• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آخر ہمارا انتخاب مدرسہ ہی کیوں ؟

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اقتباس مع ترمیم:
لیکن اس سوال نے مجھے ایک طویل عرصے تک بے چین کیے رکھا

اندلس یعنی موجود اسپین میں بھی 711ء سے 1492ء تک 781سال مسلسل مسلمان پوری آزادی سے وہاں حکومت کرتے رہے،

غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ روسی ریاستیں اور چینی علاقوں میں اس وقت یہاں کے مسلمانوں نے دینی تعلیم کے مدارس ومراکز کے قیام پر پوری توجہ دی تھی، جس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بخارا میں 167 دینی مدارس (ح)قرغیزیا میں 23 مدارس اور اوفا جو کہ بشکریا کا دارالحکومت بھی تھا اس میں 6220 مدراس جس میں ابتدائی،ثانوی اور اعلی سب شامل ہیں (المسلمون فی الاتحاد السوفیتی ،ص 65) اسی طرح بیسویں صدی کی ابتداء میں چین میں مساجد جو کہ ابتدائی مدارس کا کام بھی کرتے تھے ان کی تعداد 40327 تھی جس میں سے بکین کا مدرسہ المعلمین، شنگھائی میں مدرسہ المسلمین الاسلامیہ اور سیجوان کا مدرسہ المعلمین الاسلامیہ بونغاو میں مدرسہ الاخلاق الاسلامیہ قابل ذکر ہیں۔

گویا اس وقت ان علاقوں کے مسلمانوں کو اسلام کی طرف واپس لانے میں انہی دینی مدارس نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے گو کہ دیگر عوامل بھی کارفرما ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ اہم مدارس کا وجود ہے کیونکہ اسپین کے مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو وہاں ان دینی مدارس کے علاوہ ہر چیز نظر آتی ہے جس میں مساجد بھی شامل ہیں اور مساجد کا وہی کردار ہے جس میں نمازوں کا اہتمام شامل ہے یعنی مساجد کا اس طرح جامعیت کے ساتھ تعلیمی میدان میں کوئی عمل دخل نہیں رہا لہذا یہ کہا جا سکتا ہے مدارس کی کمی ہی نےنہ صرف ان کو اس الحاد و ارتداد تک پہنچایا کہ ان کی نسلیں اسلام کی طرف دوبارہ لوٹنا تو درکنار اسلام کا نام بھی بھول گئیں۔ اس خیال کی تائید اس سے بھی ہوئی کہ علامہ اقبال جب اسپین کےدورہ سے واپس آئے تو انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں سے صاف کہا کہ یہاں سے اگر ہمارے دینی مدارس و مکاتب کا یہ سلسلہ ختم ہوجائے گا تو صاف سن لو کہ ہمارے ملک کی بھی وہی حالت ہوجائے گی جو میں اسپین میں دیکھ کر آیاہوں کہ دینی مدارس نہ ہونے کی وجہ سے آج وہاں مسلمانوں کا نام و نشان بھی نہیں رہا ہے اس لیے اے مسلمانو! ان مدارس و مکاتب کو اسی حالت میں رہنے دو، بلکہ کہا جاتا ہے کہ اسپین کے دورہ سے قبل علامہ اقبال مرحوم ہمارے ان مدارس کے بارے میں کچھ اچھے خیالات نہیں رکھتے تھے لیکن اسپین کے دورہ نے ان دینی مدارس کی اہمیت ان کےدل میں بٹھا دی۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
روسی اور چینی ریاستوں کا اندلس کے علاقوں کے ساتھ اس تقابل سے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے ان علاقوں میں اسلام کے احیاء میں ہمارے ان مدارس کا کس قدر بنیادی اوراہم کردار ہے اور عالم اسلام میں ہمیں اس وقت نظر آنے والے غیر متزلزل اور قابل رشک ایمان کی جھلکیاں ہمارے ان مدارس ہی کی بدولت نظر آرہی ہیں۔

عالم اسلام کے موجودہ ناگفتہ بہ حالات پر جب ہم بصارت کے بجائے بصیرت کی نگاہ دوڑاتے ہیں توصاف محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت خالص دین اور حقیقی اسلام صرف ہمارے ان دینی مدارس ہی کی بدولت قائم ہے، تھوڑی دیر کے لیے ہم یہ تصور کر لیں اگر اس وقت روئے زمین پر دینی مدارس کی شکل میں دین کے یہ قلعے نہ ہوتے اور علماء یہاں سے فارغ ہو کر امت کی رہنمائی نہیں کرتے تو مسلمانوں کا اس وقت کیا حال ہوتا، ظاہر بات ہے کہ حق و باطل کے ساتھ خلط ملط ہوجاتا، حلال کے نام پر حرام کی ترویج ہوتی، روشن خیالی اور ترقی پسندی کے نام سے غیر اسلامی وغیرشرعی چیزوں کو بھی اسلام اور شریعت کانام دیا جاتا، احکام و مسائل کی تحقیق صحیح قرآنی و نبوی ہدایات کے مطابق نہیں ہوتی، شریعت کی تشریح ایک مذاق بن کر رہ جاتی اور ان سب کے نتیجہ میں دین سے مسلمانوں کی وابستگی برائے نام رہ جاتی۔

برصغیر کےعلماء کے قائم کیے ہوئے انہی مدارس کی وجہ سے نہ صرف مغربی تہذیب و ثقافت سے ملت اسلامیہ کو دور رکھنے میں بہت حد تک کامیابی ہوئی بلکہ شرک و کفر کی آلودگیاں واضح کرنے میں بھی قابل ذکر کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔ یہاں اسلامی حکومت کےنہ ہونے کے باوجود ہمارے ان دینی مدارس کی وجہ سے آج پورے عالم اسلام میں تمام بڑی دینی تحریکات اٹھانے کی کامیابی ملی ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
راقم کا ایک طویل زمانے تک یہی خیال تھا کہ دینی مدارس کے نصاب میں ترمیم کرکے اس کو وقت کے تقاضوں کے مطابق کرلینا چاہیے ان میں عصری علوم کی بھی اس طرح آمیزش ہونی چاہیے کہ ہمارے مدارس کے فارغین دنیاوی میدان میں کسی کے دست نگر یا محتاج نہ ہوں اور معاشی اعتبار سے بھی خود کفیل ہوں،اور ہمارے فضلاء وقت کے تقاضوں کے مطابق تیار ہوسکیں جہاں تک اس ترمیم میں انگریزی اور کمپیوٹر کی تعلیم کی بات تھی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اس کے علاوہ حکومتی سطح اور غیر حکومتی سطح پر نام نہاد سکالرز کی جو ترمیمات ہمارے سامنے آتی ہیں ان کو اپنانے کے بعد تو مدارس کی شکل و صورت ہی بگڑ جاتی ہے۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ مدارس کے نظام نصاب میں تبدیلی کا یہ تصور غلط ہوتا جا رہا ہے مدارس کو اپنی اسی روایتی طرز پر ہی باقی رہنا چاہیے البتہ دنیاوی تعلیم کا حصول ایک مستحسن امر ہے جس کی بہر حال حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے لیکن دینی تعلیم سے الگ اس کا بندوبست ہونا چاہیے۔

اس کے پس منظر میں مدارس کی خالص دینی تعلیم کو عصری علوم کے اختلاط سے آلودہ کرکے مدارس کو اس کے اصل روح سے ہٹانے اور اس کے بنیادی مقاصد سے ان کو دور رکھنےکی ایک منصوبہ بندکوشش ہوتی ہے جس کو ہم اپنی سادہ لوحی سے سمجھ نہیں پاتے ، مدارس کا کام ملک کا نظم و نسق چلانے والے I.A.S افسران پیدا کرنا، اچھے دیندار ڈاکٹر یا انجینئر بنا کر ان کو معاشرے کی خدمت میں لگانا، اچھے تاجر و سماجی کارکن یا سیاسی لیڈر بناکر میدان عمل میں لاکر پیش کرنا نہیں، اس کے لیے ملک کے دوسرے ادارے وتنظیمیں ہیں جنہوں نے اپنے ذمہ یہ کام لیا ہے، ہمارے مدارس کا قیام شریعت کے ماہرین اور دین کے متخصصین پیدا کرنے کے لیے ہوا ہے، دینی مدارس تو در اصل ملت اسلامیہ کی اس ضرورت کی تکمیل کا سامان فراہم کرتے ہیں جس کا حکم اللہ رب العزت نےسورہ توبہ کے اخیر میں پوری امت کو مخاطب کرکے دیا ہے کہ تم میں سے ہر قوم میں ایک ایسی جماعت ضرور ہونی چاہیے جودین کی گہری سمجھ حاصل کرے اور دعوت کا فریضہ انجام دے:

فَلَولا نَفَرَ‌مِن كُلِّ فِر‌قَةٍ مِنهُم طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهوا فِى الدّينِ وَلِيُنذِر‌وا قَومَهُم إِذا رَ‌جَعوا إِلَيهِم لَعَلَّهُم يَحذَر‌ونَ

قرآن حکیم کے مطابق ہر زمانے میں علماء کی اس جماعت کی ضرورت رہے گی اور قیامت تک اسلام پر بقاء کے لیے ایسے علماء کا وجود ملت کے لیے ناگزیر ہوگا، ہمارے دینی مدارس الحمدللہ اپنے اسی فریضہ کو پورا کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اپنی انتظامی و تربیتی کمزوریوں کے باوجود جس کا خود انہیں احساس ہے اس کی اصلاح کی بھی کوشش کررہے ہیں، الحمدللہ ذمہ داران مدارس بھی اپنی بصیرت و فراست کے ذریعہ دشمنوں کی ان چالوں کو سمجھنے کے باوجود عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات و حالات کے پس منظر میں دینی تعلیم کی روح کو باقی رکھتے ہوئے اس دینی تعلیم نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کی بھی کوشش کررہے ہیں جس سے فارغین مدارس دعوتی میدان میں اور بہتر طریقہ پر اپنے فرائض کو انجام دے سکیں لیکن اسی کے ساتھ ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ قرآن مجید میں بیان کئے گئے ایسے علماء جو ملت کی ناگزیر ضرورت ہیں دینی مدارس کےبجائے کیا مسلم اسکولوں واسلامی کالجس یا یونیورسٹیوں سے پیدا ہونے کی ہم امیدرکھیں یا پھر ایسے مدارس سے جوحدسے زیادہ عصری علوم کی شمولیت کے ساتھ نہ گھر کے نہ گھاٹ کے مصداق بن کر سامنے آرہے ہیں ، یادر کھیئے ایسے علماء خالص دینی تعلیم کے ان مدارس ہی سے پیدا ہوئے ہیں اور پیدا ہوں گے، غرض یہ کہ ہمارے یہ دینی مدارس ہی ہیں جو آج ہندوستان کو اندلس بننے سے اور یہاں اس کی تاریخ دہرانے کی دشمنوں کی شاطرانہ چالوں کو کامیاب ہونے سے روکے ہوئے ہیں، اس لیے ان مدارس کی حفاظت و وکالت ہم سب کا ملّی فریضہ ہے۔

دینی مدارس کی اہمیت کا پہلو ایک اور زاویہ سے لگایا جا سکتا ہے دنیا کی فلاح کسی مسلمان کا مقصودِ حقیقی ہے، یا آخرت کی فلاح؟ کیا اللہ نے دنیا کو انسان کی آسائش وآرائش کے لئے پیدا کیا ہے یا اپنی بندگی کے لئے؟ جس کا نتیجہ آخرت میں ثواب وعقاب کی صورت میں ملے گا۔ اسلام کا یہ موقف بڑا واضح ہے جس پر قرآن کی سیکڑوں آیات موجود ہیں۔

اب جو ھدف انسان کی پہلی ضرورت اور خالق کا پہلا تقاضا ہے، اس کو ہی پہلے سیکھنا ضروری ہوگا۔ ظاہر ہے کہ انسان کی پہلی ضرورت اللہ کی بندگی اور آخرت کی کامیابی ہے، دنیا میں انسان اللہ کی اطاعت وبندگی کے لئے ہی آیا ہے، اس لئے پہلے اسے سیکھنا ہوگا۔ اور جب اسلام دنیا کی زینت کو ناجائز قرار نہیں دیتا تو اس حد تک سہولیات کے ان علوم کو سیکھنا بھی جائز ہوگا۔

آج ہم دنیوی لحاظ سے مغلوب ہیں اور دینی لحاظ سے بھی محروم۔ اس لئے صرف دنیوی غلبہ کے خاتمہ سے آغاز کرنے کی بجائے پہلے علومِ اسلامیہ کے احیا اور اس کو زندہ کرنے پر توجہ صرف کرنا ہوگی اورپھر دیگر علوم کی تحصیل۔
 

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,281
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
جزاک اللہ خیرا ۔۔
بہت سیر حاصل بحث کی آپ نے محترم بھائی ۔۔
حقیقت یہی ہے کہ دینی مدارس ہی وہ سر چشمہ ہیں جہاں سے اسلام کی اشاعت کا کام سر انجام پاتا ہے جو مسلمانوں کو اسلام سے جو ڑے رکھنے اور انحراف سے بچانے میں نہایت ہی اہم اور غیر معمولی کردار ادا کر رہے ہیں یہی مدارس ہیں جو الحاد و لا دینی کے طوفان کو تھامے ہوئے ہیں اور یہی وہ پشتے ہیں جو مادیت کے سیلاب بلاخیز کے لئے رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ان مدارس سے طلبہ و طالبات علم کے ساتھ ساتھ ایمانی حمیت و دینی غیرت دعوتی ذہن اصلاحی فکر اور امت کے لئے درد مندی کی سو غاتیں لیکر میدان عمل میں قدم رکھتے ہیں اس وقت یہ مدارس ہی ہیں جو نئی نسل میں اسلامی بیداری اور دین کی طرف رجوع کا باعث بن رہے ہیں فنڈ کے حصول میں سر کرداں رہنے والے کیا صرف ایک سال کا حساب پیش کر سکتے ہیں مگر آفرین ہے مدارس پہ جو ہر سال گوشوارے کی صورت میں آمد وخرچ کی مد میں ایک ایک روپے کا حساب بے باک کردیتے ہیں مسلمانوں کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ وہ مادیت کے پرستار نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کے عبادت گزار ہیں ان کے نزدیک دنیا سے کہیں بڑھ کر دین کا مقام ہے یعنی مدارس کے علماء کی مثال سرحد پہ متعین ان فوجیوں کی طرح ہے جو دشمن سے آپ کی حفاظت کرتے ہیں ۔۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
جزاک اللہ خیرا ۔۔
بہت سیر حاصل بحث کی آپ نے محترم بھائی ۔۔
حقیقت یہی ہے کہ دینی مدارس ہی وہ سر چشمہ ہیں جہاں سے اسلام کی اشاعت کا کام سر انجام پاتا ہے جو مسلمانوں کو اسلام سے جو ڑے رکھنے اور انحراف سے بچانے میں نہایت ہی اہم اور غیر معمولی کردار ادا کر رہے ہیں یہی مدارس ہیں جو الحاد و لا دینی کے طوفان کو تھامے ہوئے ہیں اور یہی وہ پشتے ہیں جو مادیت کے سیلاب بلاخیز کے لئے رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ان مدارس سے طلبہ و طالبات علم کے ساتھ ساتھ ایمانی حمیت و دینی غیرت دعوتی ذہن اصلاحی فکر اور امت کے لئے درد مندی کی سو غاتیں لیکر میدان عمل میں قدم رکھتے ہیں اس وقت یہ مدارس ہی ہیں جو نئی نسل میں اسلامی بیداری اور دین کی طرف رجوع کا باعث بن رہے ہیں فنڈ کے حصول میں سر کرداں رہنے والے کیا صرف ایک سال کا حساب پیش کر سکتے ہیں مگر آفرین ہے مدارس پہ جو ہر سال گوشوارے کی صورت میں آمد وخرچ کی مد میں ایک ایک روپے کا حساب بے باک کردیتے ہیں مسلمانوں کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ وہ مادیت کے پرستار نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کے عبادت گزار ہیں ان کے نزدیک دنیا سے کہیں بڑھ کر دین کا مقام ہے یعنی مدارس کے علماء کی مثال سرحد پہ متعین ان فوجیوں کی طرح ہے جو دشمن سے آپ کی حفاظت کرتے ہیں ۔۔
جزاک اللہ خیرا یہ مضمون اس مرتبہ ہماری جامعہ کے مجلہ اسوۃ حسنہ کے صفحات کی زینت بنا ہے اوراس مجلہ کا عنوان یہ ہے
usvah.org/index.php/home
 
Top