• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اچھا انسان کون ہے؟

شمولیت
اگست 28، 2019
پیغامات
49
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
35
بسم اللہ الرحمن الرحیم

اچھا انسان کون ہے؟​



ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی​


الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم،امابعد:

برادران اسلام!

یہ دورمال ودولت کے حرص وہوس کا دور ہے اورآج کے دور میں جس انسان کے پاس جتنی زیادہ مال ودولت ہے وہ انسان اتنا ہی زیادہ اچھا اوربہترانسان سمجھاجاتاہے،کسی انسان کے اندرہزاروں خرابیاں وبرائیاں ہی کیوں نہ ہومگریہ مال ودولت اس کے تمام برائیوں اورخرابیوں پر پردہ ڈال دیتی ہےکسی نے کیا ہی خوب کہا ہے:

جن کے آنگن میں امیری کا شجر لگتا ہے

ان کا ہرعیب زمانے کو ہنر لگتا ہے​

اورآج ہماری حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ اگر کوئی اچھے کپڑے پہن کر ہمیں نظر آجاتا ہے تو ہم اسے اچھا انسان سمجھتے ہیں،کسی کے پاس اگر مہنگی گاڑیاں ہیں تو ہم اسے اچھا انسان سمجھتے ہیں اوراگر کسی کے پاس عمدہ سے عمدہ مکان ہے تو ہم اسے اچھا اور خوش نصیب انسان سمجھتے ہیں،کوئی بڑے خاندان کا ہے تو ہم اسے اچھا اور خوش نصیب انسان سمجھتے ہیں،کوئی اگر اچھی کمائی کررہا ہے تو ہم اسے اچھا انسان سمجھتے ہیں،کسی کی اگر بڑی تجارت ہے یا پھر وہ کسی کمپنی کا مالک ہے تو ہم اسے اچھا اور خوش نصیب انسان سمجھتے ہیں اسی طرح سےکوئی اگر اچھے پوسٹ پر براجمان ہے تو ہم اسے اچھا انسان سمجھتے ہیں الغرض لوگوں کو اچھا سمجھنے اور براسمجھنے کے لئےہمارے پاس طرح طرح کے نقطۂ نظر اور زاوئے ہیں مگریہ سب صرف ہماری خام خیالی اور شیطانی دھوکہ ہے،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی میں اچھے لوگوں کی وہی پہچان و علامت ہے جو ہم سمجھتے ہیں یا پھر معاملہ کچھ اور ہےتو دیکھئے میرے دوستو!اچھا اور خوش نصیب انسان وہ نہیں جسے ہم اچھا سمجھے،برا انسان وہ نہیں جسے ہم برا سمجھے بلکہ اچھا انسان وہ ہے جسے اللہ نے اچھا کہا ہواور برا انسان وہ ہے جسے رب العالمین نے برا کہا ہے،اچھا انسان وہ ہے جسے حبیب کائناتﷺ نے اچھا کہا ہو اور برا انسان وہ ہے جسے آپﷺ نے براکہا ہے!کسی ایرے غیرےنتھو خیرے کے کہنے سے نہ تو کوئی انسان براہوسکتا ہے اور نہ ہی اچھا انسان کہلاسکتا ہےکیونکہ انسان کی رائے وفیصلے اپنی مفاد کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں ہرانسان اس انسان کو اچھا انسان کہتا ہے جس سے اس کا فائدہ جڑا ہوا ہو اور ہر انسان اس انسان کو برا انسان سمجھتا ہے جو اسے پسند نہ ہویا پھر اس سے اس کو کوئی فائدہ نہ مل پاتا ہو،اسی لئے انسان کے فیصلے ورائے کا کوئی اعتبار نہیں اس میں سچ وجھوٹ دونوں کا امکان ہیں مگر جسےاللہ اور اس کے رسولﷺ اچھا یا پھر براکہہ دے تو پھراس کے اچھایا پھر برا ہونے میں کوئی شک وشبہ ہی نہیں ہےتو آئیے اب ہم ان باتوں کو جانتے ہیں جس کو اپنانےاور اختیار کرنے والوں کواللہ اور اس کے رسولﷺ نے اچھا کہا ہے:-

1۔ اچھا انسان وہ ہے جو داعی باعمل ہو:

میرے دوستو!قرآن ہمیں یہ باخبر کررہاہے کہ وہ انسان سب سے اچھا انسان ہے جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتا ہو اور برائیوں سے روکتا ہو اور ساتھ میں وہ انسان خود بھی اس پر عمل پیراہو جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے:’’ وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ‘‘ اور اس شخص سے زیادہ اچھا کون ہوسکتاہے جو اللہ کی طرف بلائے اور خود بھی نیک عمل کرے اور کہے کہ میں تومطیع وفرمانبردار مسلمان ہوں ۔(فصلت:33)آج دیکھا یہ جارہاہے کہ ہرکوئی داعی بنا بیٹھا ہےمگر وہ خود عمل میں زیرو ہے،کتنے ایسے لوگ ہیں جوفجر کی نماز تک نہیں پڑھتے اورصبح ہوتے ہی سوشل میڈیا پردھمال مچانے آجاتے ہیں اور پھردھڑادھڑ دینی پوسٹ کو شیئر کرنا شروع کردیتے ہیں گویا کہ ہر کس وناکس اور تمام مبلغین ومصلحین کا یہی کہنا ہے کہ بھائی تم سب صالح ونیک بن جاؤ مگر مجھے اپنی روش پر قائم رہنے دو،یہ دین اور اس دین کے تمام احکام تمہارے لئے ہے میرے لئے نہیں ہے،یاد رکھ لیجئے قرآن ایسے لوگوں کو کم عقل اور بیوقوف کہہ رہاہے جو دوسروں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہیں مگر خود عمل نہیں کرتے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے:’’ أَتَأمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ‘‘ کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو؟ اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم کتاب پڑھتے ہو،کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں ہے۔(البقرۃ:44)صرف یہی نہیں کہ بے عمل داعی کو قرآن بیوقوف کہہ رہا ہے بلکہ قرآن یہ گواہی دے رہا ہے کہ ایسے لوگ اللہ کے نزدیک بہت ہی زیادہ قابل نفرت ہیں جو دوسروں کو تو دین کی دعوت دیتے ہیں مگر وہ خود عمل نہیں کرتےجیسا کہ فرمان باری تعالی ہے:’’ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ، كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ ‘‘ كه اے ایمان والو!تم وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں،تم جو کرتے نہیں اس کا کہنا اللہ تعالی کو سخت ناپسند ہے۔(الصف:2-3)

2۔ با عمل مومن سب سے اچھا انسان ہے:

پورے قرآن مجید کے اندر جگہ جگہ پر رب العزت نے پورے شد ومد کے ساتھ اس بات کاتذکرہ کیا ہے کہ ایمان کے ساتھ عمل صالح کا ہونا ضروری ہے،جنت کی بشارت کا تذکرہ ہو یا پھر جہنم سے آزادی کا تذکرہ ہو،رب کی رحمت وعنایات کا تذکرہ ہو یاپھررب کی مغفرت واجرعظیم کا وعدہ ہو ہرجگہ پر آپ کو یہی بات ملے گی کہ ’’ اَلَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ‘‘ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کو انجام دئے ان کے لئے ہی یہ سب کچھ ہے،مگر ہائے افسوس ہم مسلمانوں کی کم عقلی وبیوقوفی کہ ہم شیطان کے دھوکے اور بہکاوے میں آگئے اور ہم نے یہ سمجھ لیا کہ بس کلمہ پڑھ لینا ہی کافی ہے گرچہ ساری زندگی شرک وکفر،بدعات وخرافات اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب میں گذرتی رہےکوئی بات نہیں!کوئی حرج نہیں!یہ شیطان کا ایک ایسا مکروفریب ہے جس کے جال میں مسلمانوں کی اکثریت پھنس چکی ہے ،خبردار!یادر رکھ لو!قرآن یہ کہہ رہا ہے کہ ایمان کے ساتھ ساتھ عمل صالح کا ہونا بھی ضروری ہےاورجولوگ ایمان کے ساتھ ساتھ عمل صالح کو انجام دیں گےتوایسے ہی لوگ کامیاب ہوں گے اور ایسے لوگ اس کائنات کے سب سے اعلی وافضل لوگ ہیں جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے: ’’ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ‘‘ بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے تو یہی وہ لوگ ہیں جو تمام مخلوق میں سب سے بہتر وافضل ہیں۔(البینۃ:7)پتہ یہ چلا کہ ایمان کے ساتھ عمل صالح سے ایک انسان کائنات کا سب سے افضل ومکرم انسان بن جاتا ہے اور اسی کے برعکس جو لوگ ایمان نہیں لائیں گے یا پھر ایمان تو لائیں گے مگر عمل صالح کو انجام نہیں دیں گے تو ایسے لوگ ہی خائب وخاسر ہوں گے۔

3۔ قرآن سیکھنے وسکھانے والےسب سے اچھے انسان ہیں:

قرآن ایک ایسی کتاب ہے کہ جو انسان بھی اس سے رشتہ جوڑے گا وہ انسان اس کائنات کا سب سےعظیم اور اچھا انسان کہلائے گاگرچہ دنیا والے اسے براسمجھے ،آج ہمارے سماج ومعاشرے میں عالم وحافظ کی کوئی قدر نہیں ہرکوئی ان کو گری نظر سے دیکھتا ہےاور اہل علم وحفاظ بھی اپنے آپ کو حقیروکمتر سمجھتے ہیں اور یہی وہ سب سے بڑی وجہ ہے جس کی وجہ سےاکثر وبیشتر لوگ اپنے اپنے بچوں کو عالم وحافظ بنانا نہیں چاہتے ہیں بلکہ کتنے ایسے لوگ بھی ہم نے دیکھے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اپنے بچوں کو میں بیلدار بنادوں گا،چپراسی بنادوں گا،ہوٹل میں کام پر لگادوں گا مگر عالم وحافظ کبھی نہیں بناؤں گا۔العیاذ باللہ۔آج سماج ومعاشرے کے اندرعالموں اور حافظوں کو گالیاں دی جاتی ہیں،ان سے نفرت کی جارہی ہیں مگرقوال ،ناچنے گانے اورسرین ہلانے والوں کو پھولوں کاہارپہنا یاجا تا ہے ، لوگ ان سےمحبت کا دم بھرتے ہیں،ان کو پھولوں کا ہارپہناتے ہیں،لاکھوں روپئے ان پر لٹاتے ہیں مگر اپنے محلے کے عالم وحافظ کو اچھی تنخواہ دینے اور لینے کے حقدار بھی نہیں سمجھتے!اب ذرا سوچئے جو قوم اپنے قوالوں اور گویوں پر لاکھوں روپئے خرچ کرتی ہو اور اپنے محلے کے امام وحافظ اورعالم کوغریب و حقیرسمجھتی ہواس قوم کی اصلاح کیسے ہوسکتی ہےاور ایسے سماج ومعاشرے کا بھلا کیسے ہوسکتاہے،الغرض اہل دنیا عالموں وحافظوں کو لاکھ براسمجھے مگر وہ برے نہیں ہوسکتے کیونکہ اس طبقے کو اس ذات نے اچھا کہا ہے جس کےصادق ومصدوق ہونے پر یہ ساری کائنات گواہ ہےفرمان مصطفیﷺ ہے :’’ خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وَعَلَّمَهُ ‘‘ کہ پورے سماج ومعاشرے میں تم میں سے سب سے اچھا انسان وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ (بخاری:5027)دیکھا اور سنا آپ نے کہ حبیب کائناتﷺقرآن پڑھنے اورپڑھانے والوں کواچھاانسان کہہ رہے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ انگریزی تعلیم پڑھنے اور پڑھانے والوں کو اچھا انسان کہتے او راچھا انسان سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہم مسلمانوں کے بچے اور بچیاں صرف اور صرف 5 فیصد ہی مکتب ومدرسہ میں قرآنی تعلیم حاصل کرتے ہیں باقی 95 فیصد انگریزی تعلیم حاصل کرتے ہیں،اب آپ اس بات سے یہ نہ سمجھ لیں کہ میں انگریزی تعلیم کے خلاف ہوں ہرگز نہیں،بس میں یہ بتانا چاہتاہوں کہ ہمارے رسولﷺ نے جس کو اچھا کہاتھا اس کو آج ہم سب براسمجھ رہے ہیں اور جس کی آخرت میں کچھ وقعت نہیں اور آخرت میں کام آنے والی بھی نہیں ہے اس کو ہم مسلمان اچھا سمجھتے ہیں یہ ہماری کم عقلی اور بیوقوفی کی دلیل نہیں توپھر اور کیا ہے!اگرآپ صحیح معنوں میں عقلمند ہیں تو پھر اپنا رشتہ رب کے کلام سے جوڑئے دنیا وآخرت کے سب سے اچھے انسانوں میں آپ شامل ہوجائیں گے۔

4۔وہ شخص اچھا انسان ہے جسے لمبی عمرملےاوروہ نیک اعمال بجالاتا ہو:

بہتر اور اچھا انسان وہ ہے جس کو لمبی عمر ملے اور ساتھ میں وہ انسان نیک اعمال کو انجام دیتا ہو،ہم اورآپ لمبی عمر کی خواہش بہت رکھتے ہیں اورہرکوئی اس دنیا میں کم سے کم سو سال کی زندگی چاہتا ہے مگر میرے دوستو آپ یہ بات یاد رکھ لیں کہ کسی کوصرف لمبی عمرمل جائے تویہ خوش نصیبی اور خوش بختی کی بات نہیں ہے اور نہ ہی اچھے انسان کی پہچان ہے بلکہ خوش نصیبی اور خوش بختی کی بات اور اچھے انسان کی پہچان تو یہ ہے کہ انسان کو لمبی عمر ملے اور وہ نیکیوں کو خوب خوب انجام دے جیسا کہ ابو بکَرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی آپﷺ کے پاس آیا اور سوال کیا کہ اے اللہ کہ نبیﷺ ’’ أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ ‘‘ لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ مَنْ طَالَ عُمْرُهُ وَحَسُنَ عَمَلُهُ ‘‘ جس کی عمر لمبی ہو اور وہ انسان نیک اعمال بھی بجالاتا ہو ،پھر اس نے سوال کیا کہ اے اللہ کے نبی اکرم ومکرمﷺ آپ یہ بھی بتادیں کہ ’’ فَأَيُّ النَّاسِ شَرٌّ ‘‘ لوگوں میں سب سے برا کون ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ’’ مَنْ طَالَ عُمْرُهُ وَسَاءَ عَمَلُهُ ‘‘ جس کی عمر تولمبی ہومگر وہ برے اعمال کرتا ہو۔ (احمد:20443،ترمذی:2330،صححہ الالبانیؒ)ایک دوسری روایت کے اندرہےحضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:’’ خَيْرُكُمْ أَطْوَلُكُمْ أَعْمَارًا وَأَحْسَنُكُمْ أَعْمَالًا ‘‘ کہ تم میں بہتر وہ انسان ہے جس کی عمرلمبی ہو اور ساتھ میں وہ انسان نیک اعمال کو بھی انجام دینے والا ہو۔(الصحیحۃ:1298،مصنف ابن ابی شیبۃ:34422)اسی طرح سے ایک دوسری روایت کے اندر ہے آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِخِيَارِكُمْ خِيَارُكُمْ أَطْوَلُكُمْ أَعْمَاراً إِذَا سَدَّدُوْا ‘‘ کیا میں تمہیں تمہارے بہترین لوگوں کے بارے میں نہ بتادوں؟ توسنو تم میں سے سب سے بہتراوراچھے وہ لوگ ہیں جن کی عمریں لمبی ہوں بشرطیکہ وہ دین اسلام کے سیدھے راستے پرچلتے رہیں۔(الصحیحہ:2498)

5۔صاف ستھرا دل وزبان رکھنے والا انسان اچھا آدمی ہے :

آج سماج ومعاشرے کے اندر سب سے زیادہ جو چیزعام ہے وہ جھوٹ ہے ،لوگ جھوٹ بولنے میں ذرہ بھر بھی اللہ کا ڈر وخوف نہیں رکھتے ،بہت سارے لوگوں کو دیکھا یہ گیا ہے کہ مسجد ومدرسے کے نام پر مسجد میں کھڑے ہوکراللہ کی قسم کھا کرجھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹ بول کر چندہ کرتے ہیں،اسی طرح سے آج لوگوں کے دلوں میں حسد وجلن بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہےاگر کوئی اچھا کمانے لگے یا پھر اس کی تجارت اچھی چلنے لگے تو پھر دیکھئے کہ سارے کے سارے محلے والے اور سارے کے سارے رشتے دار اس سے حسد کرنے لگ جاتے ہیں اور یہ آرزو وتمنا کرنے لگ جاتے ہیں کہ وہ انسان ہلاک وبرباد ہوجائے جب کہ بہتر اوراچھے انسانوں کی فہرست میں وہ انسان بھی ہے جو سچی زبان رکھتا ہواوراپنے دل میں کینہ کپٹ،بغض وعداوت،حسدوجلن نہ رکھتا ہوجیسا کہ عبدالله بن عمروبن عاص ؓبیان کرتے ہیں کہ آپﷺ سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے نبیﷺ ’’ أَيُّ النَّاسِ أَفْضَلُ ‘‘ لوگوں میں سب سے بہتر انسان کون ہے؟ تو آپﷺ نے جواب دیا کہ’’ كُلُّ مَخْمُومِ الْقَلْبِ صَدُوقِ اللِّسَانِ ‘‘ ہر وہ انسان اچھا انسان ہے جو مخموم القلب ہو اور سچی زبان والا ہو،صحابۂ کرام نے کہا ’’ صَدُوقُ اللِّسَانِ نَعْرِفُهُ فَمَا مَخْمُومُ الْقَلْبِ ‘‘ کہ اے اللہ کے نبیﷺ سچی زبان کا معنی ومفہوم تو ہم سمجھ رہے ہیں مگر یہ مخموم القلب کیا چیز ہے ؟توآپﷺ نے فرمایا کہ ’’ هُوَ التَّقِيُّ النَّقِيُّ لَا إِثْمَ فِيهِ وَلَا بَغْيَ وَلَا غِلَّ وَلَا حَسَدَ ‘‘ مخموم القلب والا انسان وہ انسان ہوتا ہے جس کے دل میں اللہ کا ڈر ہو،جس کا دل پاک وصاف ہو،جس کے دل میں کوئی گناہ و ظلم نہ ہواور جس کے دل میں خیانت نہ ہو اور نہ ہی حسد وجلن ہو۔ (ابن ماجہ:4216،الصحیحۃ:948)

6۔قرض کی ادائیگی کرنے والا انسان اچھا آدمی ہے:

قرض ایک ایسی چیز ہے جو ایک انسان کو ذلیل ورسوا کردیتی ہے،اسی قرض کی وجہ سے بہت سارے لوگ خودکشی بھی کرلیتے ہیں ،یہ قرض ہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے ہنستے وآباد گھرانیں ویران وبرباد ہوجاتی ہیں اور قرض کی سب بڑی خطرناکی تو یہ ہے کہ مقروض انسان کی مغفرت بھی نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی مقروض انسان پہلے پہل جنت میں جائے گا،قرض کی انہیں سب خطرناکیوں سے اپنی امت کوڈرانے کے لئے حبیب کائناتﷺ مقروض کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھاتے تھے ،قرض کی خطرناکی کا اندازہ اگر آپ کو لگانی ہوتو آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ آپﷺ کی کوئی ایسی نماز نہ ہوتی تھی جس کے اندر یہ نہ کہتے ہوں کہ ’’ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ المَأْثَمِ وَالمَغْرَمِ ‘‘ اے اللہ تو مجھے گناہوں سے اور قرض کے بوجھ سے بچالے،کسی نے آپ سے پوچھا کہ اے اللہ کے نبیٔ اکرم ومکرمﷺ آپ قرض سے اتنی زیادہ پناہ کیوں مانگتے ہیں ؟تو آپﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی مقروض ہوجاتا ہے تووہ انسان جھوٹ بھی بہت بولتا ہے اور وعدہ خلافی بھی بہت کرتا ہے۔(بخاری:832)یقینا جیسا آپﷺ نے کہا ہے مقروض ویسا ہی ہوجاتاہے،قرض تو لے لیتا ہے مگر قرضے کو لوٹانے میں ٹال مٹول سے کام لیتا ہے،جھوٹ بولتاہے اور وعدہ خلافی بھی کرتاہے اسی لئے میرے دوستو! جہاں تک ہوسکے آپ قرض لینےسے بچاکریں کیونکہ قرض لینا توبہت آسان ہےمگرقرض لوٹانا بہت مشکل ہوتا ہےاور اگر کبھی خدانخواستہ قرض لینے کی نوبت آبھی جائے تو پہلی فرصت میں آپ قرض لوٹادیں کیونکہ قرض کی ادائیگی کرنے والا انسان سب سے اچھا وبہتر انسان ہوتا ہے جیسا کہ سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ پر ایک شخص کا ایک خاص عمر کا اونٹ قرض تھاتو جب وہ اپنے قرض کا تقاضا کرنے آیا تو اس نے اول فول بکنا شروع کردیا اور طرح طرح کی باتیں کرنے لگا،یہ سن کرصحابۂ کرام غصہ میں آگئے اور اس کو سبق سکھانے کے ارادے سے آگےبڑھے کہ رحمت دوعالمﷺ نے کہا کہ ’’ دَعُوهُ فَإِنَّ لِصَاحِبِ الحَقِّ مَقَالًا ‘‘ اسے چھوڑ دوکیونکہ جس کا کسی پر حق ہوتو وہ کہننے سننے کا بھی حق رکھتا ہے،پھرآپﷺ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ اس کے قرض والے جانور کی عمر کا ایک جانور اسے دے دو،صحابۂ کرام نے آپﷺ کے قرض کو لوٹانے کے لئے اسی عمر کا اونٹ تلاش کیا مگر تلاش بسیار کے باوجود اتنی عمر کا اونٹ نہ مل سکا لیکن اس سے زیادہ عمر کا ایک اونٹ مل گیا توآپﷺ نے صحابۂ کرام سے کہا کہ وہی زیادہ عمر والا اونٹ خرید لو اور اسے دے دو ، یہ سن کر اس انسان نے کہا کہ آپ نے مجھے پورا پورا حق دے دیا اللہ تعالی آپ کو بھی پورا پورا بدلہ دے، چنانچہ اسی موقع سے آپﷺ نے فرمایا کہ’’ إِنَّ خِيَارَكُمْ أَحْسَنُكُمْ قَضَاءً ‘‘ تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض وغیرہ کو پوری طرح ادا کردیتے ہیں۔ (بخاری:2305،2306 (

7۔اچھاانسان وہ ہے جس سے بھلائی کی امید ہو:

ایسا انسان بزبانِ رسالتِ مآبﷺ قابل تعریف اور اچھا انسان ہے جس سے لوگ بھلائی کی امید رکھتے ہوں اور اس کے شرسے لوگوں کو خطرہ بھی نہ ہوجیسا کہ سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپﷺ بیٹھے ہوئے لوگوں کے پاس ٹھہرے تو آپ نے فرمایا کہ ’’ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِكُمْ مِنْ شَرِّكُمْ ‘‘ کیا میں بروں میں سے اچھے لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟راویٔ حدیث کہتے ہیں کہ لوگ خاموش ہوگئے پھر بھی آپﷺ نے تین مرتبہ یہی بات کہی تو ایک آدمی نے کہا کہ کیوں نہیں اے اللہ کے نبیﷺ آپ ہمیں ہمارے اچھے اور برے کے بارے میں بتادیجئے،توآپﷺ نے فرمایا کہ ’’ خَيْرُكُمْ مَنْ يُرْجَى خَيْرُهُ وَيُؤْمَنُ شَرُّهُ وَشَرُّكُمْ مَنْ لَا يُرْجَى خَيْرُهُ وَلَا يُؤْمَنُ شَرُّهُ ‘‘ تم میں سے بہتر اور اچھا انسان وہ انسان ہے جس سے بھلائی کی امید کی جائے اور اس کے شر کا ڈر بھی نہ ہو اور تم میں بدترین وہ آدمی ہے جس سے بھلائی کی امید نہ کی جائے اور اس کے شر کا ڈر بھی لگا رہتا ہو۔ (ترمذی:2263،احمد:8812،صحیح الجامع للألبانیؒ:2603)

8۔ وہ انسان اچھا ہے جو اپنے گھروالوں کے لئے اچھا ہو:

برادران اسلام! اچھے انسانوں کی فہرست میں وہ انسان بھی ہے جو اپنے بیوی و بچوں اور اپنے گھرکی خواتین کے لئے اچھا ہومگر افسوس آج دورتو ایسا ہے کہ لوگ اپنے بیوی بچوں کے لئے ظالم اوردوسروں کے لئے مہربان ونرم دل بنے رہتے ہیں اورکتنے ایسے لوگ ہیں جو اپنے بیوی کو ستاتے ہیں ،مارتے اورپیٹتے ہیں،بات بات میں ان کو گالیاں اورطعنے دیتے ہیں ،ایسے لوگوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جولوگ بھی اس طرح کی حرکت کرتے ہیں ان کو حبیب خداﷺ نے بہت برے لوگوں میں شمارکردیا ہے جیسا کہ ابن ماجہ کے اندر یہ صحیح حدیث موجود ہے کہ تقریبا 70/ سترعورتوں نے آپﷺ کے پاس آکر یہ شکایت کی کہ ان کے شوہر ان کو بہت مارتے اور پیٹتے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ فَلَا تَجِدُوْنَ أُلٰئِکَ خِیَارَکُمْ ‘‘ اے لوگوں سن لو! یہ مارنے والے لوگ اچھے نہیں ہیں۔(ابن ماجہ:1985،ابوداؤد:2146) اسی طرح سےآج سماج ومعاشرے کے اندر یہ بھی دیکھا جارہاہے کہ کتنے ایسے لوگ ہیں جو اپنے بیوی بچوں جس کے نان ونفقہ کے وہ ذمہ دار ہیں ان کے اوپرتنگدستی اورتنگ دلی سے خرچ کرتے ہیں اور باہر دوستوں ویاروں کے ساتھ خوشدلی سے گل چھڑے اڑاتے ہیں،ایسے لوگوں کو بزبان رسالت یہ بات یادرکھنی چاہئے کہ حقیقی معنوں میں وہ لوگ اچھے اوربہترانسان کہلانے کے مستحق نہیں ہیں جو باہر اچھے ہیں بلکہ اچھے اور بہترانسان تو وہ ہے جو اپنے بیوی بچوں اوراپنے گھر کی خواتین کے ساتھ اچھائی کے ساتھ بودوباش اختیار کرتاہوجیسا کہ ابن عباسؓ سے راویت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا’’ خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي ‘‘ کہ تم میں بہترین آدمی وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کے لئے بہتراوراچھا ہو اورمیں اپنے اہل وعیال کے لئے سب سے بہتر ہوں۔(ابن ماجہ:1977،الصحیحۃ:285،صحیح ابن حبان:4186،ترمذی:3895)اسی طرح سے ایک دوسری راویت جس کے راوی عبداللہ بن عمروؓ ہیں بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ خِيَارُكُمْ خِيَارُكُمْ لِنِسَائِهِمْ ‘‘ کہ تم میں بہترین وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے لئے بہتر واچھے ہیں۔(ابن ماجہ:1978،الصحیحۃ:285)

9۔ ایسی عورتیں اچھی ہیں جواپنے شوہرکی مطیع وفرمانبردار ہوں:

اچھے اوربہترلوگوں کی فہرست میں صرف مرد حضرات ہی نہیں ہیں بلکہ اللہ کی وہ بندیاں بھی اچھی اوربہترہیں جو اپنے شوہر کو خوش کرنے والی ہوں اوراپنے شوہرکی مخالفت نہ کرتی ہو اوراپنے شوہر کی عزت ومال کی حفاظت کرتی ہوجیسا کہ سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ تاجدارمدینہ واحمد مجتبیﷺ سے سوال ہوا کہ ’’ أَيُّ النِّسَاءِ خَيْرٌ ‘‘ کون سی عورتیں اچھی اوربہتر ہیں؟ تو آپﷺ نے جواب دیا کہ ’’ الَّتِي تَسُرُّهُ إِذَا نَظَرَ وَتُطِيعُهُ إِذَا أَمَرَ وَلَا تُخَالِفُهُ فِي نَفْسِهَا وَمَالِهَا بِمَا يَكْرَهُ ‘‘ وہ عورت بہترین عورت ہے جس کا شوہر اس کی طرف دیکھے تو وہ اسے خوش کردے،جب کسی بات کا حکم دے تو اس کی اطاعت کرےاورعورت کی جان ومال کے معاملے میں شوہرجس چیز کو ناپسند کرتاہو اس میں عورت اس کی مخالفت نہ کرے۔ (الصحیحۃ:1838، نسائی:3231،احمد:7421) اسی طرح سے عبداللہ بن سلامؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:’’ خَيْرُ النِّسَاءِ تَسُرُّكَ إِذَا أَبْصَرْتَ وَتُطِيعُكَ إِذَا أَمَرْتَ وَتَحْفَظُ غَيْبَتَكَ فِي نَفْسِهَا وَمَالِكَ ‘‘ بہترین عورت وہ ہے جو اپنے شوہرکو خوش رکھے اوراس کی اطاعت کرے اوربہترین عورت وہ ہے جو اپنے شوہرکے پیٹھ پیچھے اپنی عزت اوراپنے شوہرکے مال کی حفاظت کرے۔(صحیح الجامع للألبانیؒ:3299،الصحیحۃ:1838،طبرانی:386)اسی طرح سے بہترین عورتوں کی صفات کو بیان کرتے ہوئے حبیب کائناتﷺ نے فرمایا:’’ خَيْرُ نِسَائِكُمُ الْوَدُودُ الْوَلُودُ الْمُوَاتِيَةُ الْمُوَاسِيَةُ إِذَا اتَّقَيْنَ اللهَ وَشَرُّ نِسَائِكُمُ الْمُتَبَرِّجَاتُ الْمُتَخَيِلَّاتُ وَهُنَّ الْمُنَافِقَاتُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْهُنَّ إِلَّا مِثْلُ الْغُرَابِ الْأَعْصَمِ ‘‘ تمہاری بہترین بیویاں وہ عورتیں ہیں جو محبت کرنے والی،زیادہ بچے جننے والی،خوشی وغم میں ساتھ نبھانے والی اور ہمدردی جتانے والی ہوں بشرطیکہ ایسی عورتیں اللہ سے ڈرنے والی ہوں اوربری عورتیں وہ ہیں جو دوسروں کے لئے سجنے وسنورنے اورزیب وزینت اختیارکرنے والی اوراکڑکرمٹک مٹک کراتراتے ہوئے چلنے والی ہوں،ایسی عورتیں تو منافق ہیں،ان میں سے اکثر عورتیں جنت میں داخل نہیں ہوں گی ٹھیک ویسے ہی جیسے کہ لال چونچ اورلال پنجے والے کوئے بہت کم پائے جاتے ہیں یعنی کہ جس طرح سے کوؤں میں لال چونچ اورلال پنجے والے کوئے بالکل ہی کم تعداد میں پائے جاتے ہیں اسی طرح سے کم تعداد میں اس طرح کی عورتیں جنت میں جائیں گیں۔اعاذناللہ۔۔ (الصحیحۃ:1849)

10۔طاقتورمومن اچھا ہے کمزور مومن سے:

جسمانی طاقت وقوت اللہ کی عطاکردہ نعمتوں میں سےایک ایسی نعمت ہے جس کے سامنے میں دنیا کی ساری مال ودولت ہیچ ہے کیونکہ انسان مال ودولت سے سب کچھ توخرید سکتاہے مگر جسمانی طاقت وقوت کبھی بھی خرید نہیں سکتاہےیہی وجہ ہے کہ آپﷺ نے اپنی امت کو اس بات کی تعلیم دی کہ تم اللہ سے دنیا وآخرت میں عافیت کا سوال کرتے رہا کرو كيونكه عافيت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ،فرمایا’’ وَسَلُوا اللَّهَ الْمُعَافَاةَ فَإِنَّهُ لَمْ يُؤْتَ أَحَدٌ بَعْدَ الْيَقِينِ خَيْرًا مِنَ الْمُعَافَاةِ ‘‘ کہ تم اللہ تعالی سے عافیت مانگا کرو کیونکہ کسی کو ایمان کے بعد عافیت سے بڑھ کوئی چیز نہیں مل سکتی۔(ابن ماجہ:3849صححہ الألبانیؒ)صحت وتندرستی کی کیا اہمیت ہے اگر آپ کو اس بات کا اندازہ لگانا ہوتو آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ خود آپﷺ ہردن صبح وشام تین تین مرتبہ صحت وتندرستی کی دعا مانگاکرتے تھے کہ ’’ اللَّهُمَّ عَافِنِي فِي بَدَنِي اللَّهُمَّ عَافِنِي فِي سَمْعِي اللَّهُمَّ عَافِنِي فِي بَصَرِي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ ‘‘اے اللہ!تومیرے بدن میں ،میرے کانوں میں اورمیرے آنکھوں میں عافیت عطافرما ،تیرے سواتو کوئی معبود برحق نہیں۔( صحیح ابوداؤد للألبانیؒ:4245،ابوداؤد:5090)اسی طرح سے حبیب کائناتﷺ نے صحت وتندرستی کو مرض وبیماریوں کے آنے سے پہلے پہلے غنیمت سمجھنے کا بھی حکم دیا کہ ایام صحت وتندرستی کو تم بیماری سے پہلے غنیمت سمجھو اورجانو۔(صحیح الجامع للألبانیؒ:1077)کیونکہ مرض وبیماری کی وجہ سے جہاں ایک طرف انسان جسمانی کمزوری کا شکارہوجاتا ہے وہیں پردوسری طرف ایساانسان عبادت وریاضت میں بھی سست پڑجاتا ہےاوربسا اوقات ایسا انسان اپنی آخرت کوبھی تباہ وبرباد کرلیتا ہے اسی لئے محبوب خداﷺ نے یہ فرمایا کہ طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر ہے جیسا کہ سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ اَلْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ ‘‘ طاقتورمومن اللہ تعالی کے نزدیک کمزورمومن سے بہت بہتر وافضل اورزیادہ پسندیدہ ومحبوب ہے ویسے ہرمومن میں خیرہوتاہے۔ (مسلم:2664،احمد:8829)

11۔ لوگوں سے ملنے جلنے والا مومن اچھا ہے:

سماج ومعاشرے کے اندر لوگوں سے مل جل کررہنا،لوگوں کے دکھ سکھ،خوشی وغم میں شریک ہونا،لوگوں کو نیکی کا حکم دینا اوربرائی سے روکنا اورپھرلوگوں کے تکلیف دہ رویوں پر صبرکرنایہ ایک اچھے مومن اورایک اچھے مسلمان ہونے کی پہچان وعلامت ہے جیسا کہ ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ محبوب خداﷺ نے فرمایا’’ الْمُؤْمِنُ الَّذِي يُخَالِطُ النَّاسَ وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ خَيْرٌ مِنَ الَّذِي لَا يُخَالِطُ النَّاسَ، وَلَا يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ ‘‘ جو مومن یا مسلمان الگ تھلگ رہنے کے بجائے لوگوں کے ساتھ میل جول رکھتاہے اوران کی طرف سے دی جانے والی تکلیفوں پر صبرکرتاہے اس مومن اوراس مسلمان سے کہیں بہتراوراچھا وافضل ہے(زیادہ اجروثواب والا ہے) جو نہ تو لوگوں کے ساتھ مل جل کررہتاہے اورنہ ہی ان کی طرف سے دی جانے والی تکلیفوں پرصبرکرتا ہے۔(الصحیحۃ:939،ابن ماجہ:4032،ترمذی:2507)

12۔ کسی کو تکلیف نہ دینے والامسلمان اچھا انسان ہے:

مذہب اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ مذہب اسلام اپنے ماننے والوں کو خاص طور پر اس بات کا پابند کرتا ہے کہ تم کسی کو تکلیف وایذا نہ دواور نہ ہی تم کسی کے لئےدکھ ودرد پہنچنے کا سبب بنواورکامل مسلمان کی پہچان بھی یہی ہے کہ وہ اپنے زبان وہاتھ سے کسی کو تکلیف نہ دے جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے’’ اَلمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ ‘‘ کہ کامل مسلمان وہ ہے جس کےہاتھوں اور زبان سےدوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔(بخاری:10،مسلم:41)میرے دوستو!جس طرح سے کامل مسلمان کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں اوراپنے زبان سے کسی کو تکلیف نہ دے اسی طرح سے بہترین اوراچھے مسلمان کی پہچان وعلامت بھی یہ ہے کہ وہ اپنے زبان وہاتھ سے کسی کو تکلیف وایذا نہ دے جیساکہ عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ کسی شخص نے آپﷺ سے یہ سوال کیا کہ اے اللہ کے نبیﷺ ’’ أَيُّ الْمُسْلِمِينَ خَيْرٌ ‘‘ کونسا مسلمان اچھا مسلمان کہلائے جانے کا مستحق رکھتا ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ ‘‘ وہ مسلمان اچھا مسلمان ہے جس کے ہاتھ اورزبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔(صحیح الجامع للألبانی:3286،صحیح ابن حبان:400)

13۔ دوسروں کو فائدہ پہنچانے والا اچھا انسان ہے:

میرے دوستو!جہاں ایک طرف مذہب اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ تم کسی کو تکلیف وایذا نہ دو وہیں پر دوسری طرف مذہب اسلام کی یہ بھی ایک اعلی تعلیم ہے کہ تم دوسروں کو فائدہ پہنچانے والے بنو،افسوس کہ آج مسلمانوں نے اپنے مذہب کی ان پاکیزہ تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہےاورزیادہ ترلوگ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے فراق وچکر میں رہتے ہیں اور ہرکوئی جانوروں کی طرح صرف اور صرف اپنے مفاد کی سوچتااوراپنے مفاد کی بات کرتاہے جب کہ حبیب کائناتﷺ نے دوسروں کو فائدہ پہنچانے کو اللہ کے نزدیک محبوب اعمال میں سے قراردیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ أَحَبُّ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ ‘‘ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ آدمی وہ ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچاتا ہو۔(الصحیحۃ:906) دوسروں کوفائدہ پہنچاناجہاں ایک طرف اللہ کے نزدیک محبوب اعمال میں سے ہے وہیں پر دوسری طرف یہ ایک ایسا عمل ہے جس کو اختیار کرنے والاسب سےاچھا اوربہترانسان ہے جیسا کہ جابرؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ سے سوال کیا گیا کہ ’’ مَنْ خَيْرُ النَّاسِ ‘‘ لوگوں میں سب سے اچھا کون ہے؟تو آپﷺ نے فرمایا کہ’’ خَيْرُ النَّاسِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ ‘‘ لوگوں میں سب سے اچھا اورسب سے بہتروہ لوگ ہیں جو لوگوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ (الصحیحۃ:426،صحیح الجامع للألبانیؒ:3289)

14۔ وہ انسان اچھا ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں:

میرے دوستو!اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نزدیک سب سے اچھا انسان وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں اور جس کے اخلاق اچھے ہوتے ہیں لوگ بھی ایسے لوگوں سے محبت کرتے ہیں اورایسے لوگوں کو پسند بھی کرتے ہیں،یہ اخلاق ایک ایسی چیز ہے جو ایک مسلمان کو کامل مومن بنادیتی ہے جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے ’’ أَكْمَلُ المُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا ‘‘ مومنوں میں سے کامل ایمان والا وہ ہے جو ان میں سے سب سے زیادہ اچھے اخلاق والا ہو۔(ترمذی:1162صححہ الألبانیؒ)اخلاق حسنہ کو اپنانے سے جہاں ایک طرف ایک انسان کامل مومن بن جاتا ہے وہیں پر دوسری طرف اخلاق حسنہ کا ایک عظیم فائدہ یہ بھی ہے کہ اخلاق حسنہ سے متصف انسان لوگوں میں سے سے بہتراوراچھا انسان ہے جیسا کہ ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ سے یہ سوال کیا گیا کہ ’’ أَیُّ النَّاسِ خَیْرٌ ‘‘کون لوگ اچھے ہیں؟تو آپﷺ نے فرمایا’’ أَحْسَنُهُمْ خُلُقاً ‘‘اچھا انسان وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔(الصحیحۃ:1837)اسی طرح سے ایک دوسری حدیث کے اندرآپﷺ نے فرمایا کہ ’’ إِنَّ خِيَارَكُمْ أَحَاسِنُكُمْ أَخْلاَقًا ‘‘ تم میں سب سے بہترین وہ لوگ ہیں جو اخلاق کے اعتبار سے بہت اچھے ہیں۔(بخاری:6035،مسلم:2321)اسی طرح سے ایک اورحدیث کے اندرمحبوب خداﷺ نے فرمایا کہ ’’ خَيْرُكُمْ إِسْلَامًا أَحَاسِنُكُمْ أَخْلَاقًا إِذَا فَقِهُوا ‘‘ تم میں سے اسلام کے اعتبارسے وہ لوگ اچھے اوربہترین لوگ ہیں جو اخلاق کے اچھے ہوں اوردین کی سمجھ بوجھ بھی رکھتے ہوں۔۔(الصحیحۃ:1846)

15۔وعده نبھانے والے اورپاکباز ی اختیارکرنے والے اچھےلوگ ہیں:

ہروقت پاک وصاف رہنا ایک مومن کی پہچان وعلامت اورآدھاایمان ہےجیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے کہ’’ أَلطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ ‘‘ طہارت ونظافت آدھاایمان ہے ۔(مسلم:231) ،قرآن مجید کے اندر بھی رب العزت نے کئی مقامات پر طہارت ونظافت کا ذکرکرتے ہوئے اس بات کا حکم دیا ہے کہ تم اپنے ظاہروباطن،جسم وکپڑوں کو پاک وصاف رکھوفرمان باری تعالی ہے’’ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ‘‘ اور تم اپنے کپڑوں کو پاک وصاف رکھو۔(المدثر:4) اوررب العالمین نے اپنے کلام میں اس بات کی بھی جانکاری دی ہے کہ جولوگ پاک وصاف رہتے ہیں ایسے لوگوں سے اللہ محبت بھی کرتا ہے فرمان باری تعالی ہے’’ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ ‘‘ اور الله تعالي پاکی اختیار کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔(التوبہ:108) مگر ہائے افسوس اسلام نے جس قدر پاک وصاف رہنے کی تلقین کی آج امت مسلمہ اسی قدر اس سے دور ہے،شہر کی ساری گلیاں وسڑک صاف ہوں گی تومسلم محلوں اورگلیوں کے اندرگندگیاں پائی جاتی ہیں اور اس گندگی پر کسی کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی ہے ،اسی طرح سے مومن کی پہچان وعدہ نبھانا اورمنافق کی پہچان اپنے وعدے سے مکرجانا ہے مگر آج اکثر وبیشتر لوگ وعدہ کرکے مکرجاتے ہیں اور یقینا اپنے وعدے سے مکرجانے والے لوگ کبھی بھی اچھے کہلائے جانے کے مستحق نہیں ہوسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ حبیب کائناتﷺ نے ان لوگوں کو بہترکہاہے جو وعدہ نبھاتے ہیں اورپاکبازی اختیاررکرتے ہیں،جیسا کہ ابوحمید ساعدیؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا’’ إِنَّ خَيْرَ عِبَادِ اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ الْمُوفُونَ الْمُطَيِّبُونَ ‘‘ کہ بے شک اس امت کے اندر بہترین وہ لوگ ہیں جو وعدہ پورا کرنے والے اورپاکبازی اختیارکرنے والے لوگ ہیں۔(الصحیحۃ:2848)

16۔ بکثرت توبہ کرنے والے لوگ اچھے وبہترلوگ ہیں:

دنیا کاہرانسان گناہوں کاپُتلاہےاور گناہ کاہوجانا یہ انسانی خاصہ ہے مگر اس گناہ پرنادم وپشیمان نہ ہوکرجری وبیباک ہوکرڈٹ جانا یہ ابلیسی صفت ہے،یہی وجہ ہے قرآن وحدیث میں بارباراس بات کی تاکیدکی گئی ہے کہ اے انسانو!تم سے ہروقت گناہوں کا صدورہوجانا ممکن ہے اسی لئے ہرآن وہرلمحہ توبہ واستغفارکو لازم پکڑواورجولوگ توبہ واستغفارکولازم پکڑتے ہیں ایسے لوگوں کو حبیب کائناتﷺ نے بہترین لوگ قراردیتے ہوئے ارشادفرمایا کہ ’’ كُلُّ بَنِي آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ ‘‘ ہرانسان گناہوں اورخطاؤں کاپُتلا ہے اوربہترین خطاکاروہ لوگ ہیں جو کثرت سے توبہ کرتے رہتے ہیں۔(ابن ماجہ:4251،اسنادہ :حسن)

17۔ غریبوں کو کھانا کھلانے والے لوگ اچھے لوگ ہیں:

18: سلام كا جواب دينے والے لوگ اچھے لوگ ہیں:

قرآن مجید کے اندر رب العزت نے نیک لوگوں کی پہچان یہ بیان کی کہ ’’ وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ‘‘ نیک لوگ وہ ہیں جو اللہ تعالی کی محبت میں غریبوں ومسکینوں،یتیموں اورقیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔(الدھر:8)غریبوں ومسکینوں کو کھانا کھلانا جہاں ایک طرف نیک لوگوں کی پہچان ہے وہیں پر دوسری طرف یہ اچھے لوگوں کی پہچان بھی ہے جیسا کہ حضرت صہیبؓ بیان کرتے ہیں کہ حبیب کائناتﷺ نے فرمایا’’ خِيَارُكُمْ مَنْ أَطْعَمَ الطَّعَامَ ‘‘ كه تم ميں سے بہترین اوراچھا آدمی وہ ہے جو کھانا کھلائے۔(الصحیحۃ:44)اسی طرح سےوہ لوگ بھی اچھے لوگ ہیں جو سلام کا جواب دیتے ہیں جیسا کہ ایک دوسری روایت کے اندر محبوب خداﷺ کا یہ فرمان ہے کہ ’’ خَيْرُكُمْ مَنْ أَطْعَمَ الطَّعَامَ وَرَدُّ السَّلَامَ ‘‘ تم میں سے بہترین اوراچھے لوگ وہ ہیں جو کھانا کھلاتے ہیں اورسلام کا جواب دیتے ہیں۔(صحیح الجامع للألبانیؒ:3318)ذرا غورکیجئے کہ حبیب کائناتﷺ نے ان لوگوں کو اچھا اوربہترانسان قراردیا ہے جو سلام کا جواب دیتے ہیں مگر افسوس کہ بہت سارے وہ لوگ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں،اپنے آپ کوعاشق رسول کہتے ہیں لیکن جب انہیں سلام کیاجاتا ہے تواعوذباللہ من الشیطان الرجیم پڑھتے ہیں یا پھر گالیاں دیتے ہیں یا پھر یہودیوں کو جوسلام کاجواب دینے کا طریقہ ہے اس کو اپناتے ہیں،کائنات کے رب کی قسم!فرمان مصطفیﷺ کی روشنی میں ایسے لوگ کبھی بھی اچھے نہیں ہوسکتے ہیں۔

19۔ایسے لوگ اچھے ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ کی یاد آجائے:

اچھے اوربہترلوگوں کی فہرست میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ظاہروباطن میں دیندارہوتے ہیں،جن کے اندر تقوی وللہیت اس قدر بھری ہوئی ہوتی ہے کہ ان کو دیکھتے ہی لوگوں کو اللہ کی یاد آجاتی ہے،ویسے آج کل تواکثروبیشتر لوگ ظاہراً اپنی شکل وصورت سے رحمانی نظرآتے ہیں مگرباطنا ًوہ اپنے اخلاق وکرداراورعادات واطوار سے شیطانی ہوتے ہیں اوریہی وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر لوگ دین اسلام سے بدظن ہوجاتے ہیں مگر آج بھی سماج ومعاشرے کے اندرایسے پاکبازونیک صفت لوگ پائے جاتے ہیں جنہیں دیکھتے ہی لوگ اللہ اللہ پکارنا شروع کردیتے ہیں اوریہی وہ لوگ ہیں جن کو محبوب خداﷺ نے بہترین لوگ قراردیا ہےجیسا کہ اسماء بنت یزیدؓ کہتی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایاکہ’’ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخِيَارِكُمْ ‘‘ کیا میں تمہیں تمہارے بہترین اوراچھے لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ توصحابۂ کرامؓ نے کہا کہ’’ بَلَى ‘‘ کیوں نہیں!ضروربتادیجئے توآپﷺ نے فرمایا کہ ’’ أَلَّذِينَ إِذَا رُؤُوْا ذُكِرَ اللَّهُ ‘‘یہ وہ لوگ ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ کی یاد آجائے۔(الادب المفرد:323 ،مسنداحمد:27599 قال الالبانیؒ:اسنادہ حسن)



20۔فتنوں کے دور میں تنہائی اختیار کرنےوالا اچھا انسان ہے:

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دور فتنوں کادور ہے اورایسے دور میں اپنے آپ کو تمام فتنوں سے الگ تھلگ رکھنا بے حد ضروری ہےورنہ انسان ان فتنوں کا شکارہوکر اپنی دنیا وآخرت تباہ وبرباد کرسکتاہے،سماج ومعاشرے میں موجودہ دور کا ایک بہت بڑا فتنہ برے لوگوں کا فتنہ ہے،ہرچہارجانب برے اوربھدے لوگوں کا جال بچھا ہوا ہے ،سماج ومعاشرے میں نیک لوگوں کی بنسبت برے لوگ زیادہ پائے جاتے ہیں اور ایسے وقت میں اپنے آپ کو ان برے لوگوں سے بچانااپنے دین وایمان کو محفوظ کرنا اوربچانا ہے کیونکہ یہ بری صحبت ایک ایسی چیز ہے جو ایک انسان کے دین وایمان کے ساتھ ساتھ اس کے دنیاکو بھی تباہ وبرباد کردیتی ہے یہی وجہ ہے شریعت نے اس بات کی تلقین کی ہے کہ انسان کسی کو دوست بنانے سے پہلے اچھی طرح سے دیکھ بھال لے کیونکہ ہرانسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہےیعنی کہ اچھے کا دوست اچھا اوربرے کا دوست براہوتا ہےاسی لئےبرے لوگوں سے دوستی کرنے سے اچھا ہے کہ انسان تنہائی اختیارکرلیں جیسا کہ امام بخاریؒ نے کتاب الرقاق یعنی دلوں کونرم کرنے والی باتوں کے بیان میں ایک باب باندھا ’’ أَلْعُزْلَةُ رَاحَةٌ مِنْ خُلَّاطِ السُّوءِ ‘‘ کہ بری صحبت سے تنہائی بہتر ہے اورپھر اس میں یہ حدیث ذکرکی کہ ایک بدوآپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ’’ أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ ‘‘ کون آدمی سب سے افضل اوراچھا انسان ہے؟ توآپ نے جواب دیا کہ ’’ رَجُلٌ جَاهَدَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ وَرَجُلٌ فِي شِعْبٍ مِنَ الشِّعَابِ يَعْبُدُ رَبَّهُ وَيَدَعُ النَّاسَ مِنْ شَرِّهِ ‘‘ وہ آدمی اچھا ہے جس نے اپنی جان اورمال کے ذریعہ جہاد کیا اوروہ آدمی بھی اچھا ہے جو کسی پہاڑ کی کھوہ میں ٹھہرا ہوا اپنے رب کی عبادت کرتا ہے اورلوگوں کو اپنی برائی سے محفوظ رکھتا ہے۔ (بخاری:6494،مسلم:1888،احمد:11125،ابن ماجہ:3978،ابوداؤد:2485،ترمذی:1660)

21۔ اپنے آپ کو برائیوں سے الگ تھلگ رکھنے والااچھا انسان ہے:

یہ اکیسویں صدی ایک ایسا فتنوں کا دور ہےجس کے اندر برائی کو برائی نہیں سمجھی جارہی ہےنوبت تو یہاں تک آ چکی ہے کہ لوگ برائیوں کونیکیاں اورنیکیوں کو برائیاں سمجھ کربغیرکسی شرم وحیا کے انجام دیتے نظرآتے ہیں ،سماج ومعاشرے میں قدم قدم پر برائیوں کے مظاہر موجود ہی نہیں بلکہ ایک انسان کو اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ ان برائیوں کو انجام دے تو ایسے پرفتن اورپرآشوب دور میں اپنے آپ کو ان برائیوں سے الگ تھلگ رکھناایک مومن کی پہچان وعلامت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان کی پہچان ونشانی بھی ہے جیسا کہ سیدناابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا’’ خَيْرُ النَّاسِ رَجُلٌ تَنَحَّى عَنْ شُرُورِ النَّاسِ ‘‘ کہ لوگوں میں بہترین وہ ہے جو لوگوں کی برائیوں سے اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھے۔(الصحیحۃ:2259)





22۔ وہ انسان اچھا ہے جو اپنے قریبی لوگوں اورپڑوسیوں کے لئے اچھا ہو:

سماج ومعاشرے کا ہرانسان دوسروں کی نظر میں اچھا دکھنا چاہتا ہے،ہرانسان کی یہ خواہش اوریہ تمنا ہے کہ سماج ومعاشرے میں لوگ اس کی تعریف کرے یہی وجہ ہے کہ وہ اپنوں کے ساتھ برے سلوک سے اوردوسروں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آتاہےمگر صحیح معنوں میں ایسے لوگ اچھے لوگ نہیں ہیں جو اپنوں کے ساتھ سخت وتلخ اورگرم رویے کو اپنائے اوردوسرو ں کے ساتھ نرم رویے کو اپنائے،بہتراوراچھے لوگ تووہ لوگ ہیں جو سب کے ساتھ اوربالخصوص اپنے قریبی رشتے داروں ،دوستوں ویاروں،اپنے بیوی بچوں اوراپنے پڑوسیوں کے ساتھ نرم رویے کو اپنائے جیسا کہ عبداللہ بن عمروبن عاصؓ بیان کرتے ہیں کہ حبیب کائناتﷺ نے فرمایا’’خَيْرُ الْأَصْحَابِ عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَى خَيْرُهُمْ لِصَاحِبِهِ وَخَيْرُ الْجِيرَانِ عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَى خَيْرُهُمْ لِجَارِهِ ‘‘ اللہ تعالی کے نزدیک بہترین ساتھی وہ لوگ ہیں جو اپنے ساتھیوں کے لئے بہتر ہیں اوراللہ تعالی کے نزدیک بہترین پڑوسی وہ لوگ ہیں جو اپنے پڑوسیوں کے لئے بہتر ہوں۔(صحیح الادب المفرد للألبانیؒ:84،الصحیحہ:103،صحیح الجامع للألبانیؒ:3270)

23۔ نماز میں کندھوں کو نرم رکھنے والا نمازی اچھا انسان ہے:

حبیب کائناتﷺ نے ایسے نمازیوں کو اچھا انسان قراردیا ہے جو دوران نماز اپنے اپنے کندھوں کو نرم رکھتے ہیں یعنی صفوں کی درستگی میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں،صفوں میں اکڑکرنہیں کھڑے ہوتے ہیں بلکہ اگرکسی کے لئے صف میں جگہ بنانی ہوتو فورا جگہ بنادیتے ہیں جیسا کہ عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا’’ خَيْرُكُمْ أَلْيَنُكُمْ مَنَاكِبَ فِي الصَّلَاةِ ‘‘ تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جن کے کندھے نماز میں نرم ہوں۔(الصحیحہ:2533،ابوداؤد:672،صحیح ابن خزیمہ:1566)

اب آخر میں رب العزت سے یہی دعاگو ہوں کہ الہ العالمین ہم سب کو ایک اچھا انسان بننے کی توفیق عطا کرے۔آمین ثم آمین یار ب العالمین۔

کتبہ

ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی

 

اٹیچمنٹس

Top