• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امریکی دوستی ! تباہی کا زینہ

شمولیت
اپریل 13، 2011
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
142
پوائنٹ
0
مختلف ممالک کے حکمرانوں کے ساتھ گہری دوستی اور مفادات کے حصول کے بعد انہیں یکسر نظرانداز کر دینے کے طرز عمل نے دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کے دعویدار امریکہ کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ امریکہ کے چہیتے حکمرانوں کی عوامی مقبولیت میں جیسے ہی ذرا سی بھی کمی ہوتی ہے تو واشنگٹن میں بیٹھے پالیسی ساز کسی نئے چہرے کی تلاش شروع کر دیتے ہیں۔ امریکہ نے کبھی بھی اپنے دوست حکمران کی دور اقتدار کے آخری ایام میں مدد نہیں کی بلکہ ایسے مناظر بھی دیکھے گئے کہ امریکی حمایت پر فخر کرنے والے اور امریکی خوشنودی کی خاطر اپنی عوام کی خواہشات کا گلا گھونٹنے والے حکمرانوں کو سیاسی پناہ تک دینے سے انکار کر دیا گیا۔ پھر ایسے حکمرانوں کو عوامی غیض و غضب کا نشانہ بننا پڑا اور اس طرح امریکی دوستی کی قیمت ادا کرنی پڑی۔ امریکہ ڈالروں کی بارش کر کے اور مختلف ڈراوے دے کر حکمرانوں کو دوست بناتا ہے۔ اگر کوئی سربراہ مملکت امریکی پالیسی پر عمل سے انکار کرتا نظر آئے تو اس کے خلاف محاذ شروع کرا دیئے جاتے ہیں اور اس طرح دوست حکمرانوں کو بھی دبا¶ میں رکھ کر من پسند مقاصد حاصل کئے جاتے ہیں۔ حالیہ دور میں ایران‘ وینزویلا سمیت کئی ممالک کے حکمران امریکہ مخالف سمجھے جاتے ہیں اور اسی وجہ سے انہیں مختلف سازشوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے دوبارہ انتخاب کے بعد امریکی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے پرتشدد مظاہرے کرائے گئے جن میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے اور ان میں ملوث ہونے کا الزام خود امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن بھی کر چکی ہیں۔ ہوگوشاویز کو قتل کرنے کی کئی سازشیں ناکام ہو چکی ہیں تاہم تجارتی اور معاشی پالیسیوں کے حوالے سے اس کے خلاف نفرت بڑھائی جا رہی ہے۔ ہنڈارس کے صدر مینﺅل زیلایا کو بھی کیوبا اور وینزویلا کے ساتھ مل کر امریکی بالادستی کو چیلنج کرنے کے جرم میں معزول کیا جا چکا ہے۔ ۔ لیبیا کے معمر قذافی امریکی پابندیوں کے باعث اپنے موقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے صلح کر چکے ہیں۔ اسی طرح عراق میں 1969 میں عبدالکریم قاسم کی امریکہ مخالف حکومت کو صدام کی بعث بغاوت کے ذریعے کچل دیا گیاجس کے پیچھے CIA کا ہاتھ تھا۔اسی زمانے میں انڈونیشیا میں سوکارنیو کی امریکہ مخالف حکومت کو بڑی چالاکی سے امریکہ حمایتی سوہارتو کی کے ہاتھوں یرغمال بنا دیا گیا۔ اور قطر میں شیخ حماد اسلامی رجحان رکھنے والے اپنے سگے والد کو جلا وطن کر کہ اقتدار پر براجمان ہوا۔مصر میں انور السادات نے اسرائیل کے ساتھ 1979 میں امن معاہدہ کر لیا جس کو مسلم حلقوں میں اچھی نگاہ سے نہ دیکھا گیا۔۔انورالسادات کو1981 میں ایک اسلامی جہادی گروپ نے امریکہ حمایتی ہونے کے الزام میں قتل کر دیا۔ سعودی عرب کے شاہ فیصل جبکہ پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاءالحق کی پراسرار ہلاکتوں کے پیچھے بھی امریکی ایجنڈے کی تکمیل کے مقاصد ہی قرار دیئے جاتے ہیں۔ امریکہ کے سابق دوست اور آخری سالوں میں دشمن قرار دیئے جانے والے عراقی صدر صدام کی کہانی امریکی دوستی کی خاطر نشان عبرت بننے والوں کی سب سے بڑی مثال ہے۔ امریکہ کے مخالف لیڈروں کے ساتھ ساتھ اس کے دوست حکمرانوں کے تجربات بھی کچھ زیادہ خوشگوار نہیں رہے اور ان میں سے اکثر کو بھیانک انجام کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ شاہ ایران اس خطے میں امریکہ کا سب سے قریبی ساتھی تصور کیا جاتا تھا۔ مغربی میڈیا اسے امریکی گورنر تک لکھتا رہا اور اس نے امریکی خوشنودی کی خاطر ملک کو روشن خیالی کی راہ پر ڈالا۔ اسلامی اقدار کو بزور ختم کر دیا گیا جبکہ مذہبی شعار کی پابندی کے باعث ہزاروں افراد موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے لیکن جیسے ہی ایرانی سرزمین پر خمینی انقلاب کا سورج طلوع ہوا امریکہ شاہ ایران کو بھول گیا۔ اس قریبی دوست کو سیاسی پناہ تک دینے سے انکار کر دیا گیا اور اس طرح امریکہ کا یہ اتحادی 1980ءمیں جلاوطنی کے دوران مصر میں فوت ہو گیا اور دنیا کے لئے نشان عبرت بنا۔یاسر عرفات ایک آزادی پسند جنگجو اور بہادر لیڈر سمجھا جاتا تھا۔ یاسر عرفات جیسے ہی امریکہ کی جانب سے قیام امن کے نام پر پھیلائے گئے جال میں پھنسا تو اس شخص کے باعث مسئلہ فلسطین کو انتہائی نقصان پہنچا۔ امریکی دوستی کے باعث ایک طرف اس کی عوامی مقبولیت ختم ہو گئی اور حماس کی طاقت بڑھی جبکہ دوسری جانب اسرائیل نے اس کی موت تک محاصرہ جاری رکھا اور یاسر عرفات امریکی دوستی کے قبرستان میں دفن ہو گیا۔ ایران کے سابق وزیراعظم ڈاکٹر مصدق نے جیسے ہی تیل کے ذخائر کو قومی ملکیت میں لینے کی کوشش کی تو اس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ یوگوسلاویہ کا آمر میلازووچ امریکہ اور یورپی یونین کی آشیرباد پر ہی بوسینیائی مسلمانوں کا قتل عام کرتا رہا لیکن جب مخصوص ایجنڈے کی خاطر اسے اقتدار سے محروم کیا گیا تو بعد میں اسے عالمی عدالت میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ نکاراگوا نے باغی لیڈر اناس تاسو نے کئی سال امریکی خفیہ ایجنسیوں کے تعاون سے کمیونزم کے خلاف جنگ لڑی۔ جیسے ہی حکومت اس کی بغاوت پر قابو پانے میں کامیاب ہوئی اور اسے جان بچانے کے لئے فرار ہونا پڑا تو امریکی دوستوں نے بھی آنکھیں پھیر لیں۔ اناس تاسو کو بار بار اپیلوں کے باوجود کہیں سیاسی پناہ نہ مل سکی اور جنگلوں پہاڑوں میں چھپتے چھپتے زندگی کی بازی ہار گیا۔ چلی کے بدنام زمانہ ڈکٹیٹر جنرل اگستو پنسوشے کی کہانی بھی امریکی دوستی کے باعث ملنے والے دکھوں سے بھری پڑی ہے۔ اس ظالم شخص نے 17 برس تک عوامی خواہشات کا خون کیا۔ امریکی اشاروں پر مخالفت میں اٹھنے والی ہر تنظیم پر پابندی لگائی اور لاکھوں افراد کو قتل کرا دیا گیا۔ جنرل پنوشے امریکی دوستی پر فخر کرتا تھا لیکن جیسے ہی عوامی دبا¶ پر اسے اقتدار چھوڑنا پڑا تو امریکہ نے بھی آنکھیں پھیر لیں اور اس طرح جنرل پنوشے کو بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا۔ جنرل پنوشے دولت کے انبار کے ساتھ لندن پہنچا لیکن اسے گرفتار کر کے لیا گیا۔ دس سال نظربند رکھنے کے بعد اسے سن 2000ءمیں واپس چلی کے حوالے کر دیا گیا۔ جہاں وہ مقدمات کا سامنا کرتے کرتے ہارٹ اٹیک سے مر گیا۔ امریکہ نے اپنے اس اتحادی کے لئے تعزیتی پیغام تک جاری نہ کیا۔ فلپائن کے سابق حکمران فرڈی ننڈ مارکس نے امریکی حمایت سے ہی حکومت حاصل کی اور اس کی پالیسیوں کا محافظ رہا۔ 1986ءمیں اس کی حکومت گرا دی گئی تو ساتھ ہی امریکی دوستی کا قصہ تمام ہوا اور اسے ہونولولو میں ایک عام پناہ گزین کی طرح گزارا کرنا پڑا۔ انگولا کے جوناس سیومنی اور پانامہ کے جنرل نوریگا کا شمار بھی ان جنگجو لیڈروں میں ہوتا ہے جنہوں نے امریکہ کی جنگ لڑی لیکن ناکامی کی صورت میں انہیں یکسر بھلا دیا گیا۔ سابق صدر بش کی حکومت پاکستانی جنرل پرویز مشرف کی آمریت کی بھرپور حمایت کرتی رہی۔ اپوزیشن کے ساتھ سخت رویے کے باوجود انہیں ذاتی دوست کی حیثیت حاصل رہی۔ لیکن جیسے ہی پرویز مشرف سابق صدر ہوئے ہیں تو امریکی نمائندہ خصوصی رچرڈ ہالبروک کا کہنا ہے کہ وہ اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں اور انہیں سزا دینا پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ مختلف ممالک کے درجنوں حکمرانوں کے نشان عبرت بننے کے باوجود اب بھی بہت حکومت کرنے والے امریکی پالیسیوں پر چلنا پسند کرتے ہیں۔ عوامی مقبولیت کی بجائے قصر سفید کی غلامی پسند کرتے ہیں ۔ ایسے حکمرانوں اور نام نہاد لیڈرز کو یاد رکھنا چاہیے کہ امریکی دوستی ہمیشہ تباہی کا پیغام ہی لاتی ہے ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیشہ ہی اقتدار کے مزے لوٹتے اور مقروض قوم کے خرچ پر نیویارک کے مہنگے ہوٹلوں کی میزبانی سے لطف اندوز ہوتے حکمرانوں کو یہ بات سمجھ نہیں آیا کرتی۔
 
Top