• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم اِسراء اور معراج

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اِسراء اور معراج

نبیﷺ کی دعوت وتبلیغ ابھی کا میابی اور ظلم وستم کے اس درمیانی مرحلے سے گزر رہی تھی اور افق کی دور دراز پہنائیوں میں دھندلے تاروں کی جھلک دکھائی پڑنا شروع ہوچکی تھی کہ اِسراء اور معراج کا واقعہ پیش آیا۔ یہ معراج کب واقع ہوئی ؟ اس بارے میں اہلِ سیر کے اقوال مختلف ہیں جو یہ ہیں :
1جس سال آپﷺ کو نبوت دی گئی اسی سال معراج بھی واقع ہوئی۔ (یہ طبری کا قول ہے )
2 نبوت کے پانچ سال بعد معراج ہوئی۔ (اسے امام نووی اور امام قرطبی نے راجح قرار دیا ہے )
3 نبوت کے دسویں سال ۲۷ ؍ رجب کوہوئی۔ (اسے علامہ منصور پور ی نے اختیار کیا ہے )
4 ہجرت سے سولہ مہینے پہلے، یعنی نبوت کے بارہویں سال ماہ رمضان میں ہوئی۔
5 ہجرت سے ایک سال دوماہ پہلے یعنی نبوت کے تیرہویں سال محرم میں ہوئی۔
6 ہجرت سے ایک سال پہلے، یعنی نبوت کے تیرہویں سال ماہ ربیع الاول میں ہوئی۔
ان میں سے پہلے تین اقوال اس لیے صحیح نہیں مانے جاسکتے کہ حضرت خدیجہ ؓ کی وفات نماز پنج گانہ فرض ہونے سے پہلے ہوئی تھی اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ نماز پنج گانہ کی فرضیت معراج کی رات ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت خدیجہ ؓ کی وفات معراج سے پہلے ہوئی تھی اور معلوم ہے کہ حضرت خدیجہ ؓ کی وفات نبوت کے دسویں سال ماہ رمضان میں ہوئی تھی۔ لہٰذا معراج کا زمانہ اس کے بعد کا ہوگا، اس سے پہلے کا نہیں۔ باقی رہے اخیر کے تین اقوال تو ان میں کسی کو کسی پر ترجیح دینے کے لیے کوئی دلیل نہ مل سکی۔ البتہ سورۂ اسراء کے سیاق سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مکی زندگی کے بالکل آخری دور کا ہے۔ 1
ائمہ حدیث نے اس واقعے کی جو تفصیلات روایت کی ہیں ہم اگلی سطور میں ان کا حاصل پیش کر رہے ہیں۔
ابن قیمؒ لکھتے ہیں کہ صحیح قول کے مطابق رسول اللہﷺ کو آپ کے جسم مبارک سمیت بُراق پر سوار کر کے حضرت جبریل علیہ السلام کی معیت میں مسجد حرام سے بیت المقدس تک سیر کرائی گئی، پھر آپﷺ نے وہاں نزول فرمایا اور انبیاء علیہم السلام کی امامت فرماتے ہوئے نماز پڑھائی اور بُراق کومسجد کے دروازے کے حلقے سے باندھ دیا تھا۔
اس کے بعد اسی رات آپﷺ کو بیت المقدس سے آسمان دنیا تک لے جایا گیا، جبریل علیہ السلام نے دورازہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ان اقوال کی تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: زادا لمعاد ۲/۴۹ مختصر السیرۃ للشیخ عبد اللہ ص ۱۴۸ ، ۱۴۹ ، رحمۃ للعالمین۱/۷۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
کھلوایا۔ آپﷺ کے لیے دروازہ کھولا گیا۔ آپﷺ نے وہا ں انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے آپﷺ کو مرحبا کہا۔ سلام کا جواب دیا اور آپﷺ کی نبوت کا اقرار کیا۔ اللہ نے آپﷺ کو ان کے دائیں جانب سعادت مندوں کی روحیں اور بائیں جانب بدبختوں کی روحیں دکھلائیں۔
پھر آپﷺ کو دوسرے آسمان پر لے جایا گیا اور دروازہ کھلوایا گیا۔ آپﷺ نے وہاں حضر ت یحییٰ بن زکریا علیہما السلام اور حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو دیکھا۔ دونوں سے ملاقات کی اور سلام کیا۔ دونوں نے سلام کا جواب دیا ، مبارک باددی اور آپﷺ کی نبوت کا اقرار کیا۔
پھر تیسرے آسمان پر لے جایا گیا، آپﷺ نے وہاں حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھا اور سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا ، مبارک باددی اور آپﷺ کی نبوت کا اقرار کیا۔
پھر چوتھے آسمان پر لے جایا گیا۔ وہاں آپﷺ نے حضرت ادریس علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا۔ مرحبا کہا ، اور آپﷺ کی نبوت کا اقرار کیا۔
پھر پانچویں آسمان پر لے جایا گیا۔ وہاں آپﷺ نے حضرت ہارون بن عمران علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا ، مبارک بادد ی اوراقرار نبوت کیا۔
پھر آپﷺ کو چھٹے آسمان پر لے جایا گیا۔ وہاں آپﷺ کی ملاقات حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام سے ہوئی۔ آپﷺ نے سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا: مرحبا کہا ، اور اقرار نبوت کیا۔ البتہ جب آپﷺ وہاں سے آگے بڑھے تو وہ رونے لگے۔ ان سے کہا گیا: آپ کیوں رورہے ہیں ؟ انہوں نے کہا : میں اس لیے رورہا ہوں کہ ایک نوجوان جو میرے بعد مبعوث کیا گیا اس کی امت کے لوگ میری امت کے لوگو ں سے بہت زیادہ تعداد میں جنت کے اندر داخل ہوں گے۔
اس کے بعد آپﷺ کو ساتویں آسمان پر لے جایا گیا۔ وہاںآپﷺ کی ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی۔ آپﷺ نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا ، مبارک باد دی اور آپﷺ کی نبوت کا اقرار کیا۔
اس کے بعد آپﷺ کو سِدرَۃُ المنتہیٰ تک لے جایا گیا۔ اس کے بیر (پھل) ہجر کے ٹھلیوں جیسے اور اس کے پتے ہاتھی کے کان جیسے تھے۔ پھر اس پر سونے کے پتنگے ، روشنی اور مختلف رنگ چھا گئے اور وہ سدرہ اس طرح بدل گیا کہ اللہ کی مخلوق میں سے کوئی اس کے حسن کی تعریف نہیں کرسکتا۔ پھر آپ کے لیے بیت معمور کو بلند کیا گیا۔ اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے تھے۔ جن کے دوبارہ پلٹنے کی نوبت نہیں آتی تھی۔ اس کے بعد آپ کو جنت میں داخل کیا گیا، اس میں موتی کے گنبد تھے اور اس کی مٹی مشک تھی۔ اس کے بعد آپﷺ کو مزید اوپر لے جایا گیا۔ یہاں تک کہ آپﷺ ایک ایسی برابر جگہ نمودار ہوئے جہاں قلموں کے چرچراہٹ سنی جارہی تھی۔
پھر اللہ جبار جل جلالہ کے دربار میں پہنچایا گیا اور آپﷺ اللہ کے اتنے قریب ہوئے کہ دوکمان کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ اس وقت اللہ نے اپنے بندے پر وحی فرمائی جو کچھ کہ وحی فرمائی اور پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں۔ اس کے بعد آپﷺ واپس ہوئے یہاں تک حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انہوں نے پوچھا کہ اللہ نے آپﷺ کو کس چیز کا حکم دیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: پچاس نمازوں کا ، انہوں نے کہا :آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ اپنے پروردگار کے پاس واپس جایئے ، اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کیجیے۔ آپﷺ نے حضرت جبریل علیہ السلام کی طرف دیکھا گویا ان سے مشورہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے اشارہ کیا کہ ہاں۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں۔ اس کے بعد حضرت جبریل علیہ السلام آپﷺ کو جبار تبار ک و تعالیٰ کے حضور لے گئے ، اور وہ اپنی جگہ تھا ...بعض طرق میں صحیح بخاری کا لفظ یہی ہے ...اس نے دس نمازیں کم کردیں اور آپﷺ نیچے لائے گئے۔ جب موسی ٰ علیہ السلام کے پاس سے گزر ہوا تو انہیں خبر دی۔ انہوں نے کہا: آپﷺ اپنے رب کے پاس واپس جائیے اور تخفیف کا سوال کیجیے۔ اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اللہ عزوجل کے درمیان آپﷺ کی آمد ورفت برابر جاری رہی۔ یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے صرف پانچ نمازیں باقی رکھیں اس کے بعد بھی موسیٰ علیہ السلام نے آپﷺ کوواپسی اور طلب تخفیف کا مشور ہ دیا۔ مگر آپﷺ نے فرمایا: اب مجھے اپنے رب سے شرم محسوس ہورہی ہے۔ میں اسی پر راضی ہوں اور سر تسلیم خم کرتا ہوں۔ پھرجب آپﷺ مزید کچھ دور تشریف لے گئے تو ندا آئی کہ میں نے اپنا فریضہ نافذ کردیا اور اپنے بندوں سے تخفیف کردی۔ 1
اس کے بعد ابن قیمؒ نے اس بارے میں اختلاف ذکر کیا ہے کہ نبیﷺ نے اپنے رب تبارک وتعالیٰ کو دیکھا یا نہیں؟پھر امام ابن تیمیہؒ کی ایک تحقیق ذکر کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنکھ سے دیکھنے کا سرے سے کوئی ثبوت نہیں اور نہ کوئی صحابی اس کا قائل ہے اور ابن عباس سے مطلقاً دیکھنے اور دل سے دیکھنے کے جو دوقول منقول ہیں۔ ان میں سے پہلا دوسرے کے منافی نہیں اس کے بعد امام ابن قیم لکھتے ہیں کہ سور ہ ٔ نجم میں اللہ تعالیٰ کا جویہ ارشاد ہے :
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ﴿٨﴾ (۵۳: ۸)
''پھر وہ نزدیک آیا اور قریب تر ہوگیا ''
تو یہ اس قربت کے علاوہ ہے جو معراج کے واقعے میں حاصل ہوئی تھی کیونکہ سورۂ نجم میں جس قربت کا ذکر ہے اس سے مراد حضرت جبریل علیہ السلام کی قربت وتَدَلّی ہے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ اور ابن مسعودؓ نے فرمایا ہے اور سیاق بھی اسی پر دلالت کرتا ہے۔ اس کے بر خلاف حدیث معراج میں جس قربت وتدلّی کا ذکر ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۲/۴۷، ۴۸۔ صحیح روایات میں ثابت شدہ اضافات کے ساتھ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اس کے بارے میں صراحت ہے کہ یہ رب تبارک وتعالیٰ سے قربت وتدلّی تھی اور سورہ ٔ نجم میں اس کو سرے سے چھیڑا ہی نہیں گیا ہے۔ بلکہ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ آپﷺ نے انہیں دوسری بار سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا ، اور یہ حضرت جبریل ؑ تھے۔ انہیں محمدﷺ نے ان کی اپنی شکل میں دومرتبہ دیکھا تھا۔ ایک مرتبہ زمین پر اور ایک مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ واللہ اعلم1
بعض طرق میں آیا ہے کہ اس دفعہ بھی نبیﷺ کے ساتھ شق صدر (سینہ چاک کیے جانے ) کا واقعہ پیش آیا اور آپﷺ کو اس سفر کے دوران کئی چیز یں دکھلائی گئیں۔
آپﷺ پر دودھ اور شراب پیش کی گئی، آپﷺ نے دودھ اختیار فرمایا۔ اس پر آپﷺ سے کہا گیا کہ آپﷺ کو فطرت کی راہ بتائی گئی ، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرت پالی اور یا درکھئے کہ اگر آپﷺ نے شراب لی ہوتی تو آپﷺ کی امت گمراہ ہوجاتی۔
آپﷺ نے جنت میں چار نہریں دیکھیں۔ دوظاہری اور دوباطنی ، ظاہری نہریں نیل وفرات تھیں۔یعنی ان کا عنصر تھا اور باطنی دونہریں جنت کی دونہریں ہیں۔ (نیل وفرات دیکھنے کا مطلب غالباً یہ ہے کہ آپﷺ کی رسالت نیل وفرات کی شاداب وادیوں کو اپنا وطن بنائے گی۔ واللہ اعلم )
آپﷺ نے مالک ، داروغۂ جہنم کو بھی دیکھا، وہ ہنستا نہ تھا اور نہ اس کے چہرے پر خوشی اور بشاشت تھی ، آپﷺ نے جنت وجہنم بھی دیکھی۔
آپﷺ نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جو یتیموں کا مال ظلماً کھا جاتے ہیں۔ ان کے ہونٹ اونٹ کے ہونٹوں کی طرح تھے اور وہ اپنے منہ میں پتھر کے ٹکڑوں جیسے انگا رے ٹھونس رہے تھے جو دوسری جانب ان کے پاخانے کے راستے نکل رہے تھے۔
آپﷺ نے سود خوروں کوبھی دیکھا۔ ان کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے کہ وہ اپنی جگہ سے ادھر ادھر نہیں ہوسکتے تھے اور جب آلِ فرعون کو آگ پر پیش کر نے کے لیے لے جایا جاتا تو ان کے پاس سے گزرتے وقت انہیں روندتے ہوئے جاتے تھے۔
آپﷺ نے زنا کا روں کو بھی دیکھا۔ ان کے سامنے تازہ اور فربہ گوشت تھا اور اسی کے پہلو بہ پہلو سڑا ہوا چھیچھڑا بھی تھا۔ یہ لوگ تازہ اور فربہ گوشت چھوڑ کر سڑا ہوا چھیچھڑا کھا رہے تھے۔
آپﷺ نے ان عورتوں کو دیکھا جو اپنے شوہر وں پر دوسروں کی اولاد داخل کر دیتی ہیں۔ (یعنی دوسروں سے زنا کے ذریعے حاملہ ہوتی ہیں ، لیکن لاعلمی کی وجہ سے بچہ ان کے شوہر کا سمجھا جاتا ہے ) آپﷺ نے انہیں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۲/۴۷، ۴۸۔ نیز دیکھئے: صحیح بخاری۔ ۱/۵۰ ، ۴۵۵ ، ۴۵۶ ، ۴۷۰ ، ۴۷۱، ۴۸۱، ۵۴۸،۵۴۹ ، ۵۵۰،۲/۶۸۴ صحیح مسلم ۱/۹۱، ۹۲، ۹۳، ۹۴، ۹۵، ۹۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
دیکھا کہ ان کے سینوں میں بڑ ے بڑے ٹیڑھے کا نٹے چبھا کر انہیں آسمان وزمین کے درمیان لٹکا دیا گیا ہے۔
آپﷺ نے آتے جاتے ہوئے اہلِ مکہ کا ایک قافلہ بھی دیکھا اور انہیں ان کا ایک اونٹ بھی بتایا جو بھڑک کر بھاگ گیا تھا۔ آپﷺ نے ان کا پانی بھی پیا جو ایک ڈھکے ہوئے برتن میں رکھا تھا۔ اس وقت قافلہ سورہا تھا، پھر آپﷺ نے اسی طرح برتن ڈھک کر چھوڑ دیا اور یہ بات معراج کی صبح آپﷺ کے دعویٰ کی صداقت کی ایک دلیل ثابت ہوئی۔ 1
علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ نے صبح کی اور اپنی قوم کو ان بڑی بڑی نشانیوں کی خبردی جواللہ عزوجل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھلائی تھیں تو قوم کی تکذیب اور اذیت وضررسانی میں اور شدت آگئی۔ انہوں نے آپﷺ سے سوال کیا کہ بیت المقدس کی کیفیت بیان کریں۔ اس پر اللہ نے آپﷺ کے لیے بیت المقدس کو ظاہر فرمادیا اور وہ آپﷺ کی نگاہوں کے سامنے آگیا۔ چنانچہ آپﷺ نے قوم کو اس کی نشانیاں بتلانا شروع کیں اور ان سے کسی بات کی تردید نہ بن پڑی۔ آپﷺ نے جاتے اور آتے ہوئے ان کے قافلے سے ملنے کا بھی ذکر فرمایا اور بتلایا کہ اس کی آمد کا وقت کیا ہے۔ آپﷺ نے اس اونٹ کی بھی نشاندہی کی جو قافلے کے آگے آگے آرہا تھا پھر جیسا کچھ آپﷺ نے بتایا تھا ویسا ہی ثابت ہوا ، لیکن ان سب کے باوجود ان کی نفرت میں اضافہ ہی ہوا اور ان ظالموں نے کفر کرتے ہوئے کچھ بھی ماننے سے انکار کردیا۔ 2
کہاجاتا ہے کہ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کو اسی موقع پر صدیق کا خطاب دیا گیا۔ کیونکہ آپ نے اس واقعے کی اس وقت تصدیق کی جبکہ اور لوگوں نے تکذیب کی تھی۔ 3
معراج کا فائدہ بیان فرماتے ہوئے جو سب سے مختصر اور عظیم بات کہی گئی وہ یہ ہے :
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَ‌ىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَ‌كْنَا حَوْلَهُ لِنُرِ‌يَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ‌ ﴿١﴾ (۱۷: ۱)
''تاکہ ہم (اللہ تعالیٰ) آپ کو اپنی کچھ نشانیاں دکھلائیں۔''
اور انبیاء کرام کے بارے میں یہی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ ارشاد ہے۔
وَكَذَٰلِكَ نُرِ‌ي إِبْرَ‌اهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ ﴿٧٥﴾ (۶: ۷۵)
''اسی طرح ہم نے ابراہیم ؑ کو آسمان وزمین کا نظامِ سلطنت دکھلایا اور تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو۔''
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 سابقہ حوالے۔ نیز ابن ہشام ۱/۳۹۷ ، ۴۰۲ -۴۰۶ اور کتب تفاسیر ، تفسیر سورۂ اسراء ۔
2 زاد المعاد ۱/۴۸ دیکھئے : صحیح بخاری ۲/۶۸۴ صحیح مسلم ۱/۹۶ ، ابن ہشام ۱/۴۰۲ ، ۴۰۳
3 ابن ہشام ۱/۳۹۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اور موسی علیہ السلام سے فرما یا :
لِنُرِ‌يَكَ مِنْ آيَاتِنَا الْكُبْرَ‌ى ﴿٢٣﴾ (۲۰: ۲۳)
''تاکہ ہم تمہیں اپنی کچھ بڑی نشانیاں دکھلائیں۔''
پھر ان نشانیوں کے دکھلانے کا جو مقصد تھا۔ اسے بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد وَكَذَٰلِكَ نُرِ‌ي إِبْرَ‌اهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ ﴿٧٥﴾ (۶: ۷۵) (تاکہ یقین کرنے والوں میں سے ہو) کے ذریعے واضح فرمادیا۔ چنانچہ جب انبیاء کرام علیہم السلام کے علوم کو اس کے مشاہدات کی سند حاصل ہوجاتی تھی تو انہیں عین الیقین کا وہ مقام حاصل ہوجاتا تھا جس کا اندازہ لگا نا ممکن نہیں کہ ''شنید ہ کے بود مانند دیدہ'' اور یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اللہ کی راہ میں ایسی ایسی مشکلات جھیل لیتے تھے جنہیں کوئی اور جھیل ہی نہیں سکتا۔ درحقیقت ان کی نگاہوں میں دنیا کی ساری قوتیں مل کر بھی مچھرکے پَر کے برابر حیثیت نہیں رکھتی تھیں۔ اسی لیے وہ ان قوتوں کی طرف سے ہونے والی سختیوں اور ایذا رسانیوں کی کوئی پروا نہیں کرتے تھے۔
اس واقعۂ معراج کی جزئیات کے پس پردہ مزید جو حکمتیں اور اسرار کا رفرما تھے ان کی بحث کا اصل مقام اسرارِ شریعت کی کتابیں ہیں۔ البتہ چند موٹے موٹے حقائق ایسے ہیں ، جو اس مبارک سفر کے سر چشموں سے پُھوٹ کر سیرت نبوی کے گلشن کی طرف رواں دواں ہیں، اس لیے یہاں مختصرا ًانہیں قلمبند کیا جارہا ہے۔
آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ اسراء میں اسراء کا واقعہ صرف ایک آیت میں ذکر کر کے کلام کا رخ یہود کی سیاہ کاریوں اور جرائم کے بیان کی جانب موڑدیا ہے۔ پھرانہیں آگاہ کیا ہے کہ یہ قرآن اس راہ کی ہدایت دیتا ہے جو سب سے سیدھی اور صحیح راہ ہے۔ قرآن پڑھنے والے کو بسا اوقات شبہ ہوتا ہے کہ دونوں باتیں بے جوڑ ہیں لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ اس اسلوب کے ذریعے یہ اشارہ فرمارہا ہے کہ اب یہود کو نوعِ انسانی کی قیادت سے معزول کیا جانے والا ہے۔ کیونکہ انہوں نے ایسے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا ہے جن سے ملوث ہونے کے بعد انہیں اس منصب پر باقی نہیں رکھا جاسکتا۔ لہٰذا اب یہ منصب رسول اللہﷺ کو سونپا جائے گا اور دعوت ِ ابراہیمی کے دونوںمراکز ان کے ماتحت کردیئے جائیں گے۔ بلفظ دیگر اب وقت آگیا ہے کہ روحانی قیادت ایک امت سے دوسری امت کو منتقل کردی جائے۔ یعنی ایک ایسی امت سے جس کی تاریخ غدر وخیانت اور ظلم وبدکاری سے بھری ہوئی ہے ، یہ قیادت چھین کر ایک ایسی امت کے حوالے کردی جائے جس سے نیکیوں اور بھلائیوں کے چشمے پھوٹیں گے اور جس کا پیغمبر سب سے زیادہ درست راہ بتانے والے قرآن کی وحی سے بہرہ ور ہے۔
لیکن یہ قیادت منتقل کیسے ہوسکتی ہے جب کہ اس امت کا رسول مکے کے پہاڑوں میں لوگوں کے درمیا ن ٹھوکریں کھا تا پھر رہا ہے ؟ اس وقت یہ ایک سوال تھا جو ایک دوسری حقیقت سے پردہ اٹھا رہا تھا اور وہ حقیقت یہ تھی کہ اسلامی دعوت کا ایک دور اپنے خاتمے اور اپنی تکمیل کے قریب آلگا ہے اور اب دوسرا دور شروع ہونے والا ہے جس کا دھارا پہلے سے مختلف ہوگا۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض آیا ت میں مشرکین کو کھلی وارننگ اور سخت دھمکی دی گئی ہے۔ ارشاد ہے :
وَإِذَا أَرَ‌دْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْ‌يَةً أَمَرْ‌نَا مُتْرَ‌فِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْ‌نَاهَا تَدْمِيرً‌ا (۱۷: ۱۶)
''اور جب ہم کسی بستی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو وہاں کے اصحا ب ِ ثروت کو حکم دیتے ہیں مگر وہ کھلی خلاف ورزی کرتے ہیں، پس اس بستی پر (تباہی کا ) قول برحق ہوجاتا ہے اور ہم اسے کچل کر رکھ دیتے ہیں۔''
وَإِذَا أَرَ‌دْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْ‌يَةً أَمَرْ‌نَا مُتْرَ‌فِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْ‌نَاهَا تَدْمِيرً‌ا (۱۷: ۱۷)
''اور ہم نے نوح کے بعد کتنی ہی قوموں کو تباہ کر دیا اور تمہارا رب اپنے بندوں کے جرائم کی خبر رکھنے اور دیکھنے کے لیے کافی ہے۔''
پھر ان آیات کے پہلو بہ پہلو کچھ ایسی آیات بھی ہیں جن میں مسلمانوں کو ایسے تمدنی قواعد وضوابط اور دفعات ومبادی بتلائے گئے ہیں جن پر آئندہ اسلامی معاشرے کی تعمیر ہونی تھی۔ گویا اب وہ کسی ایسی سرزمین پر اپنا ٹھکانا بناچکے ہیں، جہاں ہر پہلو سے ان کے معاملات ان کے اپنے ہاتھ میں ہیں اور انہوں نے ایک ایسی وحدت متماسکہ بنالی ہے جس پر سماج کی چکی گھوما کرتی ہے۔ لہٰذا ان آیات میں اشارہ ہے کہ رسول اللہﷺ عنقریب ایسی جائے پناہ اور امن گاہ پالیں گے جہاں آپﷺ کے دین کو استقرار نصیب ہوگا۔
یہ اسرا ء ومعراج کے بابرکت واقعے کی تہہ میں پوشیدہ حکمتوں اور راز ہائے سر بستہ میں سے ایک ایسا راز اور ایک ایسی حکمت ہے جس کا ہمارے موضوع سے براہ راست تعلق ہے۔ اس لیے ہم نے مناسب سمجھا کہ اسے بیان کردیں۔ اسی طرح کی دوبڑی حکمتوں پر نظر ڈالنے کے بعد ہم نے یہ رائے قائم کی ہے کہ اسراء کا واقعہ یا تو بیعت عقبۂ اولیٰ سے کچھ ہی پہلے کا ہے یا عقبہ کی دونوں بیعتوں کے درمیان کاہے۔ واللہ اعلم


****​
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
اس کے بعد آپﷺ کو سِدرَۃُ المنتہیٰ تک لے جایا گیا۔ اس کے بیر (پھل) ہجر کے ٹھلیوں جیسے اور اس کے پتے ہاتھی کے کان جیسے تھے۔ پھر اس پر سونے کے پتنگے ، روشنی اور مختلف رنگ چھا گئے اور وہ سدرہ اس طرح بدل گیا کہ اللہ کی مخلوق میں سے کوئی اس کے حسن کی تعریف نہیں کرسکتا۔ پھر آپ کے لیے بیت معمور کو بلند کیا گیا۔ اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے تھے۔ جن کے دوبارہ پلٹنے کی نوبت نہیں آتی تھی۔ اس کے بعد آپ کو جنت میں داخل کیا گیا، اس میں موتی کے گنبد تھے اور اس کی مٹی مشک تھی۔ اس کے بعد آپﷺ کو مزید اوپر لے جایا گیا۔ یہاں تک کہ آپﷺ ایک ایسی برابر جگہ نمودار ہوئے جہاں قلموں کے چرچراہٹ سنی جارہی تھی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۲/۴۷، ۴۸۔ صحیح روایات میں ثابت شدہ اضافات کے ساتھ۔
جزاک اللہ خیر بھائی۔۔۔۔۔۔۔ محمد نعیم یونس
میں نے ڈاؤنلوڈ کر کے یہ کتاب پڑھی ہے لیکن مندرجہ بالا اقتباس کی جگہ صرف یہ لکھا ہوا ہے کہ
" اس کے بعد آپﷺ کو سِدرَۃُ المنتہیٰ تک لے جایا گیا۔ پھر آپ کے لیے بیت معمور کو بلند کیا گیا۔ زاد المعاد ۲/۴۷، ۴۸۔

کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ باقی تفصیلات آپ نے کہاں سے لکھی ہیں اور حوالہ میں صحیح روایات سے ثابت شدہ اضافات سے کیا مراد ہے؟ جزاک اللہ خیر
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
جزاک اللہ خیر بھائی۔۔۔۔۔۔۔ محمد نعیم یونس
میں نے ڈاؤنلوڈ کر کے یہ کتاب پڑھی ہے لیکن مندرجہ بالا اقتباس کی جگہ صرف یہ لکھا ہوا ہے کہ
" اس کے بعد آپﷺ کو سِدرَۃُ المنتہیٰ تک لے جایا گیا۔ پھر آپ کے لیے بیت معمور کو بلند کیا گیا۔ زاد المعاد ۲/۴۷، ۴۸۔

کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ باقی تفصیلات آپ نے کہاں سے لکھی ہیں اور حوالہ میں صحیح روایات سے ثابت شدہ اضافات سے کیا مراد ہے؟ جزاک اللہ خیر
جزاک اللہ خیرا۔ تحقیق و استفسار کرنے کا شکریہ۔ اس کاجواب کلیم حیدر بھائی دیں گے،ان شاءاللہ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جزاک اللہ خیر بھائی۔۔۔۔۔۔۔ محمد نعیم یونس
میں نے ڈاؤنلوڈ کر کے یہ کتاب پڑھی ہے لیکن مندرجہ بالا اقتباس کی جگہ صرف یہ لکھا ہوا ہے کہ
" اس کے بعد آپﷺ کو سِدرَۃُ المنتہیٰ تک لے جایا گیا۔ پھر آپ کے لیے بیت معمور کو بلند کیا گیا۔ زاد المعاد ۲/۴۷، ۴۸۔

کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ باقی تفصیلات آپ نے کہاں سے لکھی ہیں اور حوالہ میں صحیح روایات سے ثابت شدہ اضافات سے کیا مراد ہے؟ جزاک اللہ خیر
صحیح روایات سے ثابت شدہ اضافات سے مراد الرحیق المختوم کتاب جو یونیکوڈ صورت میں ہمارے بھائی پیش کررہے ہیں۔ از سر نو اس پر ایک ادارہ نے کام کروایا ہے۔ جس میں کچھ ایسی باتوں کا اضافہ بھی آپ کو ملے گا۔ جو دیگر سیرت کی کتب میں موجود ہے۔ اس لیے حوالہ میں اس بات کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔
باقی یہ اضافہ دلائل صحیحہ سے ثابت بھی ہے یا نہیں؟ یہ الگ بحث ہے۔
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
صحیح روایات سے ثابت شدہ اضافات سے مراد الرحیق المختوم کتاب جو یونیکوڈ صورت میں ہمارے بھائی پیش کررہے ہیں۔ از سر نو اس پر ایک ادارہ نے کام کروایا ہے۔ جس میں کچھ ایسی باتوں کا اضافہ بھی آپ کو ملے گا۔ جو دیگر سیرت کی کتب میں موجود ہے۔ اس لیے حوالہ میں اس بات کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔
باقی یہ اضافہ دلائل صحیحہ سے ثابت بھی ہے یا نہیں؟ یہ الگ بحث ہے۔

بھائی کلیم حیدر اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین
اس کا مطلب یہ ہوا کہ بھائی محمد نعیم یونس اس کتاب کے یونیکوڈ پر کام کر رہے ہیں۔ ماشاء اللہ
اگر آپ مناسب سمجھیں تو ان اضافات کے حوالہ جات مجھے بتادیں، کیونکہ مجھ سے کسی نے ان حوالوں کا مطالبہ کیا ہے۔ آپ کے تعاون کی لیے پیشگی شکریہ۔
 
Top