• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انوار البدر ، حدیث سہل بن سعد

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
حدیث سہل بن سعد رضی اللہ عنہ


امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: «كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ اليَدَ اليُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ اليُسْرَى فِي الصَّلاَةِ» قَالَ أَبُو حَازِمٍ لاَ أَعْلَمُهُ إِلَّا يَنْمِي ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِسْمَاعِيلُ: يُنْمَى ذَلِكَ وَلَمْ يَقُلْ يَنْمِي
ہم سے عبد اللہ بن مسلمة نے بیان کیاانہوں نے، مالک سے روایت کیاانہوں نے ،ابوحازم سے روایت کیاانہوں نے،سھل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کیاکہ :''لوگوں کوحکم دیاجاتاتھاکہ نمازمیں ہرشخص دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے ذراع(کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے حصہ)پررکھے۔[بخاری:ـکتاب الأذان:باب وضع الیمنی علی ذراعہ الیسری فی الصلوٰة،حدیث نمبر740۔]

مزید حوالے:
بخاری(ترجمہ وحید الزماں):ـج 1ص 371پارہ نمبر3باب نمبر477حدیث نمبر703۔
بخاری(ترجمہ داؤدراز،مکتبہ قدوسیہ،ومرکزی جمعیت اہل حدیث):ـج 1ص679حدیث نمبر740۔

اس حدیث کے صحیح ہونے کے لئے اس کا صحیح بخاری میں ہونا ہی کافی ہے کیونکہ صحیح بخاری کی احادیث تما م احادیث میں اعلیٰ قسم کی صحت رکھتی ہیں یہ ہی علماء امت کا فیصلہ ہے (شرح نخبہ ص224 اور تدریب الراوی للسیوطی ص25 وغیرہ)
نیز اس حدیث کو امام ابن حزم نے المحلی ج4 ص114 میں اور حافظ ابن القیم نے اعلام الموقعین ج 2 ص 6 طبع ھندمیں صحیح کہا ہے ۔

یہ حدیث مرفوع ہے جیساکہ راوی ابو حازم نے تصریح کی ہے نیز صحابہ کرام کو رسول اللہ ﷺ کے علاوہ یہ حکم کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟اسی لئے حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری ج2ص124 (السلفیہ) میں اور علامہ عینی نے عمدۃ القاری ج5 ص 278 (المنیریہ ) میں اس حدیث کو مرفوع ثابت کیا ہے۔


وضاحت:ـ
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے ''ذراع''پررکھنے کاحکم دیاہے اور''ذراع'' کہتے ہیں''کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے حصہ کو''۔

چنانچہ غریب الحدیث للحربی :(277/1)میں ہے :
''الذراع'' من طرف المرفق الی طرف الاصبع الوسطی،یعنی ''ذراع'' کہتے ہیں ''کہنی کے سرے سے لیکر درمیانی انگلی کے سرے تک کے حصہ کو''
نیز کتب لغت میں بھی ''ذراع '' کایہی معنی درج ہے مثلا دیکھئے :لسان العرب :93/8،تاج العروس :5217/1کتاب العین :96/2،المعجم الوسیط:311/1تہذیب اللغہ :189/2،کتاب الکلیات :730/1وغیرہ۔

اوردارالعلوم دیوبند کے سابق استاذ ادب مولاناوحید الزماں قاسمی کیرانوی رحمہ اللہ'' ذراع ''کایہ معنی لکھتے ہیں :
''کہنی سے بیچ کی انگلی تک''دیکھئے موصوف کی تالیف کردہ لغت کی کتاب ''القاموس الجدید،عربی اردو'' ما دہ ''ذرع ''ص308 کتب خانہ حسینیہ دیوبند ،یوپی۔

لغت کی مذکورہ کتابوں سے معلوم ہواکہ عربی زبان میں ''ذراع'' کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے حصہ کوکہتے ہیں اوربخاری کی مذکورہ حدیث میں بائیں ہاتھ کے''ذراع''یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصہ پردائیں ہاتھ کورکھنے کاحکم ہے ،اب اگر اس حدیث پرعمل کرتے ہوئے دائیں ہاتھ کوبائیںہاتھ کے ''ذراع'' (یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصے )پررکھیں گے تودونوں ہاتھ خود بخود سینے پرآجائیں گے ،تجربہ کرکے دیکھ لیجئے،لہٰذا بخاری کی یہ حدیث سینے پرہاتھ باندھنے کی دلیل ہے ۔

محدث کبیرعلامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ومما يصح أن يورد في هذا الباب حديث سهل بن سعد، وحديث وائل - المتقدِّمان -،ولفظه:وضع يده اليمنى على ظهر كفه اليسرى والرسغ والساعد. ولفظ حديث سهل:كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة.فإن قلت: ليس في الحديثين بيان موضع الوضع!قلت: ذلك موجود في المعنى؛ فإنك إذا أخذت تُطَبِّق ما جاء فيهما من المعنى؛فإنك ستجد نفسك مدفوعاً إلى أن تضعهما على صدرك، أو قريباً منه، وذلك ينشأ من وضع اليد اليمنى على الكف والرسغ والذراع اليسرى، فجرِّب ما قلتُه لك تجدْه صواباً.فثبت بهذه الأحاديث أن السنة وضع اليدين على الصدر،
سینے پرہاتھ باندھنے کے سلسلے میں سھل بن سعد اوروائل بن حجررضی اللہ عنہماکی مذکورہ دونوں حدیثوں کوپیش کرنابھی صحیح ہے ،وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں ''آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیںہاتھ کوبائیں ہاتھ کی ہتھیلی ،کلائی اوربازوکے اوپررکھا''اورسھل بن سعد رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں ''لوگوں کوحکم دیاجاتاتھا کہ نمازمیں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے ذراع(یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصے )پررکھیں ''۔اگر کوئی کہے کہ ان دونوں حدیثوں میں ہاتھ رکھنے کی جگہ کابیان نہیں ہے توعرض ہے کہ معنوی طوراس کاذکرموجود ہے کیونکہ جب آپ اپنے دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کی ہتھیلی ،کلائی اوربازوپر رکھیںگے توآپ کے دونوں ہاتھ لازمی طور پرسینے پر یااس کے قریب آئیںگے ،ذراآپ ہماری بات کا تجربہ کرکے دیکھئے آپ کوسچائی معلوم ہوجائے گی ،پس ان احادیث سے ثابت ہواکہ نمازمیںدونوں ہاتھ کاسینے پررکھناہی سنت ہے''(أصل صفة صلاة النبی صلی اللہ علیہ وسلم للألبانی:ج1ص218).

تنبیہ :۔
بعض حضرات اعتراض کرتے ہیں کہ ''ذراع '' پررکھنے سے یہ کہاں لازم آتاہے کہ پورے ''ذراع'' پررکھا جائے ، اگرذراع کے ایک حصہ یعنی'' کف'' ہتھیلی پر رکھ لیاجائے تب بھی توذراع پر رکھنے کا عمل ہوجاتاہے۔
عرض ہے کہ بخاری کی یہ حدیث ملاحظہ ہو:
عن ميمونة قالت: «وضع رسول الله صلى الله عليه وسلم وضوءا لجنابة، فأكفأ بيمينه على شماله مرتين أو ثلاثا، ثم غسل فرجه، ثم ضرب يده بالأرض أو الحائط، مرتين أو ثلاثا، ثم مضمض واستنشق، وغسل وجهه وذراعيه، ثم أفاض على رأسه الماء، ثم غسل جسده، ثم تنحى فغسل رجليه» قالت: «فأتيته بخرقة فلم يردها، فجعل ينفض بيده»
میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جنابت کے لئے پانی رکھا گیا آپ نے اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر دو مرتبہ یا تین مرتبہ پانی ڈالا اور اپنی شرمگاہ کو دھویا، پھر اپنا ہاتھ زمین میں یا دیورا میں دو مرتبہ مارا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈلا اور اپنے دونوں ہاتھ اور کہنیاں دھوئیں، پھر اپنے (باقی) بدن کو دھویا، پھر (وہاں سے) ہٹ گئے اور اپنے دونوں پیر دھوئے، میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں پھر میں آپ کے پاس ایک کپڑا لے گئی آپ نے اسے نہیں لیا اور اپنے ہاتھ سے پانی نچوڑتے رہے۔(صحیح البخاری رقم 274)

اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضوء کا طریقہ بیان ہے اور بازودھلنے کے لئے یہ الفاظ ہیں :'' وغسل وجہہ وذراعیہ'' یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرے اوراپنے دونوں بازؤں کا دھلا ۔
اب کیا یہاں بھی ''ذراع '' سے بعض حصہ مراد ہے؟ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکمل ذراع کو نہیں دھلا بلکہ صرف بعض کو دھلا؟ فماکان جوابکم فہوجوابنا۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
حدیث وائل بن حجر(سنن نسائی وابوداؤد)


امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
أخبرنا سويد بن نصر قال أنا عبد الله بن المبارك عن زائدة قال نا عاصم بن كليب قال حدثني أبي أن وائل بن حجر أخبره قال : قلت لأنظرن إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم كيف يصلي فنظرت إليه فقام فكبر ورفع يديه حتى حاذتا بأذنيه ثم وضع يده اليمنى على كفه اليسرى والرسغ والساعد
ہمیں سویدبن نصر نے خبر دی انہوں نے کہا: ہم سے عبداللہ بن المبارک نے بیان کیاانہوں نے ، زائدہ سے روایت کیاانہوں نے کہا: ہم سے عاصم بن کلیب نے بیان کیا انہوں نے کہا: مجھ سے میرے والد نے بیان کیا: کہ انہیں وائل بن حجر نے بتایااورکہاکہ : پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپناداہناہاتھ بائیں ہتھیلی کی پشت ،کلائی اوربازوکے اوپررکھا.[سنن نسائی:ـکتاب الافتتاح:باب موضع الیمین من الشمال فی الصلوٰة،حدیث نمبر889۔]

مزید حوالے:

سنن نسائی(ترجمہ وحید الزماں):ـج 1ص 310پارہ نمبر باب نمبر حدیث نمبر892۔


وضاحت:ـ
اس حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کی ہتھیلی ، کلائی اور بازوکے اوپر رکھتے تھے،اس حدیث کے مطابق اگردائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے اس پورے حصے پررکھیں گے تودونوں ہاتھ خود بخود سینے پرہی آئیں گے لہذایہ حدیث بھی نمازمیں سینہ پرہاتھ باندھنے کی دلیل ہے۔

علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
''وهذه الکيفية تستلزم أن يکون الوضع علي الصدر؛ اذا أنت تأملت ذلک وعملت بها، فجرب ان شئت''
اس حدیث میں مذکورکیفیت کالازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہاتھ سینے پر رکھیں جائیں ،اگرآپ اس کیفیت پرغور کریں اور اس پرعمل کریں ،پس اگر چاہیں توتجربہ کرکے دیکھ لیں (ھدایة الرواة:ج1ص367)۔

اورایک مقلد پررد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
''فلوأنه حاول يوماما أن يحقق هذاالنص الصحيح في نفسه عمليا -وذلک بوضع اليمني علي الکف اليسري والرسغ والساعد، دون أي تکلف- وجد نفسه قد وضعهماعلي الصدر! ولعرف أنه يخالفه هو ومن علي شاکلته من الحنفية حين يضيعون أيديهم تحت السرة،وقريبامن العورة،
اگر یہ شخص کسی دن خود اس صحیح حدیث پرعمل کرکے دیکھے ،بایں طورکہ دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کہ ہتھیلی ،کلائی اوربازوپربغیر کسی تکلف کے رکھے ،تووہ خود ہی ہاتھوں کواپنے سینے پررکھے ہوئے پائے گا،اور اسے معلوم ہوجائے گاکہ وہ اور اس جیسے احناف جب اپنے ہاتھوں کو ناف کے نیچے اورشرمگاہ کے قریب رکھتے ہیں تو اس حدیث کی مخالفت کرتے ہیں '' (مقدمہ صفة صلاة النبی :ص16)۔

یہ حدیث صحیح ہے اس کے سارے رجال ثقہ ہیں ،تفصیل ملاحظہ ہو:


كليب بن شهاب الجرمي کا تعارف:

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
ثقة
یہ ثقہ یں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 7/ 167 واسنادہ صحیح]

امام عجلى رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
تابعي، ثقة
یہ تابعی اور ثقہ ہیں[تاريخ الثقات للعجلي: ص: 398]

امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
كان ثقة كثير الحديث ۔۔۔رأيتهم يستحسنون حديثه ويحتجون به
یہ ثقہ اور زیادہ احادیث والے تھے ، میں نے محدثین کو دیکھا وہ ان کی حدیث کو اچھی کہتے تھے اور اس سے حجت پکڑتے تھے۔[الطبقات الكبرى ط دار صادر 6/ 123]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
صدوق
یہ سچے راوی ہیں [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم3075]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
عاصم بن کلیب کا تعارف:
آپ بخاری تعلیقا ، مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں ۔آپ بالاتفاق ثقہ ہیں۔

امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
كان ثقة يحتج به
یہ ثقہ تھے ، ان سے حجت لی جائے گی[الطبقات الكبرى ط دار صادر 6/ 341]

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
عاصم بن كليب ثقة مأمون
عاصم بن کلیب ثقہ اور مامون ہیں[من كلام يحيى بن معين في الرجال: ص: 46]

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
ثقةٌ
آپ ثقہ ہیں[العلل ومعرفة الرجال للإمام أحمد رواية المروذي وصالح والميموني - الفاروق ص: 164]

امام عجلى رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
ثقة
آپ ثقہ ہیں[تاريخ الثقات للعجلي: ص: 242]

امام يعقوب بن سفيان الفسوي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
ثقة
آپ ثقہ ہیں[المعرفة والتاريخ 3/ 95]

تنبیہ:
ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
قال ابن المديني لا يحتج به إذا انفرد
ابن المدینی نے کہا: جب یہ منفرد ہوں تو ان سے حجت نہیں لی جائے گی[الضعفاء والمتروكين لابن الجوزي: 2/ 70]
ابن الجوزی کی اسی بات کو امام ذہبی اور ابن حجر رحمھماللہ نے بھی نقل کیا ہے۔[ميزان الاعتدال للذهبي: 2/ 356 ، فتح الباري لابن حجر 1/ 457]

عرض ہے کہ ابن الجوزی نے کوئی حوالہ نہیں دیا ہے اور نہ ہی کہیں پر اس قول کی کوئی سند موجود ہے بلکہ ابن الجوزی سے قبل کسی نے بھی ابن المدینی سے یہ بات نقل نہیں کی ہے لہذا یہ جرح ثابت ہی نہیں ، نیز دیگر ائمہ کی صریح توثیق کے مقابلہ میں اس کی کوئی حیثیت بھی نہیں ہے۔نیز ابن المدینی سے پہلے فوت ہونے والے امام ابن سعد رحمہ اللہ نے کہا: ”يحتج به“ یعنی ان سے حجت لی جائے گی، کمامضی۔



وقد نقل يعقوب بن شيبة في مسند عمر من مسنده الكبير [89] أن علي بن المديني قال: «وعاصم بن كليب صالح، ليس مما يسقط، ولا مما يحتج به، وهو وسط»
 
Last edited:

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
زائدة بن قدامة الثقفي کا تعارف:
آپ بخاری ومسلم سمیت کتب ستہ کے راوی اور بہت بڑے امام اور حافظ اور بالاتفاق ثقہ ہیں۔
بہت سارے محدثین نے ان کی توثیق کی ہے مثلا:

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
زائدة بن قدامة ثقة صاحب سنة
زائدہ بن قدامہ ،ثقہ اور سنت والے تھے[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 3/ 613]

امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
كان زائدة ثقة مأمونا صاحب سنة وجماعة
زائدہ ثقہ ، مامون اور سنت والجماعت والے تھے[الطبقات الكبرى ط دار صادر 6/ 378]

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
ثبت
آپ ثبت تھے [تاريخ ابن معين، رواية الدارمي: ص: 51]

ان محدثین کے علاوہ اور بھی بہت سارے محدثین نے ان کی توثیق کی ہے ۔حافظ ابن حجررحمہ اللہ ان کے بارے میں محدثین کے اقوال کا خلاصہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ثقة ثبت صاحب سنة
آپ ثقہ ، ثبت اور سنت والے ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم1982]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
عبد الله بن المبارك الحنظلي کا تعارف:
آپ بخاری ومسلم سمیت کتب ستہ کے رجال میں سے ہیں ۔ اوربہت بڑے ثقہ امام بلکہ امیرالمؤمنین فی الحدیث ہے ۔آپ کے تعارف کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ امت مسلمہ کی جلیل القدر ہستیوں نے آپ کی زبردست تعریف وتوثیق کی ہے۔

امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے :
كان ثقة، مأمونا، إماما، حجة، كثير الحديث
آپ ثقہ ، مامون ، امام ، حجت ، اور کثیر الحدیث تھے[الطبقات الكبرى ط دار صادر 7/ 372]

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
وكان بن المبارك رحمه الله فيه خصال مجتمعة لم يجتمع في أحد من أهل العلم في زمانه في الدنيا كلها
ابن المبارک رحمہ اللہ میں ایسی خصلتیں جمع تھیں کہ ان کے زمانہ میں روئے زمین کے علماء میں سے کسی کے پاس وہ خصلتیں جمع نہیں ہوئیں[الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 7/ 8]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
حديثه حجة بالإجماع
آپ کی حدیث بالاجماع حجت ہے[سير أعلام النبلاء للذهبي: 8/ 380]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
ثقة ثبت فقيه عالم جواد مجاهد جمعت فيه خصال الخير
آپ ثقہ ، ثبت ، عالم ، زاہد ، مجاہد تھے ، آپ کے اندر خیر کی خصلتیں جمع تھیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 3570]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سويد بن نصر المروزي کا تعارف:
آپ ترمذی اور نسائی کے رجال میں سے ہیں اور بالاتفاق ثقہ ہیں۔

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
ثقة
آپ ثقہ ہیں[تسمية الشيوخ للنسائي: ص: 72]

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
كان متقنا
آپ متقن تھے[الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 8/ 295]

امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے کہا:
ثقة مأمون
آپ ثقہ اور مامون ہیں[المستدرك على الصحيحين للحاكم: 1/ 158]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
ثقة
آپ ثقہ ہیں[الكاشف للذهبي: 1/ 473]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
ثقة
آپ ثقہ ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم2699]
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top