جو رضاعت کی مدت ڈھائی سال بتاتے ہیں انکے پاس کوئی اور دلیل ہوگی۔
استغفراللہ اندھی تقلید کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ شبیر صاحب یہ بتانے میں ناکام رہے کہ وہ دلیل کہاں ہے جسکی بنیاد پر امام ابوحنیفہ نے یہ خلاف قرآن فتوی دیا ؟؟؟
ومع هذا فلا يجوز أن يدعي انحصار حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم في دواوين معينة ثم لو فرض انحصار حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم‏:‏ فليس كل ما في الكتب يعلمه العالم ولا يكاد ذلك يحصل لأحد‏.‏
بل قد يكون عند الرجل الدواوين الكثيرة وهو لا يحيط بما فيها بل الذين كانوا قبل جمع هذه الدواوين أعلم بالسنة من المتأخرين بكثير، لأن كثيرا مما بلغهم وصح عندهم قد لا يبلغنا إلا عن مجهول، أو بإسناد منقطع، أو لا يبلغنا بالكلية فكانت دواوينهم صدورهم التي تحوي أضعاف ما في الدواوين وهذا أمر لا يشك فيه من علم القضية‏.

اورباوجود اس کے یہ دعویٰ کرناصحیح نہیں ہے کہ رسول اللہ کی حدیث کا انصار معین دواوین میں ہی ہے۔پھراگریہ مان بھی لیاجائے کہ رسول پاک کی تمام حدیثیں ان ہی کتب حدیث میں ہیں توبھی ان احادیث کااحاطہ کرناکسی عالم کیلئے ممکن نہیں ۔بسااوقات ایسابھی ہوتاہے کہ کسی شخص کے پاس بہت سارے دواوین ہوتے ہیں لیکن وہ اس کے مشمولات سے بے خبر ہوتاہے جولوگ ان دواوین سنت کی تدوین سے پہلے گزرے ہیں وہ سنت کے بارے میں متاخرین سے زیادہ واقف کار تھے۔اس لئے کہ ان تک بہت سے حدیث پہنچی اوران کے نزدیک صحیح ثابت ہوئی اور وہ احادیث ہم تک مجہول اورمنقطع سند سے پہنچی ہیں۔یاہم تک پہنچی ہی نہیں ہے۔ان کے محفوظات ان کے سینے تھے جس میں آج کل کی موجودہ کتب احادیث سے زیادہ حدیثوں کا ذخیرہ تھا۔
کاش شاہد نذیر صاحب جیسے مجتہد حضرات کسی اورنہیں توابن تیمیہ کی ہی اس بات پر غورکریں
حضرت ابن تیمیہ دوسری جگہ عرض کرتے ہیں۔
وفي كثير من الأحاديث يجوز أن يكون للعالم حجة في ترك العمل بالحديث لم نطلع نحن عليها، فإن مدارك العلم واسعة ولم نطلع نحن على جميع ما في بواطن العلماء والعالم قد يبدي حجته وقد لا يبديها وإذا أبداها فقد تبلغنا وقد لا تبلغ وإذا بلغتنا فقد ندرك موضع احتجاجه وقد لا ندركه سواء كانت الحجة صوابا في نفس الأمر أم لا
بہت ساری احادیث میں ایسابھی ہوتاہے کہ عالم کے پاس حدیث پر عمل ترک کرنے کے بارے میں دلیل ہوتی ہے جس سے ہم واقف نہیں ہوتے ہیں کیونکہ علم کے مدارک وسیع ہیں۔اورعلماء کے سینوں میں جوکچھ ہے اس سے ہم واقف نہیں ہیں۔ عالم کبھی اپنی حجت اوردلیل کو ظاہر کردیتاہے اورکبھی ظاہر نہیں کرتا۔ جب وہ اپنی دلیل کو ظاہر کردیتاہے تو وہ ہم تک پہنچ جاتی ہے اورکبھی نہیں پہنچتی۔ جب عالم کی دلیل ہم تک پہنچتی ہے توہم جان لیتے ہیں کہ اس نے کس چیز سے دلیل پکڑی ہے۔اورکبھی ہم اس کے دلیک کے موضع اورجگہ کو نہیں جان پاتے ۔خواہ دلیل بذاتہ اورنفس الامر مین درست ہویاغلط ۔
حضرت ابن تیمیہ کی اس عبارت میں اورحضرت مولانا شبیراحمد عثمانی کی عبارت میں کیافرق ہے کوئی بتائے گا؟
اس فورم پر بہت مرتبہ یہ لفظ لکھاہواپایااندھی تقلید ۔لوگ جانتے بھی نہیں کہ اندھی تقلید کس کو کہتے ہیں ۔اندھی تقلید اس کو کہتے ہیں جس نے کسی اندھے کی تقلید کی ہو۔ لیکن ہم معشرحنفیہ نے ایسے عالم کی تقلید کی ہے جس کے مجتہد ہونے اوراجتہاد پر امت مجتمع اورمتفق ہے۔سوائے شرذمہ قلیلہ کے توایسے لوگ دائرہ اجماع سے ہی خارج اورغیرسبیل المومنین کا اتباع کرنے والے ہیں۔
تعجب کی بات تویہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کامبلغ علم ناپنے والے مجتہد کو عربی نہیں آتی اورقرآن وحدیث عربی میں ہے تواب ظاہر ہے کہ ترجمہ سے کام چلاتے ہیں اب ترجمہ نگار کی تقلید کرکے یہ عدم تقلید کے داعی خودکہاں پھنس رہے ہیں۔
یہ چند باتیں اس لئے عرض کردی گئی ہیں کہ ائمہ مجتہدین کی بات سے اختلاف کرنا گناہ نہیں لیکن طنع وتشنیع کرنا یقینا قلب کی سیاہی کا باعث ہے اورایساانسان دین ودنیا دونوں میں ناکام اورخسرالدنیا والآخرہ کامصداق ہوتاہے۔ اس کی تصدیق مولانامیر ابراہیم سیالکوٹی کے بھی کلام سے ہوتی ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
مشہورغیرمقلد عالم حافظ عبدالمنان متوفی 1334وزیر آبادی کے حالات میں مولانا میر صاحب لکھتے ہیں۔
آپ ائمہ دین کا بہت ادب کرتے تھے۔چنانچہ آپ فرمایاکرتے تھے کہ جوشخص ائمہ دین اورخصوصا امام ابوحنیفہ کی بے ادبی کرتاہے اس کاخاتمہ اچھانہیں ہوتا۔(تاریخ اہل حدیث 437)
مولاناابراہیم میرسیالکوٹی اپناواقعہ لکھتے ہیں۔
اس مقام پر صورت یوں ہے کہ جب میں نے اس مسئلہ کیلئے کتب متعلقہ الماری سے نکالیں اورحضرت امام صاحب کے متعلق تحقیقات شروع کی تومختلف کتب کی ورق گردانی سے میرے دل پر کچھ غبار آگیا۔جس کا اثربیرونی طورپر یہ ہواکہ دن دوپہر کے وقت جب سوری پوری طرح روشن تھایکایک میرے سامنے گھپ اندھیراچھاگیاگویاظلمت بعضہا فوق بعض کانظارہ ہوگیا۔معاًخدائے تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالاکہ یہ حضرت امام صاحب سے سوئے ظن کانتیجہ ہے۔اس سے استغفار کرو میں نے کلمات استغفار دوہرانے شروع کیے۔وہ اندھیرے فوراًکافور ہوگئے اوران کے بجائے۔ایسانورچمکا کہ اس نے دوپہر کی روشنی کومات کردیا۔ اس وقت سے میری حضرت امام صاحب سے حسن عقیدت اورزیادہ بڑھ گئی۔اورمیں ان شخصوں سے جن کوحضرت امام صاحب سے عقیدت نہیں ہے کہاکرتاہوں کہ میری اورتمہاری مثال اس آیت کی مثال ہے کہ حق تعالیٰ نے منکرین معارج قدسیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرکے فرمایاہے افتمارونہ علی مایری۔میں نے جوکچھ عالم بیداری اورہشیاری مین دیکھ لیاہے اس میں مجھ سے جھگڑنابے سود ہے۔(تاریخ اہل حدیث 72)
بہرحال یہ چند باتیں ایسے لوگوں کیلئے جوسمجھناچاہتے ہیں مفید ثابت ہوں گی اورعلمی وفقہی مباحث میں ائمہ کرام پر طنزوتشنیع سے باز رہیں گے۔فذکر فان الذکری تنفع المومنین
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
ومع هذا فلا يجوز أن يدعي انحصار حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم في دواوين معينة ثم لو فرض انحصار حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم‏:‏ فليس كل ما في الكتب يعلمه العالم ولا يكاد ذلك يحصل لأحد‏.‏
بل قد يكون عند الرجل الدواوين الكثيرة وهو لا يحيط بما فيها بل الذين كانوا قبل جمع هذه الدواوين أعلم بالسنة من المتأخرين بكثير، لأن كثيرا مما بلغهم وصح عندهم قد لا يبلغنا إلا عن مجهول، أو بإسناد منقطع، أو لا يبلغنا بالكلية فكانت دواوينهم صدورهم التي تحوي أضعاف ما في الدواوين وهذا أمر لا يشك فيه من علم القضية‏.

اورباوجود اس کے یہ دعویٰ کرناصحیح نہیں ہے کہ رسول اللہ کی حدیث کا انصار معین دواوین میں ہی ہے۔پھراگریہ مان بھی لیاجائے کہ رسول پاک کی تمام حدیثیں ان ہی کتب حدیث میں ہیں توبھی ان احادیث کااحاطہ کرناکسی عالم کیلئے ممکن نہیں ۔بسااوقات ایسابھی ہوتاہے کہ کسی شخص کے پاس بہت سارے دواوین ہوتے ہیں لیکن وہ اس کے مشمولات سے بے خبر ہوتاہے جولوگ ان دواوین سنت کی تدوین سے پہلے گزرے ہیں وہ سنت کے بارے میں متاخرین سے زیادہ واقف کار تھے۔اس لئے کہ ان تک بہت سے حدیث پہنچی اوران کے نزدیک صحیح ثابت ہوئی اور وہ احادیث ہم تک مجہول اورمنقطع سند سے پہنچی ہیں۔یاہم تک پہنچی ہی نہیں ہے۔ان کے محفوظات ان کے سینے تھے جس میں آج کل کی موجودہ کتب احادیث سے زیادہ حدیثوں کا ذخیرہ تھا۔
کاش شاہد نذیر صاحب جیسے مجتہد حضرات کسی اورنہیں توابن تیمیہ کی ہی اس بات پر غورکریں
حضرت ابن تیمیہ دوسری جگہ عرض کرتے ہیں۔
وفي كثير من الأحاديث يجوز أن يكون للعالم حجة في ترك العمل بالحديث لم نطلع نحن عليها، فإن مدارك العلم واسعة ولم نطلع نحن على جميع ما في بواطن العلماء والعالم قد يبدي حجته وقد لا يبديها وإذا أبداها فقد تبلغنا وقد لا تبلغ وإذا بلغتنا فقد ندرك موضع احتجاجه وقد لا ندركه سواء كانت الحجة صوابا في نفس الأمر أم لا
بہت ساری احادیث میں ایسابھی ہوتاہے کہ عالم کے پاس حدیث پر عمل ترک کرنے کے بارے میں دلیل ہوتی ہے جس سے ہم واقف نہیں ہوتے ہیں کیونکہ علم کے مدارک وسیع ہیں۔اورعلماء کے سینوں میں جوکچھ ہے اس سے ہم واقف نہیں ہیں۔ عالم کبھی اپنی حجت اوردلیل کو ظاہر کردیتاہے اورکبھی ظاہر نہیں کرتا۔ جب وہ اپنی دلیل کو ظاہر کردیتاہے تو وہ ہم تک پہنچ جاتی ہے اورکبھی نہیں پہنچتی۔ جب عالم کی دلیل ہم تک پہنچتی ہے توہم جان لیتے ہیں کہ اس نے کس چیز سے دلیل پکڑی ہے۔اورکبھی ہم اس کے دلیک کے موضع اورجگہ کو نہیں جان پاتے ۔خواہ دلیل بذاتہ اورنفس الامر مین درست ہویاغلط ۔
حضرت ابن تیمیہ کی اس عبارت میں اورحضرت مولانا شبیراحمد عثمانی کی عبارت میں کیافرق ہے کوئی بتائے گا؟
اولا:
شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ نے ترک حدیث کے جواسباب بتلائے ہیں انہیں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ترک کرنے والے کے نزدیک وہ روایت صحیح سند سے نہ ملی۔
شیخ الاسلام فرماتے ہیں:
السَّبَبُ الثَّانِي: أَنْ يَكُونَ الْحَدِيثُ قَدْ بَلَغَهُ, لَكِنَّهُ لَمْ يَثْبُتْ عِنْدَهُ. إمَّا لِأَنَّ مُحَدِّثَهُ, أَوْ مُحَدِّثَ مُحَدِّثِهِ, أَوْ غَيْرَهُ مِنْ رِجَالِ الْإِسْنَادِ مَجْهُولٌ عِنْدَهُ أَوْ مُتَّهَمٌ أَوْ سَيِّئُ الْحِفْظِ.وَإِمَّا لِأَنَّهُ لَمْ يَبْلُغْهُ مُسْنَدًا بَلْ مُنْقَطِعًا؛ أَوْ لَمْ يَضْبُطْ لَفْظَ الْحَدِيثِ مَعَ أَنَّ ذَلِكَ الْحَدِيثَ قَدْ رَوَاهُ الثِّقَاتُ لِغَيْرِهِ بِإِسْنَادِ مُتَّصِلٍ, بِأَنْ يَكُونَ غَيْرُهُ يَعْلَمُ مِنْ الْمَجْهُولِ عِنْدَهُ الثِّقَةَ, أَوْ يَكُونُ قَدْ رَوَاهُ غَيْرُ أُولَئِكَ الْمَجْرُوحِينَ عِنْدَهُ؛ أَوْ قَدْ اتَّصَلَ مِنْ غَيْرِ الْجِهَةِ الْمُنْقَطِعَةِ, وَقَدْ ضَبَطَ أَلْفَاظَ الْحَدِيثِ بَعْضُ الْمُحَدِّثِينَ الْحُفَّاظِ؛ أَوْ لِتِلْكَ الرِّوَايَةِ مِنْ الشَّوَاهِدِ وَالْمُتَابَعَاتِ مَا يُبَيِّنُ صِحَّتَهَا. وَهَذَا أَيْضًا كَثِيرٌ جِدًّا, وَهُوَ فِي التَّابِعِينَ وَتَابِعِيهِمْ إلَى الْأَئِمَّةِ الْمَشْهُورِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ أَكْثَرُ مِنْ الْعَصْرِ الْأَوَّلِ, أَوْ كَثِيرٌ مِنْ الْقِسْمِ الْأَوَّلِ.فَإِنَّ الْأَحَادِيثَ كَانَتْ قَدْ انْتَشَرَتْ وَاشْتَهَرَتْ, لَكِنْ كَانَتْ تَبْلُغُ كَثِيرًا مِنْ الْعُلَمَاءِ مِنْ طُرُقٍ ضَعِيفَةٍ, وَقَدْ بَلَغَتْ غَيْرَهُمْ مِنْ طُرُقٍ صَحِيحَةٍ غَيْرِ تِلْكَ الطُّرُقِ, فَتَكُونُ حُجَّةً مِنْ هَذَا الْوَجْهِ, مَعَ أَنَّهَا لَمْ تَبْلُغْ مَنْ خَالَفَهَا مِنَ الْوَجْهِ الآخر.وَلِهَذَا وُجِدَ فِي كَلَامِ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ تَعْلِيقُ الْقَوْلِ بِمُوجِبِ الْحَدِيثِ عَلَى صِحَّتِهِ, فَيَقُولُ: {قَوْلِي فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ كَذَا وَقَدْ رُوِيَ فِيهَا حَدِيثٌ بِكَذَا؛ فَإِنْ كَانَ صَحِيحًا فَهُوَ قَوْلِي} . [رفع الملام عن الأئمة الأعلام ص: 18]
افسوس ہے کہ مطلب کے لئے آپ ابن تیمہ رحمہ اللہ کے اس جیسے ارشادات نقل کرتے ہیں ، اور جب بات خود شیخ الاسلام تیمہ رحمہ اللہ کی آئے تو ظلم اور تعصب اس حد تک کہ خود ابن تیمہ رحمہ اللہ کے لئے اس عذر کو مسموع نہیں سمجھاجاتا ۔
قارئین ! جمشید صاحب کی یہ کرم فرمائی بھی دیکھیں جو انہوں نے شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ سے متعلق بروئے کار لائی ہیں:
کسی بھی بحث کودرست سمت میں جاری رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ دونوں فریق موضوع پر ثابت قدم رہیں۔ موضوع یہاں حضرت ابن تیمیہ کی ذات یاتنقیص علی کرم اللہ وجہہ کا الزام نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ ان کی تحریر میں نسبتااعتدال کی کمی ہے اوراس کی شہادت میں میں نے حافظ ابن حجر کا کلام پیش کیا۔ حافظ ابن حجر کی جس بات سے مجھے اصل استدلال مطلوب تھا وہ یہ کہ انہوں نے واہی تباہی احادیث کے ساتھ ساتھ جیاد احادیث کوبھی رد کردیاہے۔
وجدتہ (این تیمیہ )کثیرا التحامل فی ردالاحادیث التی یوردھاابن المطہر ا کان معظم ذلک الموضوعات والواہیات لکنہ رد فی ردہ کثیرامن الاحادیث الجیادالتی لم یستحضرحالۃ التصنیف مظانھا ،لانہ کان لاتساعہ فی الحفظ یتکل علی مافی صدرہ،والانسان عامد للنسیان،
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے یہ بات کہہ کر شیخ الاسلام کے لئے عذر پیش کیا ہے مگر جمشید صاحب اس عذر سے نظر پوشی کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی اسی بات کو شہادت بنا کر یہ دعوی کرتے ہیں ، شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ کا یہ طرز عمل تشدد کا نتیجہ تھا ۔
اورستم بالائے ستم یہ کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے شیخ الاسلام کی ایک خاص کتاب پر تبصرہ کیا تھا اور جمشید صاحب اسے شیخ الاسلام کی تمام تحریروں پر تبصرہ سمجھ لیا۔

جمشید صاحب شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ رد حدیث کا جو عذر پیش کررہے ہیں اگر وہ صحیح ہے تو کیا وجہ ہے کہ وہ خود شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے حق میں قابل قبول نہیں ہے۔

ثانیا:
شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ نے جن احادث کے بارے میں یہ کہا ہے کہ وہ متقدمین کو ملیں اور متاخرین کو نہ مل سکیں تو اس سے مراد صرف ضعیف احادیث ہوسکتی ہیں جن کا ملنا اور نہ ملنا برابر ہے ، ورنہ صحیح احادیث امت کی نظروں سے کبھی اوجھل نہیں ہوسکتیں کیونکہ اللہ تبارک وتعالی نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے:
{ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ } [الحجر: 9]

علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والثاني أن الله تعالى قد قال {إنا نحن نزلنا لذكر وإنا له لحافظون} فمضمون عند كل من يؤمن بالله واليوم الآخر أن ما تكفل الله عز وجل بحفظه فهو غير ضائع أبدا لا يشك في ذلك مسلم وكلام النبي صلى الله عليه وسلم كله وحي بقوله تعالى {وما ينطق عن لهوى * إن هو إلا وحي يوحى} والوحي ذكر بإجماع الأمة كلها والذكر محفوظ بالنص فكلامه عليه السلام محفوظ بحفظ الله عز وجل ضرورة منقول كله إلينا لا بد من ذلك فلو كان هذا الحديث الذي ادعى هذا القائل أنه مجمع على تركه وأنه منسوخ كما ذكر لكان ناسخه الذي اتفقوا عليه قد ضاع ولم يحفظ وهذا تكذيب لله عز وجل في أنه حافظ للذكر كله ولو كان ذلك لسقط كثير مما بلغ عليه السلام عن ربه وقد أبطل ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم في قوله في حجة الوداع اللهم هل بلغت [الإحكام في أصول الأحكام لابن حزم 2/ 71]
علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی علامہ ابن حزم رحمہ کے کلام کو برضاء و رغبت نقل کیا ہے ، دیکھیں: [آداب الزفاف في السنة المطهرة ص: 241]

علامہ البانی رحمہ اللہ ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں :
ولو كان ذلك صحيحاً لورد في الكتاب والسنة الصحيحة، وافتراض صحته في الواقع مع ضياع النص الذي تقوم به الحجة ينافي قوله تبارك وتعالى: {إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ} . والذكر هنا يشمل الشريعة كلها قرآناً وسنة، [التوسل أنواعه وأحكامه ص: 114]

خود شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الأصل الثاني: أن هذه المشاهد والقبور المضافة إلى الأنبياء والصالحين إنما اضطربَ النقلُ فيها ووقعِ فيها الكذبُ والاشتباهُ لأن ضبطَها ليسَ من الدين، والله تعالى قد ضمنَ حفظَ ما نزلَه من الذكر بقوله: (إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ، والله قد نزل الكتابَ والحكمة، كما قال تعالى: (وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ) ، والحكمة: السنة، كما قال ذلك غيرُ واحدٍ من السلف، كقتادة ويحيى بن أبي كثير والشافعي وغيرهم، بدليل قوله: (وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آَيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ) ، والذي كان يتلَى في بيوتهنّ هو القرآن والسنة، فالذكر الذيْ نزَّله الله ضمِنَ حفظَه، فلهذا كانت الشريعة محفوظةً مضبوطةً، ومن الشريعة أن هذه المشاهد والقبور لا تُتخَذُ أربابًا [جامع المسائل لابن تيمية - 4/ 162]
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
فَأَمَّا الْعِلْمُ الَّذِي بَعَثَ اللَّهُ بِهِ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّهُ مَضْبُوطٌ وَمَحْرُوسٌ كَمَا قَالَ تَعَالَى: {إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ} [مجموع الفتاوى 4/ 517]


ماحصل یہ کہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی صحیح حدیث مفقود ہوجائے، لہٰذا مفقود حدیث ضعیف ہی ہوسکتی ہے جس کا وجود اور عدم دنوں برابر ہے۔

ثالثا:
اگر اہل حدیث میں سے کوئی امام غلط فتوی دے دے تو اس کے بارے میں تو یہ امید کی جاسکتی ہے ، کی اس کا فتوی کسی ضعیف حدیث کا نتیجہ ہوگیا ، لیکن اگر اہل الرائے میں سے کسی کا فتوی غلط ہوجا ئے تو وہ اس حسن ظن کا مستحق نہیں ہے بلکہ اس کے بارے میں تو یہی سمجھا جائے گا ، کہ اس نے اپنی رائے سے یہ بات کہی ہے۔

رابعا:
اہل الرائے میں بالخصوص امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں تو یہ ثابت ہے کہ موصوف اپنی رائے اور قیاس سے صحیح سنن واحادیث کو بھی رد کردیا کرتے تھے ، اب ان کا کوئی فتوی قران و حدیث کے خلاف ملے تو لازمی بات یہی ہے کہ موصوف نے ، جان بوجھ کر اپنی رائے کو قران وحدیث پر مقدم کیا ہے جیسا کہ اس کی ایک مثال یہی زیربحث مسئلہ ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
ہدایت کی پیروی کرنے والے پر سلام!
محترم شاہد نذیر بھائی! کیا آپ کو پسند ہے کہ کوئی آپ کا بھائی آپ کو بھی یہی سلام کہے؟!!
سلام کہنا مسلمان کا مسلمان پر حق ہے، جس سے مسلمانوں میں آپس میں محبت اور اُلفت کو فروغ ملتا ہے اور مسلمان ایک دوسرے کو السلام عليكم ورحمة الله وبركاته کہہ کر سلام کرتے ہیں، کسی مسلمان بھائی کو درج بالا آپ والا سلام کہنے کا مطلب یہی ہے کہ آپ اس پر ڈھکے چھپے لفظوں میں بہت بڑا الزام لگا رہے ہیں، جس سے آپس میں اخوّت کی بجائے کینہ اور بغض کو فروغ ملتا ہے، گویا سلام کا اصل مقصد ہی فوت ہوگیا یونکہ السلام علیٰ من اتبع الہدیٰ غیر مسلموں کو کہا جاتا ہے۔ لہٰذا کسی مسلمان بھائی کو یہ کہنا جائز نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم!
السؤال : هل يجوز إذا أقبل على زملائه أن يقول لهم : ( السلام على من اتبع الهدى ) ؟
الجواب : الحمد لله!
"لا يخفى أنه يجب على المسلم مراعاة حقوق إخوانه المسلمين ، ورعاية مشاعرهم ، وأنه يلزمه أن يحب لأخيه المسلم ما يحب لنفسه ، كما جاء ذلك عن الرسول صلى الله عليه وسلم ، كما لا يخفى أن من حكم السلام إشعار المسلم أخاه المسلم عليه بطيبة نفسه نحوه ، ومحبته إياه كأخ من إخوانه المسلمين ، وذلك بدعائه له بالسلامة المطلقة ، ورحمة الله وبركاته عليه ، ولا شك أن السلام على المسلم بعبارة : (السلام على من اتبع الهدى) فيه من التعريض واللمز ما لا يتفق مع الأصول العامة في وجوب ترابط المسلمين وتعاطفهم وتوادهم وتراحمهم ، وأنهم كالجسد الواحد ، إذا اشتكى منه عضو تداعى له سائر الجسد بالحمى والسهر ، وأنهم كالبنيان يشد بعضه بعضاً ، وأن الأصل فيهم الخير ، وعليه فلا ينبغي للمسلم أن يحيي إخوانه المسلمين بهذه العبارة : (السلام على من اتبع الهدى) وإنما هذه التحية يبعثها الداعية ومن في حكمه إلى غير المسلمين ، كما فعل ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم.
وبالله التوفيق ، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم" انتهى .
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء .
الشيخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز ... الشيخ عبد الرزاق عفيفي ... الشيخ عبد الله بن غديان ... الشيخ عبد الله بن سليمان بن منيع .
"فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء" (٢٤؍١١٣)
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
شبیراحمد عثمانی دیو بندی صاحب اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ابو حنیفہ جو رضاعت کی مدت ڈھائی سال بتاتے ہیں انکے پاس کوئی اور دلیل ہوگی۔
استغفراللہ اندھی تقلید کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ شبیر صاحب یہ بتانے میں ناکام رہے کہ وہ دلیل کہاں ہے جسکی بنیاد پر امام ابوحنیفہ نے یہ خلاف قرآن فتوی دیا ؟؟؟
ومع هذا فلا يجوز أن يدعي انحصار حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم في دواوين معينة ثم لو فرض انحصار حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم‏:‏ فليس كل ما في الكتب يعلمه العالم ولا يكاد ذلك يحصل لأحد‏.‏
بل قد يكون عند الرجل الدواوين الكثيرة وهو لا يحيط بما فيها بل الذين كانوا قبل جمع هذه الدواوين أعلم بالسنة من المتأخرين بكثير، لأن كثيرا مما بلغهم وصح عندهم قد لا يبلغنا إلا عن مجهول، أو بإسناد منقطع، أو لا يبلغنا بالكلية فكانت دواوينهم صدورهم التي تحوي أضعاف ما في الدواوين وهذا أمر لا يشك فيه من علم القضية‏.

اورباوجود اس کے یہ دعویٰ کرناصحیح نہیں ہے کہ رسول اللہ کی حدیث کا انصار معین دواوین میں ہی ہے۔پھراگریہ مان بھی لیاجائے کہ رسول پاک کی تمام حدیثیں ان ہی کتب حدیث میں ہیں توبھی ان احادیث کااحاطہ کرناکسی عالم کیلئے ممکن نہیں۔ بسااوقات ایسابھی ہوتاہے کہ کسی شخص کے پاس بہت سارے دواوین ہوتے ہیں لیکن وہ اس کے مشمولات سے بے خبر ہوتاہے جولوگ ان دواوین سنت کی تدوین سے پہلے گزرے ہیں وہ سنت کے بارے میں متاخرین سے زیادہ واقف کار تھے۔اس لئے کہ ان تک بہت سے حدیث پہنچی اوران کے نزدیک صحیح ثابت ہوئی اور وہ احادیث ہم تک مجہول اورمنقطع سند سے پہنچی ہیں۔یاہم تک پہنچی ہی نہیں ہے۔ان کے محفوظات ان کے سینے تھے جس میں آج کل کی موجودہ کتب احادیث سے زیادہ حدیثوں کا ذخیرہ تھا۔
کاش شاہد نذیر صاحب جیسے مجتہد حضرات کسی اورنہیں توابن تیمیہ کی ہی اس بات پر غورکریں
حضرت ابن تیمیہ دوسری جگہ عرض کرتے ہیں۔
وفي كثير من الأحاديث يجوز أن يكون للعالم حجة في ترك العمل بالحديث لم نطلع نحن عليها، فإن مدارك العلم واسعة ولم نطلع نحن على جميع ما في بواطن العلماء والعالم قد يبدي حجته وقد لا يبديها وإذا أبداها فقد تبلغنا وقد لا تبلغ وإذا بلغتنا فقد ندرك موضع احتجاجه وقد لا ندركه سواء كانت الحجة صوابا في نفس الأمر أم لا
بہت ساری احادیث میں ایسابھی ہوتاہے کہ عالم کے پاس حدیث پر عمل ترک کرنے کے بارے میں دلیل ہوتی ہے جس سے ہم واقف نہیں ہوتے ہیں کیونکہ علم کے مدارک وسیع ہیں۔اورعلماء کے سینوں میں جوکچھ ہے اس سے ہم واقف نہیں ہیں۔ عالم کبھی اپنی حجت اوردلیل کو ظاہر کردیتاہے اورکبھی ظاہر نہیں کرتا۔ جب وہ اپنی دلیل کو ظاہر کردیتاہے تو وہ ہم تک پہنچ جاتی ہے اورکبھی نہیں پہنچتی۔ جب عالم کی دلیل ہم تک پہنچتی ہے توہم جان لیتے ہیں کہ اس نے کس چیز سے دلیل پکڑی ہے۔اورکبھی ہم اس کے دلیک کے موضع اورجگہ کو نہیں جان پاتے ۔خواہ دلیل بذاتہ اورنفس الامر مین درست ہویاغلط۔
جمشید بھائی!
آپ سے گزارش ہے کہ درج سوالوں کے دوٹوک جواب میں آپ اپنا موقف بیان کیجئے!

  1. کیا آپ کے نزدیک مولانا شبیر احمد عثمانی﷫ کی یہ رائے
    دودھ چھڑانے کی مدت جو یہاں دو سال بیان ہوئی باعتبار غالب اور اکثری عادت کے ہیں۔ امام ابو حنیفہ﷫ جو اکثر مدت ڈھائی سال بتاتے ہیں ان کے پاس کوئی اور دلیل ہوگی۔ جمہور کے نزدیک دو ہی سال ہیں۔
    درجِ ذیل آیت کریمہ کا مصداق نہیں؟!!
    ﴿ وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ﴾ ... سورة يونس: ٣٦کہ ’’اور ان میں سے اکثر لوگ صرف گمان پر چل رہے ہیں۔ یقیناً گمان، حق (کی معرفت) میں کچھ بھی کام نہیں دے سکتا۔‘‘
  2. كيا آپ کے نزدیک کوئی ایسی سنتِ مبارکہ ہو سکتی ہے جو صحابہ کرام﷢ کیلئے نبی کریمﷺ سے براہِ راست سننے کی بناء پر تو حجّت ہو لیکن ہم تک کمزور یا جھوٹی سند کے ساتھ پہنچنے کی بناء پر حجت نہ ہو؟!!
  3. کیا آپ کے نزدیک کسی ایسی صحیح حدیث مبارکہ (جو اکیلی کسی شرعی مسئلے کی دلیل ہو۔) کا امکان موجود ہے جو چھٹی، ساتویں ہجری تک تو موجود ہو ہمارے سلف صالحین اس سے استفادہ کرتے اور اپنے شرعی مسائل مستنبط کرتے ہوں لیکن اس کے بعد ہم تک پہنچنے یا قرب قیامت وہ زمانے کی دست برد کا شکار ہوکر ذخیرۂ احادیث سے ہی اس طرح غائب ہوجائے کہ کسی کو اس کا پتہ ہی نہ ہو؟!! دوسرے الفاظ میں صحابہ کرام﷢ کیلئے دین کچھ اور، سلف صالحین﷭ کیلئے کچھ اور، اور ہمارے لئے یا قربِ قیامت کیلئے کچھ اور؟!! تو پھر دین کی حفاظت چہ معنیٰ دارد؟
  4. اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ کچھ سنن (جو صحیح احادیث مبارکہ میں مروی ہوں) پہلے موجود تھیں آج زمانہ برد ہو چکی ہیں، تو کیا یہ امکان نہیں کہ جوں جوں مزید وقت گزرتا جائے گا توں توں مزید سنن بھی اٹھا لی جائیں گی، اگر اسی طرح رفتہ رفتہ ہمارا دین ختم ہوتا رہا تو پھر دینِ اسلام یا شریعت محمدیﷺ تا قیامت حجّت کیسے؟!!
  5. اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ کچھ سنن واقعی ہی ذخیرۂ احادیث میں شامل نہ ہو سکی ہوں یا شامل تو ہوئیں اور سلف صالحین نے اس سے مسائل مستنبط بھی کیے لیکن بعد میں ہم ان کی ذخیرۂ احادیث میں موجودگی کے باوجود ان سے بے خبر ہوں تو کیا آپ کے نزدیک آج کوئی ان سے با خبر ہونے کے باوجود صرف (حسنِ) ظن کی بناء پر انہیں کسی مسئلہ کی دلیل بنا سکتا ہے؟؟!!!!
    انتہائی آسان الفاظ میں یہ کہ کیا آپ کے نزدیک مدتِ رضاعت کے متعلّق امام ابو حنیفہ﷫ کا اڑھائی سال والا موقف راجح ہے یا جمہور کا قرآن وحدیث کے آج موجود صحیح وصریح دلائل کی بناء پر دو سال والا؟؟؟!!!
    كيا آپ کے نزدیک نمازِ استسقاء کے متعلّق امام ابو حنیفہ﷫ کا فتوائے بدعت راجح ہے یا آج موجود صحیح وصریح نصوص کی بناء پر جمہور کا فتویٰ کہ وہ سنت ہے؟؟!!
    کیا آپ کے نزدیک امام ابو حنیفہ﷫ کا فتویٰ کہ مرتد خاتوں کی سزا قتل نہیں ہے راجح ہے یا جمہور کا آج موجود صحیح وصریح احادیث مبارکہ کی بناء پر فتویٰ کہ اس کی سزا بھی مرد مرتد کی طرح قتل ہے؟؟!!
    وعلیٰ ہذا القیاس!
  6. اگر ایسا ہی ہے کہ تو پھر آپ کے نزدیک ہم قریش مکہ کے فرشتوں کے مؤنث نام رکھ کر انہیں دیویاں بنانے کے موقف، شرک،فحش کاموں اور دیگر اعمال کا ردّ کیسے کریں گے؟!! ان کی دلیل بھی یہی تھی کہ ہم نے یہ باتیں اپنے بزرگوں سے سنی ہے، ان کے پاس کوئی نہ کوئی دلیل تو ہوگی!!!
    اور اللہ تعالیٰ کے ان فرمانات کا مفہوم کیا ہوگا:

    ﴿ إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ لَيُسَمُّونَ الْمَلَائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنثَى * وَمَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ ۖ وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ﴾ ... سورة النجم: ٢٧ کہ ’’بیشک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وه فرشتوں کا زنانہ نام مقرر کرتے ہیں (٢٧) حالانکہ انہیں اس کا کوئی علم نہیں وه صرف اپنے گمان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور بیشک وہم (و گمان) حق کے مقابلے میں کچھ کام نہیں دیتا۔‘‘
    ﴿ إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنفُسُ ۖ وَلَقَدْ جَاءَهُم مِّن رَّبِّهِمُ الْهُدَىٰ ﴾ ... سورة النجم: ٢٣ کہ ’’دراصل یہ صرف نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے ان کے رکھ لیے ہیں اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری۔ یہ لوگ تو صرف اٹکل کے اور اپنی نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ اور یقیناً ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آ چکی ہے۔‘‘
    ﴿ سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن شَيْءٍ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ حَتَّىٰ ذَاقُوا بَأْسَنَا ۗ قُلْ هَلْ عِندَكُم مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا ۖ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ ﴾ ... سورة الأنعام: ١٤٨ کہ ’’یہ مشرکین (یوں) کہیں گے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام کہہ سکتے۔ اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے ہوچکے ہیں انہوں نے بھی تکذیب کی تھی یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کامزه چکھا۔ آپ کہیے کہ کیا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو اس کو ہمارے روبرو ظاہر کرو۔ تم لوگ محض خیالی باتوں پر چلتے ہو اور تم بالکل اٹکل سے باتیں بناتے ہو۔‘‘
    ﴿ وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللهِ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ ﴾ ... سورة الأنعام: ١١٦ کہ ’’اور دنیا میں زیاده لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو وه آپ کو اللہ کی راه سے بے راه کردیں وه محض بے اصل خیالات پر چلتے ہیں اور بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں۔‘‘
  7. آیات کریمہ
    ﴿ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ ﴾ ... البقرة: ١١١، الأنبياء: ٢٤، النمل: ٦٤، القصص: ٧٥ کہ ’’ان سے کہہ دو: لاؤ اپنی دلیل پیش کرو۔‘‘ اور
    ﴿ قُلْ أَرَأَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ ۖ ائْتُونِي بِكِتَابٍ مِّن قَبْلِ هَـٰذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِّنْ عِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴾ ... الأحقاف: ٤ کہ ’’آپ کہہ دیجئے! بھلا دیکھو تو جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے بھی تو دکھاؤ کہ انہوں نے زمین کا کون سا ٹکڑا بنایا ہے یا آسمانوں میں ان کا کون سا حصہ ہے؟ اگر تم سچے ہو تو اس سے پہلے ہی کی کوئی کتاب یا کوئی علم ہی جو نقل کیا جاتا ہو، میرے پاس لاؤ۔‘‘
    کا آپ کے نزدیک کیا مفہوم ہے؟!!
واللہ تعالیٰ اعلم!
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للمتقين إماما​
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
جناب میں نے جوسوال پوچھاتھاکہ حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ اورعلامہ شبیراحمد عثمانی کی کی رائے میں کیافرق ہے۔ اس کا جواب دینے کے بجائے مزید سوال کردیئے آپ نے۔
اصولی طورپر پہلے اس سوال کاجواب دیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی رائے میں اورعلامہ شبیراحمد عثمانی کے الفاظ میں کیاتفاوت ہے کہ ان کے پاس کوئی دلیل ہوگی۔اس تفاوت کوبیان کریں یامانیں کہ دونوں کی رائے ایک ہے اورپھر اس پر ہمارے مجتہد صاحب شاہدنذیر صاحب نے جواندھی تقلید کی پھپتی کسی ہے اس پر اظہار خیال کریں۔
جب یہ سارے مراحل طے ہوجائیں توپھر اپنے سوالات سامنے رکھیں۔ اس قضیہ کے سلجھے بغیر اپنے دس پندرہ مزید سوالات سامنے رکھ دینا یہ ثابت کرتاہے کہ مسئلہ تحقیق کانہیں بلکہ کچھ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہے
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جناب میں نے جوسوال پوچھاتھاکہ حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ اورعلامہ شبیراحمد عثمانی کی کی رائے میں کیافرق ہے۔ اس کا جواب دینے کے بجائے مزید سوال کردیئے آپ نے۔
اصولی طورپر پہلے اس سوال کاجواب دیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی رائے میں اورعلامہ شبیراحمد عثمانی کے الفاظ میں کیاتفاوت ہے کہ ان کے پاس کوئی دلیل ہوگی۔اس تفاوت کوبیان کریں یامانیں کہ دونوں کی رائے ایک ہے اورپھر اس پر ہمارے مجتہد صاحب شاہدنذیر صاحب نے جواندھی تقلید کی پھپتی کسی ہے اس پر اظہار خیال کریں۔
جب یہ سارے مراحل طے ہوجائیں توپھر اپنے سوالات سامنے رکھیں۔ اس قضیہ کے سلجھے بغیر اپنے دس پندرہ مزید سوالات سامنے رکھ دینا یہ ثابت کرتاہے کہ مسئلہ تحقیق کانہیں بلکہ کچھ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہے
چلیں بھائی! اگر آپ پوسٹ نمبر 38 میں میرے کیے گئے سوالات کا جواب اس لئے نہیں دینا چاہتے کہ ان کی زَد تو دین کے مسلّمات پر پڑے گی، تو کوئی بات نہیں۔ اس سے بہتر یہ تھا کہ آپ ان اقوال سے غلط استدلال ہی نہ کرتے۔
ویسے آپ نے تا ہنوز سجدہ سہو کے احکام نامی تھریڈ میں میری اس پوسٹ کا جواب بھی نہیں دیا:
جمشید بھائی!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کیا آپ کو یہ بات تسلیم ہے کہ اہل الرّائے کے نزدیک قاضی کا فیصلہ ظاہری وباطنی طور پر لاگو ہوتا ہے جبکہ اہل الحدیث کے نزدیک صرف ظاہری طور پر لاگو ہوتا ہے؟!!
اور کیا آپ کا بھی یہی مسلک ہے؟!!
 
Top