• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اچھا اور برا تنافس

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ترجمہ: شفقت الرحمٰن​
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹرعبد الباری بن عواض الثبيتی حفظہ اللہ نے 01- شعبان- 1435کا خطبہ جمعہ " اچھا اور برا تنافس" کے موضوع پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نےنیکیوں کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی نبوی ترغیب اور صحابہ کرام کے عملی نمونے پیش کئے، اور پھر مذموم تنافس کا ذکر کرتے ہوئے ان سے بچنے کی تلقین بھی کی۔
پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں،بہت زیادہ، برکتوں والی تعریفات اللہ کیلئے ہیں، جس نے نیکیوں اور اچھے کاموں کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ترغیب دلائی، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے، ہم اسکی نشانیاں مخلوقات کے بار آور ہونے اور ملاپ کرنے میں نظر آتی ہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اسکے بندے اور رسول ہیں، آپ نے سخاوت اور معاف کرنے کی دعوت دی،اللہ تعالی آپ پر ، آپکی آل پر، اور صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرمائے ۔
حمد و ثناء کے بعد:
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں ، فرمانِ باری تعالی ہے: يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا[70] يُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭ وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًا اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور بات صاف سیدھی کیا کرو[70] (اس طرح) اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو درست کردے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کا کہا مان لیا اس نے بڑی کامیابی حاصل کر لی۔ [الأحزاب: 70-71]
فرمان باری تعالی ہے: { وَفِي ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ} [جنت میں داخلے کیلئے]مقابلہ کرنے والوں کو مقابلہ کرنا چاہئے۔ [المطففين : 26] مسلمان اطاعت گزاری کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے، نیکی میں تاخیر نہیں کرتا؛ کیونکہ زندگی مختصر ہے، اور موت کا وقت مقرر ہے، اسی لئے عقل مند ، و دانشور رکاوٹ پیدا ہونے سے پہلے ہی نیکیاں کما لیتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ نیکی کیلئے تیز،اور سست رو برابر نہیں ہوسکتے، ایسے ہی حصولِ ثواب کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والا اور ڈھیلا شخص مساوی نہیں ہوسکتے۔
مثبت تنافس زندگی کو روشن کردیتا ہے، جسکی بنا پر مسلمان اپنے آپکو علم وعمل کے باہمی ارتقاء کے باعث بلندیوں میں دیکھتا ہے۔
ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی چاہت اہل ہمت و عزیمت کی روح میں سرائیت پذیر ہوتی ہے، ان میں انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام سب سے آگے ہیں؛ چنانچہ اللہ کے نبی موسی علیہ السلام اسوقت رشک کرتے ہوئے رونے لگے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے بڑھ جانے کے بارے میں علم ہوا؛ آپ سے کہا گیا: آپ کیوں روتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا: (میں اس لئے روتا ہوں کہ ایک نوجوان میرے بعد مبعوث ہوا لیکن اسکی امت کے جنت میں داخل ہونے والے افراد میری امت سے زیادہ ہونگے) بخاری۔
اسی لئے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا: (مجھے امید واثق ہے کہ قیامت کے دن میرے امتی سب سے زیادہ ہونگے)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے صحابہ کرام میں نیکیوں کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی روح پھونک دی تھی، اور ساتھ ہی ان گنت احادیث مبارکہ میں انکے لئے بلند اہداف مقرر کردئے جن میں سے کچھ یہ ہیں:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم صرف دو قسم کے لوگوں کیساتھ ہی مقابلہ بازی کرسکتے ہو: ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالی قرآن کی نعمت سے نوازے، پھر وہ دن رات قرآن پر عمل کرتے ہوئے اتباعِ قرآن کرے، اسے دیکھ کر ایک آدمی کہے: اللہ تعالی مجھ پر بھی ایسی نوازش کردے، جیسی اس پر کی ہے، تو میں بھی وہی کرونگا جو وہ کرتا ہے، اور ایک آدمی جسے اللہ تعالی نے دولت سے نوازا ہے، جسے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے، تو ایک آدمی اس کے بارے میں بھی ویسے ہی خیالات رکھے) طبرانی
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(جو شخص دس آیات کا قیام کرے ، وہ غافلوں میں شمار نہیں ہوتا، اور جو ایک سو آیات کا قیام کرے اسے "قانتین" میں شمار کیا جاتا ہے، اور جو ایک ہزار آیات کا قیام کرے اسے "مقنطرین" میں لکھا جاتا ہے)ابوداود
"مقنطرین" وہ لوگ ہیں جنہیں نیکیوں کا ثواب خزانوں کی شکل میں ملے گا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی پہلی صف پانے کیلئے بھی ترغیب دلائی، اور فرمایا: (اگر لوگوں کو آذان، اور پہلی صف کا ثواب حاصل کرنے کیلئے قرعہ اندازی بھی کرنی پڑھے تو کر گزریں گے، اگر انہیں اول وقت میں نماز کی ادائیگی کا ثواب پتہ چل جائے تو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے، اور اگے انہیں عشاء اور فجر کی نماز کے بارے میں علم ہوجائے تو گھٹنوں کے بل بھی آنا پڑے تو آئیں گے)بخاری ومسلم
جبکہ دو جلیل صحابی، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں سب سے افضل ترین ہیں، ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی ہمت اور عزیمت نے میدان مقابلہ میں اپنا لوہا منوایا، انہوں نے اپنے اعمال پیش کرکے اتنا بلند مرتبہ پایا کہ کوئی وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتا، چنانچہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
"ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کرنے کا حکم دیا، اتفاق سے میرے پاس اسوقت پیسہ موجود تھا، میں نے سوچا :"اگر ابو بکر سے آگے نکلنے کا کوئی موقع ہے تو وہ آج ہے" چنانچہ میں اپنا آدھا مال لیکر آگیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: (اہل وعیال کیلئے کیا چھوڑا ہے؟)میں نے کہا: اتنا ہی گھر میں موجود ہے، جبکہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنا سارا مال لے آئے، آپ نے پوچھا:(ابو بکر ! اہل وعیال کیلئے کیا چھوڑا ہے؟) تو انہوں نے کہا: "اللہ اور اسکا رسول " میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں کبھی بھی ابو بکر سے آگے نہیں بڑھ سکتا"۔ ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔
صحابہ کرام کی زندگی میں مثبت مقابلہ بازی کی فضا خوب ٹھاٹھے مارنے لگی، انہوں نے اوقات کو قیمتی جانتے ہوئے زندگی سے فائدہ اٹھایا، جسکی وجہ سے مقام و مرتبہ ، اور علم، عمل میں بلند مقام حاصل کیا، بلکہ انہیں اہل فضل و سبقت کہا جانے لگا، فرمان نبوی ہے: (میری امت میں سے جنت میں ستر ہزار افراد بغیر حساب وکتاب کے داخل ہونگے) ایک آدمی نے فورا کہا: اللہ کے رسول! اللہ سے دعا کردیں کہ مجھے ان میں شامل فرما لے، آپ نے فرمایا:(یا اللہ! اسے اُن میں شامل فرما لے) پھر ایک اور شخص نے یہی بات کہی، تو آپ نے فرمایا: (عکاشہ تم پر بازی لے گیا)مسلم
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن صحابہ کرام میں اسی مقابلہ بازی کو برانگیخت کرنے کیلئے فرمایا:(کون اس تلوار کاحق ادا کریگا؟)چنانچہ ابو دجانہ سماک بن خرشہ رضی اللہ عنہ کھڑےہوئےاور کہا: میں اسکا حق ادا کرونگا، اسکا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:(اسکے ساتھ کسی مسلمان کو قتل نہیں کرنا، اور کسی کافر کو چھوڑنا نہیں ہے)تو آپ نے یہ تلوار انکے ہاتھ میں تھما دی۔حاکم نے مستدرک میں اسے روایت کیا ہے، ابو دجانہ بہت ہی نڈر صحابی تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کی تربیت ہی نیکی، بھلائی، اور اطاعت گزاری کیلئے مقابلہ بازی پر کی، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غریب صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: "اہل مال و ثروت بلند درجات اور دائمی نعمتوں کو لے اُڑے ہیں، وہ نمازیں بھی پڑھتے ہیں، جیسے ہم پڑھتے ہیں، وہ روزے بھی رکھتے ہیں، جیسے ہم رکھتے ہیں، لیکن انکے پاس ہم سے زیادہ مال ہے، تو وہ حج ، عمرہ، جہاد، اور صدقہ کر لیتے ہیں" آپ نے فرمایا: (کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتلاؤں کہ اگر تم اسے اپنا لو تو تم آگے نکلنے والوں کے برابر ہوجاؤ گے، اور تمہارے برابر کوئی نہیں ہوسکے گا، تم ہی اپنے ارد گرد لوگوں میں بہترین قرار پاؤ گے، الّا کہ کوئی تمہارے جیسا عمل کرنے لگے، ہر نماز کے بعد 33، 33 بار سبحان اللہ، الحمد للہ، اور اللہ اکبر کہو)بخاری ومسلم
مقابلہ بازی کا اثر آخرت میں ظاہر ہونے کے بعد جنت تک ساتھ رہے گا؛ چنانچہ اہل قرآن جتنی قرآن کی تلاوت کرینگے اتنے ہی درجات بلند ہوجائیں گے: (صاحب قرآن کو کہا جائے گا: پڑھتا جا، چڑھتا جا، ایسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جیسے تم دنیا میں پڑھا کرتے تھے، جہاں تم آخری آیت ختم کروگے وہیں تمہارا مقام ہوگا)ترمذی نے حسن صحیح سند کیساتھ روایت کیا ہے۔
ایسے مثبت مقابلوں کی فضا میں برتری آشکار ہوتی ہے، خواب حقیقت بنتے ہیں، خوشحالی اور کامیابیوں میں اضافہ ہوتا ہے، مسلمان کو کڑوے گھونٹ بھی میٹھے لگتے ہیں، ناممکن بھی ممکن بن جاتا ہے، سب رکاوٹوں کو پچھاڑ دیا جاتا ہے، سَچی اور سُچی نیت کی موجودگی میں منافست انسان کو بلند مقام پر لے جاتی ہے، بشرطیکہ اعمال ضائع کرنے والے اسباب سے دلوں کو پاک رکھا جائے۔
مسابقتی روح ناپید ہونے کی صورت میں پوری امت تباہی وبربادی میں تبدیل ہوجاتی ہے، سب پر غیر ذمہ داری، اور کاہلی کا راج ہوتا ہے، بےروزگاری میں اضافہ ہوتاہے، اور ایک تھکی ہاری نسل پیدا ہوتی ہے۔
جبکہ اسکے برعکس اسلام نے مذموم مسابقت سے منع بھی فرمایا ہے جسکی بنیاد دنیا داری، اور خواہش پرستی پر ہوتی ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مجھے تمہارے بارے میں غربت کا اندیشہ نہیں ! مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم پر دنیا سابقہ لوگوں کی طرح کھول دی جائے، پھر تم بھی انہی کی روش اختیار کرتے ہوئے دنیا پر ٹوٹ پڑو، اور یہ تمہیں انہی لوگوں کی طرح ہلاک کرکے رکھ دے)بخاری ومسلم
دنیا داری کی بنیاد پر مذموم تنافس اس وقت پیدا ہوتا ہے جب دنیا اللہ اور قیامت کے دن سے غافل کردے، برائی، اور گناہوں پر ابھارے، واجبات کی ادائیگی سے روکے، حرام کے ارتکاب کی دعوت دے، دوسروں کے حقوق سلب کرنے کی ترغیب دے، یہی چیزیں بھائی ، بھائی اور رشتہ داروں میں لڑائی جھگڑے، قطع رحمی، بغض، اور کینے کا سبب بنتی ہیں۔
حسن بصری رحمہ اللہ کہا کرتے تھے: (جو دین کے معاملے میں تمہارا مقابلہ کرے، تو تم اس سے آگے بڑھو، اور جو دنیا کے بارے میں مقابلہ کرے، اسے اسکے حال پر چھوڑ دو)
حسد مہلک ترین تنافس کا سبب بنتا ہے، اسی کی وجہ سے اسلامی بھائی چارہ تار تار ، اور امن و امان دگر گوں ہوکر رہ جاتا ہے، کیونکہ حاسد اپنے بھائی سے نعمت زائل ہونے کی تمنا رکھتا ہے، اور بسا اوقات اس کیلئے اپنے زورِ بازو کو بھی آزماتا ہے۔
مذموم تنافس میں: 2 دوستوں یا رشتہ داروں کے مابین ناموری یا دینی و دنیاوی کرسی کے حصول کیلئے کوششیں بھی شامل ہے، کہ انسان کسی کی برائیاں دشمنی و بغض کی بنا پر ذکر کرکے مذمت تو بیان کردے ، لیکن اسکی خوبیوں سے مکمل پہلو تہی کر لے، فرمان باری تعالی ہے: {وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ} لوگوں کو انکے حقوق پورے دو۔[الشعراء : 183] اور بسا اوقات مذموم تنافس کی وجہ سے سنگ دلی، تحقیر ، سرکشی، زیادتی، اور زبان درازی تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔
مذموم تنافس تجارتی امور میں بھی آسکتا ہے، اسی لئے اسلام نے اقتصادی امور کو شرعی احکام کے تابع بنایا، جس کیلئے اخلاقی اقدار کی بقا کو بنیاد بنایا، چنانچہ ہر قسم کی ذخیرہ اندوزی حرام قرار دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ذخیرہ اندوزی گناہگار کا کام ہے)مسلم
اسی طرح حیلے بہانے، ملاوٹ، ابہام، دھوکہ، اور فراڈ حرام قرار دیا، اور فرمایا: (جس شخص نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں)مسلم
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذہنی طور پر کمزور افراد کو اضافی اختیارات دئے، جیسے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ : ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: لوگ مجھے تجارت میں دھوکہ دے جاتے ہیں، تو آپ نے فرمایا: (جب بھی کوئی بیع کرو تو کہہ دیا کرو: "کوئی دھوکہ نہیں چلے گا")بخاری ومسلم
فرمانِ باری تعالی ہے: {وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ}اپنے رب کی بخشش اور ایسی جنت کے حصول کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لو جسکی چوڑائی آسمان وزمین کے برابر ہے، اسے متقین کیلئے تیار کیا گیا ہے۔[آل عمران : 133]
اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا، میں حال و مستقبل میں اسی کی تعریف اور شکر گزاری بجا لاتا ہوں، ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ اکیلا اور یکتا ہے ، وہی حقیقی پروردگار ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، آپ سراپا ہدایت، اور مؤمنین کیلئے نہایت مشفق اور نرم دل ہیں، اللہ تعالی آپ پر آپکی آل ، تمام صحابہ کرام پر رحمت نازل فرمائے۔
حمدو ثناء کے بعد:
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں، فرمانِ باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت مسلمان ہونے کی حالت میں ہی آئے۔ [آل عمران: 102]
مذموم تنافس میں سیٹلائٹ چینلز کی طرف سے لوگوں کو دھوکہ دہی کیساتھ گناہوں کی ترغیب کی دوڑ بھی شامل ہے، کہ شیطان انکے لئے گناہوں کو اچھا بنا کر پیش کرتا ہے؛ اور وہ واضح خسارے پر مقابلہ کرنے دوڑ پڑتے ہیں، جن سے عقل، فطرت، اور اخلاق سب برباد ہو جاتے ہیں۔
مذموم تنافس میں فضول خرچی، اور تقریبات پر بیہودگی، اور نعمتوں کی قدر نہ کرنا بھی شامل ہے، جو کہ اللہ کے ڈر کو پس پشت ڈال کر کی جاتی ہیں، او راس بات کا خیال نہیں کیا جاتا کہ پوری دنیا اس وقت بھوک، پیاس، اور تنگی کے حالات سے گزر رہی ہے۔
مذموم تنافس میں کھیلوں کے میدان میں انجام دئے جانے والے کام بھی شامل ہیں، جسکی وجہ سے لوگ دست وگریبان، نفرت، اور بغض سے دوچار ہیں، اور ایک دوسرے کے الٹے القاب رکھتے ہیں، ان تمام امور کی وجہ سے کھیلوں کے اصل اہداف ختم ہوکر رہ گئے ہیں۔
فرمانِ باری تعالی ہے: {سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ} اپنے رب کی مغفرت، اور جنت کی طرف دوڑتنے چلے آؤ، جکی چوڑائی آسمان اور زمین کے برابر ہے، جنہیں اللہ، اور اسکے رسولوں پر ایمان لانے والوں کیلئے تیار کیا گیا ہے، یہ اللہ کا فضل ہے کہ جسے چاہے دیتا ہے، اور اللہ عظمت اور فضیلت والا ہے۔[الحديد : 21]
اللہ کے بندو!
رسولِ ہُدیٰ پر درود وسلام پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتابِ عزیز میں اسی کا تمہیں حکم دیا ہے: }إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا{ اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56]
یا اللہ! محمد پر آپکی اولاد اور ازواج مطہرات پر رحمت و سلامتی بھیج، جیسے کہ تو نے ابراہیم کی آل پر رحمتیں بھیجیں، اور محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- پر آپکی اولاد اور ازواج مطہرات پر برکتیں نازل فرما، جیسے توں نے ابراہیم کی آل پر برکتیں نازل فرمائیں، بیشک تو لائق تعریف اور بزرگی والا ہے۔
یا اللہ! اپنے نبی کے چاروں خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، علی ، اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہوجا، یا اللہ! اپنے رحم و کرم اور احسان کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، اور کافروں کیساتھ کفر کو بھی ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! اپنے اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دے، یا اللہ! یا رب العالمین! اس ملک کو اور اپنے سارے اسلامی ممالک کو امن کا گہوارہ بنا دے۔
یا اللہ! ہمارے معاملات کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دینا جو متقی، تجھ سے ڈرنے والا، اور تیری رضا کا متوالا ہو، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! جو دین کی مدد کرے تو اسکی مدد فرما، اور جو اسلام و مسلمانوں کو ذلیل کرنے کی کوشش کرے، ان سب کو رسوا فرما۔
یا اللہ! اپنے دین، قرآن، سنت نبوی، اور اپنے مؤمن بندوں کو غالب فرما ، یا اللہ! اپنے دین، قرآن، سنت نبوی، اور اپنے مؤمن بندوں کو غالب فرما۔
یا اللہ! تیرے کلمے کی بلندی کیلئے مجاہدین کی ہر جگہ مدد فرما، یا اللہ! انکی صفوں میں اتحاد پیدا فرما، اور انکے دلوں ثابت قدم بنا، انکے نشانوں کو درست فرما، انکے دلوں کو آپس میں ملا دے، اور حق بات پر سب کو متحد فرما، اور انہیں اپنے دوشمنوں پر غالب فرما۔
یا اللہ! ہم تجھ سے جنت مانگتے ہیں، اور ہمیں ہر ایسے قول و فعل کی توفیق دے جو ہمیں جنت کے قریب کر دے، یا اللہ ہم جہنم کی آگ سے تیری پناہ چاہتے ہیں، اور ہر ایسے قول و فعل سے بھی جو ہمیں جہنم کے قریب کرے۔
یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے، یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، اور ہمارے لئے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے۔
یا اللہ ! ہم تجھ سے ہدایت ، تقوی، پاکدامنی، اور غنی کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ کر، یا اللہ! ہمیں غلبہ عطا فرما، ہم پر کسی کوغلبہ نہ دے، یا اللہ! ہمارے حق میں تدبیر فرما، ہمارے خلاف کوئی تدبیر نہ ہو، یا اللہ! ہمیں ہدایت دے اور ہمارے لئے ہدایت آسان بھی بنا دے، یا اللہ! ظالموں کے خلاف ہماری مدد فرما۔
یا اللہ ہمیں تیرا ذکر کرنے والا بنا، تیرا شکر گزار بنا، تیرے لئے مٹنے والا بنا، تیری ہی جانب لوٹنے والا اور رجوع کرنے والا بنا۔
یا اللہ! ہماری توبہ قبول فرما، ہمارے گناہوں کو دھو ڈال ، ہماری حجت ثابت کر دے، ہماری زبان کی حفاظت فرما، اور ہمارے سینے کی تمام بیماریاں ختم کر دے۔
یا اللہ! ہمارے دکھ درد، اور تکالیف کو دھو ڈال، فوت شدگان پر رحم فرما، اور تمام مریضوں کو شفا یاب فرما، بیشک تو ہر چیز پرقادر ہے۔
یا اللہ! ہم پر اپنی برکتوں، رحمتوں، فضل و رزق کھول دے، یا اللہ! ہم پر اپنی برکتوں، رحمتوں، فضل و رزق کھول دے ۔
یا اللہ!ہمارے حکمران کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، اور اسکو اپنی راہنمائی کے مطابق توفیق دے، اس کے تمام کام اپنی رضا کیلئے بنا لے، یا اللہ ! انکے نائب کو بھی اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے ۔
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے [الأعراف: 23] رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ اے ہمارے پروردگا ر! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں, ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے, اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے [الحشر: 10] رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ [البقرة: 201]
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو [النحل: 90]
تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اسکی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنائت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی چیز ہے، اور اللہ تعالی کو تمہارے تمام اعمال کا بخوبی علم ہے۔
لنک
 
Top