• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آخر ہمارا انتخاب مدرسہ ہی کیوں ؟

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
دین اسلام ہی ہمارا اولین و آخرین پناہ گاہ ہے لیکن اس دور میں جب کہ ہم مغربی علوم یا دنیاوی علوم کی تحصیل کو ہی سب کچھ سمجھے بیٹھے ہیں تو اگر کوئی پوچھے کہ ہم اپنی اولاد کے لیے دینی مدارس کا انتخاب کیوں کریں تو آپ ساتھیوں کا کیا جواب ہو گا؟
مجھے اپنی جامعہ کے مجلہ اسوہ حسنہ کے صفحات کے لیے مواد اکٹھا کرنا ہے اور اس کے لیے اہل توحید اور اہل ایمان کی آرا سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں
جزاکم اللہ احسن الجزاء
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
اسلام میں دین و دنیا کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ ہر ”دینوی عمل“ دین اسلام کا حصہ ہے، اگر یہ قرآن و سنت کے طابع ہو۔ اسی طرح ہر وہ (نام نہاد) ”دینی عمل“ دین اسلام سے خارج ہے، اگر وہ قرآن و سنت کے طابع نہیں۔ یہی حال ”علوم“ کا ہے۔ قرآن و حدیث اور فقہ (وغیرہ) کے علوم یقیناً دین اسلام کی اساس ہیں۔ لیکن مسلمانوں کو صرف انہی علوم کے حصول کا پابند نہیں کیا گیا ہے۔ ممنوعہ علم (جیسے جادو کا علم) کے علاوہ دنیا کے سارے علوم (ضرورت یا شوق کے تحت) سیکھے جاسکتے ہیں، بالخصوص ایسے ”دنیوی علوم“ جن کی مدد سے کسی بھی زمان و مکان میں رزق حلال کے حصول میں آسانی ہو۔

ہمارے مروجہ دینی مدارس بالعموم صرف اور صرف مبینہ دینی علوم سکھلاتے ہیں (الا ماشاء اللہ)۔ یہی وجہ ہے کہ مدارس سے یہ توقع نہیں کی جاتی یہاں سے کلرک (منشی)، طبیب (ڈاکٹر)۔ انجینئر، قانون دان، تاجر وغیرہ بن کر نکلیں گے۔ اسی طرح اسکول، کالج یا جامعات کے فارغ التحصیلا فراد سے کوئی بھی یہ توقع نہیں کرتا کہ یہ لوگ قرآن، حدیث اور اسلامی قوانین سے واقفیت رکھتے ہوں گے۔

برصغیر میں تعلیمی اداروں کی یہ تفریق انگریز کے سامراجی دور کی نشانی ہے، جسے اب ختم ہوجانا چاہئے۔ اب صرف اور صرف ایک ”مشترکہ نظام تعلیم“ ہونا چاہئے۔ ایسے تعلیمی ادارے بننے چاہیئے، جہاں سے اپنے اپنے شوق اور صلاحیت کے مطابق بیک وقت عالم دین بھی بن سکیں، حافظ و قاری بھی، مفتی بھی اور ڈاکٹر و انجینئر اور قانون دان بھی۔

میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک ہی اسکول کے مڈل پاس طلباء اپنی اپنی دلچسپی کے مضامین میٹرک میں لے کر آئندہ ڈاکٹر، انجینئر، قانون دان، کلرک، وغیرہ وغیرہ بن سکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح اسی اسکول کا مڈل یا میٹرک پاس طالب علم علوم قرآن، حدیث، فقہ وغیرہ کے شعبوں میں بھی داخلہ کا ”اہل“ ہونا چاہئے۔ ایسی ایک مثال بمبئی میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کا قائم کردہ اسکول بھی ہے۔ جہاں عربی اور اردو میں یکساں مہارت کے ساتھ ساتھ حفظ بھی کرائی جاتی ہے، او لیول اور اے لیول بھی ۔ اور یہاں کا اے لیول فارغ التحصیل طالب علم مدینہ یونیورسٹی میں بھی داخل ہوسکتا ہے اور آکسفورڈ یو نیورسٹی میں بھی۔ چنانچہ ایسے اسکولوں سے نکلنے والے اگر عالم دین بنیں، تب بھی وہ ”مروجہ مارکیٹ“ میں رزق حلال کمانے کے ہنر سے واقف ہوتے ہیں اور اگر ڈاکٹر انیجینئر، قانون دان بنیں تب بھی وہ اسلام کے بنیادی اصولوں سے واقفیت رکھتے ہیں تاکہ عملی زندگی کو دین کے مطابق گذار سکیں۔

اسکولوں، الجوں اور جامعات میں اسلامیات کے مضامین شامل کرنے یا دینی مدارس میں کمپیوٹر اور انگریزی سکھلانے سے ”مسئلہ“ حل نہیں ہوسکتا۔ جب تک ہم ابتدائی دس بارہ جماعتوں تک ”مشترکہ علوم“ کی تدریس کا آغاز نہ کریں، تب تک ہم موجودہ دو متضاد اقسام کے فارح التحصیل افراد سے ”نجات“ نہیں پاسکیں گے۔ ان میں سے ایک گروہ دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہوتا ہے، دین کا بہترین شعور رکھتا ہے، لیکن دنیوی ضرورتوں کے حصول کی ”دوڑ“ میں یہ طبقہ بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ انہیں مسجد اور مدارس کے علاوہ کہیں ”باعزت روزگار“ نہیں ملتا اور یہاں جتنا قلیل مشاہرہ ملتا ہے، اس سے ان کے بیوی بچوں بیشتر دنیوی سہولتوں سے محروم ہی رہتے ہیں (الا ماشاء اللہ) دوسری طرف کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل افراد پر روزگار کے پرکشش دروازے کھل جاتے ہیں۔ یہ لوگ معاشرے میں معزز مقام حاصل کرلیتے ہیں۔ انہیں بالعموم معاشی بدحالی کا سامنیا نہیں کرنا پڑتا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، خوشحال اور نام نہاد معزز لوگ دین کی بنیادی باتوں سے بھی واقفیت نہیں رکھتے۔ انہیں صحیح سے نمازیں پڑھنی بھی نہیں آتیں، نماز، نماز جنازہ، نکاح ”پڑھانا“ تو بہت دور کی بات ہے۔ انہوں نے دنیا جہاں کی سینکڑوں کتب پڑھ رکھی ہوتی ہیں۔ اور روزانہ اخبارات و جرائد بھی شوق سے پڑھتے ہیں۔ لیکن ان کی اکثریت کو ناظرہ قرآن بھی درست مخارج کے ساتھ پڑھنا نہیں آتا۔ انگریزی ”بدیسی زبان“ ہونے کے باجود اس میں مہارت رکھتے ہیں لیکن اپنے دین کی زبان ہونے کے باوجود، عربی سے ناواقف ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کے مشہور زبانوں کے ادب کے تراجم پڑھ رکھے ہوتے ہیں۔ لیکن قرآن اور احادیث کے ایک یا دو مجموعے تراجم کے ساتھ ہی سہی، ساری زندگی مک،ل پڑھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
یہ ایک کھلا تضاد نہیں تو اور کیا ہے۔ ہم دنیا میں نہ تو ”ترک دنیا“ کے لئے آئے ہیں اور نہ ہی اپنی اُخروی زندگی کو تباہ و برباد کر کے دنیا کو مثل جنت بنانے آئے ہیں۔ ہمیں اس دنیا کی تمام سہولتوں سے استفادہ کرتے ہوئے اس طرح زندگی گزارنی ہے کہ جب ہم اُخروی زندگی میں داخل ہوں تو وہاں بھی خود کو کامیاب و کامران دیکھیں۔ اور اس کے لئے ہمیں دین و دنیا کی مروجہ الگ الگ تعلیمی نطام کو ختم کرکے ایک ”مشترکہ تعلیمی نظام“ کو لانے کی ضرورت ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
دنیا مسلمانوں سے اور مسلمان دینی مدارس سے قائم و دائم ہیں۔ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں اسلام نے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نہ صرف راہنمائی کی ہے بلکہ اسے عروج پر پہنچانے کے لئے بھی راہ ہموار کی ہے اور باقی تمام اَدیان کی نسبت صرف اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جو عقلِ سلیم اور فطرتِسلیمہ کے مطابق ہے، جس کا اعتراف اسلام دشمن مستشرقین بھی کرچکے ہیں۔

آج ہم اور ہمارامعاشرہ مختلف مسائل میں گھرا ہوا ہے اور ہر فرد اپنی جگہ پریشان اور غیر مطمئن زندگی گزار رہا ہے۔جس کی حقیقی وجہ دین سے دوری ہے یعنی اسلام کو عملی طور پر ترک کرنا۔اگر آج ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم مطمئن زندگی گزاریں اور ہماری اَولاد ہماری فرماں بردار ہو، ہر طرف اَمن و امان کا چرچا ہو، عزت ووقار دوبارہ حاصل ہو، ہماری معیشت اور معاشرت ترقی کرے، ہمیں سکون اور چین نصیب ہو، ہم دنیا پر غالب آجائیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم غیر مسلموں کی غلامی کا طوق گلے سے اُتار پھینکیں اور
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَة حَسَنَة (الأحزاب :۲۱)
کو عملی طور اپناتے ہوئے اپنی زندگیوں کو ڈھال لیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو اپنا کر اس کے مطابق لوگوں کی بھی راہنمائی کریں کہ اسی میں ہی ہماری کامیابی و کامرانی کا راز پنہاں ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آج مادہ پرستی کے اس دور میں جب دولت کی ہوس اور دنیا کی محبت نے انسان بلکہ مسلمانوں کو اسلام سے دور کردیا ہے، کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو صرف قرآن وسنت کو تھامے ہوئے نظر آتےہیں۔ ان کے اقوال و اعمال سے اسوۂ حسنہ کی خوشبو آتی ہے اور وہ اپنے کردار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کردار کے مطابق بنانے میں مصروف عمل ہیں۔ عمومی طور پر جب لوگ دنیا کی خاطر اپنے گھر بار چھوڑ رہے ہوتے ہیں تو یہ لوگ قرآن وسنت کاعلم سیکھنے کے لئے گھروں سے نکلتے ہیں۔ آسائشات دنیا کو ترک کرکے اسلام کی سربلندی کے لئے اپنی توانائیاں صرف کرنے کی کوششیں کرنے میں نظر آتے ہیں۔ یہ مدارس میں پڑھنے اور پڑھانے والے لوگ ہیں۔

میری اس تمہید کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ دینی جامعات میں داخلہ کی اہمیت و ضرورت کیاہے؟ اور کیا ہماری پہلی ترجیح دینی جامعات ہی ہونی چاہئیں؟ کیا یہ ہمارے معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں؟ کیا صحیح اور حقیقی علم کے وارث یہی ہیں؟ کیا صحیح راہنمائی کے اہل یہی لوگ ہیں؟ کیا ہمارے مسائل کا صحیح حل انہی کے پاس ہے؟

اور سچ تو یہ ہے کہ ان تمام سوالات کا جواب ’ہاں‘ میں ہی ہونا چاہیے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مبارک ہے:

اَلْعُلَمَاءُ وَرَثةُ الاَنْبِيَاءِ (سنن أبو داود:3641)

علماء انبیاء کے وارث ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
دینی مدارس ہر دور میں معاشرے کا ایک لازمی جزوِر ہیں اور ان کی اہمیت و ضرورت سے کوئی ذی عقل سلیم و صاحب فطرت سلیمہ انکار کر ہی نہیں سکتا گو کہ کچھ روشن خیال، ملحد جدت پسند، احساس کمتری کا شکار لوگ اس کو ختم کرنے یا کم از کم اس کی حقیقی شکل مسخ کرنے کے درپے ہیں، لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ آج کے دور میں ان کی ضرورت و اہمیت اور زیادہ ہوگئی ہے، کیونکہ آج اگر دیکھا جائے تو پوری دنیا میں مسلمان ریاستیں جس طرح منظم انداز میں عالم کفر کی چہار اطراف یلغار کا سامنا کر رہی ہیں جس کی واضح مثال فلسطین، افغانستان، عراق، شام، الجزائر، مالی، سوڈان، مصر وغیرہ ہیں اور اُن کے علاوہ غیر مسلم ریاستیں جیسے ہندوستان الغرض جہاں جہاں بھی مسلمان رہ رہے ہیں وہ کسی نہ کسی صورت میں ذلت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جبکہ مسلمانوں کے پاس معدنی وسائل کا بے پناہ ذخیرہ پایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ کی غلامی میں عافیت سمجھی جاتی ہے اور اسے اپنا آقا ومالک سمجھ کر اس کے تلوؤں میں زندگی گزارنے کو اپنے لئے قابل فخر سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ جو کہ یہود کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے اس کی غاصبیت اور جبر وتشدد و ظلم کے خلاف اگرہمیں کہیں سے راہنمائی مل سکتی ہے تو وہ صرف اور صرف دینی مدارس ہیں جو ہمیں ان کی غلامی سے نکال کر ایک خالق ومالک کی غلامی میں داخل کرسکتے ہیں اوریہی حقیقی کامیابی و کامرانی ہے۔ اس لیے کہ دنیاوی جامعات میں تو صرف کورس ہی ختم کروایا جاتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ کس طرح اچھے نمبر لینے ہیں اور کیسے اچھی نوکری حاصل کرنی ہے اور دنیا کے حصول میں کس طرح آگے بڑھا جا سکتا ہے وہاں اسلام اور مسلمانوں کا کوئی عمل دخل نہیں کہ پڑھانے والے 99 فی صد خود مغربی افکار سے متاثر اور صرف نام نہادمسلمان ہیں۔

اس دور میں جب ہمارے حکمران اپنے آپ کو امریکہ کا غلام بنانے میں فخرمحسوس کرتے ہیں عوام کے لئے اور زیادہ ضروری ہوگیا ہے کہ ان کے نظریات کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے بچوں کو صحیح اسلامی نہج پر چلانے اور دین و دنیا کی کامیابی کے لئے اسلامی تعلیمات سے روشناس کروائیں تاکہ وہ دین حق کو سمجھیں اور اس کے راستے پر چلتے ہوئے مستقبل میں نہ صرف ایک اچھے داعی مبلغ بنیں بلکہ لوگوں کی راہنمائی کافریضہ بھی احسن طریقے سے ادا کریں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
علاوہ ازیں آج کے دور میں معاشی مسئلہ کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور اکثر لوگوں کاخیال ہے کہ اگر ہمارے بچے سکول کی تعلیم حاصل کریں گے تو زیادہ بہتر طریقے سے روزی کما سکیں گے اور معاشرے میں ان کو زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھاجائے گا، لیکن اللہ تعالیٰ کا فرمان کچھ اس طرح ہے:

وَمَا مِنْ دَآبَّة فِیْ الاَرْضِ إلَّا عَلَی اﷲِ رِزْقُھَا

اور زمین پر کوئی چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق اللہ کے ذمے ہے۔ (ہود :6)

اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے:

ثُمَّ یَقُوْلُ یَا رَبِّ مَا رِزْقُہُ، مَا اَجَلُہُ، مَا خُلُقُہُ، ثُمَّ یَجْعَلُہُ ﷲ شَقِیًّا أوْ سَعِیْدًا(صحیح مسلم: :2645)

پھر فرشتہ کہتا ہے اس کا رزق کتنا ہے۔ اس نے کب مرنا ہے اور اس کا اخلاق کیسا ہے پھر اللہ اسے نیک یا بدبخت بنادیتاہے۔ (یعنی پیدا ہونے سے پہلے ہی سب کچھ لکھ دیا جاتاہے۔)

ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات اور احادیث اس چیز پردلالت کرتی ہیں کہ انسان کو رزق صرف وہی ملتا ہے جو کہ اس کے لئے لکھا جا چکا ہے لہٰذا اس کے لئے پریشان ہونا اور صرف اسی کے حصول میں زندگی گزار دینا عبث معلوم ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں یہ بھی دیکھنے میں آیاہے کہ سکولوں، کالجوں سے فارع ہونے والے طلباء بہ نسبت مدارس کے زیادہ بے روزگار ہوتے ہیں جب کہ ان کے مقابلہ میں جو طلبہ مدارس سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں جلد ہی ان کواپنی اپنی قابلیت کے مطابق مناسب جگہ مل جاتی ہے گو کہ زیادہ تر طلبہ مدارس یا مساجد میں ہی خدمات انجام دیتے ہیں لیکن ان کی معقول تعداد کمرشل اداروں میں بھی خدمات انجام دے رہی ہے۔جب کہ دنیاوی جامعات سے فارغ ہونے والے طلبہ نوکریوں کی تلاش میں سرگرداں رہنے کے بعد جب کوئی سرکاری ملازمت حاصل کرتے ہیں تو اس کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ملازمت کے بعد گورنمنٹ کی ہر غلط و صحیح پالیسی کو ماننا اور اس کے مطابق عمل کرنا ان کے لئے ضروری ہوجاتا ہے۔ اس طرح سے ان کے ضمیر کی آواز دب کر رہ جاتی ہے اور ایک کام کو نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں کرنا پڑتاہے۔ اس کی مثالیں ہمیں پاکستان میں بہت زیادہ مل سکتی ہیں جن میں سے ایک واضح مثال روشن خیالی کے سابقہ خبیث مستبد کے دور میں لال مسجد اورجامعہ حفصہ کے خلاف فوج اور پولیس کا ایکشن ہے۔ جس کے بعد یہ لوگ نہ صرف معاشرے میں اپنا وقار کھو بیٹھے ہیں ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
انسان کی انفرادی اور معاشرتی زندگی میں اَخلاقیات کا بہت گہرا عمل دخل ہے اس حوالے سے بھی دینی مدارس ہی سب سے آگے نظر آتے ہیں دینی مدارس سے فارغ طلبہ عمدہ اخلاق کا پیکر ہوتے ہیں، کیونکہ ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہوتا ہے کہ:

إِنَّمَا بُعِثْتُ لاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الاَخْلَاقِ

تحقیق میں اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں۔ (سنن الکبری للبیہقی)

اس کی سب سے واضح مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ عمومی طور پر اگر روشن خیالی کے سابقہ خبیث مستبدّ کے دور کی ترجیحات کو نکال دیا جائے تو دینی مدارس کے فارغ طلبہ کہیں بھی نقص امن کے حوالے سے نظر نہیں آئیں گے جبکہ اس کے برخلاف دنیاوی جامعات کے طلبا ء کی ہر تھانے میں شکایات کی بھرمار ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دینی مدارس بچوں کی اس نہج پر تربیت کرتے ہیں کہ جس سے معاشرے کا امن و اَمان بحال رہتا ہے۔ انھیں بتایا جاتا ہے کہ تشدد اور دہشت گردی کی اسلام میں ہرگز گنجائش نہیں ہے اور اگر کوئی اس قسم کی سرگرمی میں ملوث ہو توہوسکتا ہے کہ وہ دنیا کی سزا سے بچ جائے، لیکن قیامت کے دن قائم ہونے والی اللہ کی عدالت میں انھیں ضرور جواب دہ ہونا ہے کہ جس دن نہ رشوت کام آسکے گی اور نہ ہی کوئی سفارش۔ ہرایک کو اس دن اس کاپورا پورا بدلہ ملنا ہے:

فَـمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّایَّرَہٗ ( الزلزال:8)

جس نے ایک ذرہ برابر بھی بُرائی کی وہ اسے پالے گا۔

چنانچہ ہرایک کو اپنے کئے کی سزا ملنی ہے اور اسی یقین کے ساتھ کہ ہم نے اللہ کے سامنے ایک دن ہر عمل کا جواب دینا ہے، وہ غلط قسم کی سرگرمیوں میںملوث نہیں ہوتے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
دورِ جدید میں میڈیااور سوشل میڈیابہت اَہم کردار اداکررہے ہیں اور ان کے اثرات بالواسطہ یا بلاواسطہ معاشرہ میں موجود ہر آدمی تک پہنچ رہے ہیں بلکہ جو بات میڈیا پر آجاتی ہے اس کو ہی عام طور پر صحیح اور سچ تسلیم کیا جاتا ہے اور بطورِ دلیل اسے پیش بھی کیا جاتا ہے۔ جہاں بعض ٹی وی چینلزاور رسائل وجرائد خالص قرآن و سنت کی تبلیغ و اشاعت میں دن رات مصروف عمل ہیں وہاں اکثریت ایسے چینلجز اور رسائل و اخبارات کی ہے جو عالم کفر کے ایجنڈے کے تحت اسلامی تعلیمات کو غلط رنگ دے رہے ہیں جس کی نمایاں مثال نام نہاد مسلم توہین صحابہ کے مرتکب مسلم سکالرز جو موسیقی اور جوئے کے ذریعے رمضان میں بھی اسلام کے تقدس کو مسخ کرنے میں مصروف عمل ہیں اور کوشش ہوتی ہے کہ کسی طریقے سے اسلام میں خامیاں نکالنے میں کامیاب ہوجائیں۔ تاکہ یہ باور کرایا جاسکے کہ (نعوذ باللہ) اسلام ایک نامکمل دین ہے اور ہماری ہر معاملہ میں راہنمائی نہیں کر سکتا۔

بعض لوگوں نے مخصوص افراد کو ہی دین کا ٹھیکے دار سمجھ رکھا ہے۔ خصوصا جو لوگ میڈیا پر زیادہ آتے ہیں ان کی ہر بات کو بلا دلیل و حجت تسلیم کر لیا جاتا ہے ۔ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ ٹی وی پر آنے والا ہر شخص بہت بڑا عالم ہے اور یہ کبھی غلط بات نہیں کر سکتا ۔جب کہ ہوتا یہ ہے کہ وہ سوچی سمجھی سازش کے تحت لوگوں کو دین سے دور کر رہے ہوتے ہیں اور غیر مسلموں کے افکار و نظریات کو فروغ دے رہے ہوتے ہیں۔ ان تمام باتوں سے نمٹنے کے لئے بھی مدارس میں ایسی تعلیم دی جاتی ہے کہ جس سے طلبہ کو یہ بات ذہن نشین کرائی جاتی ہے کہ دین کسی ایک فرد کےقول و فعل کا نام نہیں بلکہ امام مالک رحمہ اللہ کے فرمان کے مطابق کہ:

إنما انا بشر أخطئ وأصیب فانظرونی رأیی فکلما وافق الکتاب والسنة فخذوہ وکلما لم یوافق فاترکوہ [جلب المنفعۃ،ص68]

میں تو انسان ہوں صواب اور خطا دونوں کو پہنچتا ہوں، آپ میری رائے میں دیکھا کریں جو بات قرآن و حدیث کے موافق ہو اس کو لے لیں اور جو خلاف ہو اسے چھوڑ دیں۔

اور مزید فرمایا:

مامن أحد إلا یؤخذ من قولہ ویرد إلا قول صاحب ھذا القبر (تفسیر ابن کثیر:541، سلسلۃ الصحیحۃ للألبانی تحت رقم:520)

کسی بھی (فقیہ یا عالم) کا قول قبول بھی کیا جاسکتا ہے اور رد بھی سوائے اس قبر والے کے۔ (یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم )

لہٰذا دینی مدارس خصوصا اہلحدیث مدارس کا نصاب تعلیم ایسی خصوصیات کا حامل ہے کہ جس میں شخصی تقلید کے بجائے یہ بتایا جاتا ہے کہ کسی کے قول کے صحیح یا غلط ہونے کے لئے معیار اورپیمانہ صرف اور صرف کتاب و سنت ہے۔ جس کی بات کتاب وسنت کے موافق ہوگی اس کو قبول کرلیا جائے گااورجس کی بات کتاب وسنت کے خلاف ہو اس کو چھوڑ دینا واجب ہے۔اسی طرح دورِجدید میں اِسلام مخالف قوتیں کون کون سے طریقے استعمال کر رہے ہیں ان سے بھی طلبہ کوآگاہ کیا جاتا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ہماری نوجوان نسل کے بگڑنے کا ایک بہت بڑا سبب تربیت کافقدان ہے چونکہ عام طور پر ہماری نوجوان نسل کی تربیت صحیح طریقے اور صحیح منہج پرنہیں ہوپاتی اس لئے وہ غیر ضروری سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اور اپنے اصل مقصد اور ہدف کو بھول جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ معاشرے پر نہ صرف بوجھ بن جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات ملک اورمعاشرے کے لئے سنگین مسائل بھی پیدا کرتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ نوجوان نسل کی صحیح طریقے سے تربیت ہو تاکہ وہ اپنے اور ملک و قوم کے لئے سود مند زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں۔

مدارس دینیہ کا معاشرے میں اس حیثیت سے بھی اہم کردار ہے کہ وہ اپنے طلبہ کی قرآن وسنت کے مطابق تربیت کرتے ہیں۔ جس سے طلباء معاشرے میں قابل فخرفرد کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ جس سے معاشرہ ترقی بھی کرتا ہے اور اس کا امن و اَمان بھی بحال رہتا ہے۔

اور اگر میں یہ کہوں کہ دنیا میں اسلام کو اگر زندہ رکھا ہی صرف دینی مدارس نے ہے تو یہ مبالغہ آرائی نہیں کیوں کہ بیسویں صدی میں جہاں جہاں کمیونسٹ حکومتیں تھی وہاں وہاں مسلمانوں کو اپنے دین و مذہب پر عمل پیراہونے کے لیے جن آزمائشوں سے گذ رنا پڑا وہ نہ صرف اسلامی بلکہ انسانی تاریخ کا ناقابل یقین حصہ تھا، بڑے ہی کٹھن مراحل سے وہاں کے مسلمانوں کو گذرنا پڑا، ان لوگوں نے تہہ خانوں میں چھپ چھپ کر اپنے ایمان کی حفاظت کی اور اپنے بچوں کو قرآن مجید سکھایا جبکہ ان کے لیے قرآن مجید کے مصاحف کو اپنے گھروں میں رکھناایسا ناقابل معافی جرم تھا کہ اس کی سزا پھانسی سے کم نہیں تھی۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم کی کچھ اسی طرح کی داستان ماضی قریب میں سوویت یونین یعنی روس کی مسلم ریاستوں کی بھی رہی ہے ازبکستان، قزاقستان ، ترکستان ، تاجکستان، آذربائیجان اور کرغیزیا وغیرہ میں مسلم اکثریتی آبادی کے باوجود اسلام پر عمل پیرا ہونا تو درکنار غلطی سے نام لینا بھی اس ملک کے خلاف بغاوت سے بھی بڑا جرم تھا، وہاں کے دینی مدارس پر جو آج برصغیر میں دیوبند وندوہ سے بھی بڑے اور قدیم وتاریخی تھےتالے لگائے گئے، مساجدکو آثار قدیمہ میں بدل دیا گیا، اذان پر پابندی تھی، قرآن مجید کی تلاوت و اشاعت ممنوع تھی، شعائراسلام کے اظہار پر امتناع تھا، لیکن ان روسی مسلمانوں نے پہاڑوں کی چوٹیوں میں جاجا کر اور قبرستانوں میں بڑے بڑے گڈھے کھود کر اور اس میں چھپ چھپ کر نہ صرف اپنے بلکہ اپنی نئی نسلوں کے ایمان کو محفوظ رکھا، مجھے میرے ایک ہم جماعت جو کہ ازبکستان سے تعلق رکھتا تھا بتایا کہ میرے گھر میں قرآن مجید نہیں تھا بلکہ سورۃ الاسراء کے چند اوراق ہی تھے جو ہمارا اسلام سے تعلق قائم رکھے ہوئے تھے ہمیں دین اسلام کے احکامات سے قطعا ناواقفیت تھی نماز روزہ وغیرہ کا ہمیں بالکل علم نہیں تھا وہ طالب علم رو پڑتا تھا جب ہم اس کو پاکستان کے احوال بتاتے تھے اور اس نے بتایا کہ ہمارے گھر میں ایک تہہ خانہ تھا اور ہم باری باری جاتے تھے اس قرآن مجید کے ان چند اوراق کو دیکھتے، چومتے اور واپس آجاتے تھے کہ ہمیں پڑھنا نہیں آتا تھا بس ہمارا اسلام کے ساتھ یہی تعلق تھا یہ تو جہاد افغانستان کے بعد روسی ریاستیں آزاد ہوئی تو پھر صورت حال بدلی؟ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسپین میں ایسا کیوں نہیں ہوا؟

چین ہو یاروس کی مسلم ریاستیں، ترکی کی عثمانی خلافت ہو یامشرق بعید کی اسلامی حکومتیں ، سب جگہ اسلام کو دبانے کی کوشش کی گئیں اور کچھ مدت تک ان سب جگہوں پر مسلمان مغلوب و مظلوم بھی رہے ، لیکن اسلام کا سورج پہلے سے زیادہ آن بان اور بہتر شان کے ساتھ وہاں دوبارہ طلوع ہوا
 
Top