• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امان الجامی کے ممدوح اخوانی حسن البنا کی حقیقت

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
535
ری ایکشن اسکور
170
پوائنٹ
77
امان الجامی کے ممدوح اخوانی حسن البنا کی حقیقت

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

جامیہ مدخلیہ فرقے سے تعلق رکھنے والے باطل پرست اپنے پر فریب کلام کے ذریعے عوام کو یہ باور کراتے ہیں کہ ان کے بابے منہجیت کے چیمپئن، اخوانیوں کا رد کرنے والے اور اخوانیت سے تحذیر کرنے والے ہیں! مدخلیوں کی اس قسم کی چکنی چپڑی باتوں کے جادو میں کمزور عقل والے گرفتار ہوجاتے ہیں اور جلد ہی مدخلی سرغون کے معتقد اور مقلد بن جاتے ہیں۔

لیکن مدخلیوں کی یہ سب باتیں مکرو فریب کے سوا کچھ نہیں کیونکہ جامیہ اور مداخلہ فرقے کا بانی امان الجامی اسی کے مثل باطل فرقے اخوان المسلمین کے بانی حسن البنا کی مدح سرائی کرنے والا اسے عوام کی اصلاح کے معاملے میں کامیاب ترین شخص سمجھنے والا بلکہ جامعہ الازہر کے کبار علماء سے بھی زیادہ کامیاب قرار دینے والا تھا۔

چنانچہ جامیہ مداخلہ فرقے کا بانی امان جامی کہتا ہے :

ليس معنى هذا أننا ننال من حسن البنا، وذكرت غير مرة أن لحسن البنا محاسن لا توجد عند الأزهريين الكبار، وهو ليس من كبار العلماء، هو طالب علم عادي، لكنه وفق في باب الإصلاح ما لم يوفق من هو أكثر منه علمًا.

کوئی یہ مطلب نہ نکالے کہ ہم حسن البنا کی برائی کرتے ہیں، میں نے ایک سے زیادہ مرتبہ ذکر کیا ہے کہ حسن البنا کے اندر ایسی خوبیاں ہیں جو جامعہ الازہر کے کبار علماء میں بھی نہیں ہوگی۔ حالانکہ وہ کبار علماء میں سے نہیں بلکہ وہ ایک عام طالب علم تھے، لیکن انہوں نے لوگوں کی اصلاح کرنے میں ایسی کامیابی حاصل کی کہ اس طرح کی کامیابی ان سے زیادہ علم رکھنے والے علماء کو بھی حاصل نہ ہو سکی۔


[قرة عيون السلفية بالأجوبة الجامية، ص: ٤١]

امان جامی کا یہ فتوی بر صغیر کے ان دیسی مدخلیوں کے لیے منہ پر زوردار تماچہ ہے جو اس امان جامی کو امام العقیدہ اور منہجیت کا علمبردار باور کراتے پھرتے ہیں حالانکہ یہ بدبخت ایک غالی اشعری بدعتی کے متعلق کہہ رہا ہے ليس معنى هذا أننا ننال من حسن البنا! یعنی کوئی یہ مطلب نہ نکالے کہ ہم حسن البنا کی برائی کرتے ہیں! جبکہ علماء نے مشرکوں اور بدعتیوں کی برائی کو جائز بلکہ ان کی اہانت کو جنت میں بلند درجہ پانے کا سبب بتایا ہے۔

فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ومن أهان صاحب بدعة رفعه الله فى الجنة مائة درجة
جو بدعتی کی اہانت کرے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں سو درجے بلند کردیتے ہیں۔ [طبقات الحنابلة، ج: ٢، ص: ٤٣]

لیکن کوئی مدخلی اپنے بابے امان جامی کو بچانے کے لئے "لا تسبوا الأموات فإنهم قد أفضوا إلى ما قدموا" والی روایت پیش کر اعتراض کر سکتا ہے کہ مردوں کو برا نہیں کہنا چاہئے، کیونکہ انہوں نے جو کچھ کیا اس کی سزا اور جزا کیلئے وہاں پہنچ چکے ہیں. تو مدخلیوں کا یہ روایت ایک گمراہ بدعتی مشرک سرغنے کے حق میں پیش کرنا باطل ہوگا۔

کیونکہ اس حدیث پر علامہ نووی رحمہ اللہ نے باب قائم کیا ہے:

تحريم سب الأموات بغير حق ومصلحة شرعية وهو التحذير من الاقتداء به في بدعته, وفسقه, ونحو ذلك

ناحق یا بغیر کسی شرعی مصلحت کے میت کو برا کہنا جائز نہیں ہے، اور شرعی مصلحت یہ ہے کہ بدعتی اور فاسق سے تحذیر کیا جائے تاکہ لوگ ان کی اقتدا نہ کریں۔


[رياض الصالحين، ص: ٤٤٤]

پس معلوم ہوا کہ مرنے والا اگر گمراہ بدعتی و فاسق ہو تو اسے برا کہا جائے گا اس بدعتی کی مذمت کی جائے گی تاکہ لوگ اس کی اقتدا نہ کرنے لگ جائے۔

علامہ ابن عثيمين اس کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

لنا الحق أن نسب الأموات الكافرين الذين آذوا المسلمين وقاتلوهم ويحاولون أن يفسدوا عليهم دينهم. أو مصلحة شرعية مثل أن يكون هذا الميت صاحب بدعة ينشرها بين الناس فهنا من المصلحة أن نسبه ونحذر منه ومن طريقته لئلا يغتر الناس به.

یہ ہمارا حق ہے کہ ہم کافروں کے مُردوں کو برا کہیں جنہوں نے مسلمانوں کو اذیت پہنچائی، ان سے قتال کیا، اور ان کے لیے ان کے دین میں فساد پھیلانے کی کوشش کی۔ یا شرعی مصلحت کے سبب بھی مردوں کو برا کہہ سکتے ہیں مثال کے طور پر اگر مرنے والا بدعت کی نشر واشاعت کرتا تھا تو یہاں مصلحت اس بات کی متقاضی ہے کہ ہم اسے برا کہیں، اور اس سے تحذیر کریں تاکہ لوگ اس بدعتی سے دھوکا نہ کھائیں۔


[شرح رياض الصالحين لابن عثيمين، ج: ٦، ص: ٢٣٠]

اور حسن البنا ایک گمراہ بدعتی تھا جو اللہ تعالیٰ کی صفت علو اور صفت فوق کا انکار کرتا تھا اور اس کی جماعت اخوانی بھی اسی گمراہ عقیدہ پر قائم تھی۔

شیخ ایمن بن سعود العنقری حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

فإنَّ حسن البنا نفى عن الله صفة العلو والفوقية ، وردَّ الآيات الواردة في ذلك ، كما في رسالته (العقائد) ، وأساء الأدب معها حين قال : (مما يؤخذ منه نسبة الجهة لله تبارك وتعالى .) فمؤسس الجماعة أشعري العقيدة ، وعلى ذلك قامت جماعة الإخوان المسلمين

حسن البنا نے اللہ کی صفت علو اور صفت فوق کی نفی کی ہے اور اس معنی کی آیات کو رد کیا ہے، جیسا کہ اس کی کتاب العقائد میں اس بات کا صراحت کے ساتھ ذکر ہے بلکہ قرآنی آیتوں کے ساتھ اس نے یہ کہہ کر بڑی بدسلوکی کی ہے ( اس سے اللہ کے لیے جہت کی نسبت بھی اخذ کی جاسکتی ہے) خلاصہ کلام یہ کہ اس جماعت کا بانی ومؤسس عقيدة اشعری تھا اور اسی عقیدہ پر اس کی جماعت قائم رہی۔


[الرد على زلات وتلبيسات عبد العزيز الطريفي]

حسن البنا بدعتی اللہ تعالیٰ کی صفت علو اور فوق کی نفی کرنے والا تھا جبکہ علو اللہ على خلقہ ایمان کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے جیسا کہ شيخ وليد السناني فک اللہ اسرہ فرماتے ہیں:

فعلو الله سبحانه على خلقه واستواؤه على عرشه أصل عظيم من أصول الإيمان، ولذلك كان النبي ﷺ يَخْتبرُ به الإيمان كما في صحيح مسلم -رحمه الله- أن النبي ﷺ سأل الجارية بقوله: أين الله؟ قالت: في السماء قال: من أنا؟ قالت: رسولُ الله فقال لسيدها: اعتقها فإنها مؤمنه

اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق سے علو اور عرش پر مستوی ہونا اصول ایمان میں سے ایک عظیم بنیاد ہے، اور اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ذریعہ سے ایمان کا امتحان لیا، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی سے پوچھا: اللہ کہاں ہے؟ اس نے کہا: آسمان میں، آپ نے پوچھا: میں کون ہوں؟ اس نے کہا: اللہ کے رسول! اس نے اس کے مالک سے کہا: اسے آزاد کر دو کیونکہ یہ مومنہ ہے۔


[علو الله على خلقه للشيخ وليد السناني فك الله أسره، ص: ٣]

لہذا اللہ تعالیٰ کی صفت علو اور فوق کے انکاری کا ایمان باقی نہیں رہتا اس کا ایمان و اسلام سلب ہو جاتا ہے، وہ کفر کا مرتکب ہوتا ہے جیسا کہ شیخ حمود بن عقلاء الشعيبي رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

أما الحكم على من أنكر علو الله: فإنه يكفر بذلك إذا لم يكن جاهلا بالنصوص الشرعية الدالة على صفة العلو، وقد حكم بكفر منكر العلو كثير من العلماء، فمنهم الإمام أبو حنيفة حينما سأله أبو مطيِع البلْخي عمن ينفي استواء الله على عرشه وعلوه على خلقه فقال: هو كافر، قال أبو مطيع، قلت له: فإن كان يقول الله مستوي على العرش ولا أدري عرشه في السماء أم في الأرض، قال: هو كافر

جہاں تک علو اللہ کا انکار کرنے والے کا حکم ہے تو بیشک وہ اس کے زریعے کفر کرنے والا قرار پائے گا اگر وہ اللہ کی صفت علو پر دلالت کرنے والی شرعی نصوص سے ناواقف نہیں ہے اور بیشک بہت سے علماء نے علو اللہ کے منکر پر کفر کا حکم لگایا ہے ان میں سے ایک امام ابو حنیفہ بھی ہے جب ان سے ابو مطیع البلخی نے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جو استواء اللہ علی العرش اور علو اللہ علی خلقہ کی نفی کرتا ہو۔ تو امام صاحب نے فرمایا کہ وہ کافر ہے۔ ابو مطیع کہتے ہیں میں نے امام صاحب سے کہا کہ اگر وہ کہے کہ اللہ عرش پر مستوی ہے لیکن میں نہیں جانتا کہ اس کا عرش آسمان میں ہے یا زمین میں! تو امام صاحب فرماتے ہیں: وہ بھی کافر ہے۔


[صفة العلو لله سبحانه ، والصلاة خلف من أنكر هذه الصفة، جواب لأهل الكويت]

اور حسن البنا بھی اللہ تعالیٰ کی صفت علو پر دلالت کرنے والی شرعی نصوص سے ناواقف نہ تھا بلکہ ان آیات کا رد کرنے والا تھا جیسا کہ شیخ ایمن العنقری حفظہ اللہ نے بیان کیا: وردَّ الآيات الواردة في ذلك ، كما في رسالته (العقائد) ، وأساء الأدب معها حين قال : (مما يؤخذ منه نسبة الجهة لله تبارك وتعالى .)

بہرحال یہ تو حسن البنا کی بس ایک گمراہی ہے جبکہ اس کے علاوہ متعدد اقسام کے کفر و شرک اور نواقض کا یہ مرتکب تھا۔ اب جامیہ مداخلہ جو کہ بڑا شور مچاتے ہیں کہ وہ منہجیت پر کاربند ہے بدعتیوں سے تحزیر کرنے والے ہیں لیکن یہاں ان کا سرغنہ امان الجامی زندیق اس حسن البنا زندیق کو برا کہنے سے منع کرتا ہے بلکہ اس کی مدح سرائی کرتے ہوئے کہتا ہے أن لحسن البنا محاسن لا توجد عند الأزهريين الكبار یعنی حسن البنا کے اندر ایسی خوبیاں ہیں جو جامعہ الازہر کے کبار علماء میں بھی نہیں ہوگی!

اب بتائیں کیا کوئی سلفی منہج یا اہل السنہ سے تعلق رکھنے والا شخص کسی بدعتی مشرک کی اس طرح مدح سرائی کر سکتا ہے؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں:
مَنْ وَقَّرَ صَاحِبَ بِدْعَةٍ فَقَدْ أَعَانَ عَلَى هَدْمِ الْإِسْلَامِ
جس نے کسی بدعتی کی عزت کی تو اس نے اسلام کے گرانے میں مدد دی۔


[الشريعة للآجري ص: ٩٦٢، حديث : ٢٠٤٠ ]

حافظ زبیر علی زئی نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے دیکھیں : مقالات، ج : ۲ , ص : ٥٥٦۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدعتی کی عزت کرنے والے کو بھی اسلام کو منہدم کرنے میں معاون قرار دیا ہے لیکن یہاں تو جامی زندیق حسن البنا کی توقیر و تعریف کرتے ہوئے اصلاح کے باب میں اسے کبار علماء سے بھی زیادہ کامیاب قرار دیتے ہوئے کہتا ہے : وفق في باب الإصلاح ما لم يوفق من هو أكثر منه علمًا!

غور فرمائیں ایک جاہل بدعتی مشرک جسے خود اصلاح کی ضرورت ہو کیا وہ لوگوں کی اصلاح میں علمائے دین سے زیادہ کامیاب ہو سکتا ہے! بالکل نہیں لیکن یہاں امان الجامی نے اسے علماء سے بھی زیادہ کامیاب ترین قرار دیا۔

اسلئے ہم کہتے ہیں اخوانیت اور مدخلیت میں زیادہ فرق نہیں دونوں ہی ضال مضل گمراہ فرقے ہیں ان دونوں کے درمیان جو کشمکش بنی رہتی ہے اس کی وجہ صرف ان کے طواغیت کے درمیان ہونے والے سیاسی اختلافات ہیں جن طاغوتی حکمرانوں کی مدخلی پوجا کرتے ہیں ان کا اخوانیوں کے طاغوتی حکمرانوں سے سیاسی اختلاف ہے جس بنا پر اخوانی و مدخلی آپس میں کتے بلی کی طرح لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں حالانکہ دونوں کا حکم ایک ہی ہے دونوں کا سلفیت سے کوئی تعلق نہیں دونوں زندیق گروہ ہیں، بدعتی مشرک طاغوت کے پجاری گروہ ہیں، فرق یہ ہے کہ مدخلی سعودی بھکت ہے ان کا طاغوت ایم بی ایس ملحد ہے اور اخوانی ترکی بھکت ہیں جن کا طاغوت اردگان ملحد ہے۔

پس اہل السنۃ پر واجب ہیں کہ اخوانی زنادقہ اور مدخلی زنادقہ سے براءت کرے ان کے سرغون مثلا حسن البنا، امان الجامی، مودودی، ربیع مدخلی جیسے گمراہ بدعتی، مشرک، زنادقہ کی اہانت کرے، ان کے معتقدین کی بھی اہانت کرے ان سے بغض رکھیں ان زنادقہ کے کسی اچھے کام کے سبب ان کی مدح سرائی یا کسی بھی دوسرے طریقہ سے ان کی تعظیم و تکریم نہ کرے، بلکہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو ذلیل و رسوا کیا ہے، انہیں ذلیل و رسوا ہی کیا جائے۔

فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

إذا علم الله من الرجل أنه مبغض لصاحب بدعة: غفر له، وإن قل عمله. ولا يكن صاحب سنة يمالئ صاحب بدعة إلا نفاقا. ومن أعرض بوجهه عن صاحب بدعة ملأ الله قلبه إيمانا. ومن انتهر صاحب بدعة أمنه الله يوم الفزع الأكبر. ومن أهان صاحب بدعة رفعه الله فى الجنة مائة درجة.

جب اللہ تعالیٰ کسی انسان کے بارے میں جان لیتے ہیں کہ وہ اہل ِ بدعت سے بغض رکھتا ہے، اس کے گناہ بخش دیتے ہیں اگرچہ اس کے اعمال کم ہی کیوں نہ ہوں اور اہل سنت مبتدع سے رواداری نہیں برت سکتا مگر نفاق سے اور جو اپنے چہرے کو مبتدع سے موڑ لے، اللہ تعالیٰ اس کے دل کو ایمان کے نور سے بھر دیتے ہیں۔ اور جس نے مبتدع کو جھڑکا، اللہ تعالیٰ اس کو بڑے خوف کے دن امان دیں گے اور جو مبتدع کی اہانت کرے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں سو درجے بلند کردیتے ہیں۔


[طبقات الحنابلة، ج: ٢، ص: ٤٣]
 
Top