• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام اور مقتدی کے لیے قرات کا واجب ہونا، حضر اور سفر ہر حالت میں، سری اور جہری سب نمازوں میں

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
محترم بھائی اپ نے اس حدیث کی وضاحت نھیں کی، ( عن ابی ھریرہ ان رسول اللہ قال من ادرک رکعۃ من الصلاۃ فقد ادرکھا قبل ان یقیم الامام صلبہ ،،،دارقطنی ،ص،348) ،،،،،اس حدیث میں غور کرو کہ جس نے امام کی پشت سیدھی ھونے سے پیلے امام کو رکوع میں پالیا تو اس نے رکعت پالی،
اس کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ جیسے قیام نماز میں فرض ہے اور قیام کے بغیر نماز نہیں ہوتی ، اس میں کسی کا اختلاف بھی نہیں ہے ۔لیکن اگر ایک امام کسی عذر کی بناء پر بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تمام مقتدی بیٹھ کر نماز پڑھیں گے ۔ اب قیام فرض ہے لیکن یہاں پر امام کی متابعت میں تمام مقتدیوں پر بھی قیام ساقط ہے ۔ اسی طرح یہ والی روایات جس میں کہا گیا ہو کہ " من ادرک الرکوع فقد ادرک رکعت " زیادہ تر سنداً کمزور ہے ، پھر بھی اگر اس کو حسن مان لیا جائے تو بعینہ یہاں پرجب امام رکوع کی حالت میں ہو تو مقتدی کے لیے فاتحہ مستثناء ہے ،
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ فاتحہ فرض ہے ۔
اور یہی بات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہی ہے کہ اگر کوئی رکوع کی حالت میں پالے تو اس کی رکعت ہوگئی ۔ اس میں کیا اشکال ہے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں پر استثناء بیان فرمایا تو مان لینا چاہئیے نہ کہ اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے چاہیئے ۔
فلاوربک لایومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ۔۔۔۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
حضرت ابو ہریرہ راضی اللہ نے ووہی بات بیان کی جس پر ان کا عمل تھا . اگر ان کے اس عمل پر کوئی اعترض ہوتا تو ضرور کوئی اور صحابی اس پر اعترض کرتا .
اگر آپ کے پاس اس حدیث پر کوئی جرح ہے تو پیش کریں. اور یہ حدیث سنن ابو داوود میں بھی صحیح سند کے ساتھ روایت ہوئی ہے

fatiha-1.jpg
یہ حدیث سنن نسائی میں بھی آئ ہے
کتاب سنن نسائی جلد 1 حدیث نمبر 912
قتیبہ، مالک، العلاء بن عبدالرحمن، ابوسائب، ہشام ابن زہرة، ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص نماز پڑھے اور اس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھے وہ ناقص ہے وہ ناقص ہے وہ ناقص ہے ہرگز پوری نہیں ہے حضرت ابوسائب نے فرمایا کہ میں نے ابوہریرہ سے دریافت کیا کہ میں کبھی کبھی امام کی اقتداء میں ہوتا ہوں تو میں سورہ فاتحہ کس طریقہ سے پڑھوں؟ انہوں نے فرمایا اور پھر میرا ہاتھ دبایا اور ارشاد فرمایا اے فارسی اپنے دل میں پڑھ لے اس لئے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ خداوند قدوس فرماتا ہے نماز میرے اور بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم ہوگئی ہے تو نماز آدھی میرے واسطے ہے اور آدھی میرے بندے کے واسطے ہے اور میرا بندہ جو مانگے وہ اس کے واسطے موجود ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس وقت بندہ کہتا ہے (اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ) تمام تعریف خدا کے واسطے ہے جو کے مالک ہے تمام جہان کا تو خداوند قدوس فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری تعریف کی ہے پھر بندہ کہتا ہے الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ بہت مہربان اور نہایت رحم والا تو خداوند قدوس فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف بیان کی پھر بندہ کہتا ہے مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ مالک ہے بدلہ کے دن کا ۔ تو خداوند قدوس ارشاد فرماتا ہے۔ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اس کے بعد بندہ کہتا ہے إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ میرے اور بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے واسطے ہے کہ وہ جو کچھ مانگے پھر بندہ کہتا ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ یعنی ہم کو سیدھا راستہ دکھلا دے۔ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ان لوگوں کا راستہ کہ جن پر تو نے اپنا فضل وکرم کیا۔ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ۔ یعنی نہ کہ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو ناراض ہوا وہ گمراہ ہو گئے۔ مذکورہ تین آیت کریمہ بندوں کے واسطے ہے وہ جو سوال کرے وہ موجود ہے۔
یہ حدیث ترمذی میں بھی آئ ہے​
کتاب جامع ترمذی جلد 2 حدیث نمبر 861
قتیبہ ، عبدالعزیز بن محمد، علاء بن عبدالرحمن، عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی اسکی نماز ناقص ہے نامکمل ہے۔ راوی کہتے ہیں میں نے عرض کیا اے ابوہریرہ رضی اللّہ تعالی عنہ کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں تو کیا کروں؟ انہوں نے فرمایا اے فارسی کے بیٹے دل میں پڑھا کرو۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی فرماتا ہے میں نے اپنے بندے کی نماز کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک حصہ اپنے لیے اور ایک اس بندے کے لئے۔ پھر میرا بندہ جو مانگے وہ اس کے لیے ہے۔ چنانچہ جب بندہ کھڑا ہو کر (الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ) پڑھتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے میرے بندے نے میری حمد بیان کی۔ جب (الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ) پڑھتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے میرے بندے نے میری ثناء بیان کی جب (مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ) کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعظیم کی۔ اور یہ خالصتاً میرے لئے ہے اور میرے، اور میرے بندے کے درمیان ہے۔ پھر (إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ) سے آخر تک میرے بندے کے لئے ہے اور اس کے لئے وہی ہے جو وہ یہ کہتے ہوئے مانگے (اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ) یہ حدیث حسن ہے۔ شعبہ، اسماعیل بن جعفر اور کئی راوی علاء بن عبدالرحمن سے وہ اپنے والد سے وہ ابوہریرہ رضی اللّہ تعالی عنہ سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی کی مانند نقل کرتے ہیں۔ پھر ابن جریح اور مالک بن انس بھی علاء بن عبدالرحمن سے وہ ابوسائب سے (جو ہشام کے مولی) ہیں وہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی کی مانند نقل کرتے ہں۔ نیز ابن ادریس اپنے والد سے اور وہ علاء بن عبدالرحمن سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میرے والد اور ابوسائب نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اسی کی ہم معنی روایت کی ہے۔
یہ حدیث سنن ابن ماجہ میں بھی آئ ہے​
کتاب سنن ابن ماجہ جلد 1 حدیث نمبر 838
ابوبکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیّہ، ابن جریج، علاء بن عبدالرحمن بن یعقوب، ابوالسائب، حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے نماز میں ام القرآن نہ پڑھی اس کی نماز ناقص و ناتمام ہے (راوی کہتے ہیں) میں نے عرض کیا اے ابوہریرہ! میں بسا اوقات امام کے پیچھے ہوتا ہوں تو آپ نے میرا بازو دبایا اور (آہستگی سے) فرمایا (ایسی صورت میں) اس کو اپنے دل ہی دل میں پڑھ لیا کر ۔
کتاب سنن ابن ماجہ جلد 3 حدیث نمبر 665
ابومروان محمد بن عثمان عثمانی، عبدالعزیزبن ابی حازم، علاء بن عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں میں نے نماز اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کر دی۔ لہذا آدھی میرے لئے ہے اور آدھی میرے بندے کیلئے ہے اور میرا بندہ جو مانگے اسے ملے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پڑھو ! بندہ کہتا ہے (الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ) تو اللہ عزوجل فرماتے ہیں حَمِدَنِي عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ میرے بندہ نے میری حمد بیان کی اور میرا بندہ جو مانگے اسے ملے گا (دنیا میں ورنہ آخرت میں) پھر بندہ کہتا (الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ) تو اللہ تعالی فرماتے ہیں أَثْنَی عَلَيَّ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ میرے بندہ نے میری ثناء بیان کی اور میرا بندہ جو مانگے اسے ملے گا۔ بندہ کہتا ہے (مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ) تو اللہ تعالی فرماتے ہیں مَجَّدَنِي عَبْدِي فَهَذَا لِي وَهَذِهِ الْآيَةُ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ میرے بندہ نے میری بزرگی بیان کی۔ یہاں تک کا حصہ میرا تھا اور آئندہ آیت میرے اور بندہ کے درمیان مشترک ہے۔ بندہ کہتا ہے ( إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ) یہ آیت ہے جو میرے اور بندہ کے درمیان مشترک ہے اور میرا بندہ جو مانگے اسے ملے گا اور سورہ کا آخری حصہ میرے بندے کیلئے ہے۔ بندہ کہتا ہے (اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ فَهَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ) یہ میرے بندے کیلئے ہے اور میرے بندے نے جو مانگا اسے ملے گا۔
اور سنن ابو داوود میں ایک اور حدیث بھی آئ ہے صحیح سند کے ساتھ
fatiha-2.jpg
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اس حدیث میں الله کے نبی نے "من" کا لفظ استمعال کیا ہے - جو عربی میں عرف عام کے لئے استمعال ہوتا ہے - یعنی نمازی چاہے امام ہو یا مقتدی ہو یا اکیلا ہو ، مرد ہو یا عورت ہو، نماز فرض ہو یا واجب یا نفل ہو ہر صورت میں "فاتحہ پڑھنا لازم ہے - اس کا بغیر نماز ادھوری ہے -
پھر رکوع ، سجود، ثنا، تشہد، یہ تمام چیزوں میں بھی امام صاحب کو کام چلانے دیا کریں، یہ کیوں کرتے ہیں؟
عن عبادۃ بن الصامت قال کنا خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوٰۃ الفجر فقرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فثقلت علیہ القراۃ فلما فرغ قال لعلکم تقرءون خلف امامکم قلنا نعم ہذا یارسول اللہ قال لا تفعلوا الابفاتحۃ الکتاب فانہ لا صلوٰۃ لمن لم یقرا ءبھا۔ ( ابوداؤد، ج1، ص: 119، ترمذی، ج1، ص: 41 وقال حسن )
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فجر کی نماز میں ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے آپ نے جب قرآن شریف پڑھا توآپ پر پڑھنا مشکل ہوگیا۔ جب آپ ( نمازسے ) فارغ ہوئے تو فرمایا کہ شاید تم اپنے امام کے پیچھے ( قرآن پاک سے کچھ ) پڑھتے رہتے ہو۔ ہم نے کہا، ہاں یا رسول اللہ! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا کہ یادرکھو سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی اور حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو حسن کہاہے۔
پہلے اس بات کو صراحتاً ثابت کریں کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام نے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی تھی۔ علاوہ ازیں یاد رہے کہ واقعہ اسراء ومعراج مکی دور کا ہے۔
حضرت جابر بن عبدللہ رضی اللہ عنہ کی پیش کردہ روایت میں امام کے قرآن پڑھنے کے دوران خاموشی اختیار کرنے کو کہا گیا ہے - جب کہ سوره الفاتحہ ایک دعا ہے -
کیا سورۃ فاتحہ قرآن نہیں ؟
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا صلیتم فاقیمو صفو فکم ثم لیسومکم احدکم فاذا کبر فکبر واذا قرء فانصیتوا واذا قرء غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقولوا آمین یحبکم اللہ۔
صحیح مسلم ، التشہد فی الصلاۃ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ھے کہ جب تم نماز پڑھنے لگو تو صفوں کو سیدھا کرلیا کرو ، پھر تم میں سے کوئی ایک امامت کرائے، جب امام تکبیر کئے تو تم بھی تکبیر کہو ، جب وہ قرآن پڑھنے لگے تو تم خاموش ہوجاؤ اور جب وہ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہہ لے تو تم آمین کہو۔ اسطرح کرنے سے اللہ تم سے محبت رکھے گا۔
صحیح مسلم کی حدیث جو آپ نے پیش کی ہے اس میں قرآن پڑھنے کے وقت خاموشی اختیار کرنے کو کہا گیا ہے - سوره الفاتحہ اس سے مستثنیٰ ہے-
و اس حدیث کے فورا بعد امام ترمذی نے اگلے باب میں بھی دو احادیث پیش فرمائی ہیں اور ان میں سے ایک کو حسن اور دوسری کو حسن صحیح قرار دیا ہے۔
دیکھئے
حدثنا الأنصاري حدثنا معن حدثنا مالك بن أنس عن ابن شهاب عن ابن أكيمة الليثي عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة فقال هل قرأ معي أحد منكم آنفا فقال رجل نعم يا رسول الله قال إني أقول مالي أنازع القرآن قال فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم من الصلوات بالقراءة حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم قال وفي الباب عن ابن مسعود وعمران بن حصين وجابر بن عبد الله قال أبو عيسى هذا حديث حسن
سنن الترمذي،کتاب الصلاۃ
ترجمہ
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اک مرتبہ جہری نماز سے فارغ ہوئے اور فرمایا کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قراءت کی ہے؟ ایک شخص نے عرض کیا ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تب ہی تو میں کہتا ہوں کہ مجھ سے قرآن میں جھگڑا کیوں کیا جاتا ہے۔راوی کہتے ہیں پھر لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہری نمازوں میں قراءت سے رک گئے۔اس باب میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، عمران بن حصین رضی اللہ عنہ، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایات مروی ہیں۔ امام ابو عیسٰی ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے۔
پس ثابت یہ ہوتا ہے کہ پہلے سورۃ فاتحہ پڑھنے کی اجازت تھی بعد میں منع کردیا گیا اور مندرجہ بالا حدیث میں بھی یہی ظاہر ہے کہ
قال فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم من الصلوات بالقراءة حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم
راوی کہتے ہیں پھر لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہری نمازوں میں قراءت سے رک گئے
دوسری حدیث جو امام ترمذی رحمہ اللہ لائے ہیں اس سے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی کو قراءت نہیں کرنی سوائے اکیلے نمازی کے۔
حدثنا اسحٰق بن موسٰی الانصاری نا معن نا مالک عن ابی نعیم وھب ابن کیسان انہ سمع جابر بن عبداللہ یقول من صلی رکعۃ ثم یقرا فیھا بام القران فلم یصل الا یکون وراء الامام۔ ھذٰا حدیث حسن صحیح۔
ترمذی جلد اول صفحہ 212
ترجمہ
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جس نے اک رکعت بھی سورۃ فاتحہ کے بغیر گویا کہ اس نے نماز ہی نہیں پڑھی سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
حدیث نمبر1
واذا قرء فانصیتوا واذا قرء غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقولوا آمین
صحیح مسلم ، التشہد فی الصلاۃ
جب وہ (امام)قرآن پڑھنے لگے تو تم خاموش ہوجاؤ اور جب وہ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہہ لے تو تم آمین کہو۔
حدیث نمبر 2
عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،انما جعل الامام لیؤتم بہ فاذا کبر فکبروا واذا قراء فانصتوا
سنن ابن ماجۃ صفحہ 61،سنن النسائی جلد 1 صفحہ146
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ارشاد گرامی نقل فرماتے ہیں کہ امام اسلئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے اس لئے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور وہ قراءت کرے تو تم خاموش رہو۔
حدیث نمبر3
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : کل صلاۃ لایقراء فیھا باءم الکتاب فھی خداج الا صلاۃ خلف امام
کتاب القراءۃ للبیہقی صفحہ 170،171
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک نقل فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر وہ نماز جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ نامکمل ہے مگر وہ نماز (نامکمل نہیں) جو امام کے پیچھے پڑھی جائے۔
ابوداؤد کی اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے اور اسی حوالے سے اوپر کچھ گزارشات پیش کردی ہیں اور یہاں چونکہ آپ نے صرف ابوداؤد کی صحیح حدیث لکھا ہے اسلئے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ کچھ اپنی طبیعت سے ھٹ کر لکھوں تاکہ دیکھنے پڑھنے والے آپ کے لکھے کو پڑھ کر کہ "ابوداؤد کی صحیح حدیث"،مغالطہ میں نہ پڑ جائیں۔ناچاھتے ہوئے بھی لکھ رہا ہوں کہ
مزکورہ حدیث کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔
اب آپ سے پہلی گزارش ہے کہ خود آپ کے نزدیک غیر صحیح حدیث کو صحیح نہ کہیں ہاں امام ترمذی رحمہ اللہ نے "حسن" کہا ہے تو ٹھیک ہے ۔ مگر ترمذی کی ہی دو مزید احادیث میں نے پیش کردی ہیں جنہیں امام ترمذی رحمہ اللہ نے "حسن" اور "حسن صحیح" قرار دیا ہے جن سے ترک قراءت خلف الامام ثابت ہورہی ہے۔
 

abulwafa80

رکن
شمولیت
مئی 28، 2015
پیغامات
64
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
57
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

اگر کوئی شخص نماز جماعت میں اس وقت شامل ہو جب کہ امام سورہ الفاتحہ پڑھ چکا ہو تو مقتدی کیا کرے سورہ پڑھے گا یا نہی
برائے مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں بڑی مہربانی ہوگی
 
Top