مفاسد و نقصانات
1. اس طرح کی فلموں اور تصاویر سے انبیاے کرام علیہم السلام کی تنقیص ہوتی ہے۔ ان کا مقام زوال پذیر ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے جب فرستادگانِ الٰہی کے تذکروں کو مجالسِ لھو و لعب اور غیر سنجیدہ مباحثوں میں گھسیٹا جائے گا تو یہ ان عالی قدر شخصیات سے استہزاء و ٹھٹھا کرنے کے مترادف ہے۔کیونکہ تصاویر اور ویڈیوز کا تعلق ہی ہنسی مذاق اور تماشا (Entertainment) سے ہے اور یہ بات پوری قطعیت سے ثابت ہے کہ یہ ان اعمال میں سے ہے جو انسان کو ملت اسلام سے خارج کردیتے ہیں۔ پیغمبروں کے بارے میں اس نوع کا رویہ اختیار کرنا کھلا کفر ہے، خواہ اس فعل کا مرتکب قولاً یہ اقرار بھی کرتا ہوکہ وہ انبیا پر ایمان رکھنے والا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
’’ وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ ط قُلْ اَبِاللّٰہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَہْزِئُ وْنَ ۔ لاَ تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ ط اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآئِفَۃٍ مِّنْکُمْ نُعَذِّبْ طَآئِفَۃً م بِاَنَّہُمْ کَانُوْا مُجْرِمِیْنَ‘‘(التوبہ 9: 65-66)
’’اگر ان سے پوچھو کہ تم کیا باتیں کررہے تھے، تو جھٹ کہہ دیں گے کہ ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کررہے تھے۔ ان سے کہو!کیا تمہاری ہنسی دل لگی اللہ اور اُس کی آیات اور اُس کے رسول ہی کے ساتھ تھی؟ اب عذرات نہ تراشو۔ تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے۔ ‘‘
2. تمام پیغمبروں کو خدا نے معصوم رکھا ہے۔ عصمت انبیا کا تقاضا ہے کہ ان خدا رسیدہ ہستیوں سے کوئی ایسا فعل صادر نہ ہو جسے اللہ نے محرّمات کی فہرست میں شامل کیا ہے اور کوئی ایسا عمل ترک نہ ہوجائے جس کو شریعت اسلام میں واجب کا درجہ حاصل ہے۔
مگر ان فلموں میں فرضی پیغمبر ایسے خلافِ شریعت کام بھی کرتا ہے جن کا تصور ایک نبی سے تو کجا، زہد و ورع کے بنیادی اوصاف رکھنے والے مسلمان سے بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ان فلموں میں دکھایا گیاہے کہ فرضی نبی غیر محرم عورتوں کے ساتھ بے پردہ گھومتا ہے۔
اسی طرح عصمت ِ انبیا کا یہ بھی تقاضا ہے کہ وہ خلعت ِنبوت و رسالت جس کے ذریعے سے اللہ نے ان کو زینت بخشی ہے، وہ کسی غیر نبی کو نہ پہنایا جائے نہ حقیقتاً اور نہ ڈرامائی اسلوب میں۔ اس معاملے میں بھی ان فلموں سے سخت بگاڑ پیدا ہوگیا ہے۔ وہ لوگ جو انبیا اور صحابہ کرام کا کردار پیش کررہے ہوتے ہیں، یعنی جن کو فرضی نبی یا فرضی صحابی بنایا گیا ہوتا ہے وہ اپنی تمام حرکات و سکنات ایک نبی کے فرضی قالب میں سامنے لاتے ہیں اور فلم کے دوسرے کردار ان کو نبی کے نام مثلاً یوسف یا موسیٰ سے ہی پکارتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ فلم بینوں کی باہمی گفتگو میں بھی اس فرضی کردار کو نبی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ طرز عمل عصمت انبیا کو پامال کرنے والا ہے۔
3. تاریخ نے جن حضرات کے تذکروں کو اپنے دامن میں جگہ دی ہے، ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ اس کی پوری زندگی ایک مربوط کہانی کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ انبیا کی صورتحال بہت کچھ مختلف ہے ان کے ٹھیک ٹھیک حالات بس اسی قدر ہمارے سامنے ہیں جن کو خدا کی آخری کتاب نے بیان کردیا ہے۔ اور قرآن مجید کا ایک عام ناظر بخوبی جان لیتا ہے کہ یہ بیانات قصہ گوئی کی قبیل سے نہیں ہیں بلکہ حالات کے پیش نظر مخاطبین کی اصلاح و درستی اور سبق آموزی کے لیے گزشتہ انبیا اور ان کی اقوام کا اتنا ہی تذکرہ کیا جاتا ہے جسے مخاطبین کی موجود صورتحال پر منطبق کرنا حکمت بالغہ کا تقاضا قرار پاتا ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ تاریخی شہادات میں ہے وہ سخت اختلافی اور کم مایہ ہے۔
جہاں تک آخری نبی اور رسول محمد ﷺ کی سیرت کا تعلق ہے، اس کا ہر گوشہ اور پہلو سیرت وحدیث کی کتابوں میں کشادہ ہے۔ مگر وہ بھی اس طرح نہیں ہے کہ ایک مکمل کہانی تیار کی جاسکے۔ کہانی اور قصوں کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ان میں واقعات کا تسلسل اور ربط برقرار رہے تاکہ قاری اس قسم کی تحریر سے ذوق ادب کی تسکین کا سامان مہیا کرسکے۔ اسی لیے کہانی کی کتابوں، ناولوں، ادبی شہ پاروں اور تاریخی روایات اور سیرت و سوانح کا بنیادی اسلوب نگارش ہی بہت مختلف ہوتا ہے۔ کہانی لکھتے ہوئے مصنف بہت سے واقعات اور بیانات خود سے فرض کرتے ہوئے احاطہ تحریر میں لے آتا ہے، جن کو بربناے حقیقت جانچا جائے تو وہ محض جھوٹی داستان قرار پائیں گے۔ مثال کے طور پر اردو میں لکھے گئے تاریخی ناول اور تاریخی شخصیات پر مرتب کی گئی کہانیاں جو التمش اور نسیم حجازی وغیرہ کی کتابوں میں ہمیں ملتی ہیں، ان میں بیسیوں واقعات مصنفوں کے مخترعات ہیں، حقیقت سے انہیں کوئی علاقہ نہیں۔ جبکہ دوسری طرف تاریخ و سیر کی کتابوں میں مثال کے طور پر شبلی نعمانی و سید سلیمان ندوی کی ’سیرۃ النبی‘ ،مولانا صفی الرحمن مبارک پوری کی ’الرحیق المختوم‘، قاضی سلیمان منصورپوری کی ’رحمۃ اللعالمین‘وغیرہ میں چونکہ روایات و واقعات کی تحقیق و تفحّص کے بعد ہی انہیں درج کیا جاتا ہے، لہٰذا غیر ثابت شدہ بیانات قطعی طور پر مسترد کردیئے جاتے ہیں۔ اس لیے یہ سب کچھ ایسی کہانی کی صورت اختیار نہیں کرتا جس کے تمام واقعات بالترتیب ایک دوسرے سے پیوست ہوں۔
ان فلموں میں چونکہ انبیا و صحابہ کرام کی پوری کہانی فلمائی جاتی ہے، لہٰذا بہت سے واقعات خود سے گھڑ لیے جاتے ہیں۔ حالانکہ انبیا کے حق میں اس طرح کا جھوٹ وضع کرنا غیر معمولی جرم ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے:
’’ من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار ‘‘ (بخاری الجنائز:1291)
’’جس نے میرے بارے میں جان بوجھ کر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں تیار کرلے۔‘‘
4. ان فلموں میں جو لوگ پیغمبر کے مخالفین اور حق کے منکرین کا کردار ادا کریں گے، اور یہ جو کہانی کی ضرورت ہے، وہ ظاہر ہے کہ لات، منات کی قسمیں اُٹھائیں گے، نبی اور رسول کو دیوانہ اور مجنون کہیں گے، ناروا الفاظ کا استعمال ہوگا اور ائمہ سنت کے حسب تصریح یہ سب وہ اعمال ہیں جن کا محض تلفظ بھی کفر ہے، چنانچہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ ایسے لوگوں کا حکم کیا ہوگا!!
5. ان فلموں کا ایک سنگین پہلو یہ ہے کہ ان میں ایسے مرد اور خواتین انبیا، صحابہ اور صحابیات کا کردار پیش کرتے ہیں جن کو شاید پوری طرح مسلمان بھی نہ کہا جاسکے۔ یہ لوگ وہ ہیں جو معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی کی علامت ہیں، ان کا کردار یہ ہے کہ یہ غیر محرم عورتوں کے ساتھ اختلاط ہی نہیں، ملامست کے جرائم میں بھی مبتلا رہتے ہیں۔ ان کی خواتین وہ ہیں جو بالکل بے پردہ رہنے والی اور بے حیائی کا مظہر ہوتی ہیں۔ وہ محافلِ رقص و سرود کی زینت بنتی اور پوری دنیا کے سامنے اپنے اعضاے جسم کی عریاں نمائش کرتی ہیں۔
کس قدر لغو اور بے ہودہ حرکت ہے کہ اس قماش کے لوگوں کو عزب مآب انبیا اور عفت مآب صحابیات اور عائلاتِ انبیا کے روپ میں پردئہ سیمیں پر دکھایا جائے۔ یہ انبیا کی کھلی تذلیل ہے جس پر ایک ایماندار کسی طور خاموش نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ ارشاد ہے:
’’ لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُط وَتُسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا ‘‘ (الفتح48:9)
’’تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لائواور اُس کا (یعنی رسول کا) ساتھ دو، اُس کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہو۔‘‘
6. اس طرح کی فلموں سے لگائو کا یقینی نتیجہ یہ ہے کہ قرآن مجید، جو مخزن العلوم ہے، سے تعلق اور تالّف ختم ہوجاتا ہے۔ ایک شخص بجائے اس کے کہ انبیا علیہم السلام کے واقعات قرآن مجید میں پڑھے اور ان سے درس و نصیحت حاصل کرے، وہ کتاب اللہ کو چھوڑکر سی ڈیز، ٹیلی ویژن اور سینما کی طرف متوجہ رہے گا۔ جبکہ اسلام جس نفسیات کو پیدا کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان تمام تر رہنمائی قرآن و سنت سے اخذ کرے اور اس کا دل مسجد میں ہی قرار پائے۔
7. وہ فلمیں جنہیں عیسائیوں یا یہودیوں نے تیار کیا ہے، انہوں نے ان میں اپنے عقائد کی پوری طرح آمیزش کردی ہے۔ حالانکہ قرآن مجید ان عقائد کا رد کرتا ہے۔ مثال کے طور پر سیدنا عیسیٰdکا سولی کے نتیجے میں فوت ہو جانا۔ یہ عقیدہ اسلام کی نگاہ میں بالکل باطل ہے۔ قرآن صراحت سے کہتا ہے :
’’ وَمَا قتََلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ ‘‘ (النسائ:157)
’’حالانکہ فی الواقع انہوں نے نہ اُس کو قتل کیا نہ صلیب پر چڑھایا، بلکہ معاملہ ان کے لیے مشتبہ کردیا۔‘‘
8. انبیا کی فلمیں تیار کرنا حکمت بالغہ کے خلاف ہے۔ حکمت متقاضی ہے کہ کوئی بھی غیر نبی، نبی کی صورت میں پیش نہ ہو۔ جنات ایسی مخلوق ہے کہ اسے انسانی شکل دھارنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ مگر انبیا کے حق میں جنوں سے یہ صلاحیت و اختیار سلب کر لیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے:
’’ من رانی فی المنام فقد رانی فان الشیطان لا یتمثل بی ‘‘ (بخاری)
’’جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے حقیقتاً مجھے ہی دیکھا ہے کیونکہ شیطان میرا روپ نہیں دھار سکتا۔‘‘
جنوں سے اختیار سلب کرنے کی حکمت یہ ہے کہ پیغمبر کی شخصیت کو بے کار محل سے محفوظ رکھا جائے۔ ان فلموں میں اسی حکمت کے خلاف تکلفاً پیغمبر کے روپ میں غیر نبی کو دکھایا جاتا ہے۔
بعض لوگ ان فلموں کے حق میں یہ دلیل رکھتے ہیں کہ ان سے دعوتی مصلحت حاصل کی جاتی ہے۔ یہ فلمیں انبیا اور قرآن کی دعوت کو پھیلانے کا ذریعہ ہیں۔ یہ دلیل نہ صرف یہ کہ شرعی لحاظ سے غیر معتبر، بلکہ صورتِ واقعہ کے خلاف بھی ہے۔ تجربات سے ثابت ہے کہ اس نوع کی فلمیں اور ڈرامے دیکھ کر نہ کوئی پابند ِصوم و صلوٰۃ ہوا ہے اور نہ اخروی کامیابی کی کوئی امنگ اس کے قلب و ذہن میں پیدا ہوئی ہے۔ یہ نعمتیں صرف پیغمبر ﷺ کے اسوہ حسنہ کی کامل پیروی ہی سے حاصل ہوتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ ہم نے جن مفاسد کی نشاندہی کی ہے، ان کی موجودگی میں ان فلموں کی تھوڑی بہت مصلحت کی بھی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ جاتی۔ کیونکہ فقہا کے ہاں یہ قاعدہ مسلّم ہے کہ ’درء المفاسد مقدم علی جلب المنافع والمصالح‘یعنی منفعت کو قبول کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ مضرتوں سے بچائو حاصل کرلیا جائے۔جب یہ طے ہے کہ اس طرح کی فلموں کے مزعومہ فوائد کے بالمقابل ان کے منفی پہلو کہیں زیادہ سنگین اور تباہ کن ہیں تو انہیں مسلم معاشروں میں کسی طور گوارا نہیں کیا جاسکتا، بلکہ اس طرح کی لغویات کا سختی سے بائیکاٹ ہی تعلیمات اسلام اور مقاصد شریعت کا حقیقی تقاضا ہے۔
-----------------