• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اِحترامِ رسولﷺ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِحترامِ رسولﷺ

محمد رمضان سلفی​
ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد رسول اللہﷺکا مقام و مرتبہ ساری خدائی اور تمام مخلوقات سے بلندہے، اللہ رب العزت کے مقام و شان کے بعد ساری کائنات سے رسول اللہﷺافضل واعلیٰ ہیں۔ آپ أعلم الناس یعنی تمام لوگوں سے بڑھ کر علم والے اور تمام انسانوں سے بڑھ کر فصیح و بلیغ اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے سب سے بڑھ کر خیر خواہ ہیں۔ آپ کی رسالت و نبوت کی برکت سے ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی اور صراط مستقیم نصیب ہوا ہے اور آپ کی ہدایت و رہنمائی سے ہم کفر و شرک کے اندھیروں سے نکل کر توحید و سنت کی برکات سے محظوظ ہوئے ہیں۔صحیح مسلم اور سنن ترمذی کی حدیث کے مطابق رسول اللہﷺنے فرمایا:
«إن اﷲ اصطفی من ولد إبراہیم إسماعیل واصطفی من ولد إسماعیل کنانة واصطفی من بنی کنانة قریشا واصطفی من قریش بنی هاشم واصطفانی من بنی هاشم»
’’اللہ تعالیٰ نے اولاد ابراہیم﷤ سے اسماعیل﷤ کو منتخب فرمایا اور اولاد اسماعیل﷤سے بنو کنانہ کو اور کنانہ سے قریش کو اور قریش سے بنو ہاشم کو اور بنو ہاشم سے میرا انتخاب فرمایا۔‘‘(الرقم:۲۲۷۶،الرقم:۳۶۰۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
صحیح بخاری و صحیح مسلم ہی میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’میری اور دیگر تمام انبیاء کرام کی مثال اس محل کی طرح ہے جو بہت خوبصورت تعمیر کیا گیا ہو ،لیکن اس میں ایک اینٹ کی جگہ اَدھوری چھوڑ دی گئی ہو، لوگ اس محل کا نظارہ کرنے کے لئے آئیں اور اس کی خوبصورتی پر خوش ہوں، لیکن ایک اینٹ کی چھوڑی ہوئی جگہ دیکھ کر وہ تعجب کا اظہار کریں کہ اسے پُر کیوں نہ کیا گیا۔ خبردار! اس ایک اینٹ کا خلا میں نے پر کردیا ہے اور میرے ساتھ قصرِ نبوت مکمل کردیا گیا ہے۔ میں خاتم النبیین ہوں، میرے آنے سے انبیاء ورُسل کے آنے کا سلسلہ ختم کردیا گیاہے۔‘‘ (الرقم:۳۵۳۵،الرقم:۶۵۱۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آپﷺ کے مقام و شان پر سنن دارمی کی اس حدیث سے روشنی پڑتی ہے:
’’آپﷺنے فرمایا میں بطحائِ مکہ میں تھا میرے پاس دو فرشتے آئے۔ایک زمین پراتر آیا اور دوسرا آسمان و زمین کے درمیان رہا۔ ایک نے دوسرے سے کہا کیا یہ وہی ہے جس کی تلاش تھی، کہا ہاں، اس کا وزن کرو، انہوں نے میرا ایک آدمی کے ساتھ وزن کیا میں بھاری ثابت ہوا، پھر انہوں نے دس آدمیوں سے وزن کیا میرا پلڑا پھر بھی بھاری رہا۔ انہوں نے سو آدمیوں کے ساتھ میرا وزن کیا میں ان سے بھی وزن میں بڑھ گیا، انہوں نے ہزارکے ساتھ وزن کیا میں ہزار آدمیوں سے بھی بھاری رہا۔ تب ایک فرشتہ سے دوسرے نے کہا اگر آپ اس نبیﷺ کا وزن پوری اُمت کے ساتھ بھی کریں گے تو یہ ان سب سے بھی وزنی ہوں گے۔ ‘‘(۱؍۲۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بعض لوگوں کے سامنے حب رسولﷺ کی حدیث کسی مسئلہ کے متعلق پیش کی جاتی ہے اور ائمہ اربعہ کی رائے اور ان کا فتویٰ اس کے خلاف ہو تو ان کے لئے حدیث نبویﷺ کا ماننا عجیب دکھائی دیتا ہے۔ حدیث مذکور کی روشنی میں وہ یہ نہیں سمجھتے کہ آپ کے فرمان کے مقابلہ میں تو ساری اُمت کی رائے کو چھوڑ دیا جائے گا۔ آپﷺ کی حدیث کے مطابق ہی فتویٰ دیا جائے گا، کیونکہ رسول اللہﷺ کا قول وفعل اور آپ کی حدیث تو ساری اُمت کے عوام و خواص سے بڑھ کر وزنی ہے اور آپﷺکے مقام و احترام کا ہم سے یہ تقاضا ہے کہ آپ کی بات کو سب سے بلند و بالا رکھا جائے اور جان و مال سے ہر موقع پر آپ کی حمایت کی جائے ا ورہرموذی سے آپ کی ذاتِ اقدس اور آپ کی بات کی حفاظت کی جائے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور آپ کے دین کو لوگوں کی نصرت و مدد سے مستغنی کیاہے، لیکن وہ اللہ رب العزت ظاہرکرنا چاہتا ہے کہ کون ہے جو دل و جان سے میرے نبیﷺکے ساتھ ہے اور کون ہے جو اس کے دین کو سربلند دیکھنے کے لئے اپنا تعاون پیش کرتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رسول اللہﷺ کی توقیر و تعظیم
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنے رسول کریم کی تعظیم کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔اس لئے ارشاد فرماتے ہیں:
﴿لِتُؤمِنُوْا بِاﷲِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ﴾ (الفتح :۹)
’’تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان کی مدد اور تعظٖم کرو۔‘‘
یہاں تعزیر اور توقیر دو لفظ استعمال ہوئے ہیں۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ﷫ ان دونوں میں فرق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«والتعزیر اسم جامع لنصرہ وتأییدہ ومنعه من کل ما یؤذیه والتوقیر اسم جامع لکل ما فیه سکینة وطمأنینة من الإجلال والإکرام وأن یعامل من التشریف والتکریم والتعظیم بما یصونه،عن کل ما یخرجه عن حد الوقار» (الصارم المسلول: ص۴۲۲)
’’یعنی تعزیر سے مراد آپﷺ کی مدد اور تائید کرنا اورہر اذیٰ اور تکلیف دینے والے سے آپ کی حفاظت کرنا ہے اور توقیر سے مراد وہ تعظیم و تکریم ہے جو آپ کے سکون و اطمینان کا باعث ہو اور تشریف و تعظیم کا آپ کے ساتھ ایسا سلوک کرنا جس کے ساتھ آپ ہر خلاف وقار حرکت سے محفوظ ہوجائیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
صحابہ کرام ﷢ نے اِن فرمان باری تعالیٰ پرعمل کرنے کی انتہاکردی، وہ رسول اللہﷺکے سچے شیدائی تھے اور دین اِسلام کی ترویج و تبلیغ کی خاطر جان ومال اور اپنی اولادیں قربان کرنے والے تھے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان و عمل کو قیامت تک آنے والوں کے لئے مثال بنا دیا اور فرمایا:
﴿قُلْ اٰمِنُوْا بِمِثْلِ مَا اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا﴾ (البقرۃ:۱۳۷)
’’یعنی اگر یہ لوگ ویسے ایمان لائیں جیسے تم (میرے نبیﷺ کے صحابہ﷢) ایمان لائے ہو تو تب یہ ہدایت یافتہ ہوں گے۔‘‘
اِن صحابہ کرام﷢ کے احترام رسولﷺاور آپ کی تعظیم و تکریم کا مشاہدہ کرنا ہو تو صلح حدیبیہ کے واقعہ کا مطالعہ کریں، جب کہ رسول اللہﷺچودہ سو اور ایک روایت کے مطابق پندرہ سو صحابہ کرام﷢کے ساتھ ۶ہجری میں بیت اللہ کے طواف کے لئے روانہ ہوئے، مقام حدیبیہ پر آپ کو اور صحابہ کرام﷢ کوکفار قریش نے روک دیا، آپﷺنے فرمایا ہم لڑنے نہیں آئے بلکہ عمرہ کرنے آئے ہیں۔ اس موقع پر عروہ بن مسعود ثقفی کفار قریش کی طرف سے نمائندہ بن کر آیا اور نبی اکرمﷺسے گفتگو کرنے لگا، وہ جب بات کرتا تو آپﷺ کی دھاڑی مبارک کو ہاتھ لگاتا، آپﷺ کے جانثار حضرت مغیرہ بن شعبہ﷜ آپﷺ کے پاس تلوار تھامے کھڑے تھے، عروہ جب بھی نبی اکرمﷺ کی دھاڑی کی طرف ہاتھ بڑھاتا تو حضرت مغیرہ﷜ تلوار کا دستہ اس کے ہاتھ پر مارتے اور کہتے کہ اپنا ہاتھ نبی کریمﷺ کی داڑھی سے پیچھے رکھ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس کے بعد عروہ نبی کریمﷺکے ساتھ صحابہ کرام﷢ کے تعلق خاطر کا منظر دیکھنے لگا، پھر اپنے رفقاء کے پاس آیا اور بولا، اے میری قوم کے لوگو!میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے پاس گیا ہوں، بخدا میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے ساتھی اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی محمدﷺکے ساتھی اس کی تعظیم کرتے ہیں۔ خدا کی قسم وہ تو محمدﷺ کا لعاب دہن بھی زمین پر گرنے نہیں دیتے۔ آپ کا تھوک بھی ان میں سے کسی نہ کسی آدمی کے ہاتھ پر پڑتا ہے، اور وہ اسے اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتا ہے اور جب وہ کوئی حکم دیتے ہیں تو اس کی بجاآوری کے لئے سارے مستعد ہوتے ہیں اور جب محمدﷺ وضو کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے وضو کا پانی حاصل کرنے کے لئے لوگ لڑپڑیں گے اور جب آپﷺ کوئی بات کرتے ہیں تو سب اپنی آوازیں پست کرلیتے ہیں اور فرطِ تعظیم کے سبب وہ آپ کو بھرپور نظر سے نہیں دیکھتے۔اے قریش مکہ: انہوں نے تم پر اچھی تجویز پیش کی ہے لہٰذا قبول کرلو۔(الرحیق المختوم: ص۵۵۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کسی اُمتی کو رسول اللہﷺ کی آواز سے اپنی آواز بلند کرنے کی اجازت نہیں
اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْھَرُوْا لَہُ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ﴾ (الحجرات :۲)
’’اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کریمﷺ کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو، جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو کہیں (ایسا نہ ہو کہ) تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تمہیں اس کی خبر بھی نہ ہو۔‘‘
اس آیت کریمہ میں رسول اللہﷺ کے لئے اس اَدب و اِحترام اور تعظیم و تکریم کا بیان ہے جو ہر مسلمان سے مطلوب ہے۔پہلا اَدب یہ ہے کہ آپﷺ کی موجودگی میں جب تم آپس میں گفتگو کرو تو تمہاری آواز نبی1 کی آواز سے بلندنہ ہو اور دوسرا اَدب یہ کہ جب خود نبیﷺسے کلام کرو تو نہایت وقار اور سکون سے بات کرو اس طرح اونچی آواز سے کلام نہ کرو جس طرح تم آپس میں بے تکلفی سے ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ﷫ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو آپ کی آواز سے اپنی آواز کو اونچا کرنے اور آپﷺکے ساتھ ویسے اظہار خیال کرنے سے منع کردیا ہے جیسے وہ ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں، کیونکہ اس رفع اور جہر سے اس کے مرتکب کے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں حالانکہ اسے اس کا شعور تک نہیں ہوتا اور جس چیز سے انسان کے اعمال ضائع ہوتے ہوں وہ کفر ہے جس سے احتراز انتہائی ضروری ہے۔ اس کے بعد امام صاحب نے چند قرآنی آیات پیش کرکے اعمال کے ضائع ہونے کے مؤقف کو ثابت کیا ہے۔ (الصارم المسلول ،ص۵۴)
اس آیت کریمہ کے نزول کے بعد صحابہ کرام ﷢ نے بڑا محتاط رویہ اختیارکرلیاتھا، یہاں تک کہ وہ صحابہ﷢ جن کی آواز فطری طور پر بلند تھی انہوں نے مسجد میں آنا ترک کردیا تاکہ گفتگو کریں تو ان کی آواز رسول اللہﷺ کی آواز سے بلند نہ ہونے پائے، جیسا کہ امام بخاری﷫نے اپنی سند کے ساتھ حضرت انس بن مالک﷜ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت ثابت بن قیس﷜کے نہ آنے کے بارہ میں پوچھاتو ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! میں ا س کا پتہ کرکے آؤں گا، وہ صحابی ثابت بن قیس﷜کے گھر گئے تودیکھا کہ وہ اپنا سرجھکائے پریشان بیٹھے ہیں، وجہ پوچھی تو کہا کہ بات یہ ہے کہ میری آواز نبیﷺ کی آواز سے بلندہوجایا کرتی تھی، لہٰذا مجھے ڈر ہے کہیں میرے نیک اَعمال ضائع نہ ہوگئے ہوں اور میں اہل نار میں سے نہ ہوجاؤں۔ وہ آدمی رسول کریمﷺ کے پاس آیا اور ثابت﷜ نے جو جواب دیا وہ آپﷺ کو بتایا تو اس وقت نبی اکرمﷺ نے اسی آدمی کو ثابت بن قیس﷜ کی طرف بہت بڑی بشارت دے کر بھیجا۔ فرمایا جائیں ثابت﷜ سے کہیں تو ہرگز اہل نار میں سے نہیں ہے بلکہ تو جنتی ہے۔ (صحیح بخاری مع الفتح: ۸؍۵۹۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اور یہ بشارت اس لئے تھی کہ حضرت ثابت بن قیس﷜ بے ادبی کے ارادے سے آواز بلند نہ کرتے تھے، بلکہ ان کی آواز قدرتی طور پر ہی اونچی تھی۔
رسول اکرمﷺ کو کسی قسم کی اذیٰ اور تکلیف دینا باعث کفر ہے
حضرت محمد رسول اللہﷺکے اُمتی کو آپ کی شان میں گفتگو کرتے ہوئے انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہئے اور آدابِ رسالت کا خیال رکھنا چاہئے۔ اس بارہ میں کسی قسم کی بے احتیاطی کفر تک پہنچا دیتی ہے۔ شان نبوت سے متعلق لب کشائی سے قبل الفاظ کو تول کر زبان پر لانا چاہئے۔ قول و فعل سے رسول اکرمﷺ کو تکلیف اور اذیٰ دینے والی چیز انسان سے صادر نہ ہونے پائے، کیونکہ یہ چیز انسان کے کفر کا سبب بن جاتی ہے۔
اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ مِنْھُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ وَ یَقُوْلُوْنَ ھُوَ اُذُنٌ قُلْ اُذُنُ خَیْرٍلَّکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ یُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ رَحْمَةٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ لَھُمْ عَذَابٌاَلِیْم﴾
’’یعنی ان میں سے وہ بھی ہیں جو پیغمبر کو ایذا اور تکلیف دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ وہ کان کا کچا ہے۔ آپ کہہ دیجئے کہ وہ کان تمہارے بھلے کے لئے ہے وہ اللہ پرایمان رکھتا ہے اور مسلمانوں کی بات کا یقین کرتاہے اور تم میں سے جو اہل ایمان ہیں یہ ان کے لئے رحمت ہے جو لوگ رسول اللہﷺ کو تکلیف اور ایذا دیتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔‘‘(التوبۃ:۶۱)
 
Top