ابن قدامہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2014
- پیغامات
- 1,772
- ری ایکشن اسکور
- 428
- پوائنٹ
- 198
اگر کوئی نماز میں ہنس پڑے تو نماز ہی ٹوٹے گی، وضو نہیں ٹوٹے گا، کیونکہ:
دلیل نمبر۱: حافظ ابن المنذر (م: ۳۱۸ھ) لکھتے ہیں:
أجمع أھل العلم علی أن الضحک فی غیر الصلاۃ لا ینقض الطھارۃ ولا یوجب وضوءا أجمعوا علی أن الضحک فی الصلاۃ ینقض الصلاۃ.
“اس بات پر اہل علم کا اجماع و اتفاق ہے کہ نماز کے علاوہ ہنسنا وضو کو نہیں توڑتا، نہ ہی وضو کو واجب کرتا ہے ، اس بات پر بھی اجماع ہے کہ نماز میں ہنسنا نماز کو توڑ دیتا ہے ۔” (الاوسط لابن المنذر: ۲۲۶/۱)
دلیل نمبر۲: عن عطاء عن جابر قال؛ کان لا یری علی الذی یضحک فی الصلاۃ وضوءا.
“عطاء بن ابی رباح بیان کرتے ہیں کہ (صحابی رسول) سیدنا جابر (بن عبداللہ الانصاری) رضی اللہ عنہ نماز میں ہنسنے والے پر وضو خیال نہیں کرتے تھے ۔” (سنن الدارقطنی:۱۷۳/۱، ح: ۶۵۰، و سندہ حسن)
دلیل نمبر۳:
“ہشام کہتے ہیں کہ میرے بھائی نماز میں ہنس پڑے ، ان کو عروہ نے نماز دہرانے کا کہا ،وضو کرنے کا نہیں کہا ۔ “
(مصنف ابن ابی شیبہ: ۳۸۷/۱، وسندہ صحیح)
دلیل نمبر۴:
عن عطاء فی الرجل یضحک فی الصلاۃ، قال؛ ان تبسم فلا ینصرف ، وان قھقہ استقبل الصلاۃ، ولیس علیہ وضوء.
“امام عطاء بن ابی رباح نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا، جو نماز میں ہنس پڑے ، اگر اس نے تبسم ظاہر کیا ، تو نماز نہیں توڑے گا ، لیکن اگر قہقہہ لگا کر ہنسا تو نماز دہرائے گا ، البتہ اس پر وضو نہیں ہے۔” (مصنف ابن ابی شیبہ:۳۸۷/۱، وسندہ صحیح)
دلیل نمبر۵:
عبدالرحمٰن بن قاسم کہتے ہیں: ضحکت وأنا أصلی مع أبی، فأمرنی أن أعید الصلاۃ.”میں اپنے والد صاحب کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ ہنس پڑا، انہوں نے مجھے نماز دہرانے کا حکم دیا ۔” (مصنف ابن ابی شیبہ: ۳۸۷/۱، وسندہ صحیح)
دلیل نمبر۶:
محمد بن سیرین تابعی کہتے ہیں:کانوا یأمر وننا و نحن صبیان، اذا ضحکنا فی الصلاۃ أن نعید الصلاۃ. “بچپن میں جب ہم نماز میں ہنس پڑتے تو (علماء) ہمیں نماز دہرانے کا حکم دیتے تھے۔” (مصنف ابن ابی شیبہ:۳۸۸/۱ وسندہ صحیح)
امام احمد بن حنبل (مسائل احمد لابن ھانی:۷/۱) ، امام شافعی(الام للشافعی:۳۱/۱) ، امام اسحاق بن راہویہ (مسائل احمد و اسحاق:۲۰/۱) کا بھی یہی فتویٰ ہے ۔
امام ابوبکر ابن ابی شیبہ فرماتے ہیں:یعید الصلاۃ و لا یعید الوضوء.
“نمازمیں ہنسنے والا نماز تو دہرائے گا، لیکن وضو نہیں دہرائے گا۔ ” (مصنف ابن ابی شیبہ:۳۸۸/۱)
تقلید پرست جمہورِ امت اور سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی مخالفت میں کہتے ہیں کہ اگر کوئی نماز میں ہنس پڑے تو اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے ، وہ اس کو وضو لوٹانے کا حکم دیتے ہیں ، حالانکہ ان کے پاس اس بارے میں کوئی صحیح دلیل نہیں ہے ۔
دلیل نمبر۱: حافظ ابن المنذر (م: ۳۱۸ھ) لکھتے ہیں:
أجمع أھل العلم علی أن الضحک فی غیر الصلاۃ لا ینقض الطھارۃ ولا یوجب وضوءا أجمعوا علی أن الضحک فی الصلاۃ ینقض الصلاۃ.
“اس بات پر اہل علم کا اجماع و اتفاق ہے کہ نماز کے علاوہ ہنسنا وضو کو نہیں توڑتا، نہ ہی وضو کو واجب کرتا ہے ، اس بات پر بھی اجماع ہے کہ نماز میں ہنسنا نماز کو توڑ دیتا ہے ۔” (الاوسط لابن المنذر: ۲۲۶/۱)
دلیل نمبر۲: عن عطاء عن جابر قال؛ کان لا یری علی الذی یضحک فی الصلاۃ وضوءا.
“عطاء بن ابی رباح بیان کرتے ہیں کہ (صحابی رسول) سیدنا جابر (بن عبداللہ الانصاری) رضی اللہ عنہ نماز میں ہنسنے والے پر وضو خیال نہیں کرتے تھے ۔” (سنن الدارقطنی:۱۷۳/۱، ح: ۶۵۰، و سندہ حسن)
دلیل نمبر۳:
“ہشام کہتے ہیں کہ میرے بھائی نماز میں ہنس پڑے ، ان کو عروہ نے نماز دہرانے کا کہا ،وضو کرنے کا نہیں کہا ۔ “
(مصنف ابن ابی شیبہ: ۳۸۷/۱، وسندہ صحیح)
دلیل نمبر۴:
عن عطاء فی الرجل یضحک فی الصلاۃ، قال؛ ان تبسم فلا ینصرف ، وان قھقہ استقبل الصلاۃ، ولیس علیہ وضوء.
“امام عطاء بن ابی رباح نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا، جو نماز میں ہنس پڑے ، اگر اس نے تبسم ظاہر کیا ، تو نماز نہیں توڑے گا ، لیکن اگر قہقہہ لگا کر ہنسا تو نماز دہرائے گا ، البتہ اس پر وضو نہیں ہے۔” (مصنف ابن ابی شیبہ:۳۸۷/۱، وسندہ صحیح)
دلیل نمبر۵:
عبدالرحمٰن بن قاسم کہتے ہیں: ضحکت وأنا أصلی مع أبی، فأمرنی أن أعید الصلاۃ.”میں اپنے والد صاحب کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ ہنس پڑا، انہوں نے مجھے نماز دہرانے کا حکم دیا ۔” (مصنف ابن ابی شیبہ: ۳۸۷/۱، وسندہ صحیح)
دلیل نمبر۶:
محمد بن سیرین تابعی کہتے ہیں:کانوا یأمر وننا و نحن صبیان، اذا ضحکنا فی الصلاۃ أن نعید الصلاۃ. “بچپن میں جب ہم نماز میں ہنس پڑتے تو (علماء) ہمیں نماز دہرانے کا حکم دیتے تھے۔” (مصنف ابن ابی شیبہ:۳۸۸/۱ وسندہ صحیح)
امام احمد بن حنبل (مسائل احمد لابن ھانی:۷/۱) ، امام شافعی(الام للشافعی:۳۱/۱) ، امام اسحاق بن راہویہ (مسائل احمد و اسحاق:۲۰/۱) کا بھی یہی فتویٰ ہے ۔
امام ابوبکر ابن ابی شیبہ فرماتے ہیں:یعید الصلاۃ و لا یعید الوضوء.
“نمازمیں ہنسنے والا نماز تو دہرائے گا، لیکن وضو نہیں دہرائے گا۔ ” (مصنف ابن ابی شیبہ:۳۸۸/۱)
تقلید پرست جمہورِ امت اور سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی مخالفت میں کہتے ہیں کہ اگر کوئی نماز میں ہنس پڑے تو اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے ، وہ اس کو وضو لوٹانے کا حکم دیتے ہیں ، حالانکہ ان کے پاس اس بارے میں کوئی صحیح دلیل نہیں ہے ۔