• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انبیاء و صالحین کاوسیلہ

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انبیاء و صالحین کاوسیلہ
الحمد للہ وحدہ والصلاۃ والسلام علی من لانبی بعدہ .........و بعد
دور حاضر میں بیشتر مسلمانوں کی اپنے رب سے دوری ، اور دین سے جہالت کے نتیجہ میں ان کے درمیان شرک و بدعت اور خرافات عام ہیں ، انہیں بڑے پیمانہ پر پھیلنے والے شرکیہ کاموں میں سے ایک بعض مسلمانوں کااولیاء و صالحین کی تعظیم (میں غلو)کرنا، اور ان سے نفع و نقصان کی امیدیں وابستہ کرکے اللہ کے سوا انہیں پکارنا ہے ۔​
چنانچہ بہت سے مسلمانوں نے اولیاء و صالحین کی تعظیم اور ان کی قبروں کاطواف یہ سمجھ کر کیا کہ وہ اس طرح اللہ کی بارگاہ میں اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے ان اولیاء و صالحین کاوسیلہ پیش کررہے ہیں ۔​
اگر یہ نادان لوگ قرآن و سنت کی جانب رجوع کرتے اور سمجھتے تو شرعاً ثابت حقیقی وسیلہ سے واقف ہوجاتے۔​
شرعاً وہ وسیلہ ثابت ہے جونیکی کے کاموں کو بجالا کر اور حرام کاموں سے اجتناب کرکے اللہ و رسول کی فرمانبرداری ، اعمال صالحہ کے ذریعہ اللہ کاتقرب ، اور اللہ کے اچھے ناموں اور بلند صفات کے واسطہ سے سوال کا ذریعہ ہو، اور درحقیقت اللہ کی نزدیکی حاصل کرنے کے طریقے اور ا س کی رحمت و خوشنودی تک پہونچانے والے راستے یہی ہیں ۔​
رہا مسئلہ قبر والوں کی پناہ لینے اور ان کاطواف کرنے اور قبر والوں کے لئے نذر و نیاز پیش کرنے ، اور اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے ان کے آستانوں پر ہجوم اور رش کرنے کا، اور اللہ کی بارگاہ میں ان کاوسیلہ پیش کرنے کا، تویہ ساری چیزیں غیر شرعی وسیلہ کی قبیل سے کفر و شرک ہیں ، والعیاذ باللہ ۔
ایک شبہ کاازالہ:​
ناجائز وسیلہ کے قائلین دیگر دلائل کے ساتھ اس واقعہ سے بھی ناجائز وسیلہ کے اثبات پر استدلال کرتے ہیں کہ ، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کاوسیلہ لیاتھا ، اہل علم نے اس کے مختلف جوابات دئے ہیں ، ان میں چند ایک ذیل میں ذکر کئے جاتے ہیں :​
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی ذات کانہیں بلکہ ان کی دعا کاوسیلہ لیاتھا ، واضح رہے کہ کسی کی دعا کاوسیلہ اور اس کی ذات کاوسیلہ دو الگ الگ چیزیں ہیں ، لہذا ایک کودوسرے پر قیاس کرنا درست نہیں ہے، کیوں کہ زندہ نیک و صالح افراد کی دعا کاوسیلہ شرعاً ثابت اور درست ہے ۔
قبر والوں سے دعا و مدد طلب کرنا اس لئے بھی درست نہیں ہے کہ لوگ جن مردہ ہستیوں کی برکت سے اللہ سے مانگتے اور مدد طلب کرتے ہیں مرنے کے بعد تووہ اپنی جان کے بھی بھلے اور برے کااختیار نہیں رکھتے ، توپھر وہ دوسروں کونفع کیسے پہنچا سکتے ہیں ۔​
معمولی عقل و خرد کاحامل شخص بھی اس بات کوماننے کے لئے تیار نہیں ہوگا کہ جس کی روح پرواز کرگئی اور اعضاء و جوارح معطل اور بے حس و حرکت ہوگئے وہ خود کو نفع رسانی کی صلاحیت رکھے، پھر جب اپنی بابت نفع رسائی کااختیار عقل سے بعید تر ہے توپھر دوسروں کونفع پہنچانے کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔
نبی ﷺنے ایک حدیث میں ذکر فرما دیا ہے کہ انسان مرنے کے بعد عمل کی قدرت سے محروم ہوجاتا ہے ، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا : '' جب انسان کاانتقال ہوجاتا ہے تواس کے اعمال کاسلسلہ بند ہوجاتا ہے ،سوائے تین اعمال کے ،کہ مرنے کے بعد بھی ان کاثواب جاری رہتا ہے، صدقہ جاریہ، نفع بخش علم ، نیک اولاد جو اس کے حق میں دعائیں کرے''۔​
اس حدیث سے یہ بات آشکارا ہوگئ کہ مردہ ہی زندہ افراد کی دعا و استغفار کے محتاج ہیں ، اوراس کے برعکس زندہ مردہ کی دعا کے محتاج نہیں ہیں ۔​
مذکورہ حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ موت کے بعد انسان سے عمل کی صلاحیت مفقود ہوجاتی ہے ، توہم یہ اعتقاد کیسے رکھتے ہیں کہ مردہ اپنی قبر میں زندہ، دوسروں سے روابط استوار کرتا، اور انہیں ہرطرح کی مدد پہنچاتا ہے ۔​
ہم یہ بات کیسے مان لیں کہ قبروں میں مدفون ہستیاں حاجت روائی اور مشکل کشائی کرتی ہیں ، جبکہ اصول یہ ہے کہ جو خود بھوکا ہووہ دوسرے کو کہاں سے کھلائے یعنی جو خود محتاج ہو وہ دوسرے کی مدد رسانی کیسے کرے گا ، دوسرے یہ کہ انہیں جس قدر بھی پکارا جائے وہ سن نہیں سکتے ، اللہ عزوجل نے فرمایا: ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا يَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِيْرٍ۝۱۳ۭ
اِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَاۗءَكُمْ۝۰ۚ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ۝۰ۭ وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ۔
'' جنہیں تم اس کے سوا پکار رہے ہو، وہ توکھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ہیں ، اگر تم انہیں پکار، تمہاری پکار سنتے ہی نہیں ، اور اگر (بالفرض )سن بھی لیں ، توفریاد رسی نہیں کریں گے ، بلکہ قیامت کے دن تمہارے اس شرک کاصاف انکار کریں گے ''۔​
مذکورہ بالاآیت میں اللہ نے نفی کردی کہ اللہ کے سوا جنہیں تم پکارتے ہونہ توان کے پاس سلطنت ہے اور نہ ہی وہ دعاؤں کو سن سکتے ہیں اور یہ بات واضح ہے کہ جو کسی چیز کامالک نہ ہووہ دے بھی نہیں سکتا اور جو سننے کی صلاحیت سے محروم ہو، وہ قبول بھی نہیں کرسکتا بلکہ قبولیت تودور کی بات وہ تو سائل کی مراد سے واقف ہی نہیں ہوسکتا۔
مذکورہ ایت سے یہ بات بھی منکشف ہوگئ کہ اللہ کے سوا جن ہستیوں کو پکارا جاتا ہے وہ پکارنے والے کی کوئی بھی امید برنہیں لاسکتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی بھی معبود کی عبادت باطل اور غلط ہے ، اللہ تعالی نے فرمایا : وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ۝۰ۚ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّكَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِــمِيْنَ۝۱۰۶
وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ھُوَ۝۰ۚ وَاِنْ يُّرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَاۗدَّ لِفَضْلِہٖ۝۰ۭ يُصِيْبُ بِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ۝۰ۭ وَھُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ
۝۱۰۷​
'' اور اللہ کوچھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت مت کرنا جوتجھ کونہ کوئی نفع پہنچا سکے ، اور نہ کوئی ضرر پہنچا سکے، پھر اگر تو نے ایسا کیا توتم اس حالت میں ظالموں میں سے ہوجاؤگے ۔اور اگر تم کو اللہ کوئی تکلیف پہنچائے ، توبجز اس کے اور کوئی اس کو دور کرنے والانہیں ہے ، اور اگر وہ تم کوکوئی خیر پہنچانا چاہے ، تواس کے فضل کاکوئی ہٹانے والا نہیں، وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نچھاور کردے، اور وہ بڑی رحمت اور بڑی مغفرت والا ہے''۔​
مذکورہ آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالی کے سوا جن ہستیوں کوبھی پکارا جاتا ہے ، وہ نہ تو نفع پہنچاسکتے ہیں اور نہ ہی نقصان ۔پھر انہیں پکارنے اور ان کی عبادت کرنے کاکیافائدہ ہے ؟
مذکورہ آیت میں اہل خرافات کی بھی تردید ہے جویہ کہتے ہیں کہ ہم فلاں کی قبر پر گئے یافلاں ولی کوپکارا ، توہماری مراد پوری ہوگئی ، بلاشبہ اس طرح کی بات اللہ تعالی پرجھوٹ ہے ۔
اور اگر بالفرض مان لیاجائے کہ غیر اللہ کوپکارنے سے اس کی مراد پوری ہوگئی تویہ دو اسباب میں سے کسی ایک سبب کی وجہ سے ہے۔​
۱۔ اگر حاصل شدہ چیز ایسی ہے جس پر مخلوق عام طور پرقدرت رکھتی ہیں توہمیں یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ یہ چیز شیطان کی جانب سے حاصل ہوئی ہے کیونکہ اللہ کے سوا پوجی جانے والی ہر قبر اور ہر بت کے پا شیطان لوگوں کی عقلوں سے کھیل کرنے کے لئے ضرور حاضر ہوتے ہیں ، اولیاء کرام کاوسیلہ لینے والے چونکہ بتوں کے پجاریوں کی قبیل سے ہیں ، توشیطان انہیں بھی راہِ حق سے ویسے ہی بہکاتے ہیں جس طرح قدیم زمانہ میں بتوں کے پجاریوں کوبہکاتے تھے ۔​
 
Top