• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اِسلام اور سائنس میں عدم مغائرت

شمولیت
فروری 07، 2016
پیغامات
57
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
20
اِسلام اور سائنس میں عدم مغائرت


اِسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہونے کے ساتھ ساتھ دینِ فطرت بھی ہے جو اُن تمام اَحوال و تغیرات پر نظر رکھتا ہے جن کا تعلق اِنسان اور کائنات کے باطنی اور خارجی وُجود کے ظہور سے ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اِسلام نے یونانی فلسفے کے گرداب میں بھٹکنے والی اِنسانیت کو نورِ علم سے منوّر کرتے ہوئے جدید سائنس کی بنیادیں فراہم کیں۔ قرآنِ مجید کا بنیادی موضوع "اِنسان" ہے، جسے سینکڑوں بار اِس اَمر کی دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش وُقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات اور حوادثِ عالم سے باخبر رہنے کے لئے غور و فکر اور تدبر و تفکر سے کام لے اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ شعور اور قوتِ مُشاہدہ کو بروئے کار لائے تاکہ کائنات کے مخفی و سربستہ راز اُس پر آشکار ہو سکیں۔
قرآنِ مجید نے بندۂ مومن کی بنیادی صفات و شرائط کے ضمن میں جو اَوصاف ذِکر کئے ہیں اُن میں آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں تفکر، علمِ تخلیقیات (Cosmology) کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔
قرآنِ حکیم نے آئیڈیل مسلمان کے اَوصاف بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا:
إِنَّ فِی خَلقِ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضِ وَ اختِلَافِ الَّیلِ وَ النَّھَارِ لَاٰیَاتٍ لِّأُولِی الأَلبَابِO الَّذِینَ یَذکُرُونَ اللہَ قِیَامًا وَّ قُعُودًا وَّ عَلٰی جُنُوبِھِم وَ یَتَفَکَّرُونَ فِی خَلقِ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضِ رَبَّنَا مَا خَلَقتَ ہٰذَا بَاطِلاً سُبحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِO
(آل عمران، 3:190.191)
بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردِش میں عقلِ سلیم والوں کیلئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیںO یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اُس کی عظمت اور حسن کے جلوؤں) میں فکر کرتے رہتے ہیں۔ (پھر اُس کی معرفت سے لذّت آشنا ہو کر پکار اُٹھتے ہیں) اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔ تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے، ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لےO
اِن آیاتِ طیبات میں بندۂ مومن کی جو شرائط پیش کی گئی ہیں اُن میں جہاں کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہوئے زِندگی کے ہر حال میں اپنے مولا کی یاد اور اُس کے حضور حاضری کے تصوّر کو جاگزیں کرنا مطلوب ہے، وہاں اِس برابر کی دُوسری شرط یہ رکھی گئی ہے کہ بندۂ مومن آسمانوں اور زمین کی خلقت کے باب میں غور و فکر کرے اور یہ جاننے میں کوشاں ہو کہ اِس وُسعتِ اَفلاک کا نظام کن اُصول و ضوابط کے تحت کارفرما ہے اور پھر پلٹ کر اپنی بے وقعتی کا اَندازہ کرے۔ جب وہ اِس وسیع و عریض کائنات میں اپنے مقام و مرتبہ کا تعین کر لے گا تو خود ہی پکار اُٹھے گا: "اے میرے ربّ! تو ہی میرا مولا ہے اور تو بے عیب ہے۔ حق یہی ہے کہ اِس وُسعتِ کائنات کو تیری ہی قوت وُجود بخشے ہوئے ہے ۔ اور تو نے یہ عالم بے تدبیر نہیں بنایا"۔
مذکورہ بالا آیتِ کریمہ کے پہلے حصہ میں ’خالق‘ اور دُوسرے حصے میں ’خَلق‘ کی بات کی گئی ہے، یعنی پہلے حصے کا تعلق مذہب سے ہے اور دُوسرے کا براہِ راست سائنس اور خاص طور پر علمِ تخلیقیات (cosmology) سے ہے۔
 
Top