محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ۰ۙ فَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الْمُكَذِّبِيْنَ۱۳۷ ھٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًى وَّمَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِيْنَ۱۳۸ وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۱۳۹
تم سے پہلے بہت واقعات گزرچکے ہیں۔سو تم زمین کی سیر کرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا ہے ۔۱؎ (۱۳۷) یہ لوگوں کے لیے بیان ہے اور پرہیز گاروں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے ۔(۱۳۸) اورسست نہ ہو اور غم نہ کھاؤ اور تمھیں(مشرکین عرب پر)غالب۲؎ رہوگے۔اگرتم مومن ہو۔(۱۳۹)
۱؎ اس آیت میں مسلمان کو تلقین کی ہے کہ وہ عبرت وبصائر کو ڈھونڈے اور تلاش کرے اور دیکھے کہ وہ لوگ جو آسمانی ہدایات کو نہیں مانتے اور اخلاق واصلاح کی مخالفت کرتے ہیں ان کا کتنا عبرت ناک حشر ہوتا ہے اور کس طرح وہ آنے والی نسلوں کے لیے سرمایہ ٔ بصیرت بنتے ہیں اور زبانِ حال سے کہتے ہیں۔ ؎
ان اٰثارما تدل علینا ٭ فانظروا بعدنا الی الاٰثار
ان اٰثارما تدل علینا ٭ فانظروا بعدنا الی الاٰثار
۲؎ اس آیت میں مسلمانوں کو بشارت دائمی کی خبر سنائی ہے کہ مسلمان اگرمسلمان ہے توپھر کوئی وجہ نہیں کہ وہ کفر سے مغلوب رہے اوریہ اس لیے کہ اسلام نام ہی ایک ایسے زندہ طرز عمل کا ہے جو فلاح دارین کاکفیل وضامن ہے ۔ اس کے اصول اتنے پاکیزہ اورحیات بخش ہیں کہ مان لینے کے بعد علوواختیار کی تمام نصیحتیں از خود حاصل ہوجاتی ہیں مگرشرط وہی ایمان کامل ہے جس سے عمل پیہم الگ نہیں۔قرآن حکیم کی اصطلاح میں ''مومن'' صر ف چند اصول وفروع کو مان لینے والے کا نام نہیں بلکہ ایسے زبردست خدا پرست انسان کانام ہے جس کی رگوں میں خون کی بجائے اسلام کی کہربائی رَو دوڑ رہی ہو، جو بے چین اور مضطرب دل ودماغ کا مالک ہو، جس کی عملیت فولاد کو برمادے اورپتھر اور چٹانوں میں جان پیدا کردے ،جو انتہا درجہ کا صابر، منتظم اورباقاعدہ ہو، جس میں پوری عسکری روح ہو، جو دنیا کو تہ وبالا کردینے کا عزم صمیم اپنے اندر رکھتا ہو، وہ نہ جامد اورغیر متحرک ہو جو غلام اور ذلیل ہو، جس میں کوئی ارادہ نہ ہو اور جس کا ایمان منطقی حدود سے آگے نہ بڑھے۔اَنْتُمُ اْلاَعْلَوْنَ