• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اپنے درمیان موجود شیطان(محمد شیخ) کو پہچانئے۔۔

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

بے اصل فتنہ ( مکمل مضمون)

اس طرح کےفتنے ہر دور میں جنم لیتے رہے ہیں لیکن حق کی مسلسل چوٹیں ایسے فتنوں کو ہمیشہ پاش پاش کرتی آئیں ہیں ۔ ویسے تو اس مخصوص شخص نے قرآن مجید کی باطل تاویلات اور معنوی تحریفات کر کےیہ ثابت کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا کہ قرآن مجید زمانہ ٔ نزول سے لے کر اب تک ایک لاینحل معمہ تھا جو اللہ تعالٰی نے اس کی وساطت سے پوری طرح اُمت پر کھول دیا ہے۔اس مخصوص شخص کی باتوں کا تجزیہ کر کے یہی لگتا ہے کہ اس کی نظر میں بھی قرآن مجید کا کھلے الفاظ میں انکار نا ممکن ہے تو کیوں نہ اس کے بنیادی اور متواترہ تعلیمات ہی کو مشتبہ بنا کر دور درازتاویلات کے سہارے ایک ایسی صورت نکالی جائے کہ جس سے عوام میں تشویش کی ایک لہر بھی دوڑ جائے اور ساتھ ساتھ ان کا ایمان بھی متزلزل ہو جائے۔ اس مخصوص شخص کا مطالعۂ قرآن اتنا محدود، ناقص اور سطحی ہے کہ اہلِ علم کے لیے اس کی محض ابتدائی گفتگو ہی اس کے اناڑی پن کا واضح اورقطعی ثبوت فراہم کر دیتی ہے۔

اس کی تمام باتوں کا حر ف بہ حرف جواب دیا جا سکتا ہے لیکن ہم اس مخصوص شخص کی طرف سے فقط حضرت مریم علیہا السلام کے Hermaphrodite یعنی ”مخنث“( نعوذ باللہ من ذالک) ہونے اور ان کا حضرت مسیح علیہ السلام کا ماں اور باپ دونوں ہونے کی تردید خود قرآن مجید سے ثابت کرتے ہیں۔

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ :-
إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿٣٥﴾ فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنثَىٰ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰ ۖ وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ﴿٣٦﴾
جب عمران کی عورت کہہ رہی تھی کہ، ”میرے پروردگار! میں اس بچے کو جو میرے پیٹ میں ہے تیری نذر کرتی ہوں، وہ تیرے ہی کام کے لیے وقف ہوگا میری اس پیشکش کو قبول فرما تو سننے اور جاننے والا ہے“ پھر جب وہ بچی اس کے ہاں پیدا ہوئی تو اس نے کہا ”مالک! میرے ہاں تو لڑکی پیدا ہو گئی ہے حالانکہ جو کچھ اس نے جنا تھا، اللہ کو اس کی خبر تھی اور لڑکا لڑ کی کی طرح نہیں ہوتا خیر، میں نے اس کا نام مریمؑ رکھ دیا ہے اور میں اسے اور اس کی آئندہ نسل کو شیطان مردود کے فتنے سے تیری پناہ میں دیتی ہوں“۔
قرآن : سورۃ آلِ عمران: آیت نمبر 36-35

یہاں پہلا نقطہ غور کرنے کے لائق یہ ہے کہ اس آیت میں حضرت مریم علیہا السلام کی جنس کا معاملے سرے سے زیر ِ بحث ہی نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالٰی
فَلَمَّاوَضَعَتْهَافرما تا ہے جس سےصاف معلوم ہوتا ہے کہ آیت میں ” ھا “ کی ضمیر حضرت مریم علیہا السلام کے لڑکی ہونے پر قطعی دلالت کرتی ہے ۔
دوسرا نقطہ یہ کہ جناب عمران کی بیوی(
حنّہ ) کو ہر گز اس بات کا شائبہ نہیں تھا کہ میں نے ایک لڑکی کی بجائےکسی اورکو جنم دیا ہے بلکہ وہ لفظِ ”انثیٰ“ فرما کر پوری صراحت کے ساتھ حضرت مریم علیہا السلام کے لڑکی ہونے کو واضح کرتی ہیں۔
دراصل اس مخصوص شخص نے جان بوجھ کر
وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰکے ذریعے دھوکا دینے کی نا کام کوشش کی ہے کہ جناب عمران کی بیوی(حنّہ ) حضرت مریم علیہا السلام کی جنس سے بے خبر یا شک میں مبتلا تھیں جس پر اللہ تعالٰی نے وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰکہہ کر ان کے مخنث ہونے کی طرف اشارہ فرما کر ان کو تسلی دی۔

لیکن یہاں ایک سوال اُبھرتا ہے کہ اگر جناب عمران کی بیوی کو حضرت مریم علیہا السلام کی جنسیت کے متعلق شبہ تھا تو اللہ تعالٰی نےحضرت مریم علیہا السلام کے متعلق
”ولیس الذکر کالانثیٰ“ والے الفاظ ہی کیوں ارشاد فرمائے؟ کیوں نہ صاف صاف کہہ دیا کہ جنم لینے والی لڑکی نہیں، بلکہ دراصل ایک مخنث ہے؟

اس کا جواب ہے کہ در حقیقت
وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰکہنے کا پسِ منظر یہ تھا کہ:-
”حضرت مریم کی والدہ نے جو منت مانی تھی وہ اس توقع سے مانی تھی کہ ان کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا۔ کیونکہ اس عہد میں لڑکے تو اللہ کی عبادت کے لیے وقف کئے جاتے تھے۔ مگر لڑکیوں کو وقف کرنے کا رواج نہ تھا۔ مگر ہوا یہ کہ لڑکے کی بجائے لڑکی پیدا ہوئی تو انہیں اس بات پر افسوس ہونا ایک فطری امر تھا۔ اس آیت میں محرر کا لفظ آیا ہے۔ جس کا لغوی معنی ' آزاد کردہ ' ہے یعنی ایسا بچہ جسے والدین نے تمام ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیا ہو تاکہ وہ یکسو ہو کر اللہ کی عبادت کرسکے۔ یہود میں دستور تھا کہ وہ اس طرح کے منت مانے ہوئے وقف شدہ بچوں کو بیت المقدس یا ہیکل سلیمانی میں چھوڑ جاتے اور انہیں ہیکل سلیمانی یا عبادت خانہ کے منتظمین جنہیں وہ اپنی زبان میں کاہن کہتے تھے، کے سپرد کر آتے تھے۔
یہ ( ولیس الذکر کالانثیٰ)بطور جملہ معترضہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کو یہ کہہ کر تسلی دی ہے کہ یہ لڑکی لڑکے سے بدرجہا افضل ہے۔ حتیٰ کہ کوئی بھی لڑکا اس لڑکی کے جوڑ کا نہیں۔ لہذا افسوس کرنے کی کوئی بات نہیں۔“

اس کے بعد تھوڑا آگے چل کر اللہ تعالٰی کا ارشاد ہوتا ہے :-

وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ ﴿٤٢﴾
پھر وہ وقت آیا جب مریم علیہا السلام سے فرشتوں نے آکر کہا، "اے مریمؑ! اللہ نے تجھے برگزیدہ کیا اور پاکیزگی عطا کی اور تمام دنیا کی عورتوں پر تجھ کو ترجیح دے کر اپنی خدمت کے لیے چن لیا۔
قرآن : سورۃ آلِ عمران: آیت نمبر 42
یہ آ یت تو پوری صراحت کے ساتھ حضرت مریم علیہا السلام کو ”عورت“ ثابت کر دیتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالٰی دنیا جہان کی عورتوں پر حضرت مریم علیہا السلام کی فضیلت ثابت فرما رہا ہے۔ اگر حضرت مریم علیہا السلام (نعوذ باللہ) مخنث ہوتیں تو اللہ تعالٰی انکو عورتوں پر فضیلت دینے کی بجائے دنیا بھر کے مخنثوں پر فضیلت دیتا ۔

اس ضمن میں اس مخصوص شخص نے سورۃالاحزاب کی آیت
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚسے بھی غلط استدلال کرتے ہوا کہا ہے کہ بیٹوں کو ان کے باپ کے نام سے پکارا جائے۔ اب چونکہ حضرت مسیح علیہ السلام کے والد نہ تھے اس لیے حضرت مریم علیہا السلام ہی ان کی والدہ اور والد دونوں ہوئیں۔

عرض ہے کہ قرآن مجید حضرت مسیح علیہ السلام کے باپ کے بغیرپیدا ہونے کے معجزے کو پوری وضاحت سے بیان کرتا ہے ۔ اب جبکہ حقیقت یہی ہے تو اس آیت کاا طلاق حضرت مسیح علیہ السلام پر کیونکر صحیح ہو سکتا ہے؟ اعتراض کی گنجائش تو اس صورت میں تھی جبکہ حضرت مسیح علیہ السلام کا کوئی باپ ہوتا اور ان کو باپ کی نسبت کی بجائے، ماں کی نسبت سے پکارا جاتا۔

وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّارًا عَصِيًّا ﴿١٤﴾
اور اپنے والدین کا حق شناس تھا وہ جبّار نہ تھا اور نہ نافرمان۔
قرآن: سورۃ مریم ؑ: آیت نمبر 14

وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا ﴿٣٢﴾
اور اپنی والدہ کا حق ادا کرنے والا بنایا، اور مجھ کو جبّار اور شقی نہیں بنایا۔
قرآن: سورۃ مریم ؑ: آیت نمبر 32
اس آیت سے بھی پوری طرح واضح ہوتا ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام ایک عورت اور خاتون تھیں۔ کیونکہ اس سے پہلے حضرت یحیی علیہ السلام کو اللہ تعالٰی نے اپنے والدین( ماں و باپ) سے حسنِ سلوک کا حکم صادر فرمایا ہے جبکہ اس آیت میں حضرت مسیح علیہ السلام صرف اور صرف اپنی والدہ کے ساتھ حسنِ سلوک کا ذکر فرماتے ہیں۔ اگر حضرت مریم علیہا السلام ہی ان کی والدہ اور والد دونوں ہوتیں تو وہ حسنِ سلوک میں اپنے والد کو ضرور شامل فرماتے ۔

مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ ۖ كَانَا يَأْكُلَانِ الطَّعَامَ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَاتِ ثُمَّ انظُرْ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ ﴿٧٥﴾
مسیح ابن مریمؑ اِس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول تھا، اُس سے پہلے اور بھی بہت سے رسول گزر چکے تھے، اس کی ماں ایک راستباز عورت تھی، اور وہ دونوں کھانا کھاتے تھے، دیکھو ہم کس طرح ان کے سامنے حقیقت کی نشانیاں واضح کرتے ہیں، پھر دیکھو یہ کدھر الٹے پھر ے جاتے ہیں۔
قرآن: سورۃ مائدہ: آیت نمبر 75

وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ ﴿١١٦﴾
غرض جب اللہ فرمائے گا کہ "اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی خدا بنا لو؟" تو وہ جواب میں عرض کرے گا کہ "سبحان اللہ! میرا یہ کام نہ تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا، اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی، تو آپ کو ضرور علم ہوتا، آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو کچھ آپ کے دل میں ہے، آپ تو ساری پوشیدہ حقیقتوں کے عالم ہیں۔
قرآن: سورۃالمائدہ: آیت نمبر 116

لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَن يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ۗ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿١٧﴾
یقیناً کفر کیا اُن لوگوں نے جنہوں نے کہا مسیح ابن مریم ہی خدا ہے اے محمدؐ! ان سے کہو کہ اگر خدا مسیح ابن مریم کو اور اس کی ماں اور تمام زمین والوں کو ہلاک کر دینا چاہے تو کس کی مجال ہے کہ اُس کو اِس ارادے سے باز رکھ سکے؟ اللہ تو زمین اور آسمانوں کا اور اُن سب چیزوں کا مالک ہے جو زمین اور آسمانوں کے درمیان پائی جاتی ہیں، جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اس کی قدرت ہر چیز پر حاوی ہے۔
قرآن ، سورت المائدہ، آیت نمبر17
ان آیات میں بھی حضرت مریم علیہا السلام کو حضرت مسیح علیہ السلام کی صرف ماں کہا گیا ہے۔

فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ ۖ قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا ﴿٢٧﴾ يَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا ﴿٢٨﴾
پھر وہ اس بچے کو لیے ہوئے اپنی قوم میں آئی لوگ کہنے لگے " اے مریم، یہ تو تُو نے بڑا پاپ کر ڈالا اے ہارون کی بہن، نہ تیرا باپ کوئی برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی کوئی بدکار عورت تھی"۔
قرآن ، سورت مریم ، آیت نمبر 28-27
اس آیت میں حضرت مریم علیہا السلام کو اُختھارون یعنی ہارون کی بہن کہا گیا ہے جو ان کے خاتون اور عورت ہونے پر دلالت کرتا ہے۔

مزید برآں اللہ تعالٰی نے کسی ایک مقام پر بھی اشارہً یا کنایتہً حضرت مریم علیہا السلام کو حضرت مسیح علیہ السلام کی والدہ اور والد دونوں یا مخنث نہیں فرمایا بلکہ جہاں کہیں بھی حضرت مریم علیہا السلام کا ذکر کیا تو ان کو ایک خاتون اور عورت ہی کی حیثیت سے پیش کیا ۔

جب اس مخصوص شخص کے اس نظریہ میں کوئی دم نظر نہیں آتا تو دوسرے نظریات کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہ ہو گا۔ اس لیے ہم نے فقط ایک ہی نظریئے کی تردید کرنے پر اکتفاء کیا ہے۔اس کی کاروائی کچھ ایسی ہی معلوم ہوتی ہے کہ پہلے ایک غلط مقدمہ از خود ذہن سے گھڑتا ہے اور پھر قرآن مجید کی آیات کو اس کے سیاق و سباق سے کاٹ کر معنوی تحریف کر کے ایک نظریئے کو جنم دیتا ہے ۔لطف یہ ہے کہ اپنی بات کی تائید میں کوئی قرآنی شہادت دینے کی بجائے محض اپنے ہی ذہن کے غیرمنطقی و غیرعقلی خیال و گمان کو بطورِ دلیل پیش کر دیتا ہے جسے وہ خود بھی مانتا ہے اور دوسروں کو بھی ماننے پر مجبور کرتا ہے ۔

آخر میں ہم ایسے لوگوں سے یہی گزارش کر سکتے ہیں کہ اگر آپ کھلے الفاظ میں قرآن مجید کا انکار کرنا چاہتے ہیں تو شوق سے کریں ، ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن خُدارا! قرآن مجید کی باطل و گمراہ کن تاویلات کے ذریعے قرآن و سنت کی بنیادی اور اعتقادی تعلیمات کو مشتبہ بنا کر وہ کار نامہ سر انجام تو نہ دیں جس سے کفارِ مکہ بھی عاجز تھے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
جب تک اس شخص (محمد شیخ) کی بات کی تہہتک نہ پہنچیں تب تک اس کا حقیقی جواب نہ بن پائے گا۔
مثلاً وہ مریم علیہا السلام کو مخنث نہیں بلکہ مرد و عورت دونوں خواص کی حامل کہہ رہا ہے۔ وہ یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ یہ معجزہ ہے اور امر ربی سے ہؤا۔
اس کی مثال آجکل کی لیئرڈ مرغی سے دی جاسکتی ہے کہ بغیر میل (مرغ) کے انڈہ دیتی ہے غذا کے سبب۔
رد کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ قرآن سے اس کے دجل کا رد کرے دلیل کے ساتھ۔
 
شمولیت
مئی 23، 2012
پیغامات
110
ری ایکشن اسکور
83
پوائنٹ
70
جب تک اس شخص (محمد شیخ) کی بات کی تہہتک نہ پہنچیں تب تک اس کا حقیقی جواب نہ بن پائے گا۔
مثلاً وہ مریم علیہا السلام کو مخنث نہیں بلکہ مرد و عورت دونوں خواص کی حامل کہہ رہا ہے۔ وہ یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ یہ معجزہ ہے اور امر ربی سے ہؤا۔
اس کی مثال آجکل کی لیئرڈ مرغی سے دی جاسکتی ہے کہ بغیر میل (مرغ) کے انڈہ دیتی ہے غذا کے سبب۔
رد کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ قرآن سے اس کے دجل کا رد کرے دلیل کے ساتھ۔
اسکا مکمل و مدللیل تفصیلی جواب شیخ محمد حسین میمن حفیظ اللہ نے دیا ہے فیس بک کا لنک یہ ہے
ان شاءاللہ محدث فارم پر آج ڈال دوں گا...


محمد شیخ کے مریم علیہ السلام پر لگائے گئے بدترین الزام کا قافی و شافی جواب


مکمل تفصیلی ویڈیو دیکھنے کے لیے لنک پر کلک کریں
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1888432574518212&id=1105398876154923

ایچ ڑی ویڈیو دیکھنے کے لیے لنک پر کلک کریں


Sent from my RNE-L21 using Tapatalk
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
إِذْ قَالَتِ امْرَأَةُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (35) فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنْثَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثَى وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ (36)
[3:35]
(Remember) when =Imran‘s wife said: .O my Lord, I have vowed that what is in my womb will be devoted exclusively for You. So, accept (it) from me. You, certainly You, are the All-Hearing, the All-Knowing..
[3:36]
So, when she delivered her, she said: .O my Lord, I have delivered her, a female child..__And Allah knew better what she had delivered, and the male was not like the female ___. I have named her Maryam, and I place her and her progeny under Your shelter against Satan, the rejected..​
ان آیات میں اہم نکات یہ ہیں۔
نذر ماننا کہ پیدا ہونے والے کو اللہ کی راہ میں دیا جائے گا۔
لڑکی ہوئی تو نذر کے معاملہ میں پریشانی ہوئی۔
جب کہا گیا کہ یا اللہ یہ تو لڑکی ہے تو جواباً کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ کیا پیدا ہؤا اور یہ بھی معلوم ہے کہ لڑکی لڑکے کی مانند نذر کے لئے موزوں نہیں۔
اسی وجہ سے کہا کہ اے اللہ شیطان کے فتن سے اس کو تو ہی بچانا۔
 
Top