السلام علیکم
کیا مقتدی ہر فرض نماز میں امام کی پیچہے سوره فاتحہ کی تلا وت کر سکتا ہے
یا پہر کن نمازوں میں کر سکتا ہے اور کس میں نہیں
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
نماز خواہ کوئی بھی ہو فرض ہو یا نفل ،جہری ہو یا سری ،مقتدی کو امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ بہرصورت پڑھنا ہوگی ،
امام بخاریؒ صحیح البخاری میں باب منعقد کرتے ہیں :
( بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ وَمَا يُجْهَرُ فِيهَا وَمَا يُخَافَتُ:
باب: امام اور مقتدی کے لیے قرآت کا واجب ہونا، حضر اور سفر ہر حالت میں، سری اور جہری سب نمازوں میں۔)
کیونکہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے : «
لاَ صَلٰوۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرأ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ»(جس نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی کوئی نماز نہیں ))(صحیح بخاری۔کتاب الاذان)
تو مقتدی کے لیے بھی نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے خواہ وہ امام کے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے ساتھ پڑھے خواہ پہلے خواہ بعد شریعت نے مقتدی کو ان تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت کا پابند نہیں بنایا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح صحیح حدیث ہے کہ :
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قال: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْضَ الصَّلَوَاتِ الَّتِي يُجْهَرُ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ فَقَالَ: " لَا يَقْرَأَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِذَا جَهَرْتُ بِالْقِرَاءَةِ إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ ".
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کچھ نمازیں پڑھائیں جن میں قرآت بلند آواز سے کی جاتی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب میں بآواز بلند قرآت کروں تو تم میں سے کوئی بھی سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھے“۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی 921 ،سنن ابی داود/الصلاة ۱۳۶ (۸۲۴) مطولاً، (تحفة الأشراف: ۵۱۱۶)، مسند احمد ۵/۳۱۳، ۳۱۶، ۳۲۲)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ، فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ الْقِرَاءَةُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ: " إِنِّي أَرَاكُمْ تَقْرَءُونَ وَرَاءَ إِمَامِكُمْ، قَالَ: " قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِي وَاللَّهِ، قَالَ: " فَلَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا "، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَعَائِشَةَ , وَأَنَسٍ , وَأَبِي قَتَادَةَ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍوَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُبَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الزُّهْرِيُّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ " قَالَ: وَهَذَا أَصَحُّ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ فِي الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ , وَابْنِ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيِّ , وَأَحْمَدَ , وَإِسْحَاق يَرَوْنَ الْقِرَاءَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ.
سیدنا عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فجر پڑھی، آپ پر قرأت دشوار ہو گئی، نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے فرمایا: ”مجھے لگ رہا ہے کہ تم لوگ اپنے امام کے پیچھے قرأت کرتے ہو؟“ ہم نے عرض کیا: جی ہاں، اللہ کی قسم ہم قرأت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”تم ایسا نہ کیا کرو سوائے سورۃ فاتحہ کے اس لیے کہ جو اسے نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبادہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- یہ حدیث زہری نے بھی محمود بن ربیع سے اور محمود نے عبادہ بن صامت سے اور عبادہ نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا: اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی، یہ سب سے صحیح روایت ہے،
۳ - اس باب میں ابوہریرہ، عائشہ، انس، ابوقتادہ اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- صحابہ اور تابعین میں سے اکثر اہل علم کا امام کے پیچھے قرأت کے سلسلے میں عمل اسی حدیث پر ہے۔ ائمہ کرام میں سے مالک بن انس، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول بھی یہی ہے، یہ سبھی لوگ امام کے پیچھے قرأت کے قائل ہیں ۱؎۔
(سنن الترمذي 311، سنن ابی داود/ الصلاة ۱۳۶ (۸۲۳)، (تحفة الأشراف: ۵۱۱۱)، مسند احمد (۵/۳۱۳، ۳۱۶، ۳۲۲) (حسن) امام ابن خزیمہؒ نے اس کو صحیح کہا ہے (۳/۳۶-۳۷) ترمذی، دارقطنی اور بیہقی نے حسن کہا ہے، امام ابنؒ حجرعسقلانی نے بھی اس کو نتائج الافکار میں حسن کہا ہے، ملاحظہ ہو: امام الکلام مولفہ مولانا عبدالحیٔ لکھنوی ص۷۷-۲۷۸، تراجع الالبانی۳۴۸)