• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اکثریت حق کی دلیل نہیں !!!

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
[QUOTE
اکثریت کی رائے اور اجماع میں فرق ہے۔ اجماع حجت ہے لیکن اکثریت کی رائے حجت نہیں ہے۔ اور اجماع ایک زمانے کے جمیع مجتہدین کے اتفاق کو کہتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اکثریت کی رائے غلط ہی ہو گی۔ اکثریت کی رائے درست، راجح ہو سکتی ہے بلکہ انفرادی اجتہاد کے مقابلے میں اجتماعی اجتہاد سے بننے والی رائے میں صحت کا پہلو غالب ہوتا ہے لیکن اسے یقینی نہیں کہہ سکتے۔ یقینی صرف اجماع کی صورت ہو سکتا ہے۔ جزاکم اللہ[/QUOTE]


حافظ صاحب اس پر مفصل لکھنے کی ضرورت ہے؛ابھی چند دن پہلے ایک دیوبندی دوست سے بحث ہو رہی تھی تو انھوں نے جمہور کی پیروی پر بہت زور دیا اور اسے اجماع کے مرادف قرار دیا؛میرے دلیل طلب کرنے پر امام غزالی کی المستصفیٰ کانام لے دیا کہ ان کے نزدیک اجماع اور جمہور ایک ہی چیز کا نام ہے؛میرے ذہن میں غزالی کا حوالہ مستحضر نہ تھا سو کہا کہ اسے دیکھوں گا؛بعد میں جب اصل کتاب کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ امام صاحب کا موقف بالکل الٹ ہے اور ان کے نزدیک ایک یا دو علما کے اختلاف سے بھی اجماع نہیں رہتا؛علامہ آمدی اور ابو اسحاق شیرازی کا بھی یہی موقف ہے؛لیکن ان کے طرز عمل پر بہت افسوس ہوا کہ محض دوسرے کو خاموش کرانے کے لیے غلط حوالہ دے دیا؛خیر یہ رویہ ہمارے ہاں عام ہو گیا ہے اور اس کا سبب غرور علم اور درحقیقت احساس کہتری ہے کہ اگر اب حوالہ نہ دیا تو سبکی ہو جائے گی حالاں کہ غلط بیانی اس سے بھی زیادہ سبکی کا باعث ہے۔
واضح رہے کہ مسلم الثبوت میں بھی چند علما کے اختلاف کو ناقض اجماع قرار دیا گیا ہے گو مصنف کے نزدیک یہ حجت ہے؛بہ ہر حال اس مسئلے کو بہت زیادہ نمایاں کرنے کی ضرورت ہے کہ آج ارباب تقلید کا بہت بڑا ہتھیار قول جمہور ہی ہے اور اس سے بھی آگے بڑھ کر اجماع کے غلط دعوے حالاں کہ ان مسائل پر سرے سے اجماع ہوتا نہیں،جیسا کہ بیس تراویح اور طلاق ثلاثہ بہ یک مجلس کے تین ہونے پر اجماع کا دعویٰ جب کہ ان پر سلف ہی کے زمانے سے اختلاف چلا آرہا ہے۔
 
Last edited:

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
اس ضمن میں یہ سوال بھی اہم ہے کہ اکثریت سے کیا مراد ہے؟؟
کیا علما کو گنا جائے گا خواہ وہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں یا مسالک کو شمار کیا جائے گا؟؟
اگر علما کو شمار کیا جائے تو پھر تو یہ ممکن ہے کہ کسی ایک خاص مسلک کے علما زیادہ ہو جائیں مثلاً حنفیوں کی تعداد اگر زیادہ ہے تو حنفی علما بھی زیادہ ہوں گے جب کہ حنفی علما کا نقطہ نظر اصلاً مبنی ہو گا امام ابوحنیفہ یا صاحبین کے قول پر اور عین ممکن ہے کہ دیگر مسالک کے ائمہ مثلاً امام مالک ،امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا موقف دوسرا ہو تو اب جمہور کن کو سمجھا جائے گا؟؟؟
اور اگر مسالک کے بانیوں کو شمار کیا جائے کہ اس مسئلے میں زیادہ علما کس طرف ہیں تو تقلید شخصی یا تقلید مذہب معین نہ رہی حالاں کہ جمہور ؟ کے نزدیک یہ بھی ضروری ہے!!!
اس طرح تو ایک نیا مسلک وجود میں آ جائے گا :مسلک جمہور
مزید برآں یہ مردم شماری کرے گا کون؟کیا عامی کے لیے یہ ممکن ہے؟؟
اگر وہ کسی عالم سے پوچھے گا اور وہ ایک راے کو جمہور کی راے کہے گا تو عین ممکن ہے کہ دوسرا عالم دوسری راے کو جمہور کا مسلک کہے بل کہ ایسا امر واقعہ میں موجود ہے کہ دو مختلف آرا میں سے ہر ایک کو جمہور کی راے قرار دے دیا جاتا ہے حتیٰ کہ دو متضاد آرا میں سے ہر ایک پر اجماع کا دعویٰ کر دیا جاتا ہے،تو اب عامی کیا کرے؟؟
یہ ایک ڈھکوسلا ہی ہے؛اصل راہ یہی ہے کہ جس عالم پر اعتماد ہو اس سے کتاب و سنت کا حکم دریافت کرے اور بہ قدر استطاعت اسے سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہو۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
(خود کلامی)
”اجماع“ ایک اسلامی اصطلاح ہے، جس کی تفاصیل سے عام لوگ تو کجا عام مسلمان بھی واقف نہیں ہیں۔ جبکہ ”اکثریت“ ایک عام فہم لفظ ہے۔ جسے جاہل اور پڑھا لکھا،مسلم نان مسلم سب یکساں طور پر ”جانتے“ ہیں۔ ”متعلقہ ماہرین کی اکثریت“ سے بھی کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا۔ سب ہی یہ جانتے ہیں کہ اگر کسی مرض کے علاج معالجہ میں اگر کوئی شدید اختلاف رونما ہو جائے تو میڈیکل کی ٹیکسٹ بک کی حدود و قیود میں جملہ کوالیفائیڈ اور مستند ”طبی ماہرین کی اکثریت کی رائے“ کو ”سند“ مانا جائے گا۔ ”تمام پڑھے لکھے یا عام لوگوں کی اکثریت“ کو نہیں۔

کیا ہم اسی تمثیل کو اس طرح نہیں بیان کرسکتے کہ: اسلامی معاملات میں اگر شدید اختلافات ہوں (جو کہ فی الواقع موجود ہیں) تو ہمیں قرآن و صحیح احادیث کے اندر رہتے ہوئے، دور رسالت (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ادوار خلفائے راشدین (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) کی مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے ”تب سے اب تک“ کے جملہ فرقوں کے علمائے دین ( ”عالم دین“ کی شناخت ایک عام آدمی کے لئے نسبتاً آسان ہے، مجتہد کے مقابلہ میں) کی اکثریتی رائے کو ”درست“ مانا جائے۔ کیا ”اس راستے“ پر چل کر ہر فرد ”دین حق تک“ نہیں پہنچ سکتا (سوچنے والا آئی کون)
آپ یہ فرمائیں کہ اکثریتی راے کو جاننے کا پیمانہ کیا ہے؟کیا ہر مسئلے کے بارے میں ایک عام آدمی یہ معلوم کرے کہ اکثریتی راے کیا ہے؟؟؟
اگر کسی کے پاس اتنا وقت موجود ہے تو وہ یہ کیوں نہیں کرتا کہ عہد رسالت مآب ﷺ اور دور صحابہ ؓ میں فتویٰ اور دینی رہ نمائی کے حصول کے طریق کار ہی کو سمجھ لے اور یہ اکثریتی راے معلوم کرنے سے زیادہ آسان ہے۔
آپ کی آسانی کے لیے میں یہ عرض کیے دیتا ہوں کہ خیرالقرون(تقریباً پہلی تین صدیاں) میں کسی بھی خاص شخصیت یا فقہی مسلک کی پیروی کو ضرور قرار نہیں دیا جاتا تھا بل کہ جو بھی عالم میسر آتا اس سے شرعی حکم دریافت کر لیا جاتا اور بہ قدر اہلیت دلیل کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی؛اب ظاہر ہے جو لوگ کسی خاص مسلک کی پیروی کو ضروری قرار دیتے ہیں وہ دین میں ایسی بات کہتے ہیں جس سے خیرالقرون کے لوگ ناآشنا تھے لہٰذا نہ تو اسے دین قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ان پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کیا جا سکتا ہے بل کہ وہی لوگ پیروی کے لائق ہیں جو اصل تعلیم پر کاربند ہیں اور انھیں پہچاننا کچھ ایسا مشکل نہیں خصوصاً آپ ایسے فہیم اشخاص کے لیے۔
 
Top