• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انٹر نیٹ شیطان ؟

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
انٹرنیٹ کے مضر اثرات

آج کل انٹرنیٹ کا استعمال بہت زیادہ بڑھ گیا اور آئے روز بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔اس وقت دنیا کی تقریباً ٢٩ فی صد آبادی انٹر نیٹ استعمال کر رہی ہے۔ فروری ٢٠١٠ء کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف پاکستان میں تقریباً تین کروڑ پچاس لاکھ افراد انٹر نیٹ استعمال کرتے ہیں۔
ایک دوسری رپورٹ کے مطابق عرب ممالک میں انٹر نیٹ استعمال کرنے والوں میں ٨٥ فی صد افراد کی عمر ١٥ سے ٣٥ سال کے مابین ہے جبکہ ان میں سے ٦٥ فی صد افراد شام کے اوقات میں اباحی یعنی فحش ویب سائیٹس کو وزٹ کرتے ہیں۔
ایک اباحی یا فحش ویب سائیٹ کی رپورٹ کے مطابق اس کی ویب سائیٹ کو روزانہ پوری دنیا سے تقریباً٥٠ لاکھ افراد وزٹ کرتے ہیں۔ یہ تو ایک ویب سائیٹ کا معاملہ ہے اور ایسی ہزاروں ویب سائیٹس موجود ہیں ۔ان حالات میں اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ انٹرنیٹ کے استعمال کے حوالے سے دینی رہنمائی عام کی جائے۔ ذیل کا مضمون بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
ہم ذراانٹرنیٹ کے بارے اپنے عقیدہ پر غور فرمائیں!
اسلام ایک نظریاتی دین ہے۔ جب تک کسی عمل کے پیچھے کوئی نظریہ یا عقیدہ کارفرما نہ ہو تو وہ عمل بے مقصد اور لایعنی کوشش کہلاتا ہے۔ عموماًکسی بھی عمل کی بنیادکوئی نہ کوئی فکر ہوتی ہے۔ پس فکر اور عقیدہ پہلے ہے اور اس کے بعد عمل ہے اور یہی عمل جب ایک منظم اور اجتماعی صورت اختیار کر لیتا ہے تو اسے تحریک کہتے ہیں لہٰذا عمل اور تحریک کے لیے عقیدہ اور فکر کی تصحیح مسلم ہے۔ دین اسلام نے انسانوں کے اعمال سے زیادہ ان کے عقائد اور نظریات کی اصلاح پر زور دیا ہے کیونکہ اگر عقیدہ اور نظریہ درست ہو گا تو عمل بھی صحیح کہلائے گا لیکن اگر فکر اور عقیدے میں ہی بگاڑ ہو تو عمل فاسد شمار ہو گا۔لہٰذا کسی بھی عمل سے پہلے اس بارے اپنے عقیدے کی تصحیح ایک لازمی امر ہے۔
1۔ انٹرنیٹ کے بارے ایک رائے تو یہ ہے کہ ایک خیر کا آلہ ہے اور اس سے دنیا میں بہت خیر وجود میں آیا ہے۔
2۔ ایک دوسری رائے یہ ہے کہ یہ ایک مجرد شیء ہے جو فی نفسہ خیر وشر سے پاک ہے یعنی یہ نہ تو خیر کا آلہ ہے اور نہ ہی شر کا ۔ اصل مسئلہ اس کے استعمال کا ہے،چاہے تو خیر کے لیے استعمال کرلیں اور چاہے تو شر کے لیے کر لیں۔ جیسا اس کا استعمال ہو گا ویسا ہی اس کا حکم بھی ہو گا۔
3۔ ایک تیسری رائے یہ ہے کہ یہ فی نفسہ خیر یا شر تو نہیں ہے لیکن شر کے لیے اس آلے کے کثرت استعمال کی وجہ سے اس پر شر کا آلہ ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ لہٰذا شر کے لیے اپنے کثرت استعمال کی وجہ سے یہ شر کا ایک آلہ محسوس ہوتا ہے جس سے خیر کا کام لینے کی کسی قدر گنجائش موجود ہے،تا کہ اس کے شر کے اثرات کو کم کیا جا سکے اور کسی قدر خیر کو بھی پھیلایا جا سکے۔
٤۔ ایک چوتھی رائے یہ ہے کہ انٹرنیٹ سمیت سائنس کی تقریباً تمام ایجادات ہی فی نفسہ شر ہیں کیونکہ ان ایجادات کی پیداوار ایک خاص فکر،عقیدے،تہذیب،کلچر اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام اور ذہنیت کی بنیاد پر ہے،لہٰذا ان سائنسی ایجادات سے خیر کی کوئی توقع کرنا عبث اور بے کار ہے۔ ان ایجادات کی جو منفعت لوگوں کو بتلائی جاتی ہے وہ درحقیقت ان کی مضرت ہے جسے سرمایہ دارانہ ذہن الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا وغیرہ کے استعمال سے منفعت کے روپ میں دکھلاتا ہے ۔ اور ان اشیاء کی منفعت در اصل ایک ایسا سحر ہے جس کی حقیقت حضرت موسی علیہ السلام کے بالمقابل جادوگروں کے دوڑنے والے لاٹھی نما سانپوں سے زیادہ کچھ نہ تھی۔
ان میں سے ہر ایک رائے اپنے پیچھے مضبوط دلائل اور صغری کبری رکھتی ہے لیکن راقم کارجحان تیسری رائے کی طرف ہے۔ ہمارے خیال میں ایک خاص وقت تقریباً ٢٠ ویں صدی ہجری کے آغاز تک سائنسی ایجادات کے پس منظر میں انسانی 'ضرورت' کاپہلو غالب رہا ہے اور ١٩ویں صدی کے اختتام تک یہ ایجادات اس قدر ہو چکیں تھیں کہ انسانی ضرورت کے ہر پہلو کو محیط تھیں۔ اب انسان نے ضرورت سے ایک قدم آگے' آسائش 'کی خاطر ایجادات کی طرف توجہ دی اور ٧٠ ء کی دہائی تک ان ایجادات کے پس منظر میں انسانی' آسائش' کا پہلو غالب رہا۔ البتہ ٧٠ء کی دہائی کے بعد کی ایجادات میں عالمی سرمایہ دارانہ ذ ہنیت،سیکولر سوچ،دجالی کلچر او ر مزہ (lust)وغیرہ کا پہلو غالب ہو گیا اور انہی بنیادوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایجادات پر ایجادات ہونے لگیں۔لہٰذا نیوٹن کے دور کی ایجادات کے بارے یہ دعوی کرنا کہ وہ بھی سرمایہ دارانہ ذہنیت کی پیداوار ہیں،ہمارے خیال میں درست نہیں ہے۔اسی طرح ہماری رائے یہ بھی نہیں ہے کہ تیسرے دور کی ہر ایجاد ہی اسی سرمایہ دارانہ اور سیکولر ذہنیت کے پس منظر میں ہو گی بلکہ ہمارے کہنے کا مقصود یہ ہے کہ تاحال اس عرصے میں جو ایجادات ہو رہی ہیں ان میں سے اکثر و بیشتر کے پیچھے یہی ذہنیت اور فکر کارفرما ہے مثلاً نئے سے نئے ماڈل کا موبائل،نئی سے نئی ماڈل کی گاڑی وغیرہ ۔یہ نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی سہولت بلکہ یہ سرمایہ دارانہ سوچ ہے اور فکر ہے۔
انٹرنیٹ بھی درحقیقت تیسرے دور کی ایجاد ہے۔ اگرچہ یہ مان بھی لیاجائے کہ اس کی ایجاد کے پس منظر میں خیر و شر کا کوئی تصور موجود نہیں تھا لیکن یہ بات بہر حال مسلم ہے کہ اس وقت اس آلے کو بے حیائی،عریانی،فحاشی، لچرپن،مادر پدر آزادی،مغربی تہذیب اور فرائڈازم کو پھیلانے کے لیے ابلیس اور اس کے ایجنٹوں کی باقاعدہ سرپرستی میں منظم قوتوں کی سرپرستی میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس لیے ہم نے انٹرنیٹ کے بارے اوپرجو چار نکتہ ہائے نظر بیان کیے ہیں،ان میں سے تیسرا نکتہ نظر اس پر صادق آتا ہے اور انٹر نیٹ کے اس تصور کو سامنے رکھتے اور ذہن میں بٹھاتے ہوئے ہمیں اسے استعمال کرنا چاہیے۔
پس انٹر نیٹ پر بیٹھے ہوئے انسان کو یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ وہ آگ کے ایک انگارے پر بیٹھا ہے جو کسی بھی لمحے بھڑک کر اس کے ایمان کو جلا سکتا ہے۔ مال اور اولاد میں خیر کا پہلو بہت حدتک غالب ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کو فتنہ کہا ہے اور انٹرنیٹ میں تو شر کا پہلو غالب ہے لہٰذا اس کے فتنہ ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ پس اس فتنے کی آزمائشوں سے بچتے ہوئے ہم نے اسے استعمال کرنا ہے،یہ ہمارا عقیدہ یا سوچ یا فکر ہونا چاہیے۔
کمپیوٹر کو ہی لے لیں،اس کے بارے غلط عقیدے نے کس قدر بگاڑ پیدا کیا ہے۔کمپیوٹر کو ایک خیر کا آلہ سمجھ لیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج دس سال کے بچے سے لے کر ٧٠ سال کے بوڑھے کے کمرے میں اپنا ذاتی کمپیوٹر موجود ہے۔ اور تو اور اب تو مسجد سے متصل امام مسجد اور قاری صاحب کے حجرے میں بھی کمپیوٹر صاحب اپنا دیدار کروانے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں۔ اسی طرح مدارس میں پڑھانے والے اساتذہ نے اپنے کمروں میں کمپیوٹرز رکھنا شروع کر دیے ہیں۔ اگر اسی کمپیوٹر کی جگہ کسی قاری یا امام مسجد یا مدرسہ کے استاذ کے کمرے میں ٹیلی ویژن ہوتا تو ہمارے ذہن میں ان کے بارے کیا تصور ابھرتا؟
ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ کمپیوٹر رکھنا غلط ہے بلکہ ہمارا مقصود کلام یہ ہے کہ کمپیوٹر کو بھی کم ازکم ٹی وی کی طرح کا آلہ خیر وشر سمجھ کر رکھنا چاہیے نہ کہ مہذب و متمدن ہونے کی فخریہ علامت کے طور پر اپنے ڈرائنگ روم کی زینت بنانا چاہیے ۔ کمپیوٹر کے ساتھ لاحق برے تصورات کو ہم نے ختم کر دیا ہے حالانکہ جو برائی ٹیلی ویژن میں ہے اس سے ہزار گناہ زیادہ برائی کمپیوٹر کے ذریعے ممکن ہے۔ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کے بارے ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اس پر آپ جو دیکھنا چاہیں،یہ وہ آپ کو دکھاتا ہے،چاہے تو خیر دیکھ لیں چاہے تو شر ۔ یہ کمپیوٹر کے حق میں ایک انتہائی سطحی دلیل ہے کیونکہ یہی معاملہ تو ٹیلی ویژن کا بھی ہے،چاہے تو ذاکر نائیک کا چینل دیکھ لیں اور چاہے تو سٹار پلس سے محظوظ ہوں۔
مذہبی طبقے کا ٹیلی ویژن کے بارے جو منفی نظریہ تھا وہ کمپیوٹر کے بارے کیوں نہیں ہے؟ ہمارے خیال میں یہ ایک اہم سوال ہے۔ اور ایسا باقاعدہ پلاننگ کے تحت ہوا ہے کہ شرکے لیے کثرت سے استعمال ہونے والے آلات کے بارے مذہبی طبقہ کے نکتہ نظر اور عقیدے کو بگاڑا گیا ہے اور مغرب ایسا کرنے میں کامیاب ہوگیاہے۔مغرب نے آلہ خیر وشر کو ہمارے سولائزڈ، تعلیم یافتہ اور ویل مینرڈہونے کی ایک علامات بنا دیا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
مومن کے حفاظتی حصار کے ساتھ انٹرنیٹ کا استعمال
انٹرنیٹ چونکہ اس وقت غالب طور پر شر کا ایک آلہ بن چکا ہے لہٰذا ضرورت کے تحت اس کے استعمال سے پہلے ایک بندہ مومن کو اپنے گر د شیطان سے حفاظتی حصار کھینچ لینا چاہیے۔ شیطان سے حفاظتی حصار کھینچنے سے کیا مراد ہے؟ مثلاً شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کرنے والی ادعیہ ماثور کا وردکرتے ہوئے نیٹ کا استعمال کرے جیسا کہ ''أعوذ بکلمات اللہ التامات من شر ما خلق'' والی دعاہے یا '' أعوذ باللہ السمیع العلیم من الشطین الرجیم من ھمزہ ونفخہ ونفثہ'' والی دعا ہے یا معوذتین ہیں یا آیت الکرسی ہے وغیرہ۔ اس بارے دار السلام کی شائع کردہ کتاب 'حصن المسلم' یعنی مسلمان کا قلعہ ہر بندہ مومن کے پاس ضرور ہونی چاہیے۔ اس کتاب میں ایک معروف عرب عالم دین نے ان تمام ادعیہ ماثور اور اعمال کو جمع کر دیا ہے جو ایک مسلمان کے لیے شیطان سے حفاظتی حصار کا کام دیتے ہیں۔
علاوہ ازیں اگر وضو کر کے انٹر نیٹ پربیٹھے تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ وضو ایک تو مومن کا حصار ہے اور دوسرا پانی،شیطانی ہیجانات کو ٹھنڈا کرتا ہے اسی لیے اللہ کے رسول نے غصے کی حالت اور اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرنے کا حکم دیا ۔ اونٹ کے گوشت میں حدت ہوتی ہے،پس آپ نے اس حدت کے علاج کے طور پر گوشت کھانے کے بعد وضو کا حکم دیا۔ ویسے تو انسان کو ہر وقت ہی باوضو رہنا چاہیے لیکن خصوصاً شر کے مقامات پر باوضورہنے سے شر سے بچنے میں انسان کو بہت قوت ملتی ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
وقت کی حدود اور ہدف کا تعین
ایک بات تو طے ہے کہ انٹرنیٹ محض آلہ خیر نہیں ہے لہٰذا اسے ضرورت کے تحت استعمال کرناچاہیے۔ ضرورت کے تحت استعمال میں بھی بعض اوقات انسان کے بہک جانے کا اندیشہ ہوتا ہے لہٰذا اس کے استعمال سے پہلے ہدف کا تعین اوروقت کی حدود طے ہونی چاہئیں۔
آپ انٹرنیٹ کیوں استعمال کرنا چاہتے ہیں ؟ یہ آپ کے نزدیک واضح ہونا چاہیے۔دینی مقصد کی لیے؟ یا محض براوزنگ مقصود ہے یا وقت گزارنا چاہتے ہیں یا گیمز وفلموں کے لیے وغیرہ ذلک اور آپ نے اسے کتنے وقت کے لیے استعمال کرنا ہے؟ یہ بھی آپ کے ہا ں طے ہونا چاہیے۔
ایک خاتون نے راقم الحروف کو بتایا کہ وہ انٹرنیٹ پر بیٹھا کرتی تھیں اور بلاوجہ لوگوں سے رابطے کرتی تھیں یعنی وقت گزاری کے لیے براوزنگ کرتی تھیں ۔ اسی دوران ان کا رابطہ ایک نوجوان سے ہوا جس سے ان کا معاشقہ چل نکلا۔ اس نوجوان نے ای ۔ میل کے ذریعے محبت کے جھانسے میں ان کی کچھ ذاتی تصاویر حاصل کر لیں اور بعد میں انہیں ان تصاویر کے ذریعے بلیک میل کرنے لگا۔ ان خاتون نے بتلایا کہ یہ نوجوانوں کا ایک پورا گروپ تھا جو اس طرح لڑکیوں کو ورغلانے کا کام کرتا ہے۔ وہ خاتون جس ذہنی کرب اور تکلیف سے گزر رہی تھیں،اس سے اپنی مسلمان بہنوں کو بچانے کے لیے یہ کہہ رہی تھیں کہ مذہبی تحریکوں اور اہل علم کو چاہیے کہ اس بارے لڑکیوںپر زور دیں کہ وہ انٹر نیٹ پر نہ بیٹھا کریں اور انہیں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے ایسے وحشی نوجوانوں سے خبردار کریں۔
ایک خاتون نے بتلایا کہ وہ ایک مذہبی خاتون ہیں اور انہوں نے تبلیغ کی نیت سے انٹرنیٹ میں اسلا م کے بارے چیٹنگ شروع کی لیکن جب بھی وہ خاتون کسی چیٹنگ روم میں نوجوان لڑکوں کو چیٹنگ کے دوران سمجھانے کی کوشش کرتی ہیں تو لڑکے ان سے پیار و محبت کی باتیں شروع کر دیتے۔ اگر تو نیٹ چیٹنگ مخلوط ہو یعنی لڑکوں اور لڑکیوں کے مابین ہو،تو چاہے خلوص نیت اور اسلام کی دعوت و تبلیغ ہی کی خاطر کیوں نہ ہو،اس سے کوئی خیر برآمد نہیں ہو گی۔ اور اگر یہ چیٹنگ ایک لڑکے اور لڑکی کے مابین ہو رہی ہو تو اس کی حرمت ویسی ہی ہے جیسا کہ ایک مرد و عورت کو خلوت میں بیٹھے سے منع کیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں نیٹ چیٹنگ ایک بیماری ہے جسے یہ بیماری لاحق ہو جائے،اس کے لیے کوشش کے باوجود اس سے جان چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو ہماری نوجوان نسل کے بہترین اوقات کا قیمتی حصہ ضائع کر دیتی ہے۔دیکھنے میں آیا ہے کہ انٹر نیٹ وقت کے ضیاع کے بہت بڑ اباعث ہے۔ ایک عامی شخص جسے کسی نے ای ۔میل نہیں بھیجنی یا جس کا کسی سے کوئی خاص تعارف نہیں ہے، اس نے بھی ای۔میل ایڈریس بنا رکھا ہے اور بتکلف ای ۔میل کے ذریعے مختلف لوگوں سے رابطے کرتا ہے اور روزانہ اسے چیک کرنے کے لیے اپنا وقت صرف کر رہا ہوتاہے۔ سرکاری اورغیر سرکاری دفاتر میں دیکھنے میں آیا ہے کہ دفتری عملہ فضول میں انٹر نیٹ پر براؤزنگ کرتے ہوئے اپنا اور ادارے کاوقت ضائع کر رہا ہوتاہے۔
اگر تو یہ براؤزنگ کسی ہدف اور مقصد کے تحت ہو تو اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر بغیر مقصد کے ہو تو بعض اوقات ایک اخبار مثلاً ایکسپریس کی ویب سائیٹ سے شروع ہوتی ہے اور کسی واہیات ویب سائیٹ پر جا کر اختتام پذیر ہوتی ہے۔
اللہ ہمیں اس سے حفاظت میں رکھے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
شیطان کے نقش قدم کی پیروی سے بچا
قرآن مجید میں اللہ سبحانہ و تعالی نے کئی ایک مقام پر بنی نوع انسان کی رہنمائی فرمائی ہے کہ شیطان انسان کو بے حیائی کے کاموں کی رغبت دلاتا ہے لہٰذا انسان کو شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
''اِن اللہ یامر بِالعدلِ و الاِحسانِ و اِیتآیِ ذِی القربی و ینھی عنِ الفحشآئِ و المنکرِ و البغیِ یعِظکم لعلکم تذکرون۔''(النحل : ٠٩)
'' بلاشبہ اللہ سبحانہ و تعالی عدل،احسان اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتے ہیں اور بے حیائی،بدی اور ظلم سے منع کرتے ہیں۔ اللہ تعالی تمہیں نصیحت کرتے ہیں تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔''
جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں کہ انٹرنیٹ اس وقت ایک ایسا آلہ بن چکا ہے جس کا شر پھیلانے میں استعمال بہت زیادہ ہو رہاہے لہذا انٹرنیٹ پر بیٹھے ہوئے کئی ایک مواقع ایسے آتے ہیں جو بندہ مومن کے لیے آزمائش بن جاتے ہیں مثلا اگر تو آپ 'یاہو' پر اپنی ای۔میل چیک کرنا چاہتے ہیں تو وہاں واہیات قسم کی تصاویر اور ویڈیوز آپ کے سامنے آتی رہتی ہیں۔ اس کا مناسب حل تو یہ ہے کہ آپ 'ہاٹ۔ میل' یا 'جی۔ میل' پر اپنا نیا اکانٹ بنالیں۔اب تو بعض مذہبی اداروں نے اپنے اداروں کے نام سے ای۔میلز کی خدمات جاری کر لی ہیں جو ایک اچھا اقدام ہے۔
لیکن اس کے باوجود انٹر نیٹ پر بعض اوقات کسی خیر کے کام کے دوران شر اور بے حیائی کے پیغامات آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ نے 'اصول فقہ' کے نام سے گوگل میں سرچ کی اور اصول فقہ کے نام پر بنی ہوئی بعض ویب سائیٹ کو کلک کیا تو وہ اباحی یا فحش ویب سائٹ نکلی۔ اس وقت اسلامی اصطلاحات کے نام پر بھی 'شر' کی ویب سائیٹس قائم کی جا رہی ہیں تا کہ خیر کا کام کرنے والے بھی کسی نہ کسی طرح اس شر میں مبتلا ہوں۔بعض لوگو ں نے یہ بھی شکایت کی ہے کہ اب تو نوائے وقت' پی۔ٹی۔سی۔ایل وغیرہ جیسے ناموں سے بھی' شر' اور فحش کی ویب سائیٹس قائم کی گئی ہیں تا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک شخص بے حیائی میں مبتلا ہو جائے۔ ایسے میں کسی نیک ہدف کے تحت برازنگ کرتے ہوئے اگر کوئی غلط ویب سائیٹ کھل جائے تو اس صورت میں ہمیں مذکورہ بالا آیت کو اپنے ذہن میں بٹھاتے ہوئے اسے فورا بند کر دینا چاہیے۔ اگرچہ یہ کام اس قدر آسان نہیں ہے لیکن اگر درج ذیل آیات انسان کے ذہن نشین ہوں تو شایدبہت حد تک آسان بھی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
'' و لا تقربوا الفواحِش ما ظھر مِنھا و ما بطن۔'' (الانعام : ١٥١)
'' اور نہ تم بے حیائی کے کاموں کے قریب بھی جا،چاہے وہ ظاہری ہوں یا پوشیدہ۔''
یہاں یہ نہیں کہا کہ بے حیائی کے کام نہ کرو بلکہ انداز یہ رکھا ہے کہ بے حیائی کے قریب بھی نہ جا۔ یعنی جو اس کے قریب چلا گیا تو اس کا معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ وہ اس میں مبتلا ہوگیا ہو لہذا اس لیے اس کے قریب جانے سے بھی منع کر دیا گیا۔ اس حکم الہی کے مطابق بے حیائی کے کام کرنا بھی حرام ہیں اور بے حیائی کے قریب جانا بھی شرعا ممنوع ہے۔
ایک اورجگہ ارشاد ہے:
'' قل اِنما حرم ربِی الفواحِش ما ظھر مِنھا و ما بطن ۔''(الاعراف : ٣٣)
''اے نبی ۖ !کہہ دیجیے:سوا اس کے نہیں میرے رب نے بے حیائی کے کاموں کو حرام قرار دیا ہے،چاہے ظاہری ہوں یا پوشیدہ۔''
ایک اورجگہ اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے :
'' والذِین یجتنِبون کبئِر الاِِثمِ والفواحِش ۔''(الشوری : ٧٣)
''اور جو لوگ کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں۔''
بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم ایک ایسی ویب سائیٹ پر کسی اچھے مقصد کے تحت داخل ہوتے ہیں، کہ جس میں خیر اور شر دونوں قسم کا مواد موجود ہوتا ہے جیسا کہ یوٹیوب کی مثال ہے۔پس انسان تلاوت،نعت یادرس قرآن وغیرہ کے بہانے ایسی ویب سائیٹ پر داخل ہوتا ہے اور برازنگ در برازنگ کے نتیجے میں اباحی اور فحش ویڈیوز دیکھنے میں مشغول ہو سکتا ہے۔ اسی کو شیطان کے نقش قدم کی پیروی کہا گیا ہے جس سے اجتناب لازمی امر ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
'' یایہا الذِین امنوا لا تتبِعوا خطوتِ الشیطنِ ومن یتبِع خطوتِ الشیطنِ فاِِنہ یامر بِالفحشآئِ والمنکرِ ۔''(النور : ١٢)
'' اے اہل ایمان!شیطان کے نقش قدم کی پیروی مت کرو۔ اور جو کوئی شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرے گا تو بلاشہ شیطان تو بے حیائی اور گناہ کے کاموں کا حکم دیتا ہے۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
انٹر نیٹ کا نشہ یا احتیاج
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایک شیء کے کثرت استعمال سے انسان اس کا عادی ہو جاتا ہے،یہی معاملہ انٹرنیٹ کا بھی ہے۔ کوشش کریں کہ اپنے آپ کو انٹر نیٹ کا محتاج نہ بنائیں۔ بعض لوگوں کے بارے دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر بیٹھنے یا کام کرنے کے اس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ اس کے بغیر ان کے لیے کام کرنا ممکن نہیں ہوتا اور اگر کبھی عارضی طور پر انٹرنیٹ بند ہو جائے تو وہ عجیب قسم کی بے چینی،اضطراب اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس لیے انٹر نیٹ کے استعمال کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے آپ کواس کااس قدر مجبور نہیں بنانا چاہیے کہ ہم اس کے غلام بن کر رہ جائیں اور اس کے بغیر کام کرنا ہمارے لیے ممکن نہ رہے یا اس کے عارضی طور بند ہونے کی صورت میں نفسیاتی مریض بن جائیں۔انٹرنیٹ ایک استعمال کی شیء ہے،اسے اسی حیثیت میں رکھنا چاہیے نہ کہ اسے ضروریات زندگی کا درجہ دینا چاہیے۔
بعض اوقات ہم مجرد انٹر ٹینمنٹ کے نام سے بھی انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں مثلاً انٹر نیٹ پر کوئی ویڈیو گیم کھیل لی۔ یہ استعمال بھی اکثر اوقات حد درجے مضر بن جاتاہے۔ اگر تو یہ ضرورت سے زائد ہو تو وقت کا ضیاع ہے جو شرعاً جائز نہیں ہے اور بعض اوقات تو یہ نشہ کی صورت بھی اختیار کر جاتا ہے اور نوجوان سارا سارا دن انٹرنیٹ پر بیٹھے ویڈیو گیمز کھیلتے رہتے ہیں۔مجر د انٹرٹینمنٹ بھی ایک دھوکہ ہے اور اس بہانے بچوں اور نوجوان نسل کے اخلاقیات اور دین کو بہت حد تک بگاڑا جارہا ہے۔مثلاً ٹام اورجیری کے کارٹونز ہی کو لے لیں،ان میں بھی بعض اوقات انہوں نے واہیات قسم کے مناظر ڈالے ہوتے ہیں جو بچو ں کے لیے دینی اور اخلاقی اعتبار سے بہت ہی نقصان دہ ہیں۔
اگر کسی نے اپنے بچوں کو یہ کارٹون دکھانے ہی ہیں تو والدین کو چاہیے کہ پہلے خود سے یہ کارٹون دیکھ کر ان میں سے واہیات مناظر خارج کر دیں اور اس کے لیے کئی ایک ایسے سافٹ ویئرز ملتے ہیں جن سے یہ کام باآسانی ہو سکتا ہے۔
اسی طرح سپائیڈر مین کو لے لیں۔ بچوں کا سکول بیگ،جوتا،کاپیاں یا کتابیں لینے جائیں تو بازار ان اشیاء پر سپائیڈر مین کی تصاویر سے بھرے پڑے ہیں۔ سپائیڈر مین کو ہمارے ہاں بچوں میں ایک ہیرو کا درجہ دے گیا ہے۔ ایک دفعہ راقم کو بچے نے کہا کہ اس نے سپائیڈر مین کے کارٹون دیکھنے ہیں۔ راقم جب یہ کارٹون خرید کر گھر لایا تو یہ تو کارٹون کے بجائے ٹین ایجرز teen agers کی داستان محبت نکلی ۔ مجرد انٹر ٹینمنٹ کے نام سے ہم اپنے بچوں کو کیا دکھلا رہے ہیں؟ہمیں اس کا گہرائی سے جائزہ لینا چاہیے اور اس پر غور کرنا چاہیے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
اباحی یا فحش ویب سائیٹس سے اجتناب
جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس وقت انٹرنیٹ کا استعمال بے حیائی اور فحاشی کو عام کرنے کے لیے باقاعدہ پلاننگ کے تحت ہو رہا ہے۔ بلاشبہ ہزاروں ویب سائیٹس اس دجالی مقصد کے حصول کے لیے قائم کی گئی ہیں اور ان کی تاثیر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک اباحی یا فحش ویب سائیٹ کی رپورٹ کے مطابق روزانہ ٥٠ لاکھ افراد اسے وزٹ کرتے ہیں۔ اسی طرح خیر و شر کے مواد پر مشتمل یوٹیوب کا یہ دعوی ہے کہ اس کی ویب سائیٹ کو روزانہ ایک ارب یعنی 100 کروڑ لوگ کلک کرتے ہیں۔ بلاشبہ ان ویب سائیٹس پر بے حیائی کے مناظر کا مشاہدہ بھی زنا ہی کی ایک قسم ہے۔ آپ کا ارشاد ہے:
'' فالعینان تزنیان وزناھما النظر والیدان تزنیان وزناھما البطش والرجلان یزنیان وزناھما المشی والفم یزنی وزناہ القبل والقلب یھوی ویتمنی والفرج یصدق ذلک أو یکذبہ.''(مسند أحمد :جلد2، ص 343'مؤسسة قرطبة'القاھرة)
''پس آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا دیکھنا ہے۔اور ہاتھ بھی زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا پکڑناہے۔ اور پاؤں بھی زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا چلنا ہے۔ اور ہونٹ بھی زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا بوسہ لینا ہے۔ اور دل گناہ کی طرف مائل ہوتاہے اور اس کی خواہش کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔''
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
'' وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰی اِنَّہ کَانَ فَاحِشَةً وَ سَآئَ سَبِیْلًا۔''(بنی اسرائیل : ٣٢)
''اور تم زنا کے قریب بھی مت جاؤ۔ بلاشبہ وہ ایک بے حیائی کا کام ہے اور برا رستہ ہے۔''
زنا کے قریب جانے سے مراد وہ تمام رستے اور ذرائع ہے جو زنا کے قریب کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں لہٰذا ان ذرائع کا استعمال بھی حرام ہے جو زنا سے قریب کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
نگاہوں کو دبا کر رکھنا
انٹرنیٹ کے استعمال کے وقت ایک اہم شرعی ہدایت پر عمل کرنا لازم ہے اور وہ نگاہوں کو دبا کر رکھنے کی ہدایت ہے یعنی انسان اپنی نگاہوں کو کنڑول میں رکھے اور اگر کوئی غیر شرعی منظر سامنے آ جائے تو فورا اسے تبدیل کر دے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ اِِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرم بِمَا یَصْنَعُوْنَ. وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ ۔''(النور : ٣٠ تا٣١)
اے نبی ۖ!آپ اہل ایمان مردوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی نگاہوں کو دبا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے بہت ہی پاکیزہ بات ہے ۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ جو وہ عمل کرہے ہیں،اسے دیکھ رہے ہیں۔ اور آپ اہل ایمان عورتوں سے بھی کہہ دیں کہ وہ بھی اپنی نگاہوں کو دبا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔''
حضرت جریررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
''سألت رسول اللہ عن نظرة الفجأة فقال اصرف بصرک.''(أبوداؤد، کتاب النکاح، باب ما یؤمر بہ من غض البصر)
''میں نے اللہ کے رسول سے اچانک نظر پڑ جانے کے بارے سوال کیا تو آپ نے جواب دیا:اپنی نگاہ پھیر لو۔''
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عورت اس امت کے لیے بہت بڑا فتنہ ہے بلکہ بعض روایات میں تو اسے سب سے بڑا فتنہ قرار دیا گیا ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ نے فرمایا :
'' ما ترکت بعدی فتنة أضر علی الرجال من النساء۔''( صحیح بخاری، کتاب النکاح،باب مایتقی من شؤم المرأة)
'' میں اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے بڑھ کر نقصان پہنچانے والاکوئی فتنہ نہیں چھوڑ رہا ۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
احتیاط وتحمل
انٹرنیٹ پر اس وقت اکثر و بیشتر مذہبی حلقوں نے ای۔میل اکاؤنٹس بنا رکھے ہیں اور آئے روز کئی ایک ای۔میل فارورڈ کی جاتی ہیں۔ کسی بھی ای۔ میل کو فارورڈ کرنے سے پہلے ہمیں اس کے بارے پہلے اپنا اطمینان حاصل کر لینا چاہیے کیونکہ کسی جھوٹی بات کو فارورڈ کرنے کی صورت میں ہم بھی اس جھوٹ میں برابر کے شریک قرار پائیں گے۔ آپ کا ارشاد ہے:
''کفی بالمرء کذبا أن یحدث بکل ما سمع''۔(مقدمہ صحیح مسلم،باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع)
'' کسی شخص کے جھوٹاہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو آگے نقل کردے۔''
یوٹیوب اس جھوٹ کی ایک بہت بڑی مثال ہے جس میں ہر مکتبہ فکر نے دوسروں کے خلاف زہرافشانی کو أپ لوڈ کیا ہواہے اور لوگ ان ویڈیوز کو آگے فارورڈ کرتے رہتے ہیں جس سے فرقہ واریت کی آگ بہت تیزی سے بڑھک رہی ہے۔ بعض اوقات ان أپ لوڈ کئی گئی ویڈیوز میں حقیقت کا پہلو بھی ہوتا ہے لیکن اکثر اوقات سیاق و سباق کو کاٹ کر کسی کا موقف کیا سے کیا بنا دیا جاتا ہے۔اب تو کسی بھی مکتبہ فکر سے متعلق کوئی بھی معروف مذہبی شخصیت ایسی نہیں ہے کہ جس کے حق میں یا اس کے خلاف ویڈیوز، یوٹیوب پر دستیاب نہ ہوں۔
قرآن میں بھی ہمیں کسی خبر کو آگے منتقل کرنے کے لیے تحقیق کا حکم دیا گیا ہے لہٰذا ای۔میل یا کسی اور مواد کو آگے فارورڈ کرنے سے پہلے اس کے بارے مکمل اطمینان حاصل کر لینا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
'' ٰیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقم بِنَبَاٍِ فَتَبَیَّنُوْا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًام بِجَہَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْن۔''(الحجرات : ٦)
''اے اہل ایمان!اگر تمہارے پاس فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو تم اس کی تحقیق کر لیا کرو مباداکہ تم کسی قوم پر جہالت میں جا پڑو اور بعد میں تم اپنے اس فعل پر شرمندہ ہو۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
مفید اور نافع پروگرامات میں شرکت
انٹر نیٹ پر بیٹھتے ہوئے دینی اور مذہبی ویب سائیٹس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے اورعامة الناس میں ان ویب سائیٹس کا تعارف عام کروانا بھی ہمارا مقصود نظر ہو تا کہ انٹر نیٹ کے صارفین اپنازیادہ سے زیادہ وقت مثبت سرگرمیوں میں استعمال کر سکیں۔ان دینی ویب سائیٹس میں اسلامی تحریکوں،دینی مدارس،نامور علماء اور شیوخ اورسرکاری اور غیر سرکاری مذہبی اداروں کی ویب سائیٹس ہیں۔ چند اہم دینی ویب سائیٹس درج ذیل ہیں:
بیانات،دروس قرآن اور تقاریر کے لیے :
Tanzeem e Islami | Founded by Dr. Israr Ahmad, Working for Khilafah
maulanatariqjamil.net
Urdu Islamic Website Pakistan - Quran-o-Sunnah.com - Allama Ehsan Elahi Zaheer Shaeed - Hafiz Ibtisam Elahi Zaheer - Quran Summery - Audio Lectures - Dua - Hadith -Articles
تلاوت قرآن اور عربی خطبات کے لیے:
www.islamway.com
عربی دینی کتابوں اور سافٹ ویئرزکے لیے :
www.almeshkat.com
الدرر السنية
www.islamport.com
اردودینی کتابوں کے لیے:
www.KitaboSunnat.com
اردو فتاوی کے لیے :
Islam Question and Answer
عربی اور انگلش فتاو ی کے لیے:
islamic foundation
www.islam-qa.com
انگلش کتابوں کے لیے:
SULTAN ISLAMIC LINKS, Discover Islam, Muslim people, Holy Quran and Islamic Religion
دینی ویب سائیٹس کے لنکس معلوم کرنے کے لیے:
www.sultan.org/a/
یہ نمونے کی چند ایک ویب سائیٹس ہیں جو راقم کے علم میں تھیں۔ اس کے علاوہ افادہ عام کے لیے ان میں بہت کچھ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
 
Top