• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امت پرمشقت ڈالنےوالے حاکم کےلیے رسول اللہ(ﷺ)کی بدعا

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
امت پرمشقت ڈالنےوالے حاکم کےلیے رسول اللہ(ﷺ)کی بدعا

وعن عائشة رضى الله عنها قالت :قال رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’ اللَّهُمَّ مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا‘‘ [أخرجه مسلم]
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
’’اےاللہ !جوشخص میری امت کےکام میں سے کسی چیز کاذمہ داربناپھراس نےاس پرمشقت ڈالی توتواس پرمشقت ڈال ۔‘‘(اسے مسلم نےروایت کیاہے)[مسلم، الإمارۃ، 19۔ دیکھیے تحفة الاشراف: 11/ 477]
صحيح مسلم میں مکمل حدیث اس طرح ہے کہ عبدالرحمن بن شماسہ فرماتے ہیں
کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے کوئی بات پوچھنےکے لیے ان کے پاس حاضرہوا،انہوں نے فرمایا:
’’تم کن لوگوں سے ہو؟‘‘
میں نےکہا:’’میں ایک مصری آدمی ہوں ۔‘‘فرمانے لگیں:
’’تمہاری اس لڑائی میں تمہاراساتھی (امیر)تمہارے لیے کیسارہا؟‘‘اس نے کہا:
ہم نے اس کی کسی بات کوناپسندنہیں کیا،اگرکسی آدمی کااونٹ مرجاتاتووہ اسے اونٹ دےدیتا،غلام فوت ہوجاتا توغلام دے دیتاتھااور خرچےکی ضرورت ہوتی توخرچہ دے دیتاتھا۔‘‘
فرمانے لگیں:
’’اس نےمیرے بھائی محمدبن ابی بکرکےمتعلق جوکچھ کیاوہ مجھے تم سے وہ وحدت بیان کرنے سےمانع نہیں ہوسکتا جومیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے اس گھرمیں بیان کرتے ہوئے سنی:
’’اللَّهُمَّ مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَشَقَّ عَلَيْهِمْ فَاشْقُقْ عَلَيْهِ وَمَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَرَفَقَ بِهِمْ فَارْفُقْ بِهِ‘‘ [مسلم: 19]
’’اے اللہ ! جوشخص میری امت کےکام میں سے کسی چیز کاذمہ داربناپھراس نےاس پرمشقت ڈالی توتواس پرمشقت ڈال اورجوشخص میری امت کے کام میں کسی چیزکا ذمہ داربناپھران کےساتھ نرمی کی توتواس کے ساتھ نرمی کی ۔‘‘
تشریح:
1 اس حدیث میں مسلمانوں کے بادشاہوں ،وزیروں ،افسروں ،ججوں ،فوجی ،کمانڈروں ،اساتذہ کرام اورکسی بھی قسم کی ذمہ داری رکھنےوالوں کومسلمانوں کے ساتھ نرمی کرنے کی تاکیدکی گئی ہے اوران پرسختی کرنے اورمشقت ڈالنےسے منع فرمایاگیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت پرمشقت ڈالنے والے کے حق میں بددعا فرمائی کہ اللہ تعالی اس پرمشقت ڈالے اورنرمی کرنے والے کے حق میں دعا فرمائی کہ اللہ تعالی اس کے ساتھ نرمی کرے ۔
امت مسلمہ پرحکمرانوں کی ڈالی ہوئی چندمشقتیں:
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت مسلمان حکمرانوں نے اپنی رعایاپربے شمارمشقتیں ڈال رکھی ہیں ،وہ اپنی رعایاکوملاقات کاموقع ہی نہیں دیتے ،لوگ روزانہ آکرکھڑے رہ رہ کرملاقات سے محروم واپس چلے جاتے ہیں ،ان کی درخواستیں مہینوں بلکہ سالوں تک فائلوں میں ہی دبی رہتی ہیں ،افسراور کلرک اپنی خوش گپیوں میں مصروف رہتے ہیں اورکام کے لیے آنے والوں کوہرروز کل آنے کے لیے کہہ کرناکام واپس بھیج دیتےہیں ،خواہ وہ کتنی مصیبت میں پھنساہواہو،افسرصاحب میٹنگ یاباتھ سے ہی فارغ نہیں ہوتے۔
برسراقتدارلوگ اپنی رعایاکوروگارمیں سہولیات میسرکرنے کی بجائے ہرکام میں رکاوٹ ڈالتے ہیں ۔کوئی صنعت لگاناچاہے یاکاروبارکرناچاہے تولائسنس کی پابندی ہے ،لائسنس حاصل کرنے کےلیے بے شمارمحکموں کے دفتروں میں دربدرپھرنااورافسروں کے نخرے اٹھاناپڑتے ہیں ،اگرکاروبار شروع کربیٹھیں تومختلف ٹیکس اوراتنے ظالمانہ اور حدسے بڑھے ہوئے کہ یاوہ جھوٹ بول کراپنی اصل آمدنی چھپاکریارشوت دیکرجان چھڑائیں اوراگررشوت نہ دیں یاسچ کہیں تواپناتمام سرمایا ٹیکس میں دینے اور کاروبارختم کرنے کے باوجودگورنمنٹ کے نادہندہ اورپولیس کومطلوب رہیں ،حکومت کوصرف پیسے بٹورنے اوراپنااقتدارمضبوط کرنے سے غرض ہے ،ڈاکے مارنےوالوں، دہشت گردوں ،قاتلوں ،عزتیں لوٹنے والوں کوکھلی چھٹی ہے وہ بے شک جدیدترین اسلحہ استعمال کریں ،مگراپنی حفاظت کےلیے اسلحہ رکھنے والوں پرلائسنس کی پابندی ہے اگرلائسنس نہ لے سکیں توصرف گھررکھنے پرہی لمبی قیدیاپھانسی کے لیے تیاررہیں۔
اگرکسی پرظلم کیاجائے ،اسکی جائیدادچھین لی جائے اورانصاف کے لیے عدالت جاناچاہے توحکمرانوں نے اس کےلیے اتنی مشقتیں تیارکررکھی ہیں کہ اگروہ سمجھدارہوتوعدالت کی مشقتیں برداشت کرنے کی بجائے اپنی پہلی مظلومیت پرہی صبرشکرکرلے ۔
سب سے پہلے تووہ جس عدالت میں جارہاہے اس میں اللہ کے قانون جوکہ سراسر آسانی اوررحمت ہے کے بجائے کفارکے قانون کے مطابق فیصلہ ہوگاجوکہ اسراسر مشقت اورفطرت کے خلاف ہے ،پھراس عدالت میں وہ اپنی زبان میں اپنامدعاپیش نہیں کرسکتا،کیونکہ عدالت کی زبان انگریزی ہےاو راس کے لیے ضروری ہے کہ وہ وکیل کرے اورجس کاگھرپہلے ہی لٹ چکاہووہ وکیل کی فیس کہاں سے لائے گا۔ پھر عدالت سے انصاف حاصل کرنے کےلیے اسےپیسے دینے پڑیں گے،انصاف خریدنا پڑے گا ، اگرعدالت کی فیس نہیں دے سکتا تویہ شخص انصاف کاحقدارنہیں ،عدالت کی فیس ،وکیل کی فیس اوردوسرےواجبات اداکرنے کے بعددرخواست دے کراب اسے انتظارکرناپڑے گا کہ اس کے مقدمے کی سماعت کب شروع ہوتی ہے ۔کبھی جج گرمیوں کی چھٹیوں پرہے ،کبھی ہفتہ وارچھٹی ہے ،کبھی وکیل فارغ نہیں ،کبھی جج دوسرے مقدموں میں مصروف ہے ،لمبی مدت انتظارکرنے کے بعداگرسماعت شروع ہوئی تو تاریخیں ملنی شروع ہوگئیں،اگرفیصلہ ہوگیاتو پھرہائیکورٹ میں نئے سرے سے وہی چکرشروع ہوگیا،اس کے بعدسپریم کورٹ کامرحلہ باقی ہے اور ہرعدالت کےلیے نئی فیس ،نیاوکیل اورانتظارکانیامرحلہ چاہیے ،کتنے ہی لوگ ہیں جواس انتظارمیں زندگی سے گزرجاتے ہیں۔
آہ کوچاہیے اک عمراثرہونےتک
کون جیتاہے تری زلف کے سرہونے تک​
اگرکوئی بےگناہ پولیس کےہتھے چڑھ گیاتواسے اپنی صفائی کےلیے ان تمام مراحل سےگزرناپڑے گایاواقعی اس سے کوئی غلطی ہوگئی تو بجائے اس کے فورا اس کی تحقیق کرکے اسے سزادے کرفارغ کردیاجاتا وہ اپنی سزاسننے کےلیے سالہاسال تک جیل میں سڑتارہتاہے اورپولیس کے وہ کارندے اورعدالت کے وہ جج جن کی غفلت یاتغافل سے وہ اس عذاب میں مبتلا رہاکوئی انہیں پوچھنے والا نہیں۔
پھرصرف ملزم ہی پر مشقت کے پہاڑنہیں توڑے جاتے بلکہ اصل مشقت اس کے گھر والوں کے لیے تیارکی گئی ہے ، اگر اسلام پرعمل ہوتا تو جلد ازجلد فیصلہ کرکے حدلگاکریاتعزیرلگاکرگھربھیج دیاجاتا۔اب ہرجرم کے لیے چوری ہویاکوئی ور جیل یا جرمانے کی سزا ہے ،جوحقیقت میں اس کے لیے کم ہے اور اس کے وارثوں کےلیے زیادہ ہے۔ماں باپ بوڑھےہیں ،کمانہیں سکتے ،بچے کمائی کےقابل نہیں ،بیوی کوضرورت ہے کہ خاونداس کےپاس رہے ،مگرگھرکایہ کفیل اپنی سزاسننے کےلیے جیل میں ہے۔ یا سزا بھگتنے کےلیے ۔ نہ ماں کی خدمت کرسکتاہے ،نہ بیوی کےحقوق اداکرسکتاہے ،نہ بچوں کی تربیت کرسکتاہے ،نہ انہیں کماکردے سکتاہے ۔اگراللہ کےدین پرعمل کرتے تو ہر ایک کے لیے بے حدآسانی تھی ۔جرم کی سزادےکراسے گھربھیج دیاجاتا۔مگرکفارکی تقلید میں ان سزاؤں کووحشیانہ قراردیاجوصرف مجرم کےلیے ہیں اورجن سے گناہ رکتے ہیں اورایسی سزائیں نافذکیں جن سے مجرم کاکچھ نہیں بگڑتا۔جیل میں رہ کراس کاذوق جرم مزید بڑھتاہے اور وہ تربیت یافتہ او رعادی مجرم بن جاتاہے ۔ماں باپ ،بیوی بچوں اور صالح معاشرے سے کٹ کررہ جانے اورجیل میں ہونے والے ذلت آمیزسلوک کی وجہ سے وہ چڑچڑاوحشی اور خونخواربن جاتاہے او راصل سزااس کے ماں باپ ،بیوی بچوں اور بہن بھائیوں کوملتی ہے۔
امت مسلمہ پرنرمی کرنےکی برکات:
اگرامت اسلامیہ کے حکمران اپنی رعایاکے لیے آسانیاں پیداکرتے ،اپنے اوران کے درمیان دیواریں کھڑی نہ کرتے ،ان پرہونے والے ظلم کاازالہ کرتے ،انہیں چوروں ،ڈاکوؤں سے بچاتے ،انہیں اسلحہ کی تربیت دے کراوراسلحہ رکھنے کی اجازت بلکہ حکم دے کرچوروں ،ڈاکوؤں اورکفارکے مقابلے میں کھڑاکردیتے ،کاروبارمیں سہولت دیتے ،انہیں کافرکی یلغارسے بچانے کےلیے جہاد کرتے ،ہرقسم کاٹیکس ختم کرکے معیشت کی بنیاد زکوٰۃ ،خراج او رغنیمت پررکھتے ۔کفارکانظام عدل جوحقیقت میں سراسرظلم ہے ،ختم کرکےاسلام کانظام عدل جوسراسررحمت ہے ،نافذکرتے تواللہ بھی ان کے لیے بے شمارآسانیاں مہیافرمادیتا۔ان کےلیے زمین وآسمان کے خزانوں کے منہ کھول دیے جاتے ۔مجرموں کوجیلوں میں سڑنے کے لیے چھوڑدینے کی بجائے اگران پراللہ کی حدود نافذکرتے توایک ایک حدپراللہ تعالی کی طر ف سے رزق کی وہ فراوانی اور کشادگی ہوتی جوچالیس چالیس دن تک مسلسل ہونے والی رحمت کی بارش بے بھی نہ ہوتی۔[نسائی، ابن بحوالہ سلسلسۃے الأحادیث الصحیحۃ: 1/ 409]
قرآن مجید میں ہے:
﴿وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آَمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُمْ بِمَا كَانُوایَكْسِبُونَ﴾الأعراف: 1/ 96]
’’اگربستیوں والے ایمان لاتے اورتقوی اختیارکرتے توہم ان پرآسمان اورزمین سے بہت سی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے جھٹلایاتوہم نے انہیں ان کے کاموں کی وجہ سے پکڑلیا۔‘‘
مسلم رعایاپرمشقت ڈالنے کے وبال:
مسلم ممالک کےحکمرانوں نےجب اللہ کےحکم کےبرعکس اپنی رعایاپربے حدمشقتیں ڈالیں (جن کی تھوڑی سی تفصیل اوپرگزرچکی ہے)تواللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا کے مطابق ان پربے شمار مشقتیں ڈال دیں ،جن میں سے چندایک یہ ہیں:
الف) وہ اپنی بداعمالیوں اورظلم وستم کی وجہ سے ہروقت حکومت چھن جانے کےخوف میں مبتلا رہتےہیں اورحکومت قائم رکھنےکےلیے اپنوں پراعتمادنہ ہونے کی وجہ سے یہودونصاری اوردوسرے کفارپربھروسہ کرتے اوران کی مددکے محتاج رہتے ہیں، ان کے نتیجےمیں ان کی ہرجائز ،ناجائز فرمائش پوری کرنےپرمجبورہیں۔
ب) وہ جس قدر لوگوں کے مقدمات کوطول د ےکر جیلوں میں بندرکھتے ہیں اوراپنےخیال کےمطابق انہیں شکنجوں میں کس کراور بے شمارقسم کی دفعات لگاکران کی زندگی اجیرن کرتےہیں ،اسی قدرقتل ،خونریزی ڈاکے اوردہشت گردی میں اضافہ ہوتااورحکمرانوں کی نااہلی اوربے بسی نمایاں ہوتی ہے۔
ج) وہ جس قدرملت اسلامیہ پرٹیکسوں اورتاوانوں کی مشقت بڑھاتے ہیں اورسودکے خونی پنجے میں جکڑتے ہیں اسی قدردنیابھرکے کفارکے مقروض ہوتے چلے جاتےہیں حتی کہ انہیں تنخواہیں اداکرنے کے لیے بھی یہودیوں کےبنکوں سے سود پر روپیہ لینا پڑتا ہے ،بلکہ اللہ تعالی کی اتنی زبردست گرفت میں پھنسے ہوئے ہیں کہ قرض لی ہوئی رقموں کاسوداداکرنے کے لیے مزیدسودپرقرض لیتے ہیں اورزمینی اورآسمانی برکات کی بجائے نیچے اوپرسے آفات کانشانہ بنے ہوتےہیں ۔
کاش !یہ حکمران امت پرآسانی اور اس کے ساتھ نرمی کرتے تواللہ تعالی بھی ان کے لیے آسانی مہیافرماتااوران کےساتھ نرمی کاسلوک کرتا۔
حدیث میں مذکور امیر اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی سے اس کاسلوک:
اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عبدالرحمن بن شماسہ سے جس امیرکے متعلق پوچھاتھا وہ معاویہ بن خدیج رضی اللہ عنہ صحابی تھے ،جن کی امارت میں معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں بلادمغرب میں کفارسے کئی جنگیں لڑی گئیں او رجنگوں میں انہوں نے اپنے ساتھیوں کےساتھ بہت اچھابرتاؤ کیاتھا۔[الاعلام3/ 37، 38]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی محمدبن ابی بکر رضی اللہ عنہ ،علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے مصر کے حاکم تھے ،معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نےان سے مصر چھیننے کےلیے عمروبن عاص رضی اللہ عنہ کےساتھ فوج بھیجی تھی ،انہوں نے معاویہ بن خدیج رضی اللہ عنہ کومحمدبن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے لڑنےکے لیے بھیجا۔
محمدبن ابی بکررضی اللہ عنہ نےمقابلہ کیا،مگران کےساتھی انہیں چھوڑ کر بکھر گئے۔محم داکیلے ایک کھنڈرمیں چھپ گئے ،مگرآخرکارپکڑے گئے اورمعاویہ بن خدیج رضی اللہ عنہ نے انہیں قتل کردیا۔ [تفصیلات کے لئے دیکھیے البدایۃ والنہایۃ: 7/ 326]
عائشہ رضی اللہ عنہاکاانصاف اورحدیث پہنچانےکاجذبہ :
اس حدیث میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کاکما ل تقوی اور انصاف بھی معلوم ہوتاہے کہ انہوں نےاپنےبھائی کےقاتل کی اچھی صفت سن کراس کی فضیلت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کوچھپایانہیں بلکہ اپنی دلی کیفیت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان امت تک پہنچادیا،علاوہ ازیں اس سے ام المومنین کاحدیث رسول کوامت تک پہنچانےکازبردست جذبہ اوراس کااہتمام بھی صاف ظاہرہے ۔
 
Top