• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابوحنیفہ کی تابعیت اورمولانا رئیس ندوی کا انکار

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
یہ استدلال بالکل ویساہی ہے جیساکہ ایک شاعر نے کہاہے
مگس کو باغ میں جانے نہ دینا
کہ ناحق خون پروانوں کا ہوگا
اگروہ اس کے بجائے کوئی ایسی بات پیش کرتے جو براہ راست دلیل بننے کی صلاحیت رکھتی تو پھر اس پر غورکیاجاسکتاتھا۔
جمشید میاں! جس کو فقہ کی سوجھ بوجھ نہیں ہوتی اسے براہ راست استدلال بھی سمجھ نہیں آتے۔ اب آپ کے ساتھ مسئلہ ہی یہ ہے، کہ عقل کے اٹکل پچھو تو بہت لڑاتے ہو مگر سیدھا سا استدلال آپ کو سمجھ نہیں آرہا!آخر آپ مقلد جو ٹھرے!!
اور جمشید میاں! رفیق طاہر نے جو استدلال پیش کیا ہے، وہ "ہوگا" کی قبیل سے نہیں ہے، بلکہ یہ قول آپ کے امام اعظم صدیوں قبل صادر فرما چکے ہیں!! یہ واقعہ وقوع پذیر ہو چکا ہے، کہ آپ کے امام اعظم نے فرمایا:
مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْذَبَ مِنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ وَلَا أَفْضَلَ مِنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ
سابق میں ہم نے رفیق طاہر صاحب کے اس کلام پر جورد کیاتھا وہ یہ ہے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ سابق میں کسی نے اس قول سے یہ سمجھاہو کہ امام ابوحنیفہ کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ وہ تابعی نہیں ہیں۔ حافظ دارقطنی ہوں یادیگر منکرین تابعیت ۔کسی نے بھی امام ابوحنیفہ کے اس قول سے یہ نہیں سمجھاکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے کسی صحابی کو نہیں دیکھا۔ہرایک کے انکار کی بنیاد یہ رہی ہے کہ ان کی کسی صحابی سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ کے اس قول سے یہ مطلب نکالنا صرف دور جدید کے کچھ "مخصوص ذہنوں"کاکام ہے۔
میاں جی اگر آپ کو نہیں معلوم تو یہ آپ کا مسئلہ!
امام صاحب کے عطاء ابن ابی رباح کو سب سے افضل قراردینے کے یہ احتمالات بھی ممکن ہیں۔
چلیں جناب ! اب آپ کے پیش کردا احتمالات کو دیکھ لیتے ہیں:
مگر اس کا تعین کرتے چلتے ہیں کہ احتمال آخر کہتے کس کو ہیں!! کیونکہ آپ کا مقلدین حنفیہ کا یہ وطیرہ ہے کہ کہ خرد کا نام جنوں رکھنے کو بھی شرح سے تعبیر کرتے ہیں!!!
کسی عبارت میں احتمال کا وجود اس وقت ہوتا ہے جب اس عبارت کے الفاظ میں خارج سے الفاظ شامل کیئے بغیر ایک سے زیادہ معنی و مفہوم ممکن ہو!! اس صورت کو احتمال سےتعبیر کیا جاتا ہے!! اس عبارت کے معنی میں یہ احتمالات پائے جاتے ہیں!! مگر یاد رکھئے گا خارج سے الفاظ داخل کئے بغیر!!
اور اگر ایک عبارت اپنے حالات و واقعات کےتناظر سے متعلقہ ہو تو وہ حالات و واقعات اس عبارت کےمعنی مقصود تک پہنچنے کا قرینہ ہوتا ہے، اور اس معنی مقصود کے علاوہ دیگر معنی جن کا احتمال ہو سکتا تھا باطل قرار پاتے ہیں!!
خلاصہ یہ ہے کہ جو بھی احتمال یعنی ممکن معنی و مفہوم اصل متن سے ممکن ہو، نہ کہ اس کے منافی!!!
1: تابعین میں ان سے افضل نہیں دیکھا۔
جمشید میاں! یہ احتمال باطل ہے ! کیونکہ مذکورہ عبارت میں اس بات کے لئے کوئی الفاظ نہیں اور نہ ہی ایسا کوئی قرینہ ہے جو اس عبارت کو تابعین تک مقید کر سکے!! ویسے تحریر کے آخر میں اس کے بطلان کی ایک دلیل آرہی ہے!!
2: جن سے علم حاصل کیاان میں اس سے افضل نہیں دیکھا
جمشید میاں ! پہلے آپ یہ باتسلیم کر لیں کہ آپ کے امام اعظم نے کسی صحابی سے کوئی حدیث نہیں سنی! اور نہ ہی کسی صحابی سے کچھ سنا! تو پھر اس احتمال پر آگے مزید گفتگو کرتے ہیں!!!!!
ویسے یہ بھی بتلایئے گا کہ آپ نے اپنے امام اعظم کا تابعی ثابت کرنے کے لئے یہ جو مختلف روایات جو تمام ضعیف ہیں صرف کھپ ڈالنے کے لئے لکھیں ہیں!!! اب آپ فیصلہ کریں کہ آپ کسی بات پر قائم رہتے ہو، اس احتمال پر یہ اپنی پیش کردہ روایات پر؟؟ ویسے ہیں تو دونو ہی باطل، لیکن ایک کو تو آپ نے یہیں چھوڑنا ہوگا!!
3: مکہ کے مشائخ میں ان سے افضل نہیں دیکھا
میاں جی یہ جو آپ نے آخری روایت پیش کی تھی وہ ہی دیکھ لیں:
ترجمہ : مجھ سے ابوعلی عبیداللہ بن جعفرالرازی نے اس کتاب میں جس میں امام ابوحنیفہ کی حدثیں درج تھیں بیان کیاکہ ہم سے ہمارے والد نے محمد بن سماعہ کے حوالہ سے امام ابویوسف سے بیان کیاکہ میں نے امام ابوحنیفہ کو یہ کہتے سناکہ میں نے 96میں جب کہ میری عمر 16سال تھی اپنے والد کے ساتھ حج کیاتوکیادیکھتاہوں کہ ایک بزرگ کے گردلوگوں کا مجمع ہے۔ میں نے اپنے والد سے پچھاکہ یہ کون بزرگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیاکہ یہ وہ صاحب ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی ہے۔ ان کا نام عبداللہ بن الحارث بن جزء الزبیدی ہے۔ میں نے اپنے والد سے پوچھاکہ ان کے پاس کیاچیز ہے(جومجمع لگاہے) انہوں نے جواب دیااحادیث ہیں جن کوانہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے۔ میں نے کہا۔مجھے ان کے پاس لے چلئے تاکہ میں ان سے حدیثیں سنوں۔چنانچہ وہ میرے آگے ہولئے اورمیرے لئے راستہ صاف کرنے لگے یہاں کہ میں ان کے قریب ہوگیا ۔میں نے ان کویہ کہتے ہوئے سناکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے جس نے اللہ کے دین میں تفقہ حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں اس کیلئے کافی ہوگا اوراس کو وہاں سے رزق دے گا۔جہاں سے اس کو وہم وگمان بھی نہ ہوگا۔
جمشید میاں! اب ذرا یہ بتلایئے گا کہ آپ کے امام اعظم حج کرنے مکہ ہی جاتے تھے نا!!
اب یہ آپ کے امام اعظم نے بات صحیح ہے یا آپ کا احتمال ہے؟؟
دونوں میں سے کسی ایک کا اتنخاب کریں؟ ویسے ہیں تو دونوں ہی باطل، مگر ان میں سے ایک آپ کو یہیں چھوڑنا پڑے گا!!
جب آپ اس کا جواب دے دیں گے تو پھر اس پر پھر بات کرتے ہیں!!
ان تمام احتمالات کے ہوتے ہوئے
ارے میاں جمشید صاحب! آپ کے احتمالات تو ہوا میں اڑنے کو ہیں!!! ذرا ان کو زمیں پر لانے کی کوشش کیجئے گا!!
اس کو نص قطعی کی طرح پیش کرنا کہ یہ امام صاحب کے انکارتابعیت کی سب سے پختہ دلیل ہے۔
یہ دلیل پختہ نہیں یہ تو آپ اس وقت کہئے گا جب اس دلیل کا بطلان ثابت کریں!!
کس درجہ جہل اورحماقت ہے،قارئین پرواضح ہوگیاہوگا۔
ارے میاں جمشید! ان شاء اللہ ! قارئین جان لیں گے کہ مقلدین حنفیہ کس قدر جاہل اور احمق ہیں!! اس کی آپ فکر نہ کریں!!
اورشاید یہی وجہ ہے کہ جس کی وجہ سے کسی بھی معتمد محدث نے اس کو امام ابوحنیفہ کی تابعیت سے انکار کی دلیل نہیں بنایا۔
جمشید میاں! اب آپ کا تو عقائد بھی اس "شاید " پر قائم ہیں !! اب اس بحث میں جانا مناسب نہیں کہ جن محدثین نے اسے آپ کے امام اعظم کے تبع تابعین ہونے کے لئے اس قول کو بیان نہیں کیا تو اس کی کیا وجہ ہے!! خیر اتنا کافی ہے کہ کسی کا ایک دلیل کو بیان نہ کرنا اس دلیل کے وجود کی نفی نہیں ہوا کرتی!! فتدبر!!
ہمارے اس معروضہ کا رفیق طاہر صاحب نے کوءی مناسب جواب نہیں دیا اوراب ان کی جگہ ابن داؤد صاحب رفیق طاہر صاحب کا راگ الاپ رہے ہیں۔
ارے میاں جمشید صاحب! آپ نے یہ معروضات پیش کہاں کیے تھے کہ کوئی جواب دیتا!! ابھی آپ نے پیش کیئے ہیں تو دیکھئے آپ کے احتمالات کو ہوا میں اڑا دیا ہے!! اللہ کی توفیق سے، الحمدللہ!!
معلوم نہیں ہے کہ ان کی جہالت ہے یاتجاہل عارفانہ ہے۔
یہ مقلدین حنفیہ کی جہالت ہے اور فقہا حنفیہ کا تجاہل عارفانہ!!
صحابی تابعی سے افضل ہوتاہے اس میں کسی کو مجال شک وانکار نہیں ہے لیکن
لیکن آپ کے امام اعظم کو ایک بار جوش تو آیا تھا کہ وہ تابعی کو صحابی سے افضل قراردے دیں!! عقلمد را اشارہ کافی!! اور اگر آپ کو یاد نہ آئے تو اس کے حوالے کا مطالبہ کر لیجئے گا!!!
سوال یہ ہے کہ
تابعی کا صحابی سے افضل ہونا من حیث الکل ومن حیث شرف الصحبۃ ہے
یاہرہرامر میں صحابی تابعی سے افضل ہوتے ہیں۔
اگر وہ پہلی شق مانتے ہیں تو ہم بھی اس کے قائل ہیں اورکہتے ہیں کہ من حیث الجملہ صحابہ صحابی تابعی سے افضل ہوتاہے لیکن بعض چیزیں ایسی ہوسکتی ہیں جس میں تابعی صحابی سے افضل ہو ۔
اگر وہ دوسری شق لیتے ہیں کہ نہیں ہرہرچیز میں تابعی صحابی سے افضل ہوتاہے توہم اس کے قائل نہیں اورنہ ہی علماء کرام اس کے قائل ہیں۔ اورنہ خودصحابہ کرام اس کے قائل ہیں۔
اہل السنۃ والجماعۃ اہل الحدیث اسی بات کے قائل ہیں کہ :
تابعی کا صحابی سے افضل ہونا من حیث الکل ومن حیث شرف الصحبۃ ہے
سوال کا جواب دے دیا گیا ہے!!
البانی صاحب نے التوسل انواعہ واحکامہ میں ابن عساکر سے ایک روایت نقل کی ہے اوراس کو "سند صحیح"کاخطاب دیاہے۔
اس روایت میں مذکور ہے کہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں قحط سالی ہوئی تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اوراہل دمشق نماز بارش کی دعاکیلئے شہر سے باہر نکلے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ منبر پربیٹھے اورفرمایا "یزید بن الاسود الجرشی کہاں ہیں لوگوں نے ان کو آواز دی وہ لوگوں کو پھلانگتے ہوئے آئے اورحضرت معاویہ کے امر سے منبر پر بیٹھ گئے اورحضرت معاویہ ان کے قدموں کے پاس بیٹھ گئے اوربارش کی دعاکی جس کے الفاظ ہیں۔
اللھم انانستشفع الیک الیوم بخیرنا وافضلنا ،اللھم انانستشفع الیک الیوم بیزید بن الاسود الجرشی
(التوسل انواعہ واحکامہ ص41)

غورکرنے کی بات یہ ہے کہ حضرت معاویہ خود صحابی ہیں اوران کے دور میں دمشق میں دیگر صحابہ کرام بھی تھے اورمکہ ومدینہ اوردوسرے شہروں میں توبہت سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین تھے ۔ اس کے باوجود وہ ایک تابعی کو خیرنا وافضلنا کی سند سے نواز رہے ہیں۔
ارے میاں اس کا جواب آپ نے خود لکھ دیا ہے کہ سیدنا معاویہ خود صحابی ہیں! اور ان کا خود صحابی ہونا اس بات کا قرینہ ہے کہ وہ یزید بن الاسود الجرشی کو کسی صحابی سے من حیث کل افضل نہیں جانتے!!
مارایت افضل من عطاء ابن ابی رباح سے استدلال کرنے والوں کو چاہئے کہ اس دلیل کے تارعنکبوت ثابت ہونے کے بعد دیگر دلیل تلاش کریں ورنہ اسی استدلال کی بناء پر کسی نے کہناشروع کردیاکہ حضرت معاویہ کے دور میں شام ودمشق میں کوئی صحابی نہیں تھا اوراس پر متفرع کرکے دیگر اقوال کی تخریج شروع کردی توجواب بن نہیں پڑے گا ۔
آپ کہہ دیں نا میاں جمشید!! کریں سیدنا معاویہ پر اعتراض!! جواب ہم دیں گے! ہم تو اپنی زندگی ان شاء اللہ قرآن و حدیث اور ان کے پاسبان جن میں صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں ، اور محدثین کے دفاع کے لئے وقف کر دی ہیں!! آپ نے اور کیا کرنا ہے، صحابہ پر اعتراض!!
اور میاں جمشید! جواب تو ابھی آپ سے بن رہا!! اور ہماری فکر نہ کریں میاں جی! جو اعتراض ہو حدیث پر ہو صحابی پر ہو محدثین پر ہو، کھل کر کریں!!! ان شاء اللہ آپ کو جواب دیں گے!!!
اور میاں جمشید! ایسا بے وقوفانہ اعتراض کوئی حنفی مقلد ہی کر سکتا ہے کہ:
حضرت معاویہ کے دور میں شام ودمشق میں کوئی صحابی نہیں تھا اوراس پر متفرع کرکے دیگر اقوال کی تخریج شروع کردی توجواب بن نہیں پڑے گا ۔
اب اس حنفی مقلد کو کون بتلائے کہ میاں مقلد! سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ خود صحابی ہیں، پھر یہ کہنا کہ ان کے دور میں شام و دمشق میں کوئی صحابی نہ تھا، نری جہالت ہے اور کچھ نہیں!!
میراذاتی رجحان یہ ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ بنی امیہ کے ظلم وستم کی وجہ سے انہیں کچھ عرصہ مکہ میں گزارنا پڑا۔ اسی دوران انہوں نے حضرت عطاء ابن ابی رباح سے شرف تلمذ حاصل کیا
ماشاء اللہ جمشید میاں! اب تو آپ بھی چھوٹے موٹے مجتہد تو بن ہی گئے ہیں!! کہ ایک مقلد ہوتے ہوئے بھی اپنے ذاتی رجحان کو پیش کر رہے ہیں!! ویسے اتنا بتلائے میں اس کو صحیح یا غلط کا پیمانہ نہیں بنا رہا، مگر جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کا یہ ذاتی رجحان امام ابو حنیفہ کی موت کے صدیوں بعد آپ کے ہی کے ذہن کی پیداور ہے یا آپ سے قبل کسی اور حنفی مقلد کے ذہن میں بھی یہ رجحان پیدا ہوا تھا!! ذرا ان کا نام اور تاریخ وفات بتلا دیجئے گا!!!
اوران کا یہ قول اگرچہ مطلق ہے لیکن تمام حالات پر نظرڈالنے سے پتہ چلتاہے کہ ان کے قول کا مطلب یہ ہے کہ میں نے مکہ کے مشائخ میں ان سے افضل نہیں دیکھا کیونکہ ان کے دیگر مشائخ میں بڑے بڑے اعاظم رجال ہیں جن کی تفصیل مناقب الائمہ الاربعہ لابن عبدالہادی اورتہذیب الکمال للمزی دیکھی جاسکتی ہے اوروہ کسی طورپر عطاء ابن ابی رباح سے شرف وفضیلت میں کم نہیں ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
یعنی کہ آپ نے جو پہلا احتمال پیش کیا تھا کہ آپ وہ بھی ہوا ہوا!!
1: تابعین میں ان سے افضل نہیں دیکھا۔
اب اسی تحریر کے آخر میں آپ نے خود اپنے اس "احتمال" کی نفی کر دی جو آپ نے سب سے پہلے بیان کیا تھا۔ اسی ک وکہتے ہیں علم الکلام میں جھک مارنا!!!
نوٹ: ابن داؤد صاحب نے ہمارے سوال نما جواب کے جواب میں جو مراسلہ لکھاہے اس کو بغیر کسی تبصرہ کے نذر قارئین کردیاجاتاہے۔امید ہے کہ قارئین خود بھی اپنے عقل وفہم سے کام لیں گے ضرورت نہیں کہ ہرجگہ وضاحت کے ساتھ تردید کی جائے۔
ارے میاں جمشید ! جواب تو آپ اپنے امام اور ان کے جہمی مرجئی ، ضعیف اور کذاب شاگردوں پر جرح کا دے ہی نہیں سکتے!! بس ان کا ترجمہ کر دیں ، ہم آپ کو دعائیں گے!!!

ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
ابن دائو د کے اس پورے پوسٹ میں سوائے لفاظی اورچرب زبانی کے کچھ بھی نہیں ہے۔ رفیق طاہر صاحب کااوران کی تقلید میں ابن دائود کا جواعتراض تھا کہ امام ابوحنیفہ نے اگر عطاء بن ابی رباح کو سب سے افضل قراردیاہے تووہ تابعی نہیں ہوسکتے کیوں کہ صحابی تابعی سے افضل ہوتاہے اس کا بہتر جواب معین صاحب نے دے دیاہے ۔ کہ ایوب سختیانی وغیرہ سے بھی اسی قسم کا قول منقول ہے باوجود اس کے کہ وہ کوئی تابعی ہیں۔اورسابق میں میں نے بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے ایک نقل پیش کی تھی جس کا مفاد بھی یہی ہے کہ اس طرح کے کمزور اورلچردلائل امام ابوحنیفہ کی تابعیت کے عدم ثبوت میں قابل لحاظ نہیں ہیں۔
اب اگرکسی کے پاس دلیل نام کی کوئی شے ہو توپیش کرے ورنہ اسی طرح لفظوں کے طوطامینااڑاتارہے۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
أبا يحيى الحماني قال سمعت أبا حنيفة يقول ( 4 ) ما رأيت فيمن لقيت أفضل من عطاء- تاريخ دمشق و كذالك في السير
تهذيب 1-348
سير 5-55
زهري اور ايوب السختياني تابعين مے سے تھے-
ابن دائو د کے اس پورے پوسٹ میں سوائے لفاظی اورچرب زبانی کے کچھ بھی نہیں ہے۔ رفیق طاہر صاحب کااوران کی تقلید میں ابن دائود کا جواعتراض تھا کہ امام ابوحنیفہ نے اگر عطاء بن ابی رباح کو سب سے افضل قراردیاہے تووہ تابعی نہیں ہوسکتے کیوں کہ صحابی تابعی سے افضل ہوتاہے اس کا بہتر جواب معین صاحب نے دے دیاہے ۔ کہ ایوب سختیانی وغیرہ سے بھی اسی قسم کا قول منقول ہے باوجود اس کے کہ وہ کوئی تابعی ہیں۔
اب اگرکسی کے پاس دلیل نام کی کوئی شے ہو توپیش کرے ورنہ اسی طرح لفظوں کے طوطامینااڑاتارہے۔
امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں وهيب بن خالد بن عجلان الباهلى مولاهم ، أبو بكر البصرى ، صاحب الكرابيس سے نقل کیا ہے کہ عَنْ أَيُّوْبَ - وَذَكَرَ القَاسِمَ - فَقَالَ:
مَا رَأَيْتُ رَجُلاً أَفْضَلَ مِنْهُ، وَلَقَدْ تَرَكَ مائَةَ أَلْفٍ وَهِيَ لَهُ حَلاَلٌ.

یہ قول بے سند ہے !
اس میں امام ذہبی سے لیکر وہیب بن خالد تک کوئی سند نہیں ہے !!!
جبکہ جوقول ہم نے پیش کیا ہے اسکے بارہ میں ہم نے قیامت تک کے لیے چیلنج کیا ہے کہ کوئی اسکی سند کا ضعف ثابت کرکے دکھائے ۔
جمشید صاحب ! معین کے اس جواب پر میں نے اسی وقت کچھ صرف اس لیے نہیں لکھا تھا کہ طحاوی دوراں بھی اپنا شوق پورا کرلیں ۔ اور وہی ہوا جسکا یقین تھا کہ طحاوی دوراں نے ابو حنیفہ کی تقلید چھوڑ کر معین کی تقلید شروع کر دی اور بے سند بات پر اترا رہے ہیں !
اور دبے لفظوں میں یہ کہہ بیٹھے ہیں کہ میرے پاس رفیق طاھر کے اعتراض کا جواب نہیں جو معین نے پیش کردیا ہے وہی میری طرف سے بھی سمجھ لیں
جناب جمشید صاحب !
اب ہم آپ ہی کے الفاظ آپکی جانب متوجہ کرتے ہیں کہ
اب اگرکسی کے پاس دلیل نام کی کوئی شے ہو توپیش کرے ورنہ اسی طرح لفظوں کے طوطامینااڑاتارہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
ابن دائو د کے اس پورے پوسٹ میں سوائے لفاظی اورچرب زبانی کے کچھ بھی نہیں ہے۔ رفیق طاہر صاحب کااوران کی تقلید میں ابن دائود کا جواعتراض تھا کہ امام ابوحنیفہ نے اگر عطاء بن ابی رباح کو سب سے افضل قراردیاہے تووہ تابعی نہیں ہوسکتے کیوں کہ صحابی تابعی سے افضل ہوتاہے اس کا بہتر جواب معین صاحب نے دے دیاہے ۔ کہ ایوب سختیانی وغیرہ سے بھی اسی قسم کا قول منقول ہے باوجود اس کے کہ وہ کوئی تابعی ہیں۔ اورسابق میں میں نے بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے ایک نقل پیش کی تھی جس کا مفاد بھی یہی ہے کہ اس طرح کے کمزور اورلچردلائل امام ابوحنیفہ کی تابعیت کے عدم ثبوت میں قابل لحاظ نہیں ہیں۔
اب اگرکسی کے پاس دلیل نام کی کوئی شے ہو توپیش کرے ورنہ اسی طرح لفظوں کے طوطامینااڑاتارہے۔
ارے جمشید میاں! یہ کیا کیا آپ نے! آپ نے ایک ابھی پچھلی تحریر میں جو "اپنی ذاتی رائے " پیش کی تھی ، اب آپ پر اس توضیح کا بھی کھپ ہونا واضح ہو گیا ہے،
میراذاتی رجحان یہ ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ بنی امیہ کے ظلم وستم کی وجہ سے انہیں کچھ عرصہ مکہ میں گزارنا پڑا۔ اسی دوران انہوں نے حضرت عطاء ابن ابی رباح سے شرف تلمذ حاصل کیااوران کا یہ قول اگرچہ مطلق ہے لیکن تمام حالات پر نظرڈالنے سے پتہ چلتاہے کہ ان کے قول کا مطلب یہ ہے کہ میں نے مکہ کے مشائخ میں ان سے افضل نہیں دیکھا کیونکہ ان کے دیگر مشائخ میں بڑے بڑے اعاظم رجال ہیں جن کی تفصیل مناقب الائمہ الاربعہ لابن عبدالہادی اورتہذیب الکمال للمزی دیکھی جاسکتی ہے اوروہ کسی طورپر عطاء ابن ابی رباح سے شرف وفضیلت میں کم نہیں ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
اور میاں معین کے جواب کو بہترین قرار دے رہے ہو!! مگر میاں جمشید! میاں معین کو بھی اپنی پیش کردہ قول کو ثابت نہیں کر سکتے!! آپ کا حال تو وہ ہوا کہ، نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے!! آپ نے اپنی باتوں کا کھپ ہونا بھی قبول کر لیا۔ اور میاں معین کی تقلید میں اوندھے گرے!!

ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔
 

معین

رکن
شمولیت
اپریل 26، 2011
پیغامات
27
ری ایکشن اسکور
145
پوائنٹ
49
امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں وهيب بن خالد بن عجلان الباهلى مولاهم ، أبو بكر البصرى ، صاحب الكرابيس سے نقل کیا ہے کہ عَنْ أَيُّوْبَ - وَذَكَرَ القَاسِمَ - فَقَالَ:
مَا رَأَيْتُ رَجُلاً أَفْضَلَ مِنْهُ، وَلَقَدْ تَرَكَ مائَةَ أَلْفٍ وَهِيَ لَهُ حَلاَلٌ.

یہ قول بے سند ہے !
اس میں امام ذہبی سے لیکر وہیب بن خالد تک کوئی سند نہیں ہے !!!
جبکہ جوقول ہم نے پیش کیا ہے اسکے بارہ میں ہم نے قیامت تک کے لیے چیلنج کیا ہے کہ کوئی اسکی سند کا ضعف ثابت کرکے دکھائے ۔
جمشید صاحب ! معین کے اس جواب پر میں نے اسی وقت کچھ صرف اس لیے نہیں لکھا تھا کہ طحاوی دوراں بھی اپنا شوق پورا کرلیں ۔ اور وہی ہوا جسکا یقین تھا کہ طحاوی دوراں نے ابو حنیفہ کی تقلید چھوڑ کر معین کی تقلید شروع کر دی اور بے سند بات پر اترا رہے ہیں !
اور دبے لفظوں میں یہ کہہ بیٹھے ہیں کہ میرے پاس رفیق طاھر کے اعتراض کا جواب نہیں جو معین نے پیش کردیا ہے وہی میری طرف سے بھی سمجھ لیں
جناب جمشید صاحب !
اب ہم آپ ہی کے الفاظ آپکی جانب متوجہ کرتے ہیں کہ
السلام علیکم

یہ قول مع اسناد الفسوی کی المعرفۃ و التاریخ میں موجود ہے:
حدثنا سليمان قال: ثنا وهيب قال: سمعت أيوب وذكر القاسم بن محمد قال: رأيت عليه قلنسوة خز ما رأيت رجلاً أفضل منه، ولقد ترك مائة ألف وهو له حلال

اس کو الفسوی کے طریق سے ابن الجوزی نے المنتظم میں اور ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں روایت کیا ہے-

غالبا آپ حضرات نے میری پیش کردہ اس روایت پر غور نہیں کیا ہے:
أبا يحيى الحماني قال سمعت أبا حنيفة يقول ( 4 ) ما رأيت فيمن لقيت أفضل من عطاء- تاريخ دمشق و كذالك في السير
تهذيب 1-348
سير 5-55
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ کا قول ان افراد سے متعلق تھا جن سے ان کی ملاقات ہوئ تھی، نہ کی ان سے متعلق جنہیں انہونے محض دیکھا تھا-

و السلام
 

ASHFAQ AHMAD

مبتدی
شمولیت
دسمبر 23، 2011
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
0
اشفاق احمد صاحب کی وساطت سے جمشید عرف طحاوی صاحب کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دلائل کی وہ پٹاری کہاں گئی جس کے شروع مضمون میں راگ الاپے جارہےتھے ۔ ۔ ۔
ہم ان سے التماس کرتے ہیں کہ اپنی ساری پوسٹس کو بنظر عمیق پڑھ ڈالیں اور خلاصۃ لکھ دیں کہ یہ دلائل ہیں جو امام صاحب کی تابعیت کو ثابت کرنے کے لیےپیش کیے گئےہیں ۔ ۔ ۔
تاکہ اس کو اتنی لمبی بحث کا خاتمہ سمجھا جائے ۔ ۔ ۔
اللہ حافظ ۔ ۔ ۔

جمشید صاحب سے گزارش ہے کہ دلائل کے بارے میں سوچیں اس سطور کے راقم کی کھوج میں وقت ضائع نہ کریں ۔۔۔
میں نے قصدا ایسا کیا ہےتاکہ جمشید صاحب ذاتیات کے چکر میں پڑنے کی بجائے علمی بحث اگر کر سکتے ہیں تو کریں ۔
 

قاسم

مبتدی
شمولیت
مارچ 11، 2012
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
97
پوائنٹ
0
یار میں سب غیر مقلدوں سے پوچھتا ہوں کہ مجھے اس عبارت کا جواب دیں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ میں ایک قول نقل کیا ہے ملاحظہ فرمائیں :
قال الامام أحمد: وحدثنا عفان بن وهيب، ثنا خالد، عن عكرمة، عن أبي هريرة قال: ما احتذى النعال ولا انتعل، ولا ركب المطايا ولا لبس الثياب من رجل بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم أفضل من جعفر بن أبي طالب وهذا إسناد جيد

پوچھنا یہ ہے کہ کیا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کے ہاں ابوجعفر الطیار مطلقا تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل ہے جیسا آپ کور دماغ امام صاحب کے قول کو اسی پر محمول کرتے ہیں یا صرف سخاوت میں جیسا کہ خود حافظ ابن کثیر نےوضاحت کی ہے جیسا کہ وہ فرماتے ہے : وكأنه إنما يفضله في الكرم، فأما في الفضيلة الدينية فمعلوم أن الصديق والفاروق بل وعثمان بن عفان أفضل منه،
پوچھنا یہ ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
فأجمعوا أمرکم و شرکاءکم


کیا ہمارا کوئی بھائی بسند صحیح ایک روایت نقل کر سکتا ہے جس میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کسی صحابی سے لقاء یا رؤیت ثابت ہو ۔ ؟ ؟ ؟
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
السلام علیکم

یہ قول مع اسناد الفسوی کی المعرفۃ و التاریخ میں موجود ہے:
حدثنا سليمان قال: ثنا وهيب قال: سمعت أيوب وذكر القاسم بن محمد قال: رأيت عليه قلنسوة خز ما رأيت رجلاً أفضل منه، ولقد ترك مائة ألف وهو له حلال

اس کو الفسوی کے طریق سے ابن الجوزی نے المنتظم میں اور ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں روایت کیا ہے-

غالبا آپ حضرات نے میری پیش کردہ اس روایت پر غور نہیں کیا ہے:

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ کا قول ان افراد سے متعلق تھا جن سے ان کی ملاقات ہوئ تھی، نہ کی ان سے متعلق جنہیں انہونے محض دیکھا تھا-

و السلام
اصول ہے کہ جب کوئی قرینہ صارفہ ہو تو کلام کو اسکے اصل معنى سے پھیر دیتا ہے ۔ یا عام کو خاص اور مطلق کو مقید کر دیتا ہے ۔
اور یہاں قرینہ صارفہ موجود ہے کہ ایوب نے قاسم بن محمد سے زہد میں افضل نہیں دیکھا ۔
یار میں سب غیر مقلدوں سے پوچھتا ہوں کہ مجھے اس عبارت کا جواب دیں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ میں ایک قول نقل کیا ہے ملاحظہ فرمائیں :
قال الامام أحمد: وحدثنا عفان بن وهيب، ثنا خالد، عن عكرمة، عن أبي هريرة قال: ما احتذى النعال ولا انتعل، ولا ركب المطايا ولا لبس الثياب من رجل بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم أفضل من جعفر بن أبي طالب وهذا إسناد جيد

پوچھنا یہ ہے کہ کیا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کے ہاں ابوجعفر الطیار مطلقا تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل ہے جیسا آپ کور دماغ امام صاحب کے قول کو اسی پر محمول کرتے ہیں یا صرف سخاوت میں جیسا کہ خود حافظ ابن کثیر نےوضاحت کی ہے جیسا کہ وہ فرماتے ہے : وكأنه إنما يفضله في الكرم، فأما في الفضيلة الدينية فمعلوم أن الصديق والفاروق بل وعثمان بن عفان أفضل منه،
پوچھنا یہ ہے
اس سادگی پہ کون مرنہ جائے اے خدا​
ایک قول نقل کرکے اسکی توجیہ بھی نقل کردی "غلطی" سے ۔
اور اگر نہ بھی نقل کرتے تو بات وہی ہے کہ یہاں قرینہ موجود ہے ۔ اور کوئی قرینہ بھی نہ ہو ان ہستیوں کا اصحاب محمد صلى اللہ علیہ وسلم کو دیکھنا اور بوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کا افضل ہونا ہی قرینہ ہے کہ یہ کلام اپنی حقیقت پر محمول نہیں ہے ۔
آپ بھی ابوحنیفہ کی کسی صحابی سے ملاقات بسند صحیح ثابت کر دیں تو یہی تأویل انکے بارہ میں بھی کی جاسکتی ہے ۔ وگرنہ الفاظ کو انکی حقیقت پر ہی محمول کیا جائے گا !
فأجمعوا أمرکم و شرکاءکم


کیا ہمارا کوئی بھائی بسند صحیح ایک روایت نقل کر سکتا ہے جس میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کسی صحابی سے لقاء یا رؤیت ثابت ہو ۔ ؟ ؟ ؟
خوب سمجھ لیں ۔
 
Top