• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اِحترامِ رسولﷺ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
منافقین نے نبی کریمﷺ کے خلاف ایک ہرزہ سرائی یہ کی کہ یہ کان کا کچا ہے، مطلب یہ کہ ہر ایک کی بات سن لیتا ہے،یہ گویا آپﷺکے حلم و کرم اور عفو و درگزر کی صفت سے ان کو دھوکہ ہوا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہمارا پیغمبر شروفساد کی کوئی بات نہیں سنتا جو سنتا ہے تمہارے لئے اس میں خیر و بھلائی ہی ہے۔
نیز ارشاد الٰہی ہے:
﴿ِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَھُمْ عَذَابًا مُّھِیْنًا﴾
’’ یعنی جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیاوآخرت میں اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ہے اور ان کے لئے نہایت رسوا کن عذاب ہے ۔‘‘ (الاحزاب:۵۷)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ﷫فرماتے ہیں:
«دل ذلک علی أن الإيذاء والمحادة کفر لأنه أخبر أن له نارجهنم خالدا فيها۔ ۔ ۔فيکون المؤذی لرسول اﷲ ! کافرا عدو اﷲ ورسوله محاربا ﷲ ورسوله»
’’یعنی یہ بات اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ و رسولﷺ کو ایذا اور ان کی مخالفت کفر ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بتایا دیا کہ ایسے شخص کے لئے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ لہٰذا رسول اکرمﷺ کو تکلیف دینے والا کافر ہوگا جو اللہ و رسولﷺ کا دشمن اور ان کی مخالفت کرنے والا ہے۔‘‘ (الصارم المسلول علی شاتم الرسول، ص۲۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شاتم رسول کا قتل
شیخ الاسلام﷫ نے شاتمِ رسول اور آپﷺ کے بے اَدب کو قتل کرنے پر اِجماع نقل کیا ہے۔ وہ اسحاق بن راہویہ کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«أجمع المسلمون علی أن من سبّ اﷲ أو سبَ رسوله! أو دفع شيئا مما أنزل اﷲ عزوجل أو قتل نبيا من أنبياء اﷲ عزوجل أنه کافر بذلک وإن کان مقرا بکل ما أنزل اﷲ»
’’اس بات پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ یا اس کے رسولﷺ کو گالی دے یا اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ کسی حکم کو ردّ کرے یا انبیاء کرام میں سے کسی نبی کو قتل کرے وہ کافر ہے اگرچہ وہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ باقی تمام احکام کا اقرار کرتا ہو۔‘‘ (الصارم المسلول، ص۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نیز فرماتے ہیں:
«إن الساب إن کان مسلما فإنه يکفرو يقتل بغير خلاف وهو مذهب الائمة الأربعة وغيرهم»
’’نبی اکرمﷺ کو گالی دینے والا خواہ مسلمان ہو وہ اس سب و شتم سے کافر ہوجائے گا اور ائمہ اربعہ اور دیگر ائمہ کے نزدیک وہ قتل کیا جائے گا اوراس میں علماء کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔‘‘ (الصارم المسلول، ص۴)
اگر اَحادیث و آثار کی طرف مراجعت کی جائے تو ان سے بھی یہ بات عیاں ہے ، کہ شاتمِ رسول واجب القتل اور مباح الدم ہے، جیسا کہ سنن ابی داؤد میں عکرمہ﷜حضرت عبداللہ بن عباس﷢ سے روایت کرتے ہیں کہ
’’ایک نابینا صحابی﷜ کی اُم ولد (لونڈی) رسول اکرمﷺ کی شان میں گستاخی اور عیب جوئی کیا کرتی تھی وہ نابینا صحابی اسے اس کی بے اَدبی سے روکتے وہ باز نہ آتی، حسب عادت اس نے ایک رات شان رسالتﷺمیں ہجو اور سب و شتم کیا ، اس پر صحابی نے کدال لیا اور اس کے پیٹ پر رکھ دیا اوپر سے ایسا دبایا کہ … گستاخی کا ارتکاب کرنے والی کا خاتمہ کردیا، جب صبح ہوئی تو رسول اکرمﷺ سے اس عورت کے قتل کا ذکر ہوا۔ آپﷺ نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا میں اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر کہتا ہوں اور میرا آپ پر حق بھی ہے کہ جس نے یہ کام کیا ہے وہ کھڑا ہوجائے۔ اس پر وہ نابینا صحابی﷜ کھڑا ہوا اور لرزتا ہوا لوگوں کی گردنیں پھاندتا ہوا رسول کریمﷺکے سامنے آکر بیٹھ گیا اور کہا اے اللہ کے رسولﷺ! میں نے اسے قتل کیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ آپ کو سب و شتم کیا کرتی تھی اور آپ کی عیب جوئی کرتی تھی۔میں اسے روکا کرتا تھا٭ لیکن یہ باز نہ آئی وہ میری اُم ولد تھی اور اس سے میرے دو بیٹے بھی ہیں جو موتیوں جیسے خوبصورت ہیں، حسب ِعادت گذشتہ رات وہ آپ کی شان میں بے اَدبی اور سب و شتم کرنی لگی میں نے کدال لیا اس کے پیٹ پر رکھ کر اوپر سے ایسا دبایا کہ وہ ہلاک ہوگئی۔ رسول اکرمﷺنے فرمایا:« ألا اِشھدوا إن دمها حدر»’’خبردار گواہ ہوجاؤ، اس عورت کا خون رائیگاں ہے۔‘‘ (یعنی اس کے قتل کرنے والے صحابی پر نہ قصاص ہے اور نہ دیت)‘‘ (رقم الحدیث:۴۳۶۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی طرح حضرت علی﷜سے مروی ہے کہ ایک یہودیہ عورت شان ِرسالت مآب میں بے اَدبی اور ہجو کیا کرتی تھی ایک آدمی نے ا س کا گلا گھونٹ کر اسے مار دیا تو رسول اللہﷺ نے مرنے والی کا خون رائیگاں کردیا۔ (رقم الحدیث:۴۳۶۲)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ﷫ فرماتے ہیں:
«هذا الحديث نص فی جواز قتلها لأجل شتم النبی! ودليل علی قتل الرجل الذمی وقتل المسلم والمسلمة إذا سبا بطريق الأولی۔»(الصارم المسلول، ص۶۲)
’’یہ حدیث نبی اکرمﷺ کو سب و شتم کرنے والے مرد اور عورت کو قتل کرنے کے بارہ میں صریح ہے، جبکہ شانِ رسالتﷺ میں بے اَدبی کرنے والے کافر ذمیوں کو قتل کیا جاتا ہے توجو مسلمان ہوکر شانِ نبوت میں بے اَدبی اور گستاخی کرے گا وہ بطریق اولیٰ قتل کیا جائے گا۔‘‘
یاد رہے کہ یہ حکم رسول اللہﷺکے ساتھ خا ص ہے کہ آپ کی توہین اور گستاخی کرنے والے کو قتل کیا جائے گا، لیکن آپ کے علاوہ کسی اُمتی کی خواہ وہ صحابی کیوں نہ ہو، بے اَدبی کرنے والا مباح الدم نہیں، اسے تعزیر تو دی جاسکتی ہے، لیکن قتل نہیں کیا جاسکتا، اس پر ابوبرزہ﷜ کی یہ حدیث دلیل ہے، وہ کہتے ہیں:
«کنت عند أبی بکر الصديق فتغيظ علی رجل فاشتد عليه فقلت تأذن لی يا خليفة رسول اﷲ أصزب عنقه؟ قال: فأذهبت کلمتی غضبه فقام فدخل فأرسل إلیَّ فقال: ما الذی قلت انفا؟ قلت: ائذن لی أضرب عنقه قال: أکنت فاعلا لو أمرتک؟ قلت: نعم،قال:لاواﷲ ما کانت لبشر بعد محمد !» (سنن أبي داؤد:۴۳۶۳)
’’ابوبرزہ﷜ کہتے ہیں میں حضرت ابوبکر صدیق﷜کے پاس تھا وہ کسی شخص سے ناراض ہوئے اور سخت غصے ہوئے ، میں نے کہا اے اللہ کے رسول کے خلیفہ! مجھے اِجازت دیں تو میں اس کی گردن اڑا دوں۔ ابوبرزہﷺ کہتے ہیں میری اس بات سے ان کا غصہ جاتا رہا، وہ اندر گئے اور مجھے بلا کر کہا ابھی تو نے کیا کہا تھا؟ میں نے کہا آپ اجازت دیں تو میں اس آدمی کی گردن اُڑا دوں۔ آپﷺنے فرمایا اگر میں حکم دیتا تو کیا تو اسے قتل کردیتا، میں نے کہا، ہاں ضرور۔ آپﷺنے فرمایا: رسول اللہﷺکے علاوہ کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اس کی بے اَدبی پر کسی کو قتل کیا جائے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
الحاصل، رسول اللہﷺکی ذات اَقدس کے بارہ میں گفتگو کرتے وقت بڑے احتیاط کی ضرورت ہے، اس بارہ میں ہر ایسا کلمہ استعمال کرنے سے گریزکیا جائے جو ادنیٰ سی بے اَدبی پر بھی مشتمل ہو، کیونکہ نبی کریمﷺ کی بے اَدبی اور گستاخی کرنا کفر ہے اور اس کی سزا قتل ہے، لیکن اس قتل کا حق نہ تو عوام کو دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی مذہبی سرپرستوں کو، کیونکہ ہمارے اس خطے میں علما و مذاہب کا باہمی بغض اور تعصب اس حد تک بڑھ گیا ہے جو انہیں حق کا فیصلہ کرنے سے مانع ہے، تعصب مذہبی کی بنا پر ایک مذہب کا عالم یا مولوی دوسرے مذہب والے کو زندہ سلامت دیکھنا گوارا نہیں کرتا، لہٰذا ہوسکتا ہے کہ وہ ادنیٰ سی بات پر دوسرے عالم کے قتل کا فتویٰ صادر کردے جو درحقیقت بے ادبی کے زمرے میں نہ آتی ہو اور عوام یا جاہل نوجوان جو قدم قدم پر رسول اللہﷺکی نافرمانی کے کام کرتے ہیں اور ہر روز سنت رسولﷺ (ڈاڑھی) مونڈ کر یا اسے کتر کر گندگی کے نالوں میں بہا کر رسول اللہﷺ کوایذا اور تکلیف دیتے ہیں، انہیں رسول اللہﷺ کی بے اَدبی اور گستاخی کے فیصلے کرنے یا اس پر کسی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، بعض دفعہ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ مذہبی پیشوا ایسے جاہل نوجوانوں کو بے گناہوں کے پیچھے لگا دیتے ہیں جو ان کے خون بہانے کے درپے ہوجاتے ہیں، اور انہیں ان سے جان بچانا مشکل ہوجاتا ہے۔ لہٰذا گستاخیٔ رسول کے فیصلے اور اس پر سزا کو مذہبی سرپرستوں یاجاہل نوجوانوں کے ہاتھ میں نہیں دیا جاسکتا… اس کے لئے ضروری ہے کہ شریعت کورٹ قائم کیا جائے جو ماہرین اور شریعت اِسلامیہ کی متخصصین پر مشتمل ہو، ایسے کیس شریعت کورٹ میں دائر کئے جائیں اور علماے شریعت ایسے کیس کی سماعت کریں اور فیصلہ دیں کہ واقعی ملزم پر گستاخی ٔرسول اور آپ کی بے اَدبی کا اِلزام ثابت ہے اور اس کی بات واقعی توہین رسولﷺکے زمرے میں آتی ہے، اگر کسی موذی پرنبی اکرمﷺکی توہین اور آپ کی بے اَدبی کرنا ثابت ہوجائے تو شرعی عدالت کے فیصلے کے بعد اسے وہی سزا دی جانی چاہئے جو قرآن و سنت سے ثابت ہے، اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو سرورِ کونینﷺ کا سچا اُمتی بننے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭
 
Top