مولانا سید نذیرحسین صاحب اورنواب صدیق حسن خان
برصغیر کے یہ دوحضرات بھی امام ابوحنیفہ کی تابعیت کے انکار میں پیش قدم ہیں۔ ان کےانکار کی بنیاد اوردلائل کا بھی جائزہ لیتے چلیں تاکہ بات مکمل ہوسکے۔میاں نذیرحسین صاحب نے امام ابوحنیفہ کی تابعیت سے انکار پر معیارالحق میں تفصیلی کلام کیاہے ان کاجائزہ لیتے چلیں۔
میاں سید نذیرحسین صاحب
انہوں نے اپنی دلیل میں چھ حضرات کے نقول پیش کئے ہیں۔
1:شیخ محمد طاہر حنفی صاحب مجمع البحار
2:ملاعلی قاری
3:علامہ محمد اکرم حنفی
4:علامہ سخاوی
5:علامہ ابن خلکان
6:امام نووی
میاں صاحب فرماتے ہیںلیکن افسوس کہ انہوں نے تحقیق میں سنجیدگی اورمتانت کا وہ مظاہرہ نہیں کیا جس کی ان جیسے اہل علم سے امید تھی۔ انہوں نے اپنے مدعا کے موافق عبارتیں نقل کردیں لیکن اسی سے متصل وہ بات جوان کے مدعا کے خلاف ہوسکتی تھی اسے نقل نہیں کیا اورانتھی کہہ کرگزرگئے۔ ایک سنجیدہ محقق اوراہل علم کا طریقہ یہ ہوتاہے کہ وہ اپنے موضوع پر مالہ اورماعلیہ دونوں کا ذکر کرتے ہیں پھر اپنے خلاف پڑنے والی عبارتوں کا شافی جواب دیاکرتے ہیں۔اس کی بہترین مثال ہمیں علامہ زیلعی کی نصب الرایہ اورابن دقیق العید کی کتابوں میں ملتی ہے۔ یہ دونوں حضرات تعصب سے کوسوں دور ہیں۔ پوری سنجیدگی اورمتانت کے ساتھ کلام کرتے ہیں خواہ بات اپنے مسلک کے موافق ہویاخلاف ۔
بے شک یہ عبارت تذکرہ الموضوعات میں جامع الاصول کے حوالہ سے موجود ہے لیکن اسی صفحہ پر چند سطرپہلے یہ بھی مرقوم ہے۔یہ چاروں صحابی امام صاحب کے زمانہ میں موجود تھے لاکن ملاقات امام صاحب کی ان میں سے کسی سے یاروایت کرنی ان سے نزدیک اکثر ائمہ نقل کے ثابت نہیں ہوتی چنانچہ شیخ ابن طاہر حنفی صاحب مجمع البحار جن کی تحقیق سے فن حدیث واخبار میں علماء خوب واقف ہیں۔تذکرہ موضوعات میں فرماتے ہیں۔
وکان فی ایام ابوحنیفۃ اربعۃ من الصحابۃ رضوان اللہ علیھم اجمعین۔وھم انس بن مالک وعبداللہ بن ابی اوفی بالکوفہ وسھل بن سعد الساعدی بالمدینۃ ،وابوالطفیل عامر بن واثلۃ بمکۃ ولم یلق احدا منھم ولااخذ عنہ، واصحابہ یقولون لقی جماعۃ من الصحابہ وروی عنھم ولم یثبت ذلک عنداہل النقل۔
بطریقہ اختصار کے چاروں صحابی امام صاحب کے زمانہ میں موجود تھے لیکن ملاقات امام کی ان میں سے ایک سےبھی ثابت نہیں نزدیک ائمہ نقل کے۔(معیارالحق ص31)
قال الدارقطنی :لم یلق ابوحنیفۃ احدا من الصحابۃ ،انمارای انسابعینہ ولم یسمع منہ (تذکرۃ الموضوعات ص111)
دارقطنی نے کہاہے کہ ابوحنیفہ نے کسی صحابی سے ملاقات نہیں کی ہے البتہ حضرت انسؓ کی بچشم خود زیارت کی ہے لیکن ان سے کوئی حدیث نہیں سنی۔
حضرت مولانا سید نذیر حسین صاحب نے اپنے مدعاکے اثبات میں شیخ طاہر کے مجمع البحار سے بھی یہی عبارت نقل کی ہے۔ اوروہاں بھی دارقطنی کی تصریح سے جو امام صاحب کی رویت پر ہے ،کے ذکر سے گریز کیاہے۔ فرق صرف اتناہے کہ تذکرۃ الموضوعات مین اسی صفحہ پریہ عبارت موجود ہے جہاں سے میاں صاحب نے اپنی دلیل پکڑی ہے جب کہ مجمع البحار میں یہ دارقطنی کی عبارت دوسرے مقام پر ہے۔ دیکھئے مجمع البحار2/515،طبع نولکشورمزید لطف یہ ہے کہ خود جناب میاں نذیرحسین صاحب نے بھی معیارالحق میں آگے چل کر جہاں حضرت عبداللہ بن الحارث بن جزء کی روایت کے ثبوت پر کلام کیاہے ۔تذکرۃ الموضوعات کی وہ ساری عبارت جوامام صاحب کی روایت کی نفی پر تھی وہ نقل کردی۔لیکن انہوں نے اخرجہ ابن الجوزی فی الواہیات کے بعد انتہی کہہ دیا۔(معیارالحق42) مگر معابعد جو عبارت دارقطنی کی تھی جس میں حضرت دارقطنی کو دیکھنے کی صراحت تھی اس کے ذکر سے گریز فرمایا۔(دیکھئے۔تذکرۃ الموضوعات ص111)
تنبیہ :
دارقطنی کی عبارت جس میں امام صاحب کے حضرت انس کو دیکھنے کی صراحت ہے۔ وہ اولاحافظ سیوطی نے نقل کیاہے اورحافظ سیوطی سے ہی صاحب مجمع البحار نے نقل کیاہے۔
امام دارقطنی کی کتابوں کی جب تک اشاعت نہ ہوئی تھی تو علامہ کوثری کا خیال تھاکہ سیوطی نے جوعبارت نقل کی ہے اورتاریخ بغداد میں جو دارقطنی کا قول منقول ہے دونوں میں فرق ہے ۔خطیب بغدادی نے دارقطنی سے کسی بھی صحابی سے رویت اورروایت دونوں کی نفی کا قول نقل کیاہے۔ شیخ زاہد کوثری کا خیال تھاکہ صحیح عبارت سیوطی کی تبیض الصحیفہ کی ہے اورتاریخ بغداد کی رویت میں کسی نے تحریف وتبدل کردیاہے لاالارویتہ لاولارویتہ سے بدل دیاہے۔ یہ بات ایک حد تک قابل قبول ہوسکتی تھی لیکن اب جب کہ علم جرح وتعدیل پر دارقطنی سے متعلق کتابیں شائع ہوچکی ہیں جس میں سوالات السہمی وغیرہ قابل ذکر ہیں اوراس میں عبارت وہی ہے جو کہ خطیب بغدادی میں منقول ہے توصحیح بات یہی ہے کہ سیوطی سے یابعد کے کسی ناسخ سے غلطی ہوئی ہے۔
مولف لمحات نے تبییض الصحیفہ میں دارقطنی کی عبارت میں ردوبدل ہونے کا ٹھیکرا شیخ زاہد کوثری اوران کے معاونین کے سرپھوڑناچاہاہے ۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
حالانکہ یہی عبارت سیوطی کے واسطے سے علامہ طاہر پٹنی نے مجمع البحار اورتذکرۃ الموضوعات دونوں میں نقل کیاہے۔ اس سے یہ الزام بھی دفع ہوجاتاہے کہ اس تحریف کا الزام شیخ زاہد کوثری کے سر ڈالنا خواہ مخواہ کی بدگمانی اوردل میں چھپے مرض کی علامت ہے۔تبییض الصحیفہ والی عبارت میں یقیناتخلیط وتصحیف اورتحریف ہوگئی ہے۔ خواہ یہ تخلیط اورتحریف وتصحیف سیوطی کے قلم سے ہوئی ہو یاکاتب وناقل کے قلم سے۔ ظن غالب یہ ہے کہ اس طرح کی کارستانی کوثری اوراراکین تحریک کوثری کے ہم مزاج لوگوں کی ہی کارفرمائی ہے۔(لمحات211)
میاں صاحب لکھتے ہیں۔
اس پر علامہ عبدالشہید نعمانی لکھتے ہیں۔اورملاعلی قاری نے بیچ شرح شرح نخبۃ الفکر کے لکھاہے کہ علامہ سخاوی صاحب مقاصد الحسنہ سے کہ قول معتمد یہی ہے کہ امام ابوحنیفہ کو کسی صحابی سے روایت کرنی ثابت نہیں اورایساہی ذک رکیاعلامہ محمد اکرم حنفی نے بیچ حاشیہ نخبۃ الفکر کے علامہ سخاوی سے(معیارالحق ص31)
بلاشبہ یہ دونوں حوالے صحیح ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ علامہ سخاوی کے نزدیک قول معتمد یہی ہے کہ امام صاحب کی روایت کسی صحابی سے ثابت نہیں لیکن اس سے میاں صاحب کا اصل مدعا جو امام صاحب کے تابعی ہونے کی نفی ہےکب ثابت ہوا۔ محدث سخاوی کی جس کتاب سے ملاعلی قاری اورعلامہ محمد اکرم حنفی سندھی نے قول مذکور نقل کیاہے۔ اس مین خود امام صاحب کے تابعی ہونے کی صراحت موجود ہے۔ چنانچہ ہم سابق میں ان کے یہ الفاظ نقل کرچکے ہیں کہ
وفی الخمیسن ومائۃ من السنین الامام المقلد احد عن من التابعین ابوحنیفۃ النعمان بن ثابت الکوفی (فتح المغیث4/341)
یعنی امام ابوحنیفہ بھی ان حضرات میں سے ہیں جن کا شمار تابعین میں کیاجاتاہے اورجب علامہ سخاوی نے امامصاحب کے تابعی ہونے کی صاف الفاظ میں تصریح کردی تو اب اس سے انکار کی کیاگنجائش رہی۔ پھرمیاں صاحب کا یہ طرز عمل بھی خوب ہے کہ عالی اورنازل کی بحث میں توانہوں نے ملاعلی قاری حنفی اورعلامہ محمد اکرم حنفی کی شرح شرح نخبہ کو ملاحظہ فرمالیا۔لیکن ان دونوں حضرات نے تابعی کی بحث میں جوکچھ ارقام فرمایاہے اس سے بالکل صرف نظرفرمایا۔(تابعیت امام ابوحنیفہ ص39)
میاں صاحب نے اپنے موقف کے اثبات میں ملاعلی قاری کا حوالہ دیاہے لیکن میاں صاحب نے اس پیمانے کے علمی سنجیدگی اورمتانت کااظہار نہیں کیاجوان جیسے بزرگ شخصیت سے متوقع تھی ۔
انہوں نے ملاعلی قاری کی جس عبارت کاحوالہ دیاہے وہ دراصل امام صاحب کی حضرات صحابہ سے روایت کے بارے میں ہے۔ جہاں تک امام صاحب کے تابعی ہونے کی بات ہے توملاعلی قاری امام صاحب کوتابعی مانتے ہیں ۔ اگرمیاں صاحب اسی بحث کو عالی ونازل میں ملاحظہ کرنے کے بجائے تابعی کی بحث جو اصل مقام ہے امام صاحب کے تابعی ہونے اورنہ ہونے کا تووہاں ان کو یہ عبارت لکھی ہوئی صاف نظرآجاتی۔
التابعی ھومن لقی الصحابی ھذا ھوالمختار قال العراقی وعلیہ عمل الاکثرین وقد اشارالنبی صلی اللہ علیہ وسلم الی الصحابی والتابعی بقولہ "طوبی لمن راٰنی ولمن رای من راٰنی:فاکتفی بمجرد الرویۃ ۔قلت:وبہ یندرج الامام الاعظم فی سلک التابعین فانہ قدراٰی انسا وغیرہ من الصحابۃ علی ماذکرۃ الشیخ الجزری فی اسماء رجال القراء والتوربشتی فی تحفۃ المسترشد وصاحب کشف الکشاف فی سورۃ المومنین وصاحب مراۃ الجنان وغیرھم من العلماء المتبحرین فمن نفی انہ تابعی فامامن التتبع القاصر اوالتعصب الفاتر(اقامہ الحجۃ علی ان الاکثار فی التعبد لیس ببدعۃ ص87)
میاں صاحب نے اپنے موقف کے اثبات میں ابن خلکان کابھی حوالہ دیاہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں ۔تابعی وہ ہے جسے صحابی سے لقاء(رویت)حاصل ہو ۔یہی مختار قول ہے۔ عراقی کہتے ہیں کہ اسی پر اکثرکا عمل ہے اوراسی کی جانب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی اورتابعی کیلئے اشارہ کیاہے۔ بہتری ہو اس کیلئے جس نے مجھے دیکھااوراس کیلئے جس نے میرے دیکھنے والے کو دیکھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف رویت پراکتفاء فرمایا۔میں کہتاہوں کہ تابعین کی لڑی میں امام اعظم بھی مندرج ہوتےہیں کیونکہ انہوں نے حضرت انس اوردیگر صحابہ کرام کو دیکھاجیساکہ شیخ جزری نے اسماء رجال القراء اورتوربشتی نے تحفۃ المسترشد اورصاحب کشف الکشاف نے سورہ مومنین میں اورصاحب مراۃ الجنان اوردیگر علماء متبحرین میں ذکر کیاہے توجس نے بھی امام ابوحنیفہ کے تابعی ہونے کی نفی کی ہے تواس کی وجہ صرف یہی رہی ہے یاتواس نے تحقیق وتلاش میں کم ہمیتی سے کام لیایاتعصب کی زیادتی نے اس کو اس پر آمادہ کیا۔
اورقاضی علامہ شمس الدین ابن خلقان نے بھی ایساہی افادہ فرمایاہے ۔چنانچہ وفیات الاعیان میں فرماتے ہیں ۔
ادرک ابوحنیفۃ اربعۃ من الصحابۃ رضوان اللہ علیھم اجمعین۔وھم انس بن مالک وعبداللہ بن ابی اوفی بالکوفہ وسھل بن سعد الساعدی بالمدینۃ ،وابوالطفیل عامر بن واثلۃ بمکۃ ولم یلق احدا منھم ولااخذ عنہ، واصحابہ یقولون لقی جماعۃ من الصحابہ وروی عنھم ولم یثبت ذلک عنداہل النقل۔(معیار الحق ص31)
یہاں بھی میاں صاحب نے آگے کی عبارت جو ابن خلکان نے خطیب بغدادی کے واسطے سے نقل کی تھی۔
وذکر الخطیب فی تاریخ بغداد انہ رای انس بن مالکؓ(وفیات الاعیان 406/5)کے ذکر سے گریز فرمایاہے۔
میاں صاحب نے اپنے موقف کے اثبات پر امام نووی کی عبارت کابھی حوالہ دیاہے لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ ابواسحاق شیرازی کی عبارت جو روایت کی نفی میں ہے اسے بیان کردیا اورخطیب بغدادی کی روایت جو حضرت انس کی رویت کے اثبات میں ہے اس کے ذکر سے گریز فرمایا۔دیکھئے سید میاں نذیرحسین صاحب لکھتے ہیں۔
اس کا حوالہ جیساکہ ماقبل میں بھی گزرچکاہے اس میں صرف روایت کی نفی ہے لیکن اس سے متصل امام نووی نے جو عبارت خطیب بغدادی کی ذکر کی ہے ۔میاں صاحب نے یہاں بھی اس کے ذکر سے گریز کیاہے۔اورامام نووی شارح صحیح مسلم تہذیب الاسماء میں فرماتے ہیں"
قال: الشیخ ابواسحق فی الطبقات ھوالنعمان بن ثابت بن زوطی ابن ماہ مولی تیم اللہ بن ثعلبہ ،ولد سنۃ ثمانین من الھجرۃ،وتوفی ببغداد سنۃ خمسین ومائۃ وھوابن سبعین سنۃ ۔اخذ الفقہ من حماد بن ابی سلیمان فکان فی زمانہ اربعۃ من الصحابۃ انس بن مالکؓ وعبداللہ بن ابی اوفی وسھل بن سعد وابوالطفیل ولم یاخذ عن احد منھم ۔انتھی(معیارالحق31)
وذکر الخطیب بغدادی فی التاریخ ھوابوحنیفۃ التیمی امام اصحاب الرای وفقیہ اھل العراق رای انس بن مالک وسمع عطاء بن ابی رباح (تہذیب الاسماء2/217)
تنبیہ:میاں صاحب نے اپنی کتاب میں رویت اورروایت دونوں کی نفی کی ہے۔اس لئے ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ اہل علم کے سنجیدہ اورمحتاط طریقہ کار کے مطابق مالہ اورماعلیہ دونوں کا ذکر کرتے لیکن افسوس انہوں نے انہوں نے ایسانہیں کیا۔خطیب بغدادی نے تاریخ مین ذکر کیاہے کہ وہ ابوحنیفہ التیمی اصحاب الرای کے امام ہیں اورعراقیوں کے فقیہ ہیں انہوں نے انس بن مالک کودیکھاہے اورعطاء بن ابی رباح سے سناہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔