• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اَحادیثِ رسول کی روشنی میں ثبوتِ قراء ات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَحادیثِ رسول کی روشنی میں ثبوتِ قراء ات

الشیخ علامہ عبد الفتاح القاضی
قاری صہیب ا حمد
نوٹ

ماہنامہ رشد علم قراءت نمبر حصہ اول کی فہرست پر جانے کےلیے یہاں کلک کریں​
زیر نظر مضمون فن قراء ات کی عالمی شہرت کی حامل شخصیت امام القراء علامہ عبدالفتاح القاضی رحمہ اللہ کی گراں قدر تصنیف أبحاث فی القرآن الکریم کے ابتدائی صفحات کا ترجمہ ہے، جبکہ فوائد حدیث جناب قاری صھیب اَحمد میرمحمدی حفظہ اللہ کی عربی تصنیف جبیرۃ الجراحات فی حجیَّۃ القراء اتسے ماخوذ ہیں اور ترجمہ کی کاوش قاری محمد صفدر،مدرس کلیۃ القرآن الکریم، لوکو ورکشاپ ورکن مجلس التحقیق الاسلامی نے فرمائی ہے۔(ادارہ])
اس سلسلہ میں نبی کریم ﷺ سے کئی احادیث مروی ہیں، ان میں سے چند اَحادیث کو ذیل میں بعض ضروری وضاحتوں کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔
١ عن ابن عباس رضی اﷲ عنہما أنَّ رسولَ اﷲ ﷺ قال:أقرأنی جبریل علی حرف فراجعْتُہٗ،فلم أزل أستزیدہ ویزیدني حتی انتہی إلی سبعۃ أحرف(صحیح البخاري:۴۹۹۱ )
’’حضرت عبد اللہ بن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ جبرئیل ؑ نے مجھے ایک لہجہ پرقرآن مجید کو پڑھنے کاحکم دیا، میں نے زیادہ کا مطالبہ کیا اور مسلسل زیادتی کا سوال کرتارہا، حتیٰ کہ معاملہ سات لہجات تک جاپہنچا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بعض الفاظ ِحدیث کی وضاحت

حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’اس حدیث میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریمﷺ سے اپنے سماع کی صراحت نہیں کی، گویا انہوں نے یہ حدیث ابی بن کعبؓ سے سنی ہے۔ امام نسائی ؒنے عکرمۃ بن خالد عن سعید بن جبیر عن ابن عباس عن أبیِّ بن کعب… الخ کی سند سے اس حدیث کو اسی طرح نقل فرمایا ہے۔‘‘ ( فتح الباری:۱۱؍۲۸،۲۹)
آپﷺ کے قول فَلَمْ أَزَلْ أَسْتَزِیْدُہٗ کی وضاحت صحیح مسلم کی حدیث میں ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں:
(فَرددت إلیہ أن ھون علی أمتی (وإنَّ أمتی لا تطیق ذلک) (صحیح مسلم: ۸۲۰،۸۲۱)
’’میں بار بار جبریل علیہ السلام سے کہتا رہا کہ میری اُمت پر آسانی کیجئے،ایک روایت میں ہے کہ وہ صرف ایک لہجہ پر قرآن کریم پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتی ہے۔‘‘
٢ عن عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ قال: سمعت ہشام بن حکیم بن حزام یقرأ سورۃ الفرقان فی حیاۃ رسول اﷲ ﷺ فاستمعت لقراء تہ فإذا ہو یقرَأُ علی حروف کثیرۃ لم یُقرئنیہا رسولُ اﷲ ﷺ فکِدتُّ أُسَاوِرُہٗ فی الصّلوۃ فتَصَبَّرْتُ حتی سلَّم فلَبَّبْتُہ بردائہٖ فقلت من أقرأک ہذہ السورۃ التی سمعتُک تقرأ؟ قال: أقرأنیہا رسول اﷲِ ﷺ فقلت کذبتَ فإنَّ رسول اﷲ ﷺ قد أقرأنیہا علی غیر ما قرأتَ، فانطلقتُ بہ أقودہٗ إلی رسول اﷲِ ﷺ فقلت إنی سمعت ہذا یقرأ سورۃ الفرقان علی حروف لم تُقرِئنیہا فقال رسول اﷲ ﷺ أَرْسِلْہُ،اقرأْ یا ہشام! فقرأ علیہ القراء ۃ التی سمعتہ یقرأ فقال رسول اﷲ ﷺ کذلک أنزلت،ثم قال اقرأ یا عمر! فقرأتُ القراء ۃ التی أقرأنی فقال رسول اﷲ ﷺ کذلک أنزلت،إنَّ ہٰذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فاقرء وا ما تیسَّر منہ۔ (صحیح البخاري:۲۴۱۹،۵۰۴۱)
’’عمر بن خطابؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں:میں نے آپؐ کی زندگی میں ہشام بن حکیم بن حزامؓ کو سورۃ الفرقان کی تلاوت کرتے ہوئے سنا، تو وہ ایسے لہجات میں پڑھ رہے تھے جو آپؐ نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ قریب تھاکہ میں نماز میں ہی ان پر لپک پڑتا، پھرمیں نے صبر سے کام لیا حتیٰ کہ انہوں نے سلام پھیرا۔ میں نے انہی کی چادر کو ان کے گلے میں ڈال کر کھینچتے ہوئے کہا جو سورت میں نے تمہیں پڑھتے سنا، تمہیں کس نے پڑھائی ہے ؟ انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ نے، میں نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو، مجھے تو رسول اللہﷺنے یوں نہیں پڑھائی۔ میں انہیں کھینچتا ہوا آپؐ کے پاس لایا اورکہا کہ میں نے اسے سورہ فرقان ایسے پڑھتے ہوئے سنا، جیسے آپؐ نے مجھے نہیں پڑھائی۔ آپؐ نے فرمایا اے عمرؓ! ہشامؓ کو چھوڑ دو، پھر آپؐ نے ہشامؓ کو پڑھنے کو کہا۔ انہوں نے بالکل ویسے پڑھا جیسے میں نے سنا تھا۔ آپؐنے فرمایا: کَذٰلِکَ أُنْزِلَتْ یعنی یہ سورت اسی طرح نازل کی گئی ہے۔ پھر آپؐنے مجھے پڑھنے کو کہا۔ میں نے ویسے پڑھا جیسے آپؐنے مجھے سکھایا تھا، تو آپؐ نے فرمایا: کَذٰلِکَ أُنْزِلَتْ یعنی یہ سورت اسی طرح ناز ل کی گئی۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: إِنَّ ھٰذَا القُرْآنَ أُنْزِلَ عَلیٰ سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ فَاقْرَئُ وْا مَا تیَسَّرَ مِنْہُ یعنی قرآن مجید کو سات لہجات میں نازل کیا گیاہے، جس طرح آسانی لگے، اس کے مطابق پڑھ لیا کرو۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بعض الفاظ حدیث کی وضاحت

آپ ﷺکے قول: فکِدتُّ أسَاورہٗ فی الصلوٰۃ کامطلب ہے: أُوَاثِبُہٗ وأُقَاتِلُہ أو آخذُ برأسہ یعنی میں اس پر حملہ کروں اوراس سے جھگڑاکروں یا میں اس کے بالوں کو نوچ لوں۔ قولہ: فَتَصَبَّرْتُ حَتّٰی سَلَّمَ کا معنی ہے کہ میں نے بمشکل خود کو کنٹرول کیا اورانہیں نماز سے فارغ ہونے تک کی مہلت دی۔ قولہ: فَلبَّبْتُہ بردآئہ کا معنی ہے کہ ان کے گریبان سے کھینچتے وقت میں نے ان کی چادر کو ان کی گردن پرکس دیاتاکہ وہ بھاگ نہ سکیں۔
امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں:
’’اس کا معنی ہے: میں نے انہی کی چادر کو ان کے گلے میں ڈالتے ہوئے انہیں پکڑا اوراسی چادر کے ساتھ انہیں کھینچتے ہوئے رسول اللہﷺ تک لے آیا۔ یہ لفظ اللَّبَّۃ لام کے فتح کے ساتھ ماخوذ ہے، جو گلے کے لئے بولا جاتاہے، کیونکہ چادر وغیرہ اسی جگہ لٹکائی جاتی ہے۔ اس سارے معاملہ میں صحابہ ؓ کا قرآن مجید کے رسول اللہﷺ سے سنے گئے الفاظ کااہتمام ، ان کی حفاظت اوردفاع کازبردست اہتمام واضح ہوتا ہے۔‘‘ (شرح صحیح مسلم:۶؍۳۴۰)
حضرت عمررضی اللہ عنہ سخت طبیعت کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ أمر بالمعروف ونہی عن المنکر کے معاملہ میں انتہائی شدید تھے۔ انہوں نے سیدنا ہشام رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو سلوک کیا اس سے یہ بات واضح ہے۔ انہوں نے ایسا اس لئے کیا کہ ان کے غالب گمان کے مطابق ہشام رضی اللہ عنہ غلط پڑھ رہے تھے اور یہ کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے پڑھنے کے بجائے خود ہی قراء ت وضع کرلی تھی، چونکہ یہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کا اپنا اجتہاد تھا۔ لہٰذا نبی کریم ﷺنے سیدنا ہشام رضی اللہ عنہ کے ساتھ درپیش معاملہ پر نہ تو ان کا مواخذہ کیا اورنہ ہی انہیں ڈانٹا۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ کاسیدناہشام رضی اللہ عنہ سے کہنا کَذَبْتَ یعنی تونے جھوٹ بولا ہے، اس بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’انہوں نے ظن غالب کی بنا پر یہ لفظ مطلقاکہاتھا یا کَذَبْتَ سے ان کی مراد أَخْطَأْتَ ہے یعنی تو نے غلط پڑھا۔ اہل حجاز خطا پرجھوٹ کا اطلاق کرتے ہیں۔‘‘(فتح الباري:۱۱؍۳۱)
حضرت عمرؓ کاکہنا کہ آپﷺ نے مجھے تو ایسے نہیں پڑھایا، دراصل حضرت عمرؓ نے اپنے ظنِ غالب سے استدلال کرتے ہوئے کہا اور سیدنا ہشامؓ کو اپنے علم کے مطابق کہا کہ وہ غلط پڑھ رہے ہیں۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ حضرت عمرؓ کے خیال کے مطابق حضرت ہشامؓ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے، تو ہوسکتا تھا کہ انہوں نے جو آپ1 سے سنا ہو اسے صحیح طرح سے یاد نہ رکھ سکے ہوں۔ ان کے برعکس حضرت عمرؓ پہلے اسلام لائے تھے اور جتنا قرآن آپؐ سے سنا، اسے زیادہ اچھی طرح یاد رکھنے والے اوراس میں زیادہ پختہ تھے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عمرؓ نے توسورۃ الفرقان آپﷺ سے بہت پہلے سن رکھی تھی۔ پھر اس سورہ میں جو کچھ ان کے حفظ کے علاوہ نازل ہوا، وہ اسے نہیں سن سکے تھے۔ حضرت ہشامؓ تو فتح مکہ کے مسلمانوں میں سے تھے، لہٰذا آپﷺ نے اس سورت کو بعد میں نازل شدہ کے مطابق پڑھا۔ ان دونوں حضرات میں یہ بات اختلاف کا سبب بنی۔ ابتداء ً سیدناعمررضی اللہ عنہ کے انکار کو اسی بات پرمحمول کیاجاناچاہیے کہ انہیں اس واقعہ سے قبل حدیث أُنزلَ القرآنُ علی سبعۃِ أحرفٍ کا علم نہیں تھا، لہٰذا انہوں نے انکار کردیا۔‘‘ (فتح الباری:۱۱؍۳۱)
آپؐ کے قول : أَرْسِلْہُ کامطلب تھا کہ اے عمر! ہشام کو چھوڑ دیجئے۔ آپ نے ایسا اس لئے کیاتاکہ مدعی علیہ یعنی سیدنا ہشام کی بات سنی جاسکے یا آپﷺ نے اس وجہ سے کہاتھا کہ ہشامؓ سے بھینچے جانے کی تکلیف دور ہوجائے اوروہ بآسانی قراء ت کرسکیں۔ پھر نبی کریم ﷺ نے سیدنا عمرؓ سے اس لئے سنا کیونکہ امکان تھا کہ غلطی خود عمرؓ کی ہو سکتی ہے۔
آپؐ کے قول: أنزل القرآن علی سبعۃ أحرفمیں سیدنا عمرؓ کے دل کے لئے اطمینان، پختگی اوراس پر وارد ہونے والے شبہات کا ازالہ تھا۔ یہ شبہات اس وقت پیدا ہوئے جب آپ نے عمرؓ اورہشامؓ میں سے ہر دو کی قراء ت کو درست قرار دیا۔ اس بات کی طرف معجم طبرانی میں موجود ایک حدیث اشارہ کرتی ہے جس میں ہے کہ عمرؓ نے ایک آدمی کی ایسی قراء ت سنی جو ان کی قراء ت کے مخالف تھی، جھگڑا آپﷺ تک پہنچا تو مذکورہ آدمی نے کہا کہ یارسول اللہﷺ! کیاآپؐ نے ہی مجھے یہ قراء ات یوں نہیں پڑھائی؟ آپؐ نے فرمایا کیوں نہیں۔ اتنی بات کہنی تھی کہ سیدنا عمرؓ کے دل میں وسوسہ پیدا ہوا، جسے آپؐ بھانپ گئے، تو آپؐ نے عمرؓ کے سینے ہاتھ مارا اورفرمایا: (اللّٰھُمَّ أَبْعِدْ عَنْہُ الشَّیْطَانَ)’’ اے اللہ!عمرؓسے شیطان کودور فرما۔ پھر فرمایا: أنْزِلَ الْقُرْآنُ عَلٰی سَبْعَۃِ أحْرُفٍ کُلّھنَّ شَافٍ کَافٍ) (النسائی:۹۴۱) ایک روایت میں شَافٍ کَافٍ کی جگہ صوابٍ یعنی یہ سب لہجات حق ہیں کے الفاظ ہیں۔
سبعۃ أحرف کے معنی کے متعلق باقی بحث اَحادیث کے بعد آئے گی۔ اِن شاء اللہ
آپؐ کے قول: فاقرؤا ما تیسَّر منہ میں قرآن مجید کو سات لہجات میں نازل کرنے کی حکمت کی طرف اشارہ ہے اوروہ یہ ہے کہ اُمت محمدیہ پرآسانی اورتلاوتِ قرآن میں تخفیف ہو، جس کا مطلب یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک کی زبان پر جو لہجہ آسان ہو، قراء ت کرتے وقت اس کی ادائیگی مشکل نہ ہویعنی اسے پڑھتے وقت زبان دوہری ہویا سمجھ و فہم میں کسی قسم کی مشکل پیش آئے۔
مؤلف (الشیخ العلامہ عبد الفتاح القاضی رحمہ اللہ) فرماتے ہیں:
’’کتب حدیث میں بسیار کوشش کے باوجود ہم عمرؓ اور ہشامؓ کے مابین سورۃ الفرقان میں ہونے والے اختلاف ِلہجہ پرمطلع نہیں ہوسکے کہ وہ اَحرف سبعہ میں سے کونسا لہجہ تھا۔‘‘
٣ عن أبیّ بن کعب رضی اﷲ عنہ أنَّ النَبِیَّ ﷺ کان عند أضاۃ بنی غفّار، فأتاہ جبریل علیہ السلام فقال: إن اﷲَ یأمرک أن تُقریَٔ أمَّتَک القرآن علی حرف فقال: أسأل اﷲَ معافاتَہ ومغفرتَہ وإن أمتی لا تطیق ذلک،ثم أتاہ الثانیۃ فقال: إن اﷲَ یأمرک أن تُقریٔ أمَّتَک القرآنَ علی حرفین فقال: أسألُ اﷲَ معافاتَہ ومغفرتَہ وإن أمّتی لا تطیق ذلک ثم جاء ہ الثالثۃ فقال: إن اﷲ یأمرک أن تُقریَٔ أمَّتَک القرآن علی ثلاثۃ أحرف فقال: أسأل اﷲ معافاتہ ومغفرتہ وإن أمتی لا تطیق ذلک،ثم جاء ہ الرابعۃ فقال: إن اﷲ یأمرک أن تُقریَٔ أمتَک القرآن علی سبعۃ أحرف،فأیُّما حرف قرئُ وا علیہ فقد أصابوا۔(صحیح مسلم:۸۲۱)
’’ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپﷺ بنی غفار کے تالاب کے پاس موجود تھے کہ جبریل علیہ السلام آپؐ کے پاس تشریف لائے اورفرمایا کہ آپؐ کے لئے حکم ِخداوندی ہے کہ اپنی اُمت کو ایک لہجہ پرقرآن مجیدپڑھائیے۔ آپؐ نے فرمایا:میں اللہ سے معافی و مغفرت کاطلب گارہوں، میری امت ایک لہجہ پرپڑھنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ پھر اللہ کے حکم سے جبریل علیہ السلام دوسری مرتبہ تشریف لائے اورکہا آپ اپنی امت کو دو لہجات پر پڑھائیے۔ آپؐ نے پھر وہی بات دہرائی۔جبریل علیہ السلام تیسری مرتبہ تشریف لائے اور کہا کہ آپ کے لئے اللہ کا حکم ہے کہ تین لہجات پر پڑھائیے۔ آپؐنے پھر وہی بات دہرائی۔ جبریل علیہ السلام چوتھی مرتبہ آئے اور کہاکہ آپ اپنی اُمت کو سات لہجات میں پڑھائیے۔ ان میں سے جس کے مطابق پڑھیں گے درستی کو پالیں گے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بعض الفاظ حدیث کی وضاحت

الأَضاہ ہمزہ کے فتحہ اور حرف ضاد کے ساتھ، اسم مقصور ہے۔ یہ لفظ متغیر اللون پانی کے لئے استعمال ہوتاہے، جو حوض وغیرہ میں جمع ہو۔اس کی جمع أَضاً آتی ہے، جیسے حصاۃ کی جمع حصاً آتی ہے۔ اگر یہ لفظ ہمزہ کے زیر اورمد کے ساتھ یعنی إِضآء ہو تو اس کامعنی ٹیلہ کے ہوتے ہیں۔
أَضاہ یہ مدینہ منورہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے اور بنی غفار کی طرف منسوب اس لئے ہے کہ وہ اس کے پاس رہتے تھے۔
قولہ: أیُّما قرء وا علیہ فقد أَصابوا کے حوالے سے امام نووی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
’’آپ ﷺکی اُمت کے لئے جائز نہیں کہ وہ ان سات لہجات سے تجاوز کرے۔ ان کے لئے انہی سات لہجات میں اختیار ہے۔ انہی حدود میں رہتے ہوئے ان لہجات کو مابعد والوں تک پہنچانا ان کی ذمہ داری اوران پر واجب ہے۔‘‘ (شرح مسلم:۶؍۳۴۴)
٤ عن أبیّ بن کعب رضی اﷲ عنہ قال: کنت فی المسجد فدخل رجل یصلی فقرأَ قراء ۃ أنکرتُہا علیہ، ثم دخل آخر فقرأ قراء ۃ سوی قراء ۃ صاحبِہ۔ فلمَّا قضینا الصلوۃَ دخلنا جمیعا علی رسول اﷲ ﷺ فقلت إنَّ ہذا قرأ قراء ۃ أنکرْتُھا علیہ ودخل آخر فقرأ سوی قراء ۃ صاحبِہ، فأمرہما رسولُ اﷲ ﷺ فقرئَ ا فحسَّنَ النبیُّ ﷺ شأنَہما،فسَقَطَ فی نفسی من التکذیب ولا إذ کانت فی الجاہلیۃ،فلمّا رَأیٰ رسولُ اﷲِ ﷺ ما قد غشِینی ضرب فی صدری فَفِضْتُ عَرَقًا،وکأنَّما أنظرُ إلی اﷲِ فرقًا فقال لی: یا أبیُّ أُرسلَ إلیّ أن أُقرأَ القرآنَ علی حرف،فردِدتُّ إلیہ أنْ ہوِّنْ علی أمتی فردَّ إلیَّ الثانیۃ أُقرأُہ علی حرفین، فرددتُّ إلیہ أن ہوِّن علی أمّتی فردَّ إلیَّ الثالثۃ أُقرأہ علی سبعۃ أحرف،ذلک بکلِّ رِدَّۃٍ رددتُّکَہا مسئلۃً تسألنِیہا فقلت: اللّٰہمَّ اغفر لأمتی،اللہم اغفر لأمتی،فأخَّرتُ الثالثۃ لیوم یرغب إلیَّ الخلقُ کلُّہم حتی إبراہیم علیہ السلام۔ (صحیح مسلم:۸۲۰)
وفی بعض طرق ہذا الحدیث: واختَبأْتُ الثالثۃ شفاعۃ لأمتی یوم القیامۃ۔
’’ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں تھا۔ ایک آدمی آیا اور اس نے ایسی قراء ت کی جس پر میں نے تعجب کیا۔ پھر ایک اورآدمی آیا جس نے اس سے بھی مختلف قراء ت کی۔ جب ہم نے نماز ادا کرلی تو آپﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ میں نے عرض کیا کہ حضورﷺ اس نے ایسی قراء ت کی ہے جو میں نہیں جانتا تھااوردوسرے نے اس سے بھی مختلف تلاوت کی۔ آپؐنے دونوں کو پڑھنے کاحکم دیا۔ ان دونوں نے پڑھا تو آپؐ نے ہر ایک کی قراء ت کو سراہا۔ میرے دل میں ایساوسوسہ پیداہوا، جو کبھی دورِجاہلیت میں بھی پیدا نہیں ہوا تھا۔ جب آپﷺ نے میری اس کیفیت کو دیکھا تو میرے سینے میں ہاتھ مارا، مارے خوف کے میرے تو پسینے چھوٹ گئے اورمجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں۔ پھر آپؐ نے فرمایا:اے ابیؓ! اللہ تعالیٰ نے میرے پاس فرشتے کو بھیجا، تاکہ میں ایک لہجہ پرقرآن پڑھوں، میں نے مطالبہ کیا کہ میری اُمت پر آسانی کیجئے۔ فرشتہ پھر دوسری مرتبہ آیااورکہا دولہجات پر اُمت کو پڑھائیے۔ میں نے پھر وہی مطالبہ کیا۔ جب تیسری مرتبہ فرشتہ آیا تو اس نے کہا کہ آپ اپنی امت کو سات لہجات میں قرآن مجید پڑھائیے اورہر ہرمطالبہ کے عوض آپ کو ایک سوال (دعا)کرنے کی اجازت ہے۔ میں نے کہا کہ اے اللہ! میری اُمت کو معاف فرما دے، اے اللہ میری اُمت کو معاف فرما دے۔ تیسری دعا کو میں نے اس دن کے لئے محفوظ کر رکھاہے، جب تمام مخلوق بشمول ابراہیم علیہ السلام میری طرف پلٹیں گی۔ اس روایت کو امام مسلمؒ اور امام احمدؒ نے نقل کیا ہے۔اس حدیث کے بعض طرق میں یہ الفاظ ہیں کہ تیسری دعا کو میں نے اپنی امت کی روزِ قیامت سفارش کے لئے مؤخر کررکھاہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بعض الفاظ حدیث کی وضاحت

حدیث کے بعض طرق میں ہے کہ حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے دونوں آدمیوں سے سوال کیاکہ تمہیں یہ قراء ت کس نے پڑھائی ہے؟ تو ہر ایک نے جواب دیا: رسول اللہﷺ نے۔ سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ چلو میرے ساتھ، آپؐ کے پاس چلتے ہیں۔ تینوں آپؐ کے پاس حاضر ہوئے۔ آپؐ نے ہر ایک کی قراء ت کی تحسین فرمائی۔ بعض روایات میں ہے کہ آپؐ نے ہر ایک کے لئے أَحْسَنْتَ اور أَصَبْتَ یعنی تو نے اچھاکیا، تو نے سنت طریقہ کو پالیا، کے الفاظ استعمال کئے۔ مطلب یہ کہ آپﷺ نے اختلاف ِقراءت کے باوجود ہرایک کی قراء ت کو صحیح قرار دیا۔ تو میرے دل میں ایسا شبہ پیدا ہوا، جو کبھی جاہلیت کے دور میں بھی پیدا نہ ہوا تھا۔ (سنن النسائی:۹۴۱)
جملہ: سقط فی نفسی من التکذیب…الخ میں من التکذیب جار مجرور ہو کر متعلق ہے محذوف کلمہ ما کے، اور یہی کلمہ ما ، سقط فی نفسی کا فاعل ہے۔ مراد یہ ہے کہ ایساجھوٹ نہ تو ایام ِایمان میں اور نہ ہی دورِ جاہلیت میں میرے دل میں کبھی پیداہواتھا۔چنانچہ اس جملہ کی اصل عبارت یوں ہے: فسقط فی نفسی من التکذیب ما لم یحصل لی وَقْتًا مَا،ولا وقت کنت فی الجاھلیۃ، تو صحابی کے قول میں ما، سقطکا فاعل ہے، اورمن التکذیب یہ جار مجرور مل کر فاعل ِ محذوف مَا اور اس کے بیان کے متعلق ہے ، اورولا إذ میں واؤ عاطفہ ہے۔ لا،لم سے حاصل شدہ نفی کی تاکید کے لئے اور إذ ظرف زمان بمعنی فعل ماضی ہے، اوراس کا معطوف علیہ وقتاً مقدر ہے۔
بعض روایات میں ہے:
’’فدخل فی نفسی من الشکِّ والتکذیب أشدُّ ممّا کنت فی الجاھلیۃ ‘‘
’’یعنی ایسی شدت کے ساتھ میرے دل میں شک اورجھوٹ نے جنم لیا جو دور جاہلیت میں بھی نہ تھا۔‘‘
امام نووی رحمہ اللہ اس جملہ کے معنی کے متعلق فرماتے ہیں:
’’شیطان نے میرے دل میں آپؐ کی نبوت کے بارے میں اس قدر سخت وسوسہ ڈالا جو کبھی جاہلیت میں بھی نہیں آیاتھا، کیونکہ قبل از اسلام تو محض غفلت یا شک تھا، لیکن اب شیطان نے گویا نبوت کا قطعی طور پر جھوٹا ہونا میرے دل میں بٹھا دیا۔‘‘ ( شرح مسلم:۶؍۳۴۳ )
اس بابت یہ عقیدہ رکھنا بھی ضروری ہے کہ حضرت ابی رضی اللہ عنہ کے دل میں شیطانی وسوسہ اوربہکاوا آیا تھا جو زیادہ دیرنہ چل سکا، کیونکہ صحابہ کرام ؓ کی قوت ایمانی کے سامنے اس قسم کے شبہات اور وساوس کی جتنی بھی آندھیاں آتی تھیں صحابہ کے مضبوط ایمان کے سامنے وہ اپنی شدت کو کھو دیتیں۔ یہ بات تو واضح ہے کہ شیطانی کچوکے اوردل میں اٹھنے والے خیالات پر انسان کا مواخذہ اورمحاسبہ اس وقت تک نہیں کیا جائے گا، جب تک وہ انہیں تسلیم نہ کرے یا ان شبہات کے مطابق عمل نہ کرلے، بلکہ اسے چاہئے کہ ان خیالات و شبہات کو اپنے دل و دماغ سے نکالنے کی کوشش کرے۔
اس حوالے سے امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو شیطان نے اس لیے بہکانا چاہا تاکہ وہ ان پر ان کی حالت ِایمانی کو خلط ملط کرسکے اورقراء ات کی اہمیت کو دھندلا کرسکے۔ جب آپؐ نے ان کی یہ حالت دیکھی تو ان کے سینے پر ہاتھ مارا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کاسینہ روشنی سے منور فرمادیا، یہاں تک کہ وساوس کے تمام بادل چھٹ گئے اورقراء ات کے معارف کے متعلق آپ کا سینہ کھل گیا۔جب ان کے لئے اس وسوسہ کی برائی ظاہر ہوئی تو ان پر اللہ کا خوف طاری ہو گیا اوراللہ سے حیاء کی وجہ سے ان کے پسینے چھوٹ گئے۔یہ وسوسہ بھی ان وساوس کے قبیل سے تھا جن کے متعلق صحابہ کرام ؓ آپؐ سے سوال کرتے تھے کہ ان کے دلوں میں ایسے وسوسے اٹھتے ہیں، جنہیں دوسروں سے بیان کرتے ہوئے بھی وہ ڈرتے ہیں، تو آپؐ نے پوچھا کہ کیا واقعی ایسے وسوسے پیداہوتے ہیں؟ تو صحابہ نے عرض کیا:جی ہاں! آپؐ نے فرمایا یہ مضبوط ایمان کی نشانی ہے کہ جہاں ایسا ایمان ہو وہیں دشمن نقب لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ ‘‘ (تفسیر قرطبی:۱؍۴۹)
قولہ: فلمَّا رأی رسولُ اﷲ ﷺ ما قد غشینی ففضت عرقاً کأنما أنظر إلی اﷲ فرقاً کے متعلق قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جب آپﷺ نے اس مذموم وسوسے کو ابیؓ کے چہرے سے جانچ لیا، تو ان کے سینے پر ہاتھ اسلئے ماراتاکہ وسوسہ دور ہوجائے۔ فَرَقًا، الْفَرَق سے ہے، جس کا معنی ہے: رعب، خوف اورگھبراہٹ۔‘‘(شرح صحیح مسلم:۶؍۳۴۳)
امام طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’حضرت ابی ؓایمان و یقین میں کامل ترین صحابہ میں سے تھے۔ جب آپؐ نے ان پر یہ شیطانی وسوسہ دیکھا تو آپؐ نے ان کے سینے پر ہاتھ مارا۔ آپﷺ کے ہاتھ مبارک کی برکت کی وجہ سے یہ حالت اورکیفیت حضرت ابیؓ کے پسینے چھوٹنے کے ذریعے جاتی رہی، دوبارہ حالت ِایمان کی طرف پلٹے اور اللہ سے خوف اورشرمندگی اس لئے محسوس کی کہ مذکورہ وسوسہ شیطانی تھا۔‘‘
حضرت ابی ؓسے مروی حدیث کے بعض طرق کے الفاظ مندرجہ ذیل ہیں:
’’فوجدتُّ فی نفسی وسوسۃ الشیطان حتی احمرَّ وجھی ‘‘
’’ میرے دل میں ایسا زبردست وسوسہ آیا کہ میرے چہرے کا رنگ سرخ ہوگیا۔ ‘‘
رسول اللہ ﷺنے یہ حالت دیکھتے ہوئے میرے سینے میں مارا اوردعا کی:
’’اے اللہ! ابیؓ سے شیطان کودور فرما دے۔ ‘‘
اوربعض روایات میں یوں الفاظ ہیں: ’’اے اللہ! ابیؓ سے شک کو دور فرما دے۔‘‘
قولہ: فرددتُّ إلیہ أن ھوِّنْ علی أُمَّتی میں سوال دہرانے کی وضاحت ہے، جس کی تفصیل دوسری حدیث میںاس طرح آئی ہے:(أسأل اﷲ معافاتہ ومغفرتہ)(صحیح مسلم:۸۲۱)
’’میں اللہ سے معافی اورمغفرت کا طلبگار ہوں۔‘‘
اس حدیث میں ہے کہ جبریل علیہ السلام نے تیسری مرتبہ کہا کہ سا ت لہجات میں پڑھائیے، جبکہ اس سے پہلی حدیث میں ہے کہ یہ بات جبریل علیہ السلام نے چوتھی مرتبہ کہی تھی۔ ان دونوں روایات میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ بعض اوقات اختصارکی غرض سے تکرار حذف کردیا جاتا ہے۔
قولہ: وذلک بکل رِدۃ رددتکھا مسالۃ تسألنیھا کے حوالے سے امام ِ نوویؒ شرح مسلم میں فرماتے ہیں:
’’اس کا معنی ہے کہ یہ دعائیں تو یقینی طور پر قبول کر لی گئیں ہیں، جبکہ دیگر دعاؤں کی قبولیت کی امید تو کی جا سکتی ہے لیکن ان کی مقبولیت ضروری نہیں۔‘‘(شرح مسلم:۶؍۳۴۴)
واضح رہے کہ حضرت ابی ؓ نے اپنے ساتھی کی جس قراء ت پر انکار کیا تھا، وہ سورۃالنحل کی آیات تھیں، لیکن بہت کوشش کے باوجود ہمیں علم نہیں ہوسکا کہ وہ کون سی آیات تھیں۔
٥ عن أبیِّ رضی اﷲُ عنہ قال لقی رسول اﷲِ ﷺ جبریلَ فقال: یا جبریلُ! إنی بعثت إلی أمّۃ أمیین فیہم العجوز والشیخ الکبیر والغلام والجاریۃ والرجل الذی لم یقرأ کتابا قطُّ، قال یا محمَّد ﷺ! إن القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف۔ (سنن الترمذی:۲۹۴۴وقال حدیث حسن صحیح)
’’حضرت ابیؓ سے مروی ہے ، فرماتے ہیں:نبی کریمﷺ کی جبریل علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو آپ نے جبریل علیہ السلام سے کہا، میں تو اَن پڑھ لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیاہوں، ان میں غلام، لونڈیاں، بوڑھے ، کمزور اورایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے کبھی کتاب پڑھ کے نہیں دیکھی۔ تو جبریل علیہ السلام نے فرمایا: اے محمد ﷺ! قرآن سا ت لہجات میں نازل کیا گیا ہے۔ امام احمدؒ اور امام ترمذیؒ نے اسے نقل کیا ہے اورامام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن، صحیح ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بعض اَلفاظ حدیث کی وضاحت

اُمّیینیہ اُمّی کی جمع ہے، اوراُمّی ایسے شخص کو کہتے ہیں جو پڑھ لکھ نہ سکتا ہو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ِعالی شان ہے:
’’ھُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الْاُمِّیِّیْنَ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ آیَاتِہٖ ……‘‘(الجمعۃ:۲)
’’اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے کہ جس نے اَن پڑھ لوگوں میں رسول بھیجا، جو ان پرآیات قرآنیہ کی تلاوت کرتاہے۔‘‘
اسی طرح نبی کریم ﷺکا فرمانِ مبارک ہے:(إِنَّا أمّۃ أُمِّیَّۃ لا نکتب ولا نحسب)(صحیح البخاری:۱۹۱۳)
’’ہم ایسی قوم ہیں کہ نہ لکھنا پڑھنا جانتے ہیں اور نہ ہی حساب وکتاب کرنا۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ وہ ماؤں کی کوکھ سے ہی لکھناپڑھنا نہیں جانتے تھے( اور اب بھی وہ اپنی اس عادت کے مطابق اَن پڑھ ہیں۔) آپﷺ کے فرمان کامطلب یہ ہے کہ مجھے اس طرح کے اَن پڑھ، ناخواندہ لوگوں کی طرف مبعوث فرمایاگیا ہے۔اگر انہیں ایک ہی لہجہ و زبان کاپابندکردیاگیا، تو یہ معاملہ تلاوت ِقرآن میں گراں گزرنے کے ساتھ ساتھ قرآن سے دوری اوراس کی قراء ت سے نفرت کاسبب بن جائے گا۔
اس حدیث کے بعض طرق میں یہ الفاظ ہیں:
فمُرْھُمْ فَلْیَقْرَئُ وا القرآن علیٰ سبعۃ أَحرُفٍ۔(مسند احمد:۵؍۱۳۲)
’’انہیں حکم دیجئے کہ قرآن مجید سات لہجات میں پڑھ لیں۔‘‘
اس میں اُمت کے لئے رحمت اورآسانی ہے کہ جس کے لئے جو لہجہ آسان ہو اسی کے مطابق پڑھ لیا کرے۔
٦ عن أبِی قیسٍ مولی عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہ أن رجلا قرأ آیۃ من القرآن فقال لہ عمرو إنّما ہی کذا وکذا بغیر ما قرأ الرجلُ فقال الرجل ہکذا أقرأنیہا رسول اﷲُ ﷺ فخرجا إلی رسول اﷲ ﷺ ذحتی أتیاہ فذکرا ذلک لہ فقال ﷺ: إن ہذا القرآن نزل علی سبعۃ أحرف، فأیَّ ذلک قرأتم أصبْتم، فلا تماروا فی القرآن فإنَّ المراء فیہ کفر۔ (مسند أحمد :۴؍۲۰۴)
’’حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے غلام ابوقیس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے قرآن کریم کی ایک آیت کی تلاوت کی، تو عمرو بن عاصؓ نے فرمایا: یہ اس طرح تو نہیں ہے۔ آدمی نے کہا کہ مجھے تو آپﷺ نے اسی طرح پڑھایا ہے۔ دونوں آپﷺ کے پاس آئے اورمعاملہ گوش گزار کیا، تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: یہ قرآن سات لہجات میں نازل کیاگیا ہے۔ ان میں سے جس کے مطابق بھی پڑھو ٹھیک ہے۔ سنو! تم قرآن کریم میں جھگڑا مت کرو، کیونکہ قرآن مجید میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔ ‘‘
امام ابوعبیدرحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’نتیجہ کے اعتبار سے اس حدیث میں کوئی اختلاف نہیں، بلکہ اختلاف محض لفظی ہے، کیونکہ ایک آدمی نے ایک حرف پر قراء ت کی تو دوسرے نے اس کاانکار یااس سے اختلاف کیا، حالانکہ ان دونوں میں سے ہر قراء ت اختلاف کے باوجود متلو اورمقروء ہے۔ تو جب کوئی اپنے ساتھی کی ثابت شدہ اور غیر منسوخہ قراء ت کا انکار کرتا ہے، تو اس پر کفر اس لئے لازم آتا ہے کہ اس نے نبی کریمؐ پرنازل شدہ ایک قراء ت (لہجہ) کاانکار کردیا۔ ‘‘
اس حدیث کے بعض طرق میں الفاظ آئے ہیں: فانَّ مرَآئً فیہِ کُفْرٌ، تو ان الفاظ میں ’مراء ً‘کا نکرہ ہونا اس بات کو باورکروا رہاہے کہ قرآن میں ہلکے سے ہلکا اور چھوٹے سے چھوٹا یعنی ادنیٰ درجہ کاجھگڑا بھی، خصوصا قراء ات قرآنیہ کی قبولیت کے باب میں، کفر ہے۔
٧ عن أبی ہریرۃ رضی اﷲ عنہ أن رسول اﷲ ﷺ قال:( نزل القرآن علی سبعۃ أحرف والمراء فی القرآن کفر ـ ثلاث مرات ـ فما عرفتم منہ فاعلموا وما جہلتم منہ فردّوہ إلی عالمہ۔أی فتعلَّموہ ممَّنْ ہو أعلم منکم۔) (مسند أحمد:۲؍۳۰۰)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:قرآن میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔ آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی۔ لہٰذا اس میں جھگڑا مت کرو۔ اس میں جس بات کا علم ہو اس پرعمل کرلو اورجس کے بارے میں علم نہ ہو اسے اپنے سے بڑے عالم ِقرآن کے پاس لے جاؤ، تاکہ سمجھ سکو، یعنی جوتم سے زیادہ جانتا ہے اس سے سیکھ لو۔ ‘‘
٨ عن ابن مسعود رضی اﷲ عنہ قال أقرأنی رسولُ اﷲ ﷺ سورۃً من آل حم، فرُحْتُ إلی المسجد فقلت لرجل اقرأہا فإذا ہو یقرأ حروفا ما أقرأہا فقال أقرأنیہا رسول اﷲﷺ فانطلقنا إلی رسول اﷲ ﷺ فأخبرناہ فتغیَّر وجہُہ فقال إنَّما أہلک من کان قبلکم الاختلافُ، ثم أسرَّ إلی علیّ شیئا فقال علیّ إن رسول اﷲ ﷺ یأمرکم أن یقرأ کل منکم کما عُلِّمَ، قال فانطلقْنا وکل رجل منا یقرأ حروفا لا یقرأہا صاحبہ۔ (مستدرک الحاکم:۲؍۲۲۳)
’’حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے مجھے حم والی سورتوں میں سے کوئی سورت سکھائی، میں مسجد میں گیا اورایک آدمی سے کہاکہ وہی سورت پڑھو۔ جب اس نے پڑھناشروع کیا تو وہ ایسے حروف (لہجات) میں پڑھنے لگا جوآپﷺ نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ جب میں نے کہا کہ تو نے یہ کہاں سے پڑھے ہیں تو اس نے جواب دیا کہ مجھے تو رسول اللہ ﷺنے ہی ایسے پڑھایا ہے۔ ہم اللہ کے رسولﷺ کے پاس آئے اور معاملہ بیان کیا، تو غصہ کی وجہ سے آپﷺ کے چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہوگیا اورفرمایا: تم سے پہلوں کو اسی اختلاف نے ہلاک کیا۔ اس کے بعد آپﷺ نے علی رضی اللہ عنہ سے سرگوشی فرمائی۔ حضرت علیؓ نے لوگوں مخاطب ہو کر کہا کہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ جیسے تمہیں پڑھایا جاتا ہے، ویسے ہی پڑھو۔ حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر ہم وہاں سے چل دیئے اورہم میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کی قراء ت کے علاوہ قراء ا ت میں پڑھتا تھا۔‘‘
٩ عن زید بن أرقم رضی اﷲ عنہ قال جاء رجل إلی رسول اﷲ ﷺ فقال أقرأنی ابن مسعود سورۃ أقرأنیہا زید وأقرأنیہا أبی بن کعب فاختلفَتْ قراء تُہم فبقراء ۃ أیِّہم آخذُ؟ فسکَتَ رسول اﷲ ﷺ وعلیٌّ إلی جنبہ فقال علیّ لیقرأ کل إنسان منکم کما عُلَّم فإنہ حسن جمیل۔(معجم الکبیر للطبرانی:۴۹۳۸)
’’حضرت زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یارسول اللہﷺ! مجھے ایک ہی سورت تین اشخاص یعنی ابن مسعود، ابی بن کعب اورزیدرضی اللہ عنہم نے پڑھائی، لیکن ہر ایک کی قراء ت مختلف ہے۔ مجھے بتائیے کہ میں کس کی قراء ت کے مطابق پڑھوں؟ آپﷺ خاموش رہے۔حضرت علیؓ جو آپؐ کے پہلومیں تشریف فرما تھے، نے کہا جیسے ہر انسان کو سکھایاگیا ہے، وہ ویسے ہی پڑھے۔ یہ تمام انداز خوب اوراچھے ہیں۔‘‘
یہ تمام اَحادیث کثرت طرق اورمجموعی لحاظ سے حدیث سبعہ أحرف کے تواتر پردلالت کرتی ہیں۔
حافظ ابویعلی الموصلی رحمہ اللہ نے ’مسندکبیر‘ میں نقل کیاہے:
’’ایک روز حضرت عثمان رضی اللہ عنہ منبر رسولﷺپر جلوہ افروز ہوئے اورلوگوں کومخاطب کرکے فرمایا: میں تمہیں اللہ کاواسطہ دے کر کہتا ہوں کہ ہروہ شخص کھڑا ہوجائے، جس نے حدیث سبعہ اَحرف رسول اللہﷺسے براہ راست سنی ہو ۔ راوی کہتے ہیں کہ مجمع سے اس قدر لوگ کھڑے ہوئے کہ ان کا شمار مشکل تھا۔ تب حضرت عثمان ؓ فرمانے لگے کہ میں بھی اس بات پرگواہ ہوں کہ واقعتا آپؐ نے یہی فرمایا تھا: (إن ھذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف کلھا شاف کاف) (سنن النسائی:۹۴۱)
راوی کایہ کہنا: فقاموا حتی لم یحصوا یعنی لوگوںکی اَن گنت تعداد کھڑی ہوگئی،اس حدیث کے متواتر ہونے کی واضح دلیل ہے۔
حفاظِ حدیث کی بہت بڑی جماعت بشمول امام ابوعبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ اورامام حاکم رحمہ اللہ وغیرہ نے حدیث ِسبعۃ أحرفکو متواتر اَحادیث میں شمار کیا ہے۔
امام سیوطی رحمہ اللہ ’الاتقان‘ میں فرماتے ہیں:
’’حدیث: أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف کو صحابہ کی ایک بڑی جماعت، جس میں مندرجہ ذیل ۲۱ صحابہ کرام شامل ہیں، نے نقل کیا ہے:
١ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ
٢ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ
٣ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ
٤ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ
٥ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ
٦ حضرت سلیمان بن صردرضی اللہ عنہ
٧ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ
٨ حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ
٩ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ
١٠ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ
١١ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
١٢ حضرت عمرو بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ
١٣ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ
١٤ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ
١٥ حضرت ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ
١٦ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ
١٧ حضرت ابوجھم رضی اللہ عنہ
١٨ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ
١٩ حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ
٢٠ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
٢١ حضرت اُم ایوب انصاریہ رضی اللہ عنہا (الاتقان:۱؍۹۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مذکورہ اَحادیث کا ماحصل اور فوائد ونتائج

مذکورہ احادیث سے مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں:
١ تمام قراء ات حق و صواب ہونے میں برابر ہیں۔ جس نے ان میں سے کوئی ایک قراء ت بھی پڑھی، اس نے درستگی کوپالیا۔
اس سلسلہ میں آپﷺ کے مندرجہ ذیل فرامین گرامی پیش کیے جاسکتے ہیں:
فأیُّما حرفٍ قرء وا فقد أصابوا۔(صحیح مسلم:۸۲۱)
فأیَّ ذلک قرأتم أصبتم۔(مسند احمد:۴؍۲۰۴)
أَصَبْتَ۔
أَحْسَنْتَ۔(سنن النسائی:۹۴۱)
فَحَسَّنَ الرَّسُوْل ﷺ شأنھما۔(صحیح مسلم:۸۲۰)
٢ عمر رضی اللہ عنہ اور ابی رضی اللہ عنہ نے جب ایک دوسرے کی قراء ت کی مخالفت کی تو آپﷺ نے ان کی مخالفت کو درست قرارنہیں دیا، جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا اختلاف قراء ت درست اور منزل من اللہ تھا۔ اس سلسلہ میں نبی کریمﷺ کے ابی ؓ کے سینہ پر ضرب لگانے سے بھی دلیل لی جاتی ہے، جب ان کے لئے اختلاف قراء ات کو ہضم کرنا مشکل ہوا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تمام واضح اور غیر مبہم دلائل اس بات پردلالت کرتے ہیں کہ منزل حروف میں سے ہر ہرحرف کی قراء ت جائز اور حق ہے۔
٢ متنوع قراء ات اختلافات کے باوجود منزل من اللہ ہیں، رسول اللہﷺ سے انہیں بطریق تلقِّی و مشافہت حاصل کیا گیا ہے۔ اختلاف قراء ات کے معاملہ میں انسانوں میںسے کسی کو کچھ دخل نہیں۔ کسی بھی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق ایک عبارت کی جگہ دوسری عبارت، ایک لفظ یااس کا مترادف یا اس کے برابر کاکوئی حرف پڑھے۔ اس کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
آپﷺ نے قراء ت میں مخالفت کرنے والے ہر شخص کی قراء ت کے متعلق فرمایا: کذلک أنزلت۔(صحیح البخاري:۲۴۱۹،۵۰۴۱)
مخالفت کرنے والے کا اپنے ساتھی سے کہنا: أقرأَنِیْھَا رسول اﷲ (اَیضا)
آپﷺ کا ہر ایک کو اس قراء ت پرثابت رکھنا بھی اس بات کے دلائل میں سے ہے۔
اگر ہر ایک کو اجازت دی جاتی کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق جو لفظ چاہے پڑھ لے، تو اس سے قرآن کریم کی قرآنیت باطل ٹھہرتی، کیونکہ قرآن تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ اگر ہرہر فرد کواپنی خواہش نفس کی اجازت دی جاتی توقرآن کریم کا اعجاز ختم ہوجاتا۔ مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان: ’’اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ‘‘کا اِبطال لازم آتا۔
٣ مسلمانوں کے لئے جائز نہیں کہ وہ اختلاف ِقراء ات کو لڑائی جھگڑے کا موضوع بنائیں یا اس کو بنیاد بناکر قرآن مجیدکے متعلق شور وغوغاکریں۔ اسے جھٹلائیں یااس میں شکو ک و شبہات پیداکرنے کی کوشش کریں، کیونکہ قرآن مجید کو سبعہ احرف پرنازل کرنے کامقصد اُمت اِسلامیہ پر رحمت، آسانی اور نرمی کرنا تھا، چنانچہ یہ جائز نہیں کہ اس آسانی کو تنگی، اس وسعت کو تنگ دامنی اور اس عطیہ خداوندی کو آزمائش اور مشقت میں تبدیل کیاجائے۔
اس کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت، جس میں ہے کہ
فلا تماروا فی القرآن فانَّ المراء فیہ کفر۔(مسند احمد:۴؍۲۰۴)
’’قرآن میں جھگڑا مت کرو،کیونکہ اس میں جھگڑا کرناکفر ہے۔‘‘
اختلاف ِقراء ات کے موقع پر آپؐ نے غصہ کااظہار کرتے ہوئے فرمایا:
(إنَّمَا أھلک من کان قبلکم الاختلاف)(مستدرک حاکم:۲؍۲۲۳)
’’تم سے پہلوں کو اسی اختلاف نے تباہ کیا۔‘‘
٤ اَحرفِ سبعہ سے مراد اداء اور پڑھنے سے متعلق قرآنی الفاظ کا اختلاف ہے، نہ کہ تفسیر یا معانی کے سات مختلف انداز۔اس بات کی دلیل آپؐ کے مندرجہ ذیل فرامین ہیں:
آپﷺ نے فرمایا:(أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف) (مسند أحمد:۵؍۱۱۴)
’’قرآن کریم سات مختلف اَسالیب تلاوت پر نازل کیا گیا ہے۔‘‘
اس حدیث میں حروف ِ سبعہ سے مراد سات مختلف پڑھنے کے اَسالیب ہیں۔
اس حدیث میں لفظ ’احرف‘ مجاز مرسل کے قبیل سے ہے۔یہاں جزء (حرف) بول کر کل (کلمات قرآنیہ جو مختلف قراء ات پرمشتمل ہیں) مراد لیاگیا ہے۔ ان دونوں میں تعلق، جزئیت وکلیت کاہے، جیسے رقبہ (گردن) بول کر مکمل غلام، عین (آنکھ) بول کر پورا آدمی (جاسوس) مراد لیا جاتا ہے۔ مزید برآں جیسے سبعہ اَحرف بول کر مراد مختلف فیہ کلمات قرآنیہ ہیں، اسی طرح مختلف فیہ کلمات میں سے مراد حروف ِمختلفہ ہیں، نہ کہ کلمہ کے تمام حروف۔ کلمہ مختلف فیہا کے متعین حروف میں اختلاف بسااوقات رفع ، نصب،جر کا ہوتا ہے اوربعض اوقات غیب و خطاب اور نقص وزیادتی وغیرہ کاہوتا ہے۔
حضرت عمرؓ کے قول کے ضمن میں یہ بات قابل توجہ ہے کہ انہوں نے پہلے فرمایا: وھو یقرأ علی حروف کثیرۃ، پھر بعد ازاں اسی اختلاف ِ حروف کو ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں: فقرأ علیہ القراء ۃ التی سمعتہ یقرأ۔ آپ نے نوٹ فرمایا کہ پہلے آپؓ نے ’علی حروفٍ‘ کہا، پھر انہی حروف کو ’القراء ۃ‘سے تعبیر فرمایا؟ جیسا کہ قراء ا ت کی لغوی تعریف میں یہ بحث گزری ہے کہ :
بأن القراء ۃ ھی عبارۃ عن لفظ الاحرف مجموعًا۔ ’’قراء ت حروف کے مجموعے پڑھنے کو کہتے ہیں۔‘‘
اسی طرح حضرت ابیؓ کابیان ہے:فقرأ قرآء ۃ أنکرتُھا علیہ۔ (صحیح مسلم:۸۲۰)
’’انہوں نے ایسی قراء ت کی، جس پرمیں نے تعجب کیا۔‘‘
حالانکہ قرآن کریم کے مختلف قراء توں میں نازل ہونے کے لئے حدیث میں لفظ ’اَحرف‘ استعمال ہوا ہے، جبکہ ابیؓ نے جب آپﷺ کے سامنے معاملہ پیش کیا تو کہا:
’’ إنَّ ھذا قرأ قراء ۃ سوی قراء ۃ صاحبہ ‘‘(صحیح مسلم:۸۲۰)
’’اس نے اپنے ساتھی کی قراء ت کے علاوہ کوئی دوسری قراء ت پڑھی ہے۔‘‘
اس تقریر اوربحث سے یہ بات واضح ہوئی کہ حدیث میں ’حروف‘ سے مراد معانی ومطالب کے بجائے قراء ۃ اور تلاوت سے متعلقہ پڑھنے کے سات اسالیب مراد ہیں، جو نبی کریم ؐنے جبریل علیہ السلام سے دور کرتے ہوئے اخذ فرمائے اور یہ حروف آئمہ سبعہ یا عشرہ کی قراء ات میں موجود ہیں۔
رہا یہ کہ ان آئمہ کی طرف ان قراء ات کی نسبت کی کیا وجہ ہے؟ تو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ نسبت تو محض اختیاری ہے، کیونکہ انہوں نے ان حروف کو اختیار کیا، ان میں مہارت حاصل کی، انہی کے پڑھنے پڑھانے میں اپنی زندگیاں کھپادیں، وہ مرجع خلائق بنے، لوگ ان سے قراء ات حاصل کرتے تھے،یوں قراء ات کی نسبت ان کی طرف ہونے لگی۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ ان ائمہ کی طرف قراء ات کی نسبت مذکورہ قبیل سے ہے، نہ کہ اس لئے کہ انہوں نے قراء ات کو اپنی مرضی سے گھڑ کر لوگوں میں پھیلا دیا۔
٥ صحابہ کرام ؓ نے جو کچھ آپؐ سے اَخذ کیا، وہ اسی تک محدود رہے، نہ کہ ہر وہ وجہ پڑھنے لگے جو عربیت کے موافق تھی۔
اس بات کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
حضرت ہشام بن حکیمؓ نے فرمایا :’’أقرأنیھا رسول اﷲ ﷺ‘‘(صحیح البخاری:۲۴۱۹ ،۵۰۴۱)
’’یہ قراء ت مجھے رسول اللہﷺ نے پڑھائی تھی۔‘‘
حضرت عمرؓ کا ارشاد ملاحظہ فرمائیں: ’’سمعت ھذا یقرأ … لم تقرأنیھا‘‘ (صحیح البخاریي:۶۹۳۶)
’’ میں نے ان سے ایسی قراء ت سنی ہے، جو آپؐ نے مجھے نہیں پڑھائی۔‘‘
صحابی رسول کا یہ سوال دیکھیں : مَن أقرأک ھذا ؟(صحیح مسلم:۵۰۴۱) ’’یہ قراء ت تجھے کس نے پڑھائی؟‘‘
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے یوں سوال کیا:’’أو لم تقرئینی کذا وکذا‘‘
’’کیا آپؐ نے مجھے ایسے ایسے نہیں پڑھایا تھا؟‘‘
٦ اَحرفِ سبعہ کی رخصت مدینہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی تھی، نہ کہ مکہ مکرمہ میں۔اس بات کی دلیل یہ ہے کہ ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں:لقی جبرئیلؑ النبیَّ ﷺ عند أضاۃ بنی غفار۔(صحیح مسلم:۸۲۱)
’’جبرئیل ؑ آپﷺ سے بنی غفار کے تالاب کے پاس ملے۔‘‘
أضاۃ بنی غفَّار مدینہ میں واقع ایک مقام کا نام ہے۔ اس تالاب کی بنی غفار کی طرف نسبت کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس کے قریب رہتے تھے۔ (فتح الباری: ۹؍۲۸، معجم از بکریؒ: ۱؍۱۶۴،المشارق از قاضی عیاضؒ: ۱؍۴۷، وفاء الوفاء از سمہودیؒ: ۲؍۷۵۷ تا ۷۵۹)
اِمام یاقوتؒ نے اسے قطعیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ (معجم البلدان : ۱؍۲۱۴)
٧ سبعہ اَحرف میں سے جس حرف کے مطابق پڑھا جائے ٹھیک ہے، کیونکہ تمام حروف قرآن کریم ہیں۔اس بات کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
آپﷺ کافرمان ِ عالیشان ہے :
(فأیّما حرف قرء وا علیہ فقد أصابوا) (صحیح مسلم:۸۲۱)
’’وہ جس حرف کے مطابق بھی پڑھیں گے درستگی کو پالیں گے۔‘‘
اسی طرح ہشام، عمر، ابی رضی اللہ عنہم اور ان کے مخالفین کی قراء ات اس بات کے صریح دلائل میں سے ہیں۔ خصوصاً آپ کا یہ فرمانا: (أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف) غور فرمائیں کہ آپ کے مطابق(اللہ تعالیٰ کی طر ف سے) نزول قرآن سات انداز پر ہوا ہے۔
 
Top