• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اکل حلال۔۔ تفسیر السراج۔ پارہ:2

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا۝۰ؗۖ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۝۱۶۸
لوگو!جوکچھ زمین میں حلال اور ستھرا ہے، اسے کھاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو، کیوں کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔
اکل حلال
۱؎ عرب میں ایسے قبائل بھی تھے ثقیف وخزاعہ کی طرح جو حلال چیزوں کو حرام قرار دے لیتے تھے اور ایسے بھی تھے جو حرام اور مکروہ چیزیں استعمال میں لاتے تھے۔ قرآن حکیم نے ان آیات میں اکل حلال کی طرف توجہ دلائی ہے ۔حلت وحرمت کا مسئلہ اس لیے قابل لحاظ ہے کہ خوراک کا مسئلہ براہِ راست ہمارے اخلاق سے تعلق رکھتا ہے ۔ اباحت مطلقہ جہاں صحت کے لیے مضر ہے،وہاں اخلاق کے لیے بھی مفید نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خاص خاص قسم کی غذائیں خاص خاص نوع کے اخلاق وعادات پیدا کرنے میں ممدو معاون ہوتی ہیں، اس لیے وہ مذہب جو اصلاح اخلاق کا مدعی ہے ، ضرور ہے کہ خوراک کے مسئلے سے شدید تعرض کرے۔ ماکولات ومشروبات میں آزادی آزادی نہیں، بدپرہیزی ہے۔ حرمت کے سلسلے میں چند چیزیں اسلام نے ملحوظ رکھی ہیں:

(ا) فطرت عام کا خیال یعنی وہ چیزیں جنھیں عام فطرت انسانی بطور ماکول ومشروب استعمال نہیں کرتی اور ذوق سلیم گوارا نہیں کرتا۔

(ب) وہ چیزیں جو سخت مضر ہیں وہ بھی حرام ہیں(ج) وہ اشیاء جو مضر اخلاق وعادات پیدا کریں، ان کا استعمال بھی ممنوع قرار دیا

(د) وہ جن کے استعمال سے شرک پھیلنے کا اندیشہ ہو۔ان کے علاوہ ہرچیز جو پاکیزہ ہو۔ ذوق سلیم پراس کا کھانا گراں نہ ہو، حلال ہے۔ طیب کے معنی یہ ہیں کہ اسے جائز وسائل سے حاصل کیا گیا ہو۔ یعنی ایک چیز اگر حلال ہے لیکن اسے چوری سے حاصل کیا گیا ہو تو اس کا کھانا درست نہیں۔

اسلام چونکہ دنیا کا پاکیزہ ترین مذہب ہے، اس لیے وہ زندگی کے ہرشعبے میں پاکیزگی چاہتا ہے ۔نیز ان آیات میں بتایا ہے کہ خواہ مخواہ لذائذ کو اپنے نفس پر حرام قرار دے لینا درست نہیں۔ ہرچیز جو اللہ نے پیدا کی ہے ، اگر وہ حلال وطیب ہے تو ا س کے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔پرہیزگاری یاتورع اس پر موقوف نہیں کہ خدا کی نعمتوں کو نہ استعمال کیا جائے بلکہ اس میںف نہیں کہ خدا کی نعمتوں کو نہ استعمال کیا جائے بلکہ اس میں ہے کہ باندازئہ نعمت اللہ کا شکریہ ادا کیاجائے اور شیطان کی اطاعت سے گریز کیا جائے۔ اس کی تمام راہوں سے احتراز کیا جائے ۔ وہ جو لذائذ سے محروم ہے ، وہ بھی گناہ گار ہوسکتا ہے اور وہ جس کو سب نعمتیں حاصل ہیں، وہ بھی اللہ کی نافرمانی کرسکتا ہے اس لیے اصل چیز ترک لذت نہیں بلکہ اللہ کا ڈر ہے۔
حل لغات
{خُطوٰت}جمع خطوۃ۔ دوقدموں کے درمیان فاصلہ ۔نقش پا۔ قدم بہ قدم
 
Top