• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں روایت کی تحقیق

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں

محمد رفیق طاھر​

اس حدیث کی مکمل تحقیق درکار ہے:
الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون { مسند أبي يعلى 6/147 (3425) }
اس کو شیخ البانی نے صحیح کہا ہے (سلسلہ صحیحہ رقم :621)
الجواب بعون الوهاب ومنه الصدق والصواب واليه المرجع والمآب
اسکی سند میں أبو الجہم الأزرق بن علی مجہول الضبط ہے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسکے بارہ میں کہا ہے " صدوق یغرب" یعنی یہ عادل راوی ہے اور انوکھی انوکھی روایات بیان کرتا ہے ۔

کسی بھی راوی کی روایت تب قبول ہوتی ہے جب وہ عادل اور ضابط ہو ۔ اس راوی کا عادل ہونا تو حافظ صاحب کے قول "صدوق" سے ثابت ہوگیا ہے لیکن اسکا ضبط یعنی حافظہ کیسا تھا مضبوط تھا یا کمزور تو اسکے بارہ میں کوئی علم نہیں ہاں حافظ صاحب رحمہ اللہ کا فرمان "یغرب" اسکے حافظہ کی خرابی کی طرف لطیف اشارہ ہے ۔ اور اسی طرح ابن حبان نے بھی اسے ثقات میں ذکر کر کے "یغرب" کا کلمہ بھی بولا ہے ۔ اور ابن حبان کا رواۃ کی توثیق میں متساہل ہونا معلوم ہے ۔

شیخ البانی رحمہ اللہ کا اس روایت کو حسن قرار دینا تعدد طرق کی بناء پر ہے ۔ جبکہ اسکے تمام تر طرق مل کر بھی یہ روایت اس قابل نہیں بنتی کہ اسے قبول کیا جائے کیونکہ اسکی مسند بزار ' فوائد رازی ' تاریخ دمشق ' الکامل لابن عدی ' اور حیاۃ الأنبیاء للبیہقی والی سند کا مرکزی راوی حسن بن قتیبہ المدائنی سخت ضعیف ہے ۔ بلکہ امام دارقطنی نے تو اسے متروک کہا ہے ۔

اس ضعیف راوی کی روایت کو بطور متابعت پیش کرکے امام البانی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے " یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ازرق نے یہ حدیث یاد رکھی ہے اور کوئی انوکھا کام نہیں کیا " لیکن شیخ صاحب رحمہ اللہ کا یہ فرمان محل نظر ہے کیونکہ یہ سند متابعت کے قابل نہیں !

رہا حیاۃ انبیاء کا مسئلہ تو وہ صحیح احادیث اور نص قرآنی سے ثابت ہے ۔ کہ انبیاء کرام صلوات اللہ علیہم اجمعین اپنی قبروں میں اخروی زندگی کا پہلا مرحلہ یعنی برزخی زندگی گزار رہے ہیں جو کہ دنیوی زندگی سے بہت مختلف ہے ۔ اسے حیاۃ دنیوی قرار دینا فہم کا زوال ہے ۔

مسئلہ حیات النبی ﷺ پر ہمارے دادا استاذ محترم اسماعیل سلفی کی شہکار تصنیف "الأدلۃ القویۃ على أن حیاۃ النبی فی قبرہ لیست بدنیویہ" کا مطالعہ نہایت مفید ہے۔ اسے مکتبہ سلفیہ نے "مسئلہ حیاۃ النبی ﷺ" کے نام سے شائع کیا ہے ۔
لنک
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
صرف ابو الجہم الازرق ہی اس روایت کی علت نہیں ہے بلکہ سند میں نکارت بھی شامل ہے جس کہ وجہ سے یہ سند متابع بننے سے مزید دور ہو گئی۔
اس روایت کو درج ذیل لوگوں نے حسن بن قتیبہ (متروک) کے طریق سے مستلم بن سعید سے روایت کیا ہے:
1- رزق اللہ بن موسی ثقہ(مسند البزار)
2- احمد بن عبد الرحمن الحرانی ثقہ (فوائد تمام)
3- حسن بن عرفہ العبدی ثقہ (حیاۃ الانبیاء للبیہقی)
لیکن جب ابو یعلی نے اسے ابو الجہم سے روایت کیا تو اس نے حسن بن قتیبہ کی جگہ یحیی بن بکیر کا اضافہ کر دیا۔ جس سے اس پر کلمہ "یغرب" کے کہنے کا واضح سبب نظر آتا ہے۔
جہاں تک شیخ البانی کا یہ کہنا ہے کہ ابو الجہم کی متابعت یحیی بن بکیر کے پوتے نے کر رکھی ہے تو عرض ہے کہ جس سند سے شیخ نے یہ استدلال کیا ہے وہ خوداس پوتے سے ہی ثابت نہیں، لہٰذا متابعت کے لئے شرط ہے کہ وہ متابع سے ثابت ہو، جبکہ یہاں ایسا نہیں ہے۔
واللہ اعلم۔

ہمارے دادا استاذ محترم اسماعیل سلفی
ما شاء اللہ، مجھے نہیں پتہ تھا کہ علامہ اسماعیل سلفی ، شیخ رفیق طاھر کے داد ہیں!
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام و علیکم -

اپنی رہنمائی کے لئے سوال پوچھ رہا ہوں کہ کیا احادیث نبوی کے معاملے میں روایت اور درایت کے اصول یکساں اہمیت رکھتے ہیں یا روایت کا اصول درایت کے اصول کی نسبت زیادہ قابل ترجیح ہے؟؟؟

مثال کے طور پر اگر ایک حدیث نبوی باوجود اس کے کہ اس کی روایت قوی ہو لیکن قرآن کریم کی صریح نص یا پھر نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے کسی دوسرے صحیح ترین قول سے ٹکرا رہی ہو تو کیا وہ حدیث رد کردی جائے گی یا اس کی تاویل کی جائے گی؟؟؟

ممبرز سے درخواست ہے کے رہنمائی فرمائیں -
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں

یہ تو تسلیم کرلیا گیا کہ انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبور میں زندہ ہیں
رہا حیاۃ انبیاء کا مسئلہ تو وہ صحیح احادیث اور نص قرآنی سے ثابت ہے ۔
جہاں تک بات ہے انبیاء علیہم السلام اپنی قبور میں نماز پڑھتے ہیں یا نہیں تو اس کے لئے امام مسلم نے ایک حدیث بیان کی ہے
أتيت - وفي روايةِ هدَّابٍ : مررتُ - على موسى ليلةَ أسريَ بي عند الكثيبِ الأحمرِ . وهو قائمٌ يصلي في قبرِه

الراوي: أنس بن مالك المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 2375
خلاصة حكم المحدث: صحيح



حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : معراج کی شب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، (اور ھدّاب کی ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : ) سرخ ٹیلے کے پاس سے میرا گزر ہوا (تومیں نے دیکھا کہ) حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قبر میں کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے۔''

صرف یہی نہیں کہ انبیاء علیہم السلام اپنی قبور میں نماز ادا فرماتے ہیں بلکہ شب اسراء جب رسول اللہ ﷺ بیت المقدس
تشریف لائے تو آپ ﷺنے ملاحظہ کیا کہ انبیاء علیہم السلام مسجد اقصیٰ میں بھی نماز ادا فرمارہے تھے اور اس کے بعد
تمام انبیاء علیہم السلام نے آپ ﷺ کی امامت میں نماز ادا کی یہ سب بھی امام مسلم نے اپنی صحیح مسلم میں بیان کیا ہے
(صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 172)
والسلام
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام و علیکم -

اپنی رہنمائی کے لئے سوال پوچھ رہا ہوں کہ کیا احادیث نبوی کے معاملے میں روایت اور درایت کے اصول یکساں اہمیت رکھتے ہیں یا روایت کا اصول درایت کے اصول کی نسبت زیادہ قابل ترجیح ہے؟؟؟

مثال کے طور پر اگر ایک حدیث نبوی باوجود اس کے کہ اس کی روایت قوی ہو لیکن قرآن کریم کی صریح نص یا پھر نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے کسی دوسرے صحیح ترین قول سے ٹکرا رہی ہو تو کیا وہ حدیث رد کردی جائے گی یا اس کی تاویل کی جائے گی؟؟؟

ممبرز سے درخواست ہے کے رہنمائی فرمائیں -
محترم رضا میاں بھائی۔ میں بھی اس سلسلے میں جاننا چاہتا ہوں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
یہ تو تسلیم کرلیا گیا کہ انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبور میں زندہ ہیں
رہا حیاۃ انبیاء کا مسئلہ تو وہ صحیح احادیث اور نص قرآنی سے ثابت ہے ۔
جہاں تک بات ہے انبیاء علیہم السلام اپنی قبور میں نماز پڑھتے ہیں یا نہیں تو اس کے لئے امام مسلم نے ایک حدیث بیان کی ہے
أتيت - وفي روايةِ هدَّابٍ : مررتُ - على موسى ليلةَ أسريَ بي عند الكثيبِ الأحمرِ . وهو قائمٌ يصلي في قبرِه
الراوي: أنس بن مالك المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 2375
خلاصة حكم المحدث: صحيح
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : معراج کی شب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، (اور ھدّاب کی ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : ) سرخ ٹیلے کے پاس سے میرا گزر ہوا (تومیں نے دیکھا کہ) حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قبر میں کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے۔''
موسی علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنے سے کہیں یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ موسی علیہ السلام اپنی قبر میں دنیاوی زندگی کی طرح زندہ ہیں، اگر آپ کے پاس موسی علیہ السلام کی قبر میں دنیا کی طرح زندہ ہونے کی کوئی دلیل قرآن و سنت سے ہے، تو یہاں پیش کریں (ھاتو برھانکم ان کنتم صادقین) رہا یہ مسئلہ کہ موسی علیہ السلام اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے تو یہ برزخی معاملہ ہے، اگر آپ دنیاوی زندگی کی طرح زندہ مانیں گے تو پھر کیا موسی علیہ السلام کو معاذاللہ زندہ دفن کر دیا گیا تھا؟ ہرگز نہیں۔ موسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں، اور قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے، موسی علیہ السلام کی وفات پانے کی دلیل سنن دارمی کی حدیث:
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ عَامِرٍ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنُسْخَةٍ مِنْ التَّوْرَاةِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ نُسْخَةٌ مِنْ التَّوْرَاةِ فَسَكَتَ فَجَعَلَ يَقْرَأُ وَوَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ يَتَغَيَّرُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ ثَكِلَتْكَ الثَّوَاكِلُ مَا تَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَظَرَ عُمَرُ إِلَى وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ بَدَا لَكُمْ مُوسَى فَاتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ وَلَوْ كَانَ حَيًّا وَأَدْرَكَ نُبُوَّتِي لَاتَّبَعَنِي
سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 436
حضرت جابر بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تورات کا ایک نسخہ لے کر حاضر ہوئے اور عرض کی اے اللہ کے رسول یہ تورات کا ایک نسخہ ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے حضرت عمر نے اسے پڑھنا شروع کردیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ تبدیل ہونے لگا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا تمہیں عورتیں روئیں کیا تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھ نہیں رہے؟ حضرت عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھا تو عرض کی میں اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ہم اللہ کے پروردگار ہونے اسلام کے دین حق ہونے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اب اگر موسی تمہارے سامنے آجائیں اور تم ان کی پیروی کرو اور مجھے چھوڑ دو تو تم سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے اور اگر آج موسی زندہ ہوتےاور میری نبوت کا زمانہ پالیتے تو وہ بھی میری پیروی کرتے۔
اور
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ جَابِرٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ جَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي مَرَرْتُ بِأَخٍ لِي مِنْ بَنِي قُرَيْظَةَ فَكَتَبَ لِي جَوَامِعَ مِنْ التَّوْرَاةِ أَلَا أَعْرِضُهَا عَلَيْكَ قَالَ فَتَغَيَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ ثَابِتٍ فَقُلْتُ لَهُ أَلَا تَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عُمَرُ رَضِينَا بِاللَّهِ تَعَالَى رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا قَالَ فَسُرِّيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ أَصْبَحَ فِيكُمْ مُوسَى ثُمَّ اتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ إِنَّكُمْ حَظِّي مِنْ الْأُمَمِ وَأَنَا حَظُّكُمْ مِنْ النَّبِيِّينَ
مسند احمد:جلد ہشتم:حدیث نمبر 220 ، مسند احمد جلد 4 صفحہ 265
حضرت عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک کتاب لے کر آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! بنوقریظہ میں میرا اپنے ایک بھائی پر گذر ہوا اس نے تورات کی جامع باتیں لکھ کر مجھے دی ہیں کیا وہ میں آپ کے سامنے پیش کروں ؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ بدل گیا میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو نہیں دیکھ رہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر عرض کیا ہم اللہ کو رب مان کر، اسلام کو دین مان کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مان کر راضی ہیں تو نبی کریم کی وہ کیفیت ختم ہوگئی پھر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے- اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگتے تو تم گمراہ ہوجاتے امتوں سے تم میرا حصہ ہو انبیاء میں سے میں تمہارا حصہ ہوں ۔
اس سے واضح طور پر ثابت ہوا کہ موسی علیہ السلام وفات پا چکے ہیں۔
صرف یہی نہیں کہ انبیاء علیہم السلام اپنی قبور میں نماز ادا فرماتے ہیں بلکہ شب اسراء جب رسول اللہ ﷺ بیت المقدس
تشریف لائے تو آپ ﷺنے ملاحظہ کیا کہ انبیاء علیہم السلام مسجد اقصیٰ میں بھی نماز ادا فرمارہے تھے اور اس کے بعد
تمام انبیاء علیہم السلام نے آپ ﷺ کی امامت میں نماز ادا کی یہ سب بھی امام مسلم نے اپنی صحیح مسلم میں بیان کیا ہے
(صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 172)
والسلام
اس سے بھی کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ انبیاء اپنی قبروں میں دنیاوی زندگی کی طرح زندہ ہیں، بلکہ انبیاء فوت ہو چکے ہیں، ان انبیاء میں حضرت یعقوب علیہ السلام بھی ہوں گے تو:
أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَـٰهَكَ وَإِلَـٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ﴿١٣٣﴾۔۔۔سورة البقرة
کیا (حضرت) یعقوب کے انتقال کے وقت تم موجود تھے؟ جب انہوں نے اپنی اوﻻد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آباواجداد ابرہیم ﴿علیہ السلام﴾ اور اسماعیل ﴿علیہ السلام﴾ اور اسحاق ﴿علیہ السلام﴾ کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے
یحییٰ علیہ السلام بھی ہوں گے:
وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا ﴿١٥﴾۔۔۔سورة مريم
ترجمه: اس پر سلام ہے جس دن وه پیدا ہوا اور جس دن وه مرے اور جس دن وه زنده کرکے اٹھایا جائے
عیسی علیہ السلام بھی ہوں گے:
وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا ﴿٣٣﴾۔۔۔سورۃ مریم
ترجمہ: اور مجھ پر میری پیدائش کے دن اور میری موت کے دن اور جس دن کہ میں دوباره زنده کھڑا کیا جاؤں گا، سلام ہی سلام ہے
یوسف علیہ السلام بھی ہوں گے:
فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ ﴿١٠١﴾۔۔۔سورة يوسف
ترجمہ: اے آسمان وزمین کے پیدا کرنے والے! تو ہی دنیا وآخرت میں میرا ولی (دوست) اور کارساز ہے، تو مجھے اسلام کی حالت میں فوت کر اور نیکوں میں ملا دے
پس اس کے علاوہ مزید دلائل بھی ہیں، یہ وہ تمام تر دلائل جس سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء علیھم السلام کی وفات ہو گئی ہے۔ انبیاء علیھم السلام کی زندگی اب برزخی زندگی ہے، دنیاوی زندگی نہیں۔ اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
وَقَالَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ أَصْبَحَ فِيكُمْ مُوسَى ثُمَّ اتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ إِنَّكُمْ حَظِّي مِنْ الْأُمَمِ وَأَنَا حَظُّكُمْ مِنْ النَّبِيِّينَ[/arb]
مسند احمد:جلد ہشتم:حدیث نمبر 220 ، مسند احمد جلد 4 صفحہ 265
پھر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے- اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگتے تو تم گمراہ ہوجاتے امتوں سے تم میرا حصہ ہو انبیاء میں سے میں تمہارا حصہ ہوں ۔
اس سے واضح طور پر ثابت ہوا کہ موسی علیہ السلام وفات پا چکے ہیں۔
یہاں آپ نے یہ ترجمہ اپنے مطلب براری کے لئے اس طرح کیا ہے لیکن یہی حدیث تفسیر ابن کثیر میں بھی بیان کی گئی ہے
لیکن وہاں اس کا اردو ترجمہ کچھ اور کیا گیا ہے
وہاں اس کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے
اگر موسیٰ علیہ السلام تم میں آجائیں اور تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اور پھر اس کی بحث ہی نہیں کہ انبیاء علیہم السلام زندہ ہیں یا نہیں کیونکہ جب یہ تسلیم کر لیا گیا کہ
رہا حیاۃ انبیاء کا مسئلہ تو وہ صحیح احادیث اور نص قرآنی سے ثابت ہے ۔
اب رہ جاتا ہے ایک ہی مسئلہ کہ کیا انبیاء علیہم السلام اپنی قبور انوار میں نماز پڑھتے ہیں یا نہیں اور جو اس دھاگے کا موضوع بھی ہے
اور اس مسئلے کو لیکر یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی کہ انبیاء علیہم السلام اپنی قبور میں نماز نہیں پڑھتے ایک ضعیف حدیث کو بنیاد بنا کر
جبکہ میں صحیح مسلم کی احادیث پیش کرکے ثابت کرچکا کہ انبیاء علیہم السلام اپنی قبور میں نماز پڑھتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ مسجد اقصیٰ میں
انبیاء علیہم السلام کا تنہا نماز پڑھنا اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا بھی ثابت کرچکا
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
لیکن وہاں اس کا اردو ترجمہ کچھ اور کیا گیا ہے​
وہاں اس کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے​
اگر موسیٰ علیہ السلام تم میں آجائیں اور تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
اگر آپ "فیکم" یعنی "تم میں" ہونے کو "زندہ ہونے" کے معنی میں نہیں لیتے تو ان آیات کا کیا مطلب لیں گے؟جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم زندہ تھے تو اللہ نے یہ ارشاد فرمایا:​
كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ ﴿١٥١﴾۔۔۔سورۃ البقرۃ​
ترجمہ: جس طرح ہم نے تم میں تمہی میں سے رسول بھیجا جو ہماری آیتیں تمہارے سامنے تلاوت کرتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب وحکمت اور وه چیزیں سکھاتا ہے جن سے تم بےعلم تھے
اور​
وَكَيْفَ تَكْفُرُونَ وَأَنتُمْ تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ آيَاتُ اللَّـهِ وَفِيكُمْ رَسُولُهُ ۗ وَمَن يَعْتَصِم بِاللَّـهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿١٠١﴾۔۔۔سورۃ آل عمران​
ترجمہ: ﴿گو یہ ظاہر ہے کہ﴾ تم کیسے کفر کر سکتے ہو؟ باوجود یہ کہ تم پر اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور تم میں رسول اللہ ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ موجود ہیں۔ جو شخص اللہ تعالیٰ (کے دین) کو مضبوط تھام لے تو بلاشبہ اسے راه راست دکھادی گئی
اور​
وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّـهِ ۚ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ ﴿٧﴾۔۔۔سورۃ الحجرات​
ترجمہ: اور جان رکھو کہ تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں، اگر وه تمہارا کہا کرتے رہے بہت امور میں، تو تم مشکل میں پڑجاؤ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناه کو اور نافرمانی کو تمہارے نگاہوں میں ناپسندیده بنا دیا ہے، یہی لوگ راه یافتہ ہیں
اسی لئے حدیث میں بھی اسی بات کی طرف وضاحت ہے کہ اگر موسی علیہ السلام بھی آج زندہ ہو کر آ جائیں، اس کا مطلب ہے کہ موسی علیہ السلام زندہ نہیں ہیں، فوت ہو چکے ہیں، اور پھر جب دیگر انبیاء علیھم السلام فوت ہو سکتے ہیں تو موسی علیہ السلام کیسے زندہ رہ سکتے ہیں۔ قرآن میں اللہ کا ارشاد ہے:​
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ۔۔۔سورۃ الانبیاء​
ترجمہ: ہر جان دار موت کا مزه چکھنے واﻻ ہے
اور​
وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ الْخُلْدَ ۖ أَفَإِن مِّتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ ﴿٣٤﴾۔۔۔سورة الانبياء​
ترجمه: آپ سے پہلے کسی انسان کو بھی ہم نے ہمیشگی نہیں دی، کیا اگر آپ مرگئے تو وه ہمیشہ کے لئے ره جائیں گے
اگر آپ کے پاس موسی علیہ السلام کے زندہ ہونے کی کوئی پختہ دلیل ہے تو پیش کریں​
 
Top