• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام کے پیچهے قراءت کا مسئلہ

385mushahidi

مبتدی
شمولیت
مئی 25، 2018
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
2
السلام علیکم
کیا مقتدی ہر فرض نماز میں امام کی پیچہے
سوره فاتحہ کی تلا وت کر سکتا ہے
یا پہر کن نمازوں میں کر سکتا ہے
اور کس میں نہیں
تفصیلی جواب خواہشتگار ہوں؟
محمد صابر مشاہدی

Sent from my GT-I9300 using Tapatalk
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم
کیا مقتدی ہر فرض نماز میں امام کی پیچہے سوره فاتحہ کی تلا وت کر سکتا ہے
یا پہر کن نمازوں میں کر سکتا ہے اور کس میں نہیں
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
نماز خواہ کوئی بھی ہو فرض ہو یا نفل ،جہری ہو یا سری ،مقتدی کو امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ بہرصورت پڑھنا ہوگی ،
امام بخاریؒ صحیح البخاری میں باب منعقد کرتے ہیں :
( بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ وَمَا يُجْهَرُ فِيهَا وَمَا يُخَافَتُ:
باب: امام اور مقتدی کے لیے قرآت کا واجب ہونا، حضر اور سفر ہر حالت میں، سری اور جہری سب نمازوں میں۔)
کیونکہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے : «لاَ صَلٰوۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرأ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ»(جس نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی کوئی نماز نہیں ))(صحیح بخاری۔کتاب الاذان)
تو مقتدی کے لیے بھی نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے خواہ وہ امام کے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے ساتھ پڑھے خواہ پہلے خواہ بعد شریعت نے مقتدی کو ان تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت کا پابند نہیں بنایا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح صحیح حدیث ہے کہ :
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قال: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْضَ الصَّلَوَاتِ الَّتِي يُجْهَرُ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ فَقَالَ: " لَا يَقْرَأَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِذَا جَهَرْتُ بِالْقِرَاءَةِ إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ ".
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کچھ نمازیں پڑھائیں جن میں قرآت بلند آواز سے کی جاتی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب میں بآواز بلند قرآت کروں تو تم میں سے کوئی بھی سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھے“۔

تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی 921 ،سنن ابی داود/الصلاة ۱۳۶ (۸۲۴) مطولاً، (تحفة الأشراف: ۵۱۱۶)، مسند احمد ۵/۳۱۳، ۳۱۶، ۳۲۲)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ، فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ الْقِرَاءَةُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ: " إِنِّي أَرَاكُمْ تَقْرَءُونَ وَرَاءَ إِمَامِكُمْ، قَالَ: " قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِي وَاللَّهِ، قَالَ: " فَلَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا "، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَعَائِشَةَ , وَأَنَسٍ , وَأَبِي قَتَادَةَ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍوَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُبَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الزُّهْرِيُّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ " قَالَ: وَهَذَا أَصَحُّ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ فِي الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ , وَابْنِ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيِّ , وَأَحْمَدَ , وَإِسْحَاق يَرَوْنَ الْقِرَاءَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ.
سیدنا عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فجر پڑھی، آپ پر قرأت دشوار ہو گئی، نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے فرمایا: ”مجھے لگ رہا ہے کہ تم لوگ اپنے امام کے پیچھے قرأت کرتے ہو؟“ ہم نے عرض کیا: جی ہاں، اللہ کی قسم ہم قرأت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”تم ایسا نہ کیا کرو سوائے سورۃ فاتحہ کے اس لیے کہ جو اسے نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبادہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- یہ حدیث زہری نے بھی محمود بن ربیع سے اور محمود نے عبادہ بن صامت سے اور عبادہ نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا: اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی، یہ سب سے صحیح روایت ہے،
۳ - اس باب میں ابوہریرہ، عائشہ، انس، ابوقتادہ اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- صحابہ اور تابعین میں سے اکثر اہل علم کا امام کے پیچھے قرأت کے سلسلے میں عمل اسی حدیث پر ہے۔ ائمہ کرام میں سے مالک بن انس، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول بھی یہی ہے، یہ سبھی لوگ امام کے پیچھے قرأت کے قائل ہیں ۱؎۔

(سنن الترمذي 311، سنن ابی داود/ الصلاة ۱۳۶ (۸۲۳)، (تحفة الأشراف: ۵۱۱۱)، مسند احمد (۵/۳۱۳، ۳۱۶، ۳۲۲) (حسن) امام ابن خزیمہؒ نے اس کو صحیح کہا ہے (۳/۳۶-۳۷) ترمذی، دارقطنی اور بیہقی نے حسن کہا ہے، امام ابنؒ حجرعسقلانی نے بھی اس کو نتائج الافکار میں حسن کہا ہے، ملاحظہ ہو: امام الکلام مولفہ مولانا عبدالحیٔ لکھنوی ص۷۷-۲۷۸، تراجع الالبانی۳۴۸)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
قرأت فاتحہ خلف الامام فرض ہے یا نہیں؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ قرأت فاتحہ خلف الامام فرض ہے یا نہیں اور حدیث قرأت کی اصح و اثبت ہے یا حدیث عدم قرأت کی۔ بینوا توجروا
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرأت خلف الامام فرض ہے اور حدیث قرأت کی اعلیٰ درجہ کی صحیح و ثابت ہے اور حدیث عدم قرأت کی ضعیف وغیر صحیح ہے، بلوغ المرام میں ہے، عن عبادۃ بن الصامت قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا صلوۃ لمن لم یقرأ ایام القرآن متفق علیہ وفی روایۃ لابن حبان والدارقطنی لاتجزئ صلوۃ لا یقرأ فیہا بفاتحۃ الکتاب۔ یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ کہ جس نے نماز میں سورت فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں اور ابن حبان اور دارقطنی کی روایت میں ہے کہ جس نماز سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ نماز کافی نہیں۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے عام طو رپر فرما دیا کہ جو شخص مقتدی ہو یا امام یا منفرد نماز میں سورت فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔ پس ثابت ہوا کہ ہر نمازی کے لیے سورت فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے اور یہ حدیث متفق علیہ ہے ۔ اس وجہ سے اعلیٰ درجہ کی صحیح ہے اور مقتدیوں کو خاص طور پر بھی سورت فاتحہ امام کے پیچھے پڑھنے کو فرما دیا ہے،
چنانچہ ابوداد اور ترمذی وغیرہما میں عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ (جب امام پڑھ رہا ہو تو ) کچھ مت پڑھو، ہاں مگر سورت فاتحہ ضرور پڑھو، کیونکہ جس نے سورت فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں، یہ حدیث بھی صحیح ہے ، بہت سے محدثین نے اس کے صحیح ہونے کی تصریح کی ہے۔
اورجتنی حدیثیں قرأت فاتحہ خلف الامام کی ممانعت میں پیش کی جاتی ہیں ان میں جو حدیثیں صحیح ہیں ، ان سے ممانعت ثابت نہیں ہوتی اور جن سے ممانعت ثابت ہوتی ہے، وہ یا تو بالکل بے اصل ہیں یاضعیف و ناقابل احتجاج ہیں، علمائے حنفیہ میں سے صاحب تعلیق الممجد (مولانا عبدالحی حنفی لکھنویؒ)نے اس کی تصریح کردی ہے ، چنانچہ وہ لکھتے ہیں ۔ لم یرد فی حدیث مرفوع صحیح النہی عن قراء ۃ الفاتحۃ خلف الامام وکل ما ذکروہ مرفوعا فیہ اما لا اصل لہ واما لا یصح (تعلیق الممجد صفحہ101) یعنی کسی حدیث مرفوع صحیح میں قرأت فاتحہ خلف امام کی ممانعت نہیں وارد ہوئی ہے۔ اور ممانعت کے بارے میں علمائے حنفیہ جتنی مرفوع حدیثیں بیان کرتے ہیں یاتو وہ بے اصل ہیں یا صحیح نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ کوفہ والوں سے ایک قوم کے سوا باقی تمام لوگ قرأت فاتحہ خلف الامام کے قائل وفاعل ہیں،

عبداللہ بن مبارک جوبہت بڑے محدث اور فقیہ ہیں، فرماتے ہیں ۔ انااقرأ خلف الامام والناس یقرؤن الاقوم من الکوفیین (جامع الترمذی صفحہ 59) یعنی میں امام کے پیچھے قرأت کرتا ہوں اور تمام لوگ امام کے پیچھے قرأت کرتے ہیں، مگر کوفہ والوں میں سے ایک قوم اور خود علمائے حنفیہ میں سےبعض لوگوں نے ہرنماز میں(سری ہوخواہ شہری ) قرأت فاتحہ خلف امام کو مستحسن بتایا اور بعض لوگوں نےصرف نماز سری میں علامہ عینی شرح صحیح بخاری میں لکھتے ہیں: بعض اصحابنا یستحسنون ذلک علی سبیل الاحتیاط فی جمیع الصلوات و بعضہم فی السریۃ فقط و علیہ فقہاء الحجاز والشام انتہی
واللہ تعالیٰ اعلم۔کتبہ محمد عبدالرحمٰن المبارکفوری عفی عنہ
مہر شیخ الکل(سید محمد نذیرحسینؒ)


جلد 01
 
Top